آدھی ادھوری کمیشن کہانی
اب اس بات سے کیا شرمانا کہ بدنامی ہماری قومی شناخت بن چکی ھے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ہم کچھ نہ کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ سارے جہاں میں جگ ہنسائی اور سبکی ہونے کہ بعد بھی، بجائے ہوش کے ناخن لینے کے ہم اگلے کارنامے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ سو وضاحتیں، سو الزام اک دوسرے پر دھر کر سلسلہ وہیں سے شروع کر لیتے ھیں، جہاں سے ٹوٹا تھا۔
کمیشنوں کا ہی قصّہ لے لیں۔ ایک سے ایک کمیشن نے ہماری اسلامی مملکت کے نظریاتی سرحدوں کے پاسبانوں کے سارے کپڑے اتار کے رکھ دیئے مگر مجال ہے کہ ہم سرِ بازار رسوائی کے اس سامان سے کچھ سیکھیں۔
ویسے تو وہ دن بھی کیا خوب تھے کہ کمیشن کی رپورٹ آتے ہی ایک ایسی بھاری بھرکم تجوری میں رکھ دی جاتی تھی جس کے تالے کی چابیاں بھی انہی کے ہوتی تھیں پاس جن کی معرکہ آراییوں کے بارے میں کمیشن بنتے تھے۔
اب یہ میڈیائی زمانہ ہے کہ لاکھ چھپاؤ، یہ گناہوں کی پوٹلی کسی نہ کسی کہ ہتھے چڑھ ہی جاتی ھے۔ پھر الجزیرہ ہو کہ وکی لیکس، اب ایسے کارناموں کے لیک ہونےمیں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔
حمودالرحمان کمیشن کی بات بعد میں کرتے ہیں، پہلے منیر رپورٹ کی طرف آئیے، جو کہ احمدیوں کے خلاف ہونے والے دنگے فسادات کے نتیجے میں لاہور میں لگائے گئے پہلے مارشل لا کی وجوہات جاننے کے لیئے تشکیل دی گئی تھی۔ اس وقت کے گورنر پنجاب نے آرڈیننس 111 کے تحت جسٹس منیر احمد اور جسٹس ملک رستم کیانی کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ عدالتی کارروائی کے ذریعے یہ بات جاننے کی کوشش کریں کہ؛
۔ وہ کون سے حالات و واقعات تھے جن کی وجہ سے چھ مارچ انیس سو ترپن کو لاہور میں مارشل لا لگانا ناگزیر ہو گیا تھا؟
۔ اس دنگے فساد کا اصل ذمہ دارکون تھا؟
۔ سویلین حکومت نے حالات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟
بدقسمتی یہ ہوئی کہ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی نے نہ صرف صدقِ دل اور ایمانداری سے مارشل لا کا دنگے فساد کے ذریعے جواز بنانے والے تمام عناصر کی نا صرف نشاندہی کی بلکہ یہ تک کہا کہ وہ فسادات جو بالآخر ایک مارشل لا کا پیش خیمہ ثابت ہوئے، ان سے نمٹنے کے لیئے فقط ایک میجسٹریٹ اور ایک پولیس کے ایس پی ہی کافی تھے۔
منیر رپورٹ کا مطالعہ اس لیئے بھی زیادہ دلچسپ ہے کہ اس میں احمدیوں کے خلاف شرارت پھیلانے والی اس مذہبی جماعت الاحرار کا شجرہ تک نکال کر رپورٹ کا حصہ بنا دیا گیا جو بٹوارے کی سیاست کے سدا مخالف رہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے جناح کو ببانگ دہل کافرِِ اعظم کہنے والی اس جماعت نے رتن بائی سے شادی پر بھی ان کو معاف نہیں کیا۔
