جاگو ہوا سویرا: پاکستانی آرٹ سنیما کی ایک شاہکار فلم
پاکستانی سنیما کی تاریخ میں ایسی کئی فلمیں ہیں جو بین الاقوامی سنیما میں بہترین اضافہ ثابت ہوئیں۔ دنیا بھر میں ان فلموں کو پسند بھی کیا گیا لیکن ان فلموں کو اپنے ہی ملک میں فلمی صنعت اور فلم بینوں نے فراموش کر دیا۔
ایسی فلموں میں سے ایک ’جاگو ہوا سویرا‘ بھی ہے۔ 1959ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو تخلیق ہوئے بھی 59 برس گزر چکے، مگر اب بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔
عالمی سنیما کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس پاکستانی آرٹ فلم کو قبول عام کا درجہ ملا، لیکن سابقہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان (اسلامی جمہوریہ پاکستان) میں یہ فلم قدرے گمنام رہی۔ ہندوستان میں بھی اس کا ذکر کچھ خاص نہ ہوا۔ کچھ عرصہ پہلے اس فلم کو دریافت کیا گیا ہے اور اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس فلم کی نمائش کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
پس منظر
29 مئی 1959ء کو ریلیز ہونے والی فلم جاگو ہوا سویرا واحد اردو فیچر فلم ہے جو 50 کی دہائی میں سابقہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان کے اشتراک سے بنائی گئی تھی۔ اس کے فلم ساز نعمان تاثیر کا تعلق کراچی سے تھا جبکہ کہانی نویس اور ہدایت کار اے جے کاردار لاہور کے رہنے والے تھے۔
کہانی کا مرکزی خیال معروف بنگالی ناول نگار مانک بندو پادھیائے کے ناول سے لیا گیا تھا۔ فلم کی کہانی ماہی گیروں کی غربت کا احوال دیتی ہے اور ان کی بھوک، بے سروسامانی اور خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنے کی چشم کشا داستان ہے۔
فلم کی تمام عکس بندی مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ ڈھاکا سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے گاؤں ستنوئی میں دریائے میگھنا کے کنارے اس فلم کو عکس بند کیا گیا۔ فلم کا زیادہ تر تکنیکی سامان بھی بحری راستے سے وہاں پہنچایا گیا۔
یہ ڈھاکا میں بننے والی پہلی پاکستانی اردو فلم تھی، جس میں مرکزی کردار بھی بنگالی اور بھارتی فنکاروں نے نبھائے۔ موسیقی اور دیگر تکنیکی شعبوں میں بھی بنگالی ہنر مندوں کی اکثریت شامل تھی، جبکہ کئی تکنیکی فنکاروں کا تعلق مغرب کی فلمی صنعت سے بھی تھا، جن میں سرفہرست معروف جرمن نژاد برطانوی سنیماٹوگرافر والٹر لیزلے تھے، البتہ فلم کے مکالمے اور گیت فیض احمد فیض نے لکھے تھے اور ان کی ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر ہی یہ فلم بن سکی۔
1960ء میں پاکستان کی جانب سے پہلی مرتبہ 32ویں آسکر ایوارڈز کے لیے کسی فلم کو غیر ملکی فلموں کے شعبے میں نامزد کرکے بھیجا گیا۔ اسے آسکر اکیڈمی کی طرف سے تو منتخب نہ کیا جاسکا مگر یہ اعزاز بھی کافی تھا کہ یہ دنیا کے معروف ترین فلمی ایوارڈز کے لیے پاکستان کی اولین فلمی نامزدگی تھی۔
2007ء میں فرانس میں منعقد ہونے والے سہ براعظمی فلمی میلے میں بھی اس فلم کی نمائش کی گئی۔ اس موقع پر پاکستان سے فیض کی صاحبزادی اور معروف مصورہ سلیمہ ہاشمی کے علاوہ اداکار جمال شاہ، اداکارہ ریما اور فلم ساز شیریں پاشا بھی وہاں موجود تھیں۔
اس فلم کو 2008ء میں نیو یارک فلم فیسٹیول سمیت دنیا کے متعدد فلمی میلوں میں دکھایا گیا، جبکہ ماسکو اور بوسٹن میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل فلم فیسٹیولز میں اس فلم نے 2 ایوارڈز اپنے نام کیے۔ یہ فلم امریکا کی رابرٹ فلے ہارٹی فلم فاؤنڈیشن کے غیرملکی شعبے میں بہترین فلم کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں ڈب کرنے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں تاحال دکھائی جا رہی ہے۔
2016ء میں فرانس میں منعقد ہونے والے 69ویں کانز فلم فیسٹیول میں اس فلم کو بازیاب فلموں کے زمرے میں شامل کیا گیا اور یہ فلم عالمی سنیما کی کلاسیکی فلم کے طور پر دکھائی گئی۔ ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسی سال ہندوستان میں ہونے والے ممبئی اکیڈمی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھی اسے دکھانے کی کوشش ہوئی مگر دونوں ملکوں کے مابین کشیدہ سیاسی حالات آڑے آگئے اور فلم نمائش کے لیے پیش نہ ہوسکی۔
یہ فلم اٹلی سے شروع ہونے والی فلمی تحریک 'نیو رئیل ازم' اور ہندوستان میں نووارد پیرالیل (متوازی) سنیما کی لہر سے متاثر تھی۔ ہندوستان میں ستیا جیت رائے جیسا قد آور فلم ساز اپنے فنی اظہار سے مقامی آرٹ سنیما میں تخلیقی بلندی کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا۔ ان کی ایک مقبول ترین فلم 'پاتھر پنچالی' میں بطور نائب ہدایت کار کام کرنے والے شانتی کمار چترجی نے فلم جاگو ہوا سویرا کے لیے بھی بطور نائب ہدایت کار خدمات انجام دیں، جبکہ ان کے معاون ظہیر ریحان تھے۔ انہوں نے بھی آگے چل کر بھی بنگالی سنیما میں اپنی جداگانہ شناخت بنائی۔
پاک فلمز ویب سائٹ کے مطابق جاگو ہوا سویرا باکس آفس پر بُری طرح ناکام ہوئی۔ کراچی میں جوبلی سنیما پر اس کی نمائش صرف چند روز ہی جاری رہ سکی۔ وجہ باکس آفس پر اس کی ناکامی تھی، لیکن یہ وہ دور ہے، جب ملک میں مارشل لاء بھی نافذ تھا اور اُس وقت کے فوجی آمر و صدر پاکستان ایوب خان نے بھی اس فلم کو پاکستان میں نمائش کرنے سے روکا۔ حکومت کی طرف سے اس فلم کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں، جس کی ایک بڑی وجہ فلم میں بائیں بازو کے رجحانات اور فلم میں اشتراکی نظریات کا پرچار ہونا تھا۔
مشرقی پاکستان کے عوامی حقوق کی استحصالی اور ساتھ ساتھ غربت کی عکاسی بھی فلم کے منظر نامے میں شامل تھی، جس کو مقتدر قوتوں نے بہت ناپسند کیا۔ پاکستان کے مؤقر انگریزی روزنامے ڈان کی جانب سے 1958ء سے 1969ء تک کے اہم واقعات پر شائع کی گئی تفصیلی رپورٹ میں مندرجہ بالا فلم کا تذکرہ بھی موجود ہے، جس کے ذریعے اس فلم کی اہمیت، نمائش کے سال اور ریلیز کے دن کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔
اُس وقت کے حکومتی رویے کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ جب مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس فلم کی نمائش میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو فلم ساز نعمان تاثیر نے اس فلم کا پریمیئر شو لندن میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں وہاں اُس وقت کے پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی مدعو کیا گیا، لیکن حکومت نے انہیں شرکت کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، یہ الگ بات ہے کہ وہ پھر بھی اس تقریب میں شریک ہوئے۔
ان منفی رویوں، حکومتی سرد مہری اور باکس آفس پر فلم کی ناکامی سے فیض صاحب بہت دلبرداشتہ ہوگئے تھے کیونکہ اس فلم میں انہوں نے ذاتی دلچسپی لی تھی۔ وہ فلم کی عکس بندی کے مقام پر بھی کئی مرتبہ گئے اور فلم کے ہر مرحلے میں شریک رہے۔ انہیں اس وقت تو کوئی مثبت نتیجہ نہ مل سکا لیکن وہ خود بھی شاید نہیں جانتے تھے کہ ان کی فلم پاکستانی آرٹ سنیما کا سنگ میل ثابت ہوگی۔
بازیافت کا معمہ
ماضی میں پاکستانی فلموں کو محفوظ کرنے کا کوئی باقاعدہ حکومتی شعبہ نہیں تھا، بلکہ اب بھی زیادہ تر انحصار انفرادی کوششوں پر ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں یہ فلم کئی دیگر نایاب فلموں کی طرح اسکرین پر آنے کے کچھ عرصے بعد گمشدہ ہوگئی۔ اب اس کی دوبارہ تلاش کے 2 بڑے دعویداروں میں سے ایک اسی فلم کے فلم ساز نعمان تاثیر کے صاحب زادے انجم تاثیر ہیں۔
انہوں نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے کراچی، پیرس اور لندن میں کی گئی کوششوں کے نتیجے میں اس فلم کو ڈھونڈ نکالا، پھر اس کے اچھی اور خراب حالت میں موجود پرنٹس کو انڈیا سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بہتر کروایا، تب کہیں یہ فلم دیکھے جانے کے قابل ہوئی ہے۔
دوسری طرف فرانس کے فلمی محقق اور سہ براعظمی فلمی میلے کے خالق فلپ جلادیو ہیں، جنہوں نے کراچی میں ہونے والے 'کارا فلم فیسٹیول' میں بھی شرکت کی تھی۔ انہوں نے اپنے دورہ پاکستان میں بی بی سی اردو سے بات کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس فلم کی تلاش کے لیے میں نے نہ صرف پاکستان بلکہ انڈیا، بنگلہ دیش اور روس تک تلاش کا دائرہ وسیع کیا۔ آخرکار مجھے یہ فلم لندن کے ایک فلمی آرکائیو سے حاصل ہوگئی۔‘
ان کے مطابق 2007ء میں انہوں نے اس کو پاکستان میں آ کر اسکرین کیا اور اس کی متعدد کاپیاں فلم کے متعلقہ افراد کو بھی پیش کیں، جبکہ ذرا سی کھوج لگائی جائے تو اس فلم کو فرانس میں ہونے والے ان کے فلمی میلے اور پھر کانز فلمی میلے میں بطور عالمی سنیما کی کلاسیکی فلم لیا گیا نہ کہ ایک پاکستانی آرٹ فلم کے طور پر جو کہ یہ 100 فیصد طور پر ہے۔
فلم کی بازیافت کے معاملے میں تیسرا فریق قدرے گمنام ہے۔ ان کا نام ڈاکٹر ذاکر حسین راجو ہے، جو بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک بنگالی ویب سائٹ کے مطابق یہ فلم ان بنگلہ دیشی محقق نے سب سے پہلے بازیافت کی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر کے مطابق، جب یہ 1990ء میں آسڑیلیا میں اپنا ڈاکٹریٹ مکمل کر رہے تھے تب انہیں یہ فلم آرکائیو سے ملی۔ انہوں نے اسے اپنی یونیورسٹی میں محدود طور پر دکھایا۔ پھر بنگلہ دیش میں بھی ایک فلم سوسائٹی کے تحت 90 کی دہائی میں ہی اس فلم کی محدود نمائش کی گئی، جبکہ انجم تاثیر اور فلپ جس وقت میں فلم کی بازیافت کی بات کر رہے ہیں، وہ 2007 اور اس کے بعد کا عرصہ ہے۔ اس معاملے پر دونوں فریقین کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
فلم پر تبصرہ
کہانی و مکالمے
بنگالی ناول نگار مانک بندو پدھیائے کے ناول بوٹ مین آف پدما پر مبنی اس فلم کو سنیما پر پیش کرنے کے لیے کہانی کی تراش خراش کرنے میں فیض صاحب نے خصوصی دلچسپی لی۔ انہوں نے اس کے مکالمے لکھتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھا کہ اردو اور بنگلہ زبانوں کے ایسے الفاظ شامل کیے جائیں، جن کے معانی ایک ہی ہوں یا قریب ترین ہوں۔ البتہ فلم کا اسکرین پلے، اسی فلم کے ہدایت کار اے جے کاردار نے لکھا۔ یوں دیکھا جائے تو 3 لکھاریوں کی مدد سے یہ کہانی پوری طرح سنیما کے پردے پر پیش ہوسکی۔ سادہ لیکن دلکش انداز میں کہانی کو بیان کیا گیا۔
فلم میں سابقہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں مچھیروں کی بستی دکھائی گئی ہے جہاں ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اپنی کشتی کا مالک بننا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ماہی گیر دن رات مشقت کرتے اور بستی میں ایک بااثر اور سود خور شخص کے ہاں اپنی محنت کا پیسہ جمع کرواتے، مگر وہ مالی اور اخلاقی طور پر ان کا استحصال کرتا تھا۔
اس کرب اور مشقت کے مابین کس طرح ماہی گیر اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں، یہ فلم اس کی عکاسی کرتی ہے۔ کہانی میں کوئی جھول نہیں، سیدھے سادھے انداز میں ایک مچھیرے اور اس سے جڑے رشتوں ناطوں، احساسات اور رویوں کو ایک لڑی میں پرو کر دکھایا گیا ہے۔ ہاں البتہ علامتی طور پر باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ فلم بین السطور میں اُس وقت مشرقی پاکستان کے عوامی حقوق کے استحصال کی مظہر ہے۔
جاگو ہوا سویرا موجودہ دور کے پاکستانی فلم سازوں کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ اگر آپ کے پاس کہانی موجود ہے تو وہ چاہے سادہ طریقے سے ہی پیش کی جائے، دل کو چھو سکتی ہے۔ اشتراکی نظریات اور انسانی جذبات کے سنگم سے کہانی کو دلکش انداز میں لکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بنگالی سنیما کے ناقدین کی اکثریت کو اس بات پر اعتراض رہا کہ بنگال کے پس منظر میں بننے والے فلم کی زبان اردو کیوں رکھی گئی اور اسی پہلو کو وہ فلم کی باکس آفس پر ناکامی کی وجہ قرار دیتے رہے، بجائے اس بات پر دادِ تحسین دینے کے کہ فلم کی پوری ٹیم، بشمول فیض صاحب نے جس طرح حکومتی ناراضگی کو مول لے کرعلامتی انداز میں فلم بنائی۔
فلم سازی، ہدایت کاری و دیگر تکنیکی شعبہ جات
یہ پاکستان کی واحد فلم ہے، جس میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)، مغربی پاکستان اور ہندوستان کے فنکاروں نے مل کر کام کیا تھا۔ ہندوستان میں جب ستیا جیت رائے اور دیگر فلم ساز نیو رئیل ازم کے زیرِ اثر فلمیں بنا رہے تھے، اس وقت پاکستانی ہنر مندوں نے بھی ایسی ہی کوئی فلم بنانے کا فیصلہ کیا۔ 2 فلم ساز کمپنیوں، سینچری فلمز کراچی اور فلم ڈے لائٹ لندن کے اشتراک سے یہ فلم بنی، جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے فلم ساز نعمان تاثیر نے نہ صرف فلم سازی و موسیقی بلکہ دیگر شعبوں میں بھی اپنے وسائل اور توانائی فراہم کی۔
اے جے کاردار کا پیشہ ورانہ پس منظر فوجی ملازمت کا تھا۔ وہ رائل نیوی کے اہلکار تھے اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی عملی طور پر شریک ہوچکے تھے۔ انہوں نے ملازمت سے فراغت کے بعد لندن اسکول آف آرٹس اینڈ گولڈ اسمتھ کالج سے فلم کی تعلیم حاصل کی۔ پھر تمام عمر وہ بطور فلمی ہدایت کار، اسکرین پلے اور فلم ساز کے طور پر متحرک رہے۔ انہوں نے پاکستانی سنیما میں متوازی سنیما کے انداز کو فروغ دینے کی سوچ کے تحت جاگو ہوا سویرا جیسی فلم بنانے کی کامیاب تخلیقی کوشش کی، لیکن انہیں باکس آفس پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس فلم میں 3 مختلف فلمی مراکز (مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان اور ہندوستان) کی شمولیت اور فنکاروں کا اشتراک، ہدایت کار کے دور اندیش ہونے کا ثبوت تھا، وقت نے جس کو ثابت بھی کر دیا۔ معروف آسکر ایوارڈ یافتہ جرمن نژاد برطانوی سنیماٹوگرافر والٹر لیزلے کے کیمرے کی تکنیک اور فریمز نے فلم کو چار چاند لگا دیے۔ بعد میں انہوں نے ایک اور بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی فلم ساز جمیل دہلوی کی ایک فلم بلڈ آف حسین میں بھی اپنی خدمات فراہم کیں۔
فلم کے نائب ہدایت کاروں میں ایک اہم شخصیت شانتی کمار چترجی کی تھی، جنہوں نے انڈین متوازی سنیما کے ایک بڑے ہدایت کار ستیا جیت رائے کے ساتھ بھی کام کیا ہوا تھا، جبکہ فلم کے ایک اور نائب ہدایت کار ظہیر ریحان، جو بنگالی صحافی اور ادیب بھی تھے، وہ بھی اس فلم کے اراکین میں ایک اہم رکن تھے۔ ان کا شمار مشرقی پاکستان کی پہلی اردو رنگین فلم بنانے والے ہدایت کاروں میں بھی ہوتا ہے۔
دیگر تکنیک کاروں میں سادھنا رائے (سنیماٹوگرافی)، جان فلیچر (ساؤنڈ ریکارڈسٹ)، اور بل بوویٹ (ایڈیٹر) شامل تھے۔ برطانوی اخبار اور ویب سائٹ دی گارجین میں علی نوبل احمد کا لکھا ہوا مضمون اس فلم کے کئی دیگر پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔
اداکاری و موسیقی
اس فلم کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ اس کے اداکاروں میں چند مرکزی کرداروں کو چھوڑ کر باقی سب اصل زندگی میں مچھیرے ہی تھے، جنہوں نے اپنی حقیقی زندگی کو فلم کے پردے پر اداکاری کی صورت میں پیش کیا، اسی لیے فلم حقیقی تاثر لیے ہوئے تھی۔
مرکزی کرداروں میں ہیرو کے طور پر کام کرنے والے اداکار خان عطا الرحمٰن بنگالی اداکار تھے، جبکہ ان کے مدمقابل کام کرنے والی خاتون اداکارہ ترپتی مترا کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ وہ انڈین تھیٹر سے وابستہ معروف اداکارہ اور اشتراکی نظریات کی مالک باشعور خاتون تھیں۔
دیگر اداکاروں میں قاضی خالق، مینا لطیف، نسیمہ خان، موئینا، رضوان، شمس الن مہار، مانو، پنو اور روکسی شامل تھے۔ اس میں زورین راکشی نے بھی اہم اور مرکزی کردار نبھایا تھا، جبکہ بطور اداکار یہ ان کی واحد فلم تھی۔ وہ ہنر کے اعتبار سے ایک مصور تھے، لیکن ان کی شہرت کا بڑا حوالہ یہ فلم بنی۔
اس فلم کے موسیقار تمرباران تھے، جنہوں نے 1935ء میں سہگل کی فلم دیو داس کا میوزک بھی دیا تھا۔ اس فلم کے گلوکاروں کے بارے میں معلومات ناپید تھیں جبکہ فلم ساز نعمان تاثیر اور راحت غزنوی بھی اس میں ان کے معاون موسیقار تھے۔ گلوکاروں کے حوالے سے نام معلوم نہیں ہو پا رہے تھے جس کے لیے فلمی محقق ملک یوسف جمال کی مرتب کردہ معلومات، جو مجھے محقق اور مؤرخ عقیل عباس جعفری کے ذریعے سے حاصل ہوئیں، کو یہاں شامل کیا تو گلوکاروں کے متعلق معلومات مکمل ہوئی ہیں۔
ان دونوں مؤرخین کے مطابق اس فلم کے گلوکاروں میں الطاف محمود، راحت غزنوی، محبوبہ حسنات، نیلوفر اور خان عطا الرحمٰن نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ فلم کا مرکزی گیت 'بھور ہوئی گھرآؤ ماجی' ہے، جبکہ دیگر 3 گیتوں میں، 'اب کیا دیکھیں راہ تمہاری'، 'ڈوب گیا دن شام ڈھلی' اور 'موتی ہو کہ شیشہ ہو' شامل ہیں۔
آخری گیت معروف رقاصہ 'راکشی' پر فلمایا گیا تھا، مگر موجودہ دستیاب پرنٹ میں وہ گیت موجود نہیں ہے، بقول سلیمہ ہاشمی ’وہ گیت اُس وقت کا آئٹم نمبر تھا، جس کو فلمانے کے لیے خصوصی طور پر ان معروف رقاصہ کو پیشکش کی گئی تھی جو انہوں نے قبول بھی کرلی۔‘
فلم میں پس منظر کی موسیقی اور گیتوں میں بانسری اور ستار جیسے سازوں کے استعمال نے مناظر اور گیتوں کی دھنوں کے اثر کو دوبالا کر دیا۔ فلم کا مرکزی گیت ’بھور ہوئی گھرآؤ ماجی‘ اپنے اندر ایک گہری اداسی کی کیفیت لیے ہوئے ہے، جس کو سننے اور دیکھنے کے بعد کچھ لمحوں کے لیے پھر کسی اور چیز کو سننے اور دیکھنے کی تمنا نہیں ہوتی۔
آخری بات
جاگو ہوا سویرا کے تناظرمیں دیکھا جائے تو پاکستان کمرشل سنیما سے بہت پہلے آرٹ سنیما کی بدولت عالمی سنیما کے حلقوں میں رسائی حاصل کر چکا تھا۔ اس سلسلے کو پیشہ ورانہ انداز میں جاری نہ رکھے جانے کی وجہ سے اس نوعیت کے سنیما کی پاکستان میں تقریباً موت ہوگئی۔
باکس آفس اب بھی ایسی فلموں کو قبول نہیں کرتا جس میں آرٹ سنیما کی جھلک آتی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ذہنی بلوغت اور شعوری بلندی کی جس سطح پر ہمارے فلم بین کو ہونا چاہیے، وہ وہاں تک نہیں آسکا۔ نتیجے میں ہوا یہ کہ فلم ساز نیچے اتر کر فلم بینوں کی ذہنی سطح تک آگئے، پھر ظاہر ہے کہ فلم بھی معیار کی سیڑھی سے نیچے اتر گئی۔
ہم اب بھی عالمی سنیما میں اپنی کھوئی ہوئی شناخت بحال کر سکتے ہیں، اگر اپنی بنیادوں پر کام کرلیں اور کمرشل سنیما کے راستے پر ہی ایک پگڈنڈی آرٹ سنیما کی بھی نکال لیں تو تخلیق اور ضرورت کا توازن قائم ہو جائے گا۔ اس کی ایک روشن مثال جاگو ہوا سویرا ہے، کیوں کہ اپنے مسائل اور احتجاج کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو یا اپنا درست قومی تشخص حاصل کرنے کی خواہش، ہر صورت میں فلم کا میڈیم ہی اثر رکھتا ہے۔
جاگو ہوا سویرا کو دیکھتے ہوئے فیض صاحب کے چند اشعار آنکھوں کے سامنے تصویر بن کے ابھرتے ہیں۔ یہ شاعری جو انہوں نے ’ڈھاکا سے واپسی پر‘ کے عنوان سے لکھی تھی، یہ شاعری اور فلم دونوں طرف کے روشن خیال ذہنوں اور نرم دلوں میں پنپنے والی کیفیات کا اظہار ہے، اگر کوئی محسوس کرے تو:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (11) بند ہیں