• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

بحریہ ٹاؤن کیس: ’زمین کی الاٹمنٹ میں بدنیتی نکلی تو پورا ڈھانچہ گر جائے گا‘

شائع September 12, 2018

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کی الاٹمنٹ غیر قانونی تھی تو اس منصوبے کا پورا ڈھانچہ گرجائے گا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے بحریہ ٹاؤن نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت عدالتی فیصلہ سے متاثر کیسے ہو سکتی ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کا ملبہ زمین الاٹ کرنے والے افسران پر گے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس نے غلط کام کیا ہے وہ بھگتے گا۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نظر ثانی کے مقدمے کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کے ہر پیراگراف میں غلطیوں کی نشاندہی کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے جو اراضی الاٹ کی وہ ان کے ماتحت زمین کی تھی تاہم بحریہ ٹاون نے ایم ڈی اے کو زمین دی وہ ان کے کنٹرول ایریا میں نہیں آتی۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس کل 12 ہزار ایک سو ایکڑ رقبہ ہے، اور یہ زمین سندھ بورڈ آف ریونیو نے ایم ڈی اے کو الاٹ کی تھی جس کا تبادلہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ زمین کا تبادلہ بدنیتی سے ہوا تو تمام ڈھانچہ گر جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا بحریہ ٹاؤن کراچی پر 90ارب روپے کی زمین پر قبضے کا الزام

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بحریہ ٹاؤن کے پاس ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین غیر قانونی ہے جو واپس اسی کے پاس جانی چاہیے، اور اس اراضی کی قیمت کا تعین بھی عدالت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت جس قیمت کا تعین کرے گی بحریہ ٹاؤن کو وہ قیمت ایم ڈی اے کو ادا کرنی ہوگی، جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ قیمت کا تعین کرتے وقت دیکھا جائے کہ اراضی کی قیمت بحریہ ٹاؤن کی وجہ سے بڑھی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ ایم ڈی اے نے کن اختیارات کے تحت اراضی بحریہ ٹاؤن کو دی جس پر انہیں بتایا گیا کہ کلونائزیشن آف لینڈ ایکٹ کے تحت یہ اراضی بحریہ ٹاؤن کو دی گئی۔

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اس ایکٹ پر نہ جائیں اس میں مزید پھنس جائیں گے، کیونکہ اس ایکٹ کے تحت نہ ملکیت کی جاسکتی ہے نہ اراضی منتقل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: عدالت کا بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ تاریخ ساز ہے؟

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کسی کو سرکاری وسائل لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے، اتنا پیسہ کھایا جائے جو ہضم ہوسکے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ غیر قانونیت، غیر قانونیت ہی ہوتی ہے، صرف پارلیمنٹ ہی قانون سازی کرکے غیر قانونی اقدام کو قانونی قرار دے سکتی ہے۔

اعتزاز احسن نے عدالت میں اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر بحریہ ٹاؤن کراچی کو ایم ڈٰی اے کو دیا گیا تو اس کی قیمتیں گر جائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن سمیت کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیرات پر پابندی

چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ایم ڈی اے کو ملنے والی رقم سندھ حکومت کے پاس جائے گی، اور پھر حکومت چاہے دوبارہ اراضی بحریہ ٹاؤن کو دے دے، اس پر عدالت کو اعتراض نہیں ہوگا۔

عدالت نے بحریہ ٹاؤن کے علی ظفر سے جواب طلب کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ کیا بحریہ ٹاؤن اراضی سندھ حکومت کو واپس کرے گا یا پھر جو رقم عدالت تعین کرے گی وہ ادا کی جائے گی۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے بحریہ ٹاؤن نظر ثانی کیس کی سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کردی۔

تبصرے (2) بند ہیں

M NazimF Sep 13, 2018 09:31am
Builders get allotted land from government in dubious ways at rates far below market rates. These builders do not strictly follow planning and building bylaws. They dont ensure provision of gas, water,roads and sewerage etc. over and above that escate prices for no fault of buyers. Quality of construction in most cases very poor. Bath rooms start leaking within few months giving ugly look. Baharia Town on the other hand does good job and changed face of city. Most of buyers of houses and plots in Baharia Town are satisfied. I wish these facts will be considered by our court. However MDA officers who indulged in corruption should be severely punished.
tayyab Sep 13, 2018 02:20pm
اس کا مسئلہ بالکل ایمانداری سے حل ہونا چاہیے۔ کراچی میں بےپناہ غیرقانونی بلڈنگز فلیٹس اور ہاٗوسنگ سکیم ہیں جن کا از سر نو دوبارہ انسپیکشن اور ٹرانپسرینسی قائم کی جانے تاکہ جن لوگوں غیرقانونی طریقے سے زمینیں قبضے میں لی ہیں ان سے پورا حساب لیا جائے۔اور وہ قومی خزانے میں رقم جمع کراجائے

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024