یہ الگ بات کہ اس جماعت کو کافرِ اعظم کے ہاتھوں بنی ہوئی اس ریاست میں کافر کافر کا کھیل کھلینے کی مکمل آزادی رہی۔ اس کامیاب تجربے کی بنیاد پہ مذہبی جماعتوں کے گٹھ جوڑ اور ختمِ نبوت کے نام پہ دنگے فساد کا یہ فارمولا ایجنسیوں نے جب سے اب تک اس کامیابی سے آزمایا ہے کہ آج یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دراصل یہ ملک بنا ہی اس کے لیے ہے۔
منیر رپورٹ میں واضح کیا گیا تھا کہ باوجود افسران کی سفارشات کے، دنگے فساد کو ہوا دینے والی جماعت الاحرار کو نہ صرف کوئی سرزنش نہ کی گئی بلکہ ان کی تمام کاروائیوں پر آنکھیں بھی بند کر لی گئیں۔
یہ ان کو دی جانے والی کھلی چھوٹ ہی تھی جس نے آگے چل کر وہی ہنگامے برپا کیئے جس کا عندیہ سرکاری افسران دیتے رہے تھے۔ اس رپورٹ کا ایک قابلِ ذکرحصہ یہ بھی تھا جس میں کئی نامور صحافیوں نے باقاعدہ طور پہ رقوم کے عوض شر انگیز مواد چھاپا اور اس پروپیگنڈہ کا باقاعدہ حصہ بنے جس نے ان فسادات کو ہوا دی۔
اب آئیے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کی طرف تو یہ ہماری فوجی تاریخ کا وہ شرمناک باب ہے کہ اس کا نام لیتے ہوئے بھی لاج آئے۔ اسی لیے اس کمیشن نے جو چہرہ دکھلایا اسے کئی دہائیوں تک قوم کو دکھانے کی جرات ہی نہ کی جا سکی۔ اس طرح ہم یہ ضرور کرنے میں کامیاب ہو گۓ کہ جن کا کورٹ مارشل ہونا تھا، سزائیں ملنی تھیں، وہ سارے جرنیل و کرنیل، اکیس اکیس توپوں کی سلامی کے ساتھ سبز ہلالی جھنڈے میں لپٹے بمعہ فوجی اعزاز کے دفن ہوئے۔
حمودالرحمان کمیشن کو عوام و خواص کے لیئے جس جرنیل نے عام کیا، آج کل اس پہ بھی کچھ برے دن آئے ہوئے ہیں۔ کتنے ہی دل جلے یہ آس لیے بیٹھے ہیں کہ اگر یہ نشان عبرت بن جاۓ تو پھر شائد ہر وقت کسی کے قدموں کی آہٹ پہ لگے کانوں کو کچھ سانس لینے کی آزادی مل سکے اور شاید کہیں سے وہ لوٹ آییں جو لاپتہ ہوئے۔
پتہ نہیں کیوں بوٹوں کی حکومت جاتے ہی قوم ان چھوٹی بڑی باتوں میں الجھ پڑتی ہے ورنہ کبھی سنا کہ اوجھڑی کیمپ پہ بھی کوئی کمیشن بیٹھا ہو؟ کبھی کسی نے ڈالر کے عوض پاکستانیوں کے بیچے جانے پر حکومت وقت پر انکوائری بٹھانے کی آواز لگائی؟ جرنیل کیسے اڑتے طیارے میں عالم پناہ بن گیا، کسی کو کوئی خبر ہوئی؟
خیر جنریلوں کے ساتھ ان کی کہانیاں بھی جلد یاداشت سے اتر جاتی ہیں۔ اسی لیے بارہ اکتوبر کی شام بھی بس اب ماضی کا قصہ ہوئی۔ پر میمو گیٹ کے تماشے کا دنیا میں ایک ٹکے کا تماشا بنانے والے کا نام پھر سے ایک اور کمیشن میں گونج رہا ہے۔ وہ ابھی تک دھاڑ رہا ہے، سنا رہا ہے، کوس رہا ہے۔
سیاستدان بدعنوان ہیں، میڈیا کرپٹ ہے، این جی اوز ایجنٹ ہیں، پولیس نااہل ہے اور عوام تو یقینا بےحس اور پاگل ہیں کہ ان سب کو جھیلتی چلی جا رہی ہے اور کمیشن کہانی کہ پھر بھی ادھوری۔ ان تمام باتوں کو جانتے ہوئے بھی عدالت زدہ وزیراعظم کی سو باتوں کی ایک بات کہ آخر بن لادن کو کنٹومنٹ کا ویزہ کس نے جاری کیا تھا؟
امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں