ایشیا کپ: تاریخ کے جھروکوں سے
اگر کہا جائے کہ کرکٹ پر انگلینڈ اور آسٹریلیا کی سرداری کو چیلنج کرنے میں عبدالرحمٰن بخاطر کا ہاتھ ہے تو ایسا کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا۔
وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے پاکستان سری لنکا اور بھارت کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں وہ ایک کثیرالملکی ٹورنامنٹ کھیل سکیں۔ اس سے پہلے صرف 2 کثیرالملکی ٹورنامنٹ منعقد ہوتے تھے۔ پہلا ٹورنامنٹ کرکٹ ورلڈکپ جو تینوں بار انگلینڈ میں منعقد ہوچکا تھا جبکہ دوسرا ٹورنامنٹ بینسن اینڈ ہیجز کپ تھا جو آسٹریلیا میں منعقد ہوتا تھا۔ ایشیا کپ اس نوعیت کا پہلا نان انگلش آسٹریلین ٹورنامنٹ تھا۔
پہلا ایڈیشن، اپریل 1984ء
مقام: متحدہ عرب امارات
شارجہ جیسے صحرا میں تینوں ٹیمیں اپریل کے مہینے میں آمنے سامنے آئیں۔ پاکستان کی ٹیم میں کپتان ظہیر عباس، جاوید میانداد اور مدثر نذر جیسے بڑے بلّے باز شامل تھے جبکہ باؤلنگ میں سرفراز نواز اور عبدالقادر جیسے شاندار نام موجود تھے۔ پہلا میچ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان ہوا جو شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا سب سے پہلا انٹرنیشنل میچ بھی تھا۔
پاکستان کے لیے نتیجہ اچھا نہیں تھا کیونکہ سری لنکا جیسی چھوٹی ٹیم سے ہار اس کے حصے میں آئی۔ سری لنکن ٹیم میں رانا ٹنگا اور اروندا ڈی سلوا ابھی اپنی جگہ مستحکم کر رہے تھے۔ ڈی سلوا کا پاکستان کے خلاف یہ پہلا میچ بھی تھا۔ تاہم کپتان دلیپ مینڈس اور ڈیاس جیسے تجربہ کار بلّے باز موجود تھے۔
بھارت اس وقت ورلڈ چمپیئین تھا اور اپنے مقام سے بخوبی انصاف بھارت نے دوسرے میچ میں سری لنکا کو ہرا کر کیا۔ سری لنکا 100 کا ہندسہ بھی عبور نا کرسکا۔ بھارت کی ٹیم میں دلیپ وینگسارکر اور سنیل گواسکر جیسے اپنے وقت کے بڑے مہان بلّے باز موجود تھے۔ ٹورنامنٹ کا تیسرا اور آخری میچ بھی پاکستانیوں کے لیے مزید مایوسی لے کر آیا جب 189 کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے میدان میں اترنے والی پاکستانی ٹیم صرف 134 پر آؤٹ ہوگئی۔ اس میچ میں 4 پاکستانی کھلاڑی رن آؤٹ ہوئے۔
اس ٹورنامنٹ میں اپنے وقت کے دونوں بڑے آل راؤنڈر کپل دیو اور عمران خان شامل نہیں تھے۔ پہلے ایشیا کپ میں علیحدہ سے فائنل منعقد نہیں کیا گیا تھا۔ بھارت دونوں میچز میں فتوحات کے بعد کپ کا حقدار بنا۔ پاکستان کی طرف سے ون ڈے میچز میں پہلے ہندو وکٹ کیپر انیل دلپت بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔
دوسرا ایڈیشن، مارچ/اپریل 1986ء
مقام: سری لنکا
اس ایڈیشن میں ایک بار پھر 3 ٹیموں نے حصہ لیا۔ اگرچہ بھارت کی ٹیم بوجوہ ٹورنامنٹ کا حصہ نہیں بنی، جس کی جگہ بنگلہ دیش نے لے لی، جبکہ میزبانی سری لنکا کے حصے میں آئی۔ پاکستان ٹیم میں عمران خان کی بطور کپتان واپسی ہوئی تھی اور یہ ان کے عروج کا زمانہ تھا۔ وسیم اکرم بھی ٹیم میں نیا اضافہ تھے۔
افتتاحی میچ ایک لو اسکورنگ میچ تھا جس میں وسیم اکرم کے قیمتی 24 رنز کی بدولت پاکستان نے سری لنکا کو 197 کا ہدف دیا جس کے جواب میں سری لنکن ٹیم صرف 116 رنز ہی بنا سکی۔ اس ایڈیشن میں پاکستانی ٹیم نے ہاٹ فیورٹ کی حیثیت سے حصہ لیا تھا اور بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے میچ میں قومی ٹیم نے اس کا بخوبی اظہار بھی کیا۔ بنگلہ دیشی ٹیم کا یہ پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ تھا اور اپنے پہلے ہی میچ میں پوری ٹیم محض 94 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ وسیم اکرم نے شاندار باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 4 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
بنگلہ دیشی ٹیم میں منہاج العابدین نامی کھلاڑی بھی شامل تھے اور ان کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا آخری ون ڈے میچ بھی پاکستان کے خلاف کھیلا جو ایک تاریخی میچ تھا۔ جی ہاں، 1999ء ورلڈ کپ والا مشہورِ زمانہ میچ جس میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو پہلی دفعہ ون ڈے میچ کرکٹ میں شکست دی تھی۔ تیسرے اور آخری میچ کا نتیجہ سری لنکا کے حق میں آیا، تاہم اس بار بنگلہ دیش نے 100 کا ہندسہ ضرور عبور کرلیا تھا۔
ٹورنامنٹ کا فائنل پاکستان اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا۔ اس میچ کے حوالے سے کچھ محققین دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ٹورنامنٹ کا فائنل نہیں تھا بلکہ علیحدہ سے ایک دوستانہ میچ تھا، تاہم کرک انفو اسے ٹورنامنٹ کا فائنل قرار دیتی ہے۔
پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 45 اوورز میں 191 رنز بنائے۔ یاد رہے کہ اس ٹورنامنٹ میں تمام ون ڈے میچز 45 اوورز پر مشتمل تھے۔ اس میچ میں 67 رنز کی اننگز کھیلنے والے جاوید میانداد کے علاوہ کوئی بیٹسمین قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکا۔ آخری اوورز میں میانداد کے ساتھ عبدالقادر اور منظور الٰہی نے کچھ تیز رنز بنائے اور مجموعہ حوصلہ افزا ہوسکا۔ عبدالقادر محض 19 گیندوں میں 30 رنز بنائے تھے۔
جواب میں سری لنکا نے اچھا آغاز کیا۔ چونکہ عمران خان انجرڈ ہو کر گراؤنڈ سے باہر جاچکے تھے جس کا میزبان ٹیم نے بھرپور فائدہ اٹھایا خاص کر اروینڈا ڈی سلوا اور راناٹنگا نے، جنہوں نے بالترتیب 52 اور 57 رنز بنائے اور اپنی ٹیم کو ٹرافی کا حقدار بنا دیا۔ ارجنا راناٹنگا 105 رنز بنا کر ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بلّے باز اور عبدالقادر 9 وکٹ لے کر بہتریین باؤلر قرار پائے۔ رانا ٹنگا پلیئر آف دی سیریز بھی قرار پائے۔
تیسرا ایڈیشن، اکتوبر 1988ء
مقام: بنگلہ دیش
اس ایڈیشن میں بھارتی ٹیم کی واپسی کے ساتھ پہلی مرتبہ 4 ٹیموں نے ایشیا کپ میں شرکت کی۔ عمران خان کی غیر موجودگی کے سبب قومی ٹیم کے کپتان جاوید میانداد تھے۔ اس ایڈیشن عامر ملک اور اعجاز احمد جیسے نوجوان بلّے بازوں کو ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔
ہماری باؤلنگ خاصی تجربہ کار تھی اور توصیف احمد و وکٹ کیپر سلیم یوسف جیسے سینئرز کی بھی واپسی ہوئی تھی تاہم قسمت اس بار بھی نہیں بدلی۔ قومی ٹیم بنگلہ دیش کے علاوہ کوئی میچ بھی نا جیت سکی۔ ٹورنامنٹ کا افتتاحی میچ پاکستان اور سری لنکا کے مابین تھا۔ یاد رہے کہ یہ بنگلہ دیش میں کھیلا جانے والا سب سے پہلا ون ڈے انٹرنیشنل میچ بھی تھا۔
کمزور بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی طرف سے بیٹنگ میں زبردست کارکردگی دیکھنے میں آئی۔ اعجاز احمد نے اپنی پہلی سنچری اسکور کی اور 124 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے اور پاکستان کی طرف سے دوسرا ہی میچ کھیلنے والے معین الحق نے بھی اپنی پہلی سنچری مکمل کی۔ لیکن یہ سنچری معین الحق کی واحد سنچری بھی ثابت ہوئی کیونکہ وہ پاکستان کی طرف سے صرف 5 میچ ہی کھیل سکے۔
سری لنکن ٹیم اس ٹورنامنٹ میں بھرپور فارم میں نظر آئی۔ اس ٹورنامنٹ میں رانا ٹنگا کپتان بن چکے تھے اور ڈی سلوا کے ساتھ مل کر خوب قہر ڈھا رہے تھے۔ پاکستانی کپتان جاوید میانداد سری لنکا کے خلاف پہلے ہی میچ میں انجری کا شکار ہوکر گراؤنڈ چھوڑ گئے اور اس ٹورنامنٹ میں دوبارہ نہیں کھیل سکے، چنانچہ بقیہ میچز میں عبدالقادر نے کپتانی کا فریضہ انجام دیا۔
بھارتی ٹیم کی بیٹنگ بہت مضبوط تھی۔ سدھو، امرناتھ، اظہرالدین، سری کانت اور کپتان وینگسارکر سارے ہی اپنے وقت کے کامیاب بیٹسمین اس ٹیم کا حصہ تھے۔ کپل دیو بھی اس بار ٹیم کا حصہ تھے۔
لیگ راؤنڈ میں ناقابلِ شکست رہنے والی سری لنکن ٹیم فائنل میں بھارت کا مقابلہ نہیں کرسکی اور یوں بھارتی ٹیم دوسری بار ٹائٹل لے اڑی۔
فائنل میں نوجوان سدھو نے 76 رنز کی شاندار باری کھیلی اور مین آف دی میچ بھی قرار پائے۔ اس ایشیا کپ کے مین آف دی ٹورنامنٹ بھی سدھو ہی تھے۔ سب سے کامیاب باؤلر بھارت کے ارشد ایوب رہے جنہوں نے 9 وکٹیں حاصل کیں۔ سب سے بہترین بلّے باز کا اعزاز 192 رنز بنانے والے اعجاز احمد کے حصے میں آیا۔
چوتھا ایڈیشن، دسمبر/جنوری 1991ء
مقام: بھارت
اس ایڈیشن میں قومی ٹیم شریک نہیں تھی جبکہ میزبانی بھارت کے حصے میں آئی۔ یہ سچن ٹنڈولکر کا پہلا ایشیا کپ بھی تھا اور اظہرالدین بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔ لیگ میچ میں سری لنکا نے بھارت کو شکست دے دی لیکن حسبِ معمول فائنل میں سری لنکن ٹیم کو ایک بار پھر شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
فائنل میں گزشتہ ایڈیشن کی طرح رانا ٹنگا رن آؤٹ ہوئے حالانکہ وہ ٹیم کو سنبھالتے ہوئے ایک بڑے اسکور کی طرف لے جا رہے تھے۔ جواب میں ٹنڈولکر اور منجریکر کی نصف سنچریوں کی بدولت بھارت نے 205 رنز کا ہدف باآسانی حاصل کرلیا۔ رانا ٹنگا ٹورنامنٹ کے بہترین بلّے باز اور کپل دیو کامیاب ترین باؤلر قرار پائے۔
پانچواں ایڈیشن، اپریل 1995ء
مقام: متحدہ عرب امارات
ایک بار پھر 4 ٹیموں نے ٹورنامنٹ میں حصہ لیا۔ پاکستان کے پاس اس بار سعید انور اور عامر سہیل کی صورت میں ورلڈ کلاس اوپننگ جوڑی تھی۔ مڈل آرڈر میں انضمام الحق تھے اور باؤلنگ میں وسیم اکرم کا ساتھ عاقب جاوید دے رہے تھے۔ معین خان کو کپتانی سونپی گئی تھی۔ پاکستان نے گروپ میچ میں بھارتی ٹیم کو بڑے مارجن سے شکست دے کر امید دلائی کہ اس بار کچھ نیا ہوگا۔
انضمام کے شاندار 88 اور وسیم اکرم کے برق رفتار ناقابلِ شکست 50 رنز کی بدولت پاکستان نے 266 کا بڑا اسکور کھڑا کیا۔ جواب میں سدھو اور منجریکر کے علاوہ کوئی بھارتی بلّے باز عاقب جاوید کی تباہ کن باؤلنگ کا سامنا نہیں کرسکا اور پوری ٹیم 169 پر سمٹ گئی۔ عاقب جاوید نے 19 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کیں۔
اس میچ میں پاکستان نے 2 نئے کھلاڑیوں نعیم اشرف اور ظفر اقبال کو بھی موقع دیا مگر بدقسمتی سے دونوں زیادہ عرصہ نہیں چل سکے۔ بائیں ہاتھ کے اسپنر ندیم خان کا بھی یہ آخری ون ڈے میچ ثابت ہوا۔ ان کا کیریئر 2 ٹیسٹ اور 2 ون ڈے میچز پر مشتمل ہے۔ انہوں نے 2 ہی انٹرنیشنل وکٹیں حاصل کیں اور یہ دونوں ہی ٹیسٹ میچ میں حاصل ہوئیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں ان کی سب سے بڑی کامیابی کلکتہ ٹیسٹ میں باؤنڈری لائن سے پھینکی گئی مشہور زمانہ تھرو ہے جس پر ٹنڈولکر رن آؤٹ ہوگئے تھے اور تماشائی بپھر گئے تھے۔ پاکستان وہ میچ جیت گیا تھا۔
مگر اس ایڈیشن میں فائنل میں پہنچنے کی امید سری لنکا کے خلاف آخری گروپ میچ میں بُری کارکردگی کی نذر ہوگئی۔ اس میچ میں عاقب جاوید اور معین خان دونوں شامل نہیں تھے۔ ان کی جگہ وکٹ کیپر جاوید قدیر اور آل راؤنڈر محمود حامد کو شامل کیا گیا جبکہ سعید انور قائم مقام کپتان تھے۔
اس ٹیم کا وہی حشر ہوا جو سب سوچ رہے تھے یعنی سری لنکا نے قومی ٹیم عبرتناک شکست دے دی۔ یہ میچ 4 پاکستانی کھلاڑیوں عامر نذیر، محمود حامد، نعیم اشرف اور جاوید قدیر کا آخری میچ بھی ثابت ہوا۔ ٹورنامنٹ میں سعید انور اور عامر سہیل بُری طرح ناکام رہے۔ سوائے انضمام الحق کے کوئی بلّے باز قابلِ ذکر کارکردگی پیش نہیں کرسکا۔
فائنل میں ایک بار پھر وہی تاریخ دہرائی گئی۔ سری لنکن ٹیم بھارت کو شکست دینے میں ناکام رہی اور یوں بھارتی ٹیم چوتھی مرتبہ ٹائٹل لے اڑی۔
اس فائنل میں ایک اور حیران کن مماثلت یہ تھی کہ اس میں بھی رانا ٹنگا رن آؤٹ ہوئے تھے۔ سری لنکا نے 231 کا ہدف دیا جو اظہرالدین کے ناقابلِ شکست 90 اور سدھو کے ناقابل شکست 84 رنز کی بدولت بھارتی ٹیم نے 42ویں اوور میں ہی حاصل کرلیا۔ مین آف دی میچ اظہرالدین رہے جبکہ مین آف دی سیریز کا اعزاز نوجوت سنگھ سدھو کے حصے میں آیا۔ ٹورنامنٹ کے سب سے کامیاب باؤلر انیل کمبلّے رہے اور بہترین بلّے باز کا اعزاز ٹنڈولکر کے حصے میں آیا۔
چھٹا ایڈیشن، جولائی 1997ء
مقام: سری لنکا
پاکستان کی کپتانی اس بار رمیز راجا کے ہاتھ میں تھی اور ثقلین مشتاق اور شاہد آفریدی جیسے نوجوان چہرے ٹیم کا حصہ بن چکے تھے۔ بیٹنگ میں اس بار بھی سلیم ملک، انضمام، عامر سہیل اور سعید انور نگاہوں کا مرکز تھے جبکہ عاقب جاوید باؤلنگ کا بوجھ اٹھانے کو تیار تھے۔ تاہم پہلے میچ ہی میں سری لنکا سے شکست نے شائقین کو پریشان کردیا۔
بنگلہ دیش کے خلاف ٹیم نے حسبِ توقع کھیل پیش کیا۔ بلّے بازوں نے عمدہ کھیل پیش کیا اور باؤلنگ میں ثقلین مشتاق نے 5 وکٹ اڑائیں۔ مگر اصل مقابلہ بھارت کے خلاف تھا جس پر ساری دنیا کی نگاہیں تھیں۔ بھارتی ٹیم میں سارو گنگولی اور راہول ڈریوڈ جیسے کھلاڑی جگہ پکی کرچکے تھے اور بلاشبہ یہ ایک مضبوط ترین بھارتی بیٹنگ لائن تھی۔
جب میچ شروع ہوا تو فاسٹ بولر وینکاٹیش پرساد قہر بن کر پاکستان پر ٹوٹ پڑے۔ کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی باؤلرز نے 9 اوورز کے کھیل میں صرف 30 رنز کے عوض 5 پاکستانی بلّے باز پویلین واپس بھیج دیے تھے۔ پرساد 17 رنز دے کر 4 وکٹ لے اڑے تاہم خراب موسم اور کم روشنی نے پاکستان کو بچا لیا۔ اگلے دن میچ نئے سرے سے شروع ہونا تھا لیکن موسم نے اجازت نہیں دی اور یوں پاکستانی شائقین کی جان میں جان آئی۔
مگر زیادہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ پوائنٹس تقسیم ہوگئے اور قومی ٹیم ایک بار پھر فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ اس بار پھر وہی تاریخ دہرائی گئی یعنی فائنل میں بھارت بمقابلہ سری لنکا، تاہم نتیجہ مختلف تھا۔ بھارتی ٹیم صرف 3 اسپیشلسٹ باؤلرز کے ساتھ میدان میں اتری۔ ارادہ بڑا اسکور کرکے سری لنکا کو بے بس کرنے کا تھا، لیکن چمندا واس، مرلی دھرن اور دھرما سینا جیسے باؤلرز نے یہ خواب چکنا چور کردیا۔
اس میچ میں بھارتی ٹیم صرف 239 رنز بنا سکی اور جواب میں سینتھ جے سوریا اور مارون اتاپتو نے137 رنز کی شاندار اوپننگ پارٹنرشپ جوڑی اور بھارت کی کمزور باؤلنگ کے پاس اس بہترین بنلے بازی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ راناٹنگا اس بار مکمل کنٹرول میں نظر آئے۔ جے سوریا کے 63، اتاپتو کے ناقابل شکست 84 اور رانا ٹنگا کے 62 ناٹ آؤٹ کی بدولت سری لنکا نے ہدف صرف 37 اوورز میں حاصل کرلیا۔
یہ سری لنکن ٹیم کا دوسرا ایشیا کپ ٹائٹل تھا۔ مارون اتاپتو مین آف دی میچ رہے جبکہ رانا ٹنگا مین آف دی سیریز قرار پائے۔ بہترین باؤلر پرساد نے 7 وکٹیں حاصل کیں جبکہ رانا ٹنگا صرف 4 میچز میں 272 رنز بنا کر بہترین بلّے باز بنے۔
ساتواں ایڈیشن، جون 2000ء
مقام: بنگلہ دیش
پاکستانی ٹیم میں اس بار اظہر محمود، عبدالرزاق اور شاہد آفریدی کی شکل میں 3 بہترین نوجوان آل راؤنڈر موجود تھے۔ بیٹنگ میں انضمام الحق کا ساتھ دینے کے لیے سعید انور اور محمد یوسف تھے۔ معین خان کپتان تھے۔ وسیم اکرم بھی ٹیم کا حصہ تھے، اور ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ قومی ٹیم اس ٹورنامنٹ میں ناقابلِ شکست رہی۔
مہم کا آغاز بنگلہ دیش کے خلاف میچ سے ہوا۔ شائقین کو ایک سال پہلے ورلڈ کپ میں شکست کا دُکھ ابھی نہیں بھولا تھا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے دماغ میں بھی شاید یہ احساس تھا اس لیے جب ٹاس جیت کر جب قومی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تو عمران نذیر، محمد یوسف اور انضمام الحق نے ذمہ داری دکھائی اور 321 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف دے دیا۔
باؤلنگ کی باری آئی تو ٹیم مزید غصے میں آگئی اور عبدالرزاق نے 4 اوورز میں صرف 5 رنز دے کر 3 بنگلہ دیشی بلّے بازوں کو آؤٹ کیا۔ باقی باؤلرز نے بھی جان لگائی اور پوری بنگلہ دیشی ٹیم صرف 87 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئی۔ یہ ایک طرح سے کتھارسس تھا۔ 233 رنز کی فتح اس وقت پاکستان کی رنز کے اعتبار سے سب سے بڑی فتح تھی۔ اب یہ ریکارڈ 255 رنز بمقابلہ آئرلینڈ ہے۔
سری لنکا کے خلاف اظہر محمود کی عمدہ باؤلنگ اور محمد یوسف کے شاندار 90 ناقابل شکست رنز نے ایک آسان فتح پاکستان کی جھولی میں ڈال دی۔ بھارت کے خلاف میچ میں ایک بار پھر محمد یوسف کی شاندار سنچری اور معین خان نے برق رفتار 46 رنز کی بدولت نے اسکور 295 تک پہنچ گیا جبکہ باؤلنگ میں 29 رنز دے کر 4 وکٹیں لینے والے عبدالرزاق نمایاں رہے۔
بھارتی ٹیم صرف 250 رنز بناسکی حالانکہ اس میچ میں بھارت کا ٹاپ آرڈر ٹنڈولکر، گنگولی، ڈریوڈ اور اظہرالدین پر مشتمل تھا۔ عمران نذیر نے اپنی واحد انٹرنیشنل وکٹ اسی میچ میں حاصل کی۔ پاکستان 1986ء کے بعد پہلی مرتبہ فائنل میں پہنچا اور مقابل تھی ٹیم سری لنکا۔ سعید انور کے 82، انضمام کے 66 گیندوں پر 72 اور معین خان کی صرف 31 گیندوں پر برق رفتار 56 رنز کی کیپٹن اننگز نے پہلے بیٹنگ کرنے والی پاکستانی ٹیم کا مجموعہ 277 تک پہنچا دیا۔
جواب میں مارون اتاپتو کے 100 رنز کے علاوہ کوئی سری لنکن بلّے باز قابلِ ذکر کھیل پیش نہیں کرسکا اور یوں پاکستان کو 39 رنز کی فتح نصیب ہوئی۔ یہ پاکستان کا پہلا ایشیا کپ ٹائٹل تھا۔ مین آف دی میچ کپتان معین خان تھے جبکہ مین آف دی سیریز کا اعزاز محمد یوسف کے حصے آیا جنہوں نے مسلسل عمدہ بلّے بازی کا مظاہرہ کیا اور 4 میچز میں 295 رنز بنا ڈالے۔ جبکہ باؤلنگ میں عبدالرزاق نے 8 وکٹیں حاصل کرکے بہترین باؤلر کا اعزاز حاصل کیا۔
آٹھواں ایڈیشن، جولائی/اگست 2004ء
مقام: سری لنکا
پہلی دفعہ اس ٹورنامنٹ میں 6 ٹیمیں شامل کی گئیں۔ 4 ٹیسٹ ممالک کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ کو بھی شامل کیا گیا۔ ٹورنامنٹ کا پہلا راؤنڈ یکطرفہ میچز پر مشتمل تھا۔ پہلی بار 2 پولز بنائے گئے جن میں سے ٹاپ 2 ٹیمیں سپر 4 مرحلے تک رسائی حاصل کرتیں۔ عرب امارات اور ہانگ کانگ حسب توقع پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہوگئیں جبکہ سپر 4 میں پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش پہنچے۔
اسی ٹورنامنٹ میں بنگلہ دیش نے ایشیا کپ میں اپنی پہلی فتح کا مزا چکھا جب انہوں نے ہانگ کانگ کو شکست دی۔ پاکستان کے کپتان انضمام الحق تھے جبکہ محمد یوسف، یونس خان اور شعیب ملک بیٹنگ کے اہم ستون تھے۔ باؤلنگ میں شعیب اختر اور عبدالرزاق کے ساتھ محمد سمیع اور شبیر احمد بھی تھے۔ بھارت کی ٹیم میں سہواگ، گنگولی، ٹنڈولکر اور ڈریوڈ جیسے بڑے نام تھے جبکہ باؤلنگ میں بھی ظہیر خان، عرفان پٹھان اور اشیش نہرا اچھی فارم میں تھے۔ کمبلے اور ہربھجن کی صورت میں 2 بہترین اسپنر بھی بھارت کو دستیاب تھے۔ یہ ہر طرح سے ایک مکمل ٹیم تھی۔
کمار سنگاکارا، مہیلا جے وردھنے، کپتان مارون اتاپتو اور سنتھ جے سوریا کی شکل میں سری لنکا کو ایک مضبوط ٹاپ آرڈر میسر تھا جبکہ چمندا واس اور مرلی دھرن باؤلنگ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر بخوبی اٹھانے کے قابل تھے۔ پاکستان کی ٹیم سری لنکا کے خلاف پہلے بلّے بازی کرتے ہوئے صرف 122 پر آل آؤٹ ہوگئی۔ عبدالرزاق نے 43 کا اسکور بنایا اور باؤلنگ میں 2 وکٹیں حاصل کرکے کچھ مزاحمت دکھائی مگر یہ ناکافی تھی۔ بھارت کے خلاف میچ میں شعیب ملک نے کیریئر کی بہترین 143 کی اننگز کھیلی اور پاکستان 300 رنز بنانے میں کامیاب ہوگیا۔
جواب میں ٹنڈولکر کے 78 رنز کے علاوہ کوئی بلّے باز بڑا اسکور نہیں کرسکا اور پاکستان کو ایک آسان فتح نصیب ہوئی۔ بنگلہ دیش کے خلاف بھی پاکستان نے آسان فتح سمیٹی لیکن یہ فائنل میں پہنچانے کے لیے ناکافی تھی۔ فائنل ایک بار پھر بھارت اور سری لنکا کے مابین تھا جو اتاپتو کی شاندار بیٹنگ اور اپل چندانا کی بہترین باؤلنگ کی وجہ سے سری لنکا نے جیت لیا۔
ٹنڈولکر ایک مرتبہ پھر 74 رنز بنا کر اکیلے مزاحمت کرتے دکھائی دیے۔ مارون اتاپتو مین آف دی میچ جبکہ جے سوریا مین آف دی سیریز رہے۔ سب سے کامیاب بلّے باز شعیب ملک نے 316 رنز بنائے اور انہوں نے 9 وکٹیں بھی حاصل کیں۔ جبکہ بہترین باؤلر عرفان پٹھان 6 میچز میں 14 وکٹیں لے اڑے۔ سچن ٹنڈولکر نے اس ٹورنامنٹ میں 12 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
نواں ایڈیشن، جون 2008ء
مقام: پاکستان
پاکستان کو پہلی اور آخری مرتبہ ایشیا کپ کی میزبانی ملی۔ اس ٹورنامنٹ میں 2004ء والا ہی فارمیٹ اور وہی ٹیمیں شامل تھیں۔ تاہم اس بار پہلے راؤنڈ میں پاکستان اور بھارت کا ایک بڑا میچ شائقین کو دیکھنے کو ملا۔ کپتان شعیب ملک نے سنچری ضرور بنائی لیکن فٹنس کی کمزوری کی وجہ سے مکمل حق ادا نا کرسکے۔ پاکستان نے بھارت کو 300 کا ہدف دیا۔ سہواگ اور رائنا کی شعلہ فشانی کا پاکستان کی نسبتاً کمزور باؤلنگ اٹیک کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بھارت نے یہ ہدف باآسانی 42ویں اوورز میں حاصل کرلیا۔
راؤ افتخار، سہیل تنویر اور عمر گل مکمل بے بس دکھائی دیے تاہم اس کا بدلہ پاکستان نے اگلے میچ میں فوری چکا دیا۔ شعیب ملک کی غیر موجودگی میں مصباح الحق کپتان تھے۔ بھارت نے 309 کا ہدف سیٹ کیا۔ یونس خان نے شاندار 123 ناقابل شکست بنائے جبکہ مصباح نے ناقابلِ شکست 70 بنائے۔ اس میچ میں ناصر جمشید نے اگرچہ تیز 53 رنز بنائے لیکن وہ انجری کے سبب مزید بلے بازی نہیں کرسکے۔ یہ لیجنڈ آف اسپنر سعید اجمل کا افتتاحی میچ بھی تھا۔ انہوں نے 47 رنز دے کر ایک وکٹ لی تھی۔
مجموعی طور پر یہ ٹورنامنٹ جے سوریا کا تھا جنہوں نے صرف 5 میچز میں 378 رنز بنا ڈالے۔ سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا ریکارڈ اجنتھا مینڈس کا تھا جنہوں نے 5 میچز میں 17 وکٹیں حاصل کیں۔ مرلی دھرن اور سنگاکارا بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ پاکستان کی طرف سے یونس خان نے بھی 296 رنز کی غیر معمولی کارکردگی دکھائی۔
اس ٹورنامنٹ کا فائنل بھی سری لنکا اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا۔ لیکن یہ میچ یکطرفہ تھا۔ بھارتی باؤلنگ کے پاس جے سوریا کی طوفانی اننگز کا کوئی توڑ نہیں تھا۔ انہوں نے 114 گیندوں پر 125 رنز بنائے جبکہ بھارتی بیٹنگ کے پاس اجنتھا مینڈس کی جادوئی گیندوں کا کوئی حل نہیں تھا جنہوں نے صرف 13 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کرلیں۔ یہ آج بھی ایشیا کپ میں بہترین باؤلنگ کا ریکارڈ ہے۔ اجنتھا مینڈس مین آف دی میچ اور مین آف دی ٹورنامنٹ دونوں ایوارڈ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہے۔
دسواں ایڈیشن، جون 2010ء
مقام: سری لنکا
گزشتہ 2 ایونٹس میں یکطرفہ میچز نے منتظمین کو اس بار ٹیمز کی تعداد دوبارہ 4 کرنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان کی کپتانی شاہد آفریدی جبکہ سری لنکا کی کپتانی کمار سنگاکارا کے ہاتھ میں تھی۔ بھارت کو مہندرا دھونی کی شکل میں ایک شاندار کپتان میسر تھا۔
پہلا میچ خاصہ دلچسپ رہا۔ پاکستان اور سری لنکا کے مابین میچ شاہد آفریدی کی شاندار بلّے بازی کی بدولت یادگار بن گیا۔ سری لنکا کے 242 کے جواب میں لستھ مالنگا کی عمدہ باؤلنگ کے باعث جب پاکستان کے 32 رنز پر 4 کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے، تب شاہد آفریدی نے 76 گیندوں پر 109 رنز کی شاندار اننگز کھیل ڈالی۔ میچ پاکستان ہار گیا لیکن آفریدی نے شائقین کے پیسے وصول کروا دیے۔ یہ شاہ زیب حسن اور عمر امین کا افتتاحی میچ بھی تھا۔
اسی ٹورنامنٹ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ میں ہربھجن سنگھ کا شعیب اختر کو یادگار چھکا تماشائیوں کو آج بھی یاد ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ محمد عامر کو میچ کی سیکنڈ لاسٹ گیند پر فیصلہ کن چھکا جس نے میچ بھارت کی جھولی میں ڈال دیا۔ یہ سخت مقابلے والا ایک بہترین ون ڈے میچ ثابت ہوا۔
پاکستان نے ان دونوں سخت میچز کا غصہ بنگلہ دیشی ٹیم پر نکالا اور 385 رنز بنا ڈالے۔ شاہد آفریدی نے ایک اور کیپٹن اننگز کھیلتے ہوئے 125 رنز بنائے اور اس کے لیے انہوں نے صرف 60 گیندیں کھیلیں۔ جولائی 2018ء تک یہ پاکستان کا سب سے بڑا ون ڈے ٹوٹل بھی رہا ہے۔ فائنل ایک بار پھر سری لنکا اور بھارت کے درمیان تھا جس میں بھارت نے دنیش کارتھک کے 66 رنز اور اشیش نہرا کی عمدہ باؤلنگ کی وجہ سے آسانی سے کامیابی حاصل کرلی۔
مین آف دی میچ دنیش کارتھک جبکہ شاہد آفریدی مین آف دی ٹورنامنٹ رہے۔ مالنگا نے 3 میچز میں 9 وکٹیں حاصل کیں جبکہ آفریدی نے 265 رنز بنا کر بہترین بلّے باز کا اعزاز سمیٹا۔
11واں ایڈیشن، مارچ 2012ء
مقام: بنگلہ دیش
مارچ 2012ء میں کھیلا جانے والا 11واں ایشیا کپ شاید سب سے مسابقتی ٹورنامنٹ کہلائے گا۔ اس میں سب سے زیادہ سخت/قریبی مقابلے دیکھنے میں آئے۔ گروپ اسٹیج میں بھارت بمقابلہ بنگلہ دیش میچ کون بھول سکتا ہے جس میں ٹنڈولکر نے اپنی 100ویں انٹرنیشنل سنچری اسکور کی تھی اور مزے کی بات ہے کہ ان کی بنگلہ دیش کے خلاف یہ پہلی سنچری تھی۔
تاہم اصل چیز بنگلہ دیش کی فتح تھی۔ بنگلہ دیش نے تمیم اقبال، شکیب الحسن اور مشفق الرحیم کی برق رفتار بلّے بازی کی بدولت 293 رنز کا ہدف حاصل کرکے ٹورنامنٹ میں لوگوں کی دلچسپی کئی گنا بڑھا دی۔ یہ ایک یادگار فتح تھی اور میزبان بنگلہ دیشی تماشائیوں کے لیے تو بہت ہی خاص۔
اس ٹورنامنٹ میں دوسرا دلچسپ میچ وہ تھا جس میں کوہلی نے پاکستانی باؤلنگ کا بھرکس نکال دیا تھا۔ 183 رنز کی وہ اننگز قابل دید بھی تھی اور قابل داد بھی۔ آج بھی وہ کوہلی کا سب سے بڑا ون ڈے اسکور ہے۔ اسی شاندار ون مین شو کی وجہ سے 330 کا ہدف بھارت نے ہنستے کھیلتے حاصل کر لیا تھا۔ بنگلہ دیش نے ہر میچ میں سخت مقابلہ کیا اور اپنے سے کہیں مضبوط بھارت اور بعد میں سری لنکا کو بھی شکست دی اور فائنل میں جگہ بھی بنائی۔
اس ٹورنامنٹ میں شکیب الحسن کا کھیل بہت خاص تھا۔ بھارت اور سری لنکا دونوں کے خلاف فتوحات میں مین آف دی میچ انہی کے حصے میں آیا۔ فائنل میں پاکستان بھی بنگلہ دیش کا شکار ہوتے ہوتے بچا۔ شاہد آفریدی اور سرفراز احمد کی انتہائی ذمہ دارانہ بیٹنگ کی بدولت پاکستان نے گرتے پڑتے 234 رنز تو بنا لیے لیکن بنگلہ کھلاڑی اس دن کچھ کر دکھانے کے موڈ میں تھے۔
تمیم نے ایک اچھا آغاز دیا تو شکیب الحسن ایک بار پھر اپنے جوہر دکھانے لگے لیکن بیٹسمین کے پاس غلطی کا صرف ایک موقع ہوتا ہے اس لیے انہیں جانا پڑا اور ان کے ساتھ ہی بنگلہ دیشی جیت کے امکانات کو بھی۔ تاہم پاکستان کے لیے یہ آسان نہیں تھا۔ اعزاز چیمہ کا آخری اوور دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
میچ آخری گیند تک گیا۔ وہ ایک جذباتی دن تھا۔ جس میں تجربے کو فتح حاصل ہوئی۔ مین آف دی میچ شاہد آفریدی رہے اور بجا طور پر مین آف دی ٹورنامنٹ کا اعزاز شکیب الحسن کے حصے آیا۔ کوہلی نے 3 میچز میں 357 رنز جڑ دئیے جبکہ عمر گل 4 میچز میں 9 وکٹیں لے کر پہلے نمبر پر رہے۔
12واں ایڈیشن، فروری 2014ء
مقام: بنگلہ دیش
پانچویں ٹیم کے طور پر افغانستان پہلی مرتبہ شرکت کا حقدار ٹھہرا۔ ایک بار تو افغانستان نے شائقین کرکٹ کو حیران کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی جب اس نے پاکستان کی 6 وکٹیں صرف 117 رنز پر گرا دی تھیں۔
وہاں عمر اکمل کی قابلیت کام آئی اور ان کی سنچری کی بدولت پاکستان 248 کا باعزت مجموعہ تشکیل دینے میں کامیاب رہا۔ تاہم بنگلہ دیشی ٹیم افغان ٹیم کے عتاب سے محفوظ نہیں رہ سکی اور افغانستان نے کسی ٹیسٹ نیشن کے خلاف اپنی پہلی فتح سمیٹ لی۔ ٹورنامنٹ کے افتتاحی میچ میں پاکستان کے خلاف مالنگا کا میچ وننگ اسپیل بھی اس ٹورنامنٹ کی خاص بات تھی۔
انتہائی سنسنی خیز میچ پاکستان بمقابلہ بنگلہ دیش کا تھا جب شاہد آفریدی نے تن تنہا بنگلہ دیش سے فتح چھین لی۔ آفریدی پٹھہ کھنچ جانے کے باوجود ڈٹ کر کھڑے رہے اور صرف 25 گیندوں پر 59 رنز بنا ڈالے۔ بنگلہ دیشی شائقین اور کھلاڑیوں نے بھی جذباتیت سے ماحول کو گرما دیا تھا۔ پاکستانیوں کی کرکٹ یادوں میں وہ میچ اب بھی ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
اس میچ کی ایک خاص کارکردگی عبدالرحمٰن کا بغیر کوئی قانونی گیند پھینکے 8 رنز بنوا دینا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ان کا آخری باؤلنگ اسپیل ثابت ہوا اور اب وہ ہمیشہ اس منفیت کی وجہ سے یاد رکھے جائیں گے حالانکہ وہ ایک بہترین باؤلر تھے۔ یہ ان کا آخری ون ڈے میچ بھی تھا۔ اسی ٹورنامنٹ میں پاکستان بمقابلہ بھارت میچ میں آفریدی کے رویندرا ایشون کو 2 چھکے لگا کر حاصل کی گئی فتح بھی ایک انمول یاد ہے۔ شاید ہی کوئی کرکٹ شائق ہو جس کے دماغ سے وہ 2 یادگار چھکے محو ہوئے ہوں۔ تاہم ان 2 چھکوں سے قبل بھوویشنر کمار کے اوور کو بھول جانا بھی زیادتی ہوگا۔
اس ٹورنامنٹ کا فائنل پاکستان بمقابلہ سری لنکا تھا۔ کمتر سمجھے جانے والے فواد عالم کی واحد سنچری، جو انہوں نے نہایت مشکل حالات میں بنائی تھی اور عمر اکمل کی ایک ذمہ دارانہ اننگز کی بدولت پاکستان 260 رنز تو بنا گیا لیکن یہ ناکافی تھے۔
ایک بار پھر پاکستانی ٹاپ آرڈر کے پاس مالنگا کا کوئی توڑ نہیں تھا۔ افتتاحی میچ کی طرح فائنل میں بھی وہ 5 وکٹیں لے اڑے۔ اس سیریز میں تھریمانے بھرپور فارم میں تھے اور فائنل میں ان کی یہی سپر فارم پاکستان کو لے ڈوبی کیونکہ انہوں نے 101 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیل کر فتح اپنی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی۔ فائنل کے مین آف دی میچ مالنگا اور مین آف دی سیریز تھریمانے ہی تھے۔ تھریمانے نے 279 رنز بنائے تھے جبکہ سعید اجمل اور مالنگا نے 11 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
13واں ایڈیشن، فروری 2016
مقام: بنگلہ دیش
اس بار ٹورنامنٹ کا فارمیٹ ٹی 20 رکھا گیا، کیونکہ اس کے فوراً بعد ورلڈ ٹی 20 آ رہا تھا۔ اس میں 4 ٹیسٹ ٹیمز کے علاوہ متحدہ عرب امارات، افغانستان، عمان اور ہانگ کانگ کی ٹیموں پر مشتمل ایک کوالیفائنگ راؤنڈ بھی تھا جس کی فاتح ٹیم پاکستان، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ ٹورنامنٹ میں حصہ لیتی۔
حیران کن طور پر افغانستان اس بار اچھا کھیل پیش نہیں کرسکی اور متحدہ عرب امارات سے ہار گئی جس کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات نے کوالیفائی کرلیا۔ مین راؤنڈ میں بنگلہ دیش نے ایک بار پھر ایشیا کپ کی سطح پر عمدہ کھیل پیش کیا اور پاکستان کے ساتھ ساتھ سری لنکا کو بھی شکست دے دی۔
پاکستان اور بھارت کے میچ میں محمد عامر کا شاندار اسپیل پاکستانی شائقین کے لیے اس ٹورنامنٹ کی یادگار کارکردگی ہے۔ بھارت نے اس ٹورنامنٹ میں اعلیٰ درجے کا کھیل پیش کیا اور ناقابلِ شکست رہتے ہوئے ٹرافی لے اڑا۔
مزے کی بات ہے کہ اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ 12 وکٹیں متحدہ عرب امارات کے امجد جاوید کے حصے میں آئیں اور سب سے زیادہ رنز ہانگ کانگ کے بابر حیات نے 194 اسکور کیے۔ ٹورنامنٹ کی واحد سنچری بھی انہوں نے ہی بنائی۔ بنگلہ دیش کے شبیر رحمٰن پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار پائے۔
14واں ایڈیشن، ستمبر/اکتوبر 2018
مقام: متحدہ عرب امارات
14واں ایشیا کپ بھی دلچسپ ہونے کا امکان ہے۔ 6 میں سے 5 ٹیمیں اچھا کھیل پیش کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں، حتیٰ کہ سپر 4 میں پہنچنے کے لیے بھی سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان میں زبردست مقابلہ متوقع ہے.
پاکستان اور بھارت دونوں مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کی ٹیمیں بہت متوازن ہیں. کوہلی کی غیر موجودگی کے باوجود بھارت ون ڈے کی بہت مضبوط ٹیم ہے، اس لیے زبردست مقابلے متوقع ہیں۔
اس ٹورنامنٹ میں جہاں ٹیموں کے درمیان برتری کی جنگ چل رہی ہوگی وہیں ایک اور مقابلہ بھی چل رہا ہوگا۔ جی ہاں، اسپنرز خاص کر لیگ اسپنرز کا مقابلہ۔ شاداب خان، کلدیپ یادیو، یزویندرا چاہل اور راشد خان ان میں سے کون بہترین ہے، یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوگا۔
لیگ اسپنرز کے ساتھ ساتھ شکیب الحسن، مہدی حسن معراج، اکشر پٹیل اور اس صدی کے پہلے انٹرنیشنل کرکٹر مجیب زدران سے بھی خاص کارکردگی کی توقع رہے گی۔
پاکستان جیسا فاسٹ باؤلنگ ٹیلنٹ کسی کے پاس نہیں مگر اس بار بھارت کے پاس بھی اچھے فاسٹ باؤلرز ہیں، سو دیکھتے ہیں کہ ایشیا کپ کون اٹھاتا ہے، پاکستان یا بھارت۔
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
محسن حدید کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے ہیں اور مختلف اخبارات اور ویب سائٹ کے لیے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