• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

احسان مانی کی آمد اور ان سے توقعات!

شائع September 7, 2018

آج کل پورے ملک میں تبدیلی کی لہر پھیلی ہوئی ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ بھی تبدیلی کی اس لہر سے خود کو نہیں بچا سکا۔ ملک میں پھیلنے والی اس تبدیلی کی وجہ ملکی اقتدار کے ایوانوں تک سابق کپتان عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رسائی ہے۔

ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی اس پارٹی کو بہت سے معاشی اور معاشرتی چیلنجز درپیش ہیں۔ پارٹی کے سربراہ عمران خان کی کرکٹ کے کھیل سے وابستگی کے باعث کھلاڑیوں اور عوام نے ملک میں کھیلوں کے موجودہ معیار میں بہتری کے لیے ان سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں۔

پاکستان کے ہر کھیل میں سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بھی ہزیمت اُٹھانی پڑتی ہے۔ فٹبال کی بین الاقوامی تنظیم فیفا نے سیاسی مداخلت کے باعث اکتوبر 2017ء میں پاکستان کی رکنیت منسوخ کردی تھی۔ 6 ماہ بعد مارچ 2018ء میں فیفا نے پاکستان کی رکنیت اس یقین دہانی کے بعد بحال کی کہ منتخب نمائندے بغیر کسی دباؤ کے اپنا کام انجام دیں گے۔ کھیلوں کے شائقین پُرامید ہیں کہ عمران خان اس معاملے کی بھی تفصیلی تحقیقات کریں گے اور فٹبال کے کھیل کی بہتری کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔

عوام کی کرکٹ کے کھیل سے جذباتی وابستگی اور سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے نامزد چیئرمین نجم سیٹھی کے استعفے کے باعث عمران خان نے کھیلوں میں بہتری لانے کی اس مہم کا آغاز پاکستان کرکٹ بورڈ سے کیا ہے۔ سال 2013ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین پر 18ویں آئینی ترمیم کے تحت مرتب ہونے والے اثرات کو استعمال کرتے ہوئے وزیرِاعظم پاکستان کو کرکٹ بورڈ کا پیٹرن ان چیف بنا دیا گیا۔ اس سے قبل صدرِ پاکستان پیٹرن ان چیف ہوا کرتے تھے اور کرکٹ بورڈ کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے۔

پڑھیے: اسٹیڈیم کہانی: پاکستان کے مشہور کرکٹ میدان

عمران خان نے کرکٹ بورڈ کا پیٹرن ان چیف ہونے کی حیثیت سے احسان مانی کو بورڈ کے چیئرمین کے طور پر نامزد کیا حالانکہ ماضی میں عمران خان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی پیٹرن ان چیف کی طرف سے براہِ راست نامزدگی کے خلاف رہے ہیں۔ انہوں نے (اس وقت کے وزیرِاعظم نواز شریف کی طرف سے) نجم سیٹھی کی براہِ راست نامزدگی پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

نئی حکومت کے آنے کے بعد نجم سیٹھی نے اپنا استعفیٰ وزیرِاعظم کو بھجوا دیا تھا اور شاید اسی تناظر میں عمران خان نے بورڈ کا نظم و نسق چلانے کے لیے فوری طور پر احسان مانی کو نامزد کردیا۔ کرکٹ کے ایک شائق کی حیثیت سے میں عٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍمران خان سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں ایسا نظام رائج کرنے میں کامیاب ہوں گے جس کے باعث کرکٹ بورڈ ہر طرح کے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہوکر کرکٹ کی بہتری کے لیے اقدامت کرسکے گا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بننے سے پہلے نجم سیٹھی کی کھیلوں سے کوئی وابستگی نہیں تھی۔ ان کے مقابلے میں احسان مانی تقریباً 30 سال سے مختلف حیثیتوں میں کرکٹ کے کھیل کے انتظام و انصرام سے منسلک ہیں۔ احسان مانی ماضی میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک رہے ہیں۔ وہ 1996ء میں ایشیاء میں ہونے والے عالمی کپ کی انتظامی کمیٹی میں بھی متحرک کردار ادا کرچکے ہیں۔

نامزدگی سے پہلے عمران خان اور احسان مانی کی ملاقات: فوٹو سوشل میڈیا
نامزدگی سے پہلے عمران خان اور احسان مانی کی ملاقات: فوٹو سوشل میڈیا

انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی) میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں اور وہ 2003ء سے 2006ء کے دوران آئی سی سی کے صدر بھی رہے ہیں۔ احسان مانی کے آئی سی سی کے ساتھ مراسم پاکستان کرکٹ کے فروغ کے لیے مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان کو اکثر شکایت رہتی ہے کہ آئی سی سی اپنے فیوچر ٹور پروگرام میں پاکستان کو نظر انداز کرتا ہے، لیکن احسان مانی کی آمد کے بعد میں امید کرتا ہوں کہ یہ شکایت دور کرنے میں مدد ملے گی۔

احسان مانی کی قیادت میں تشکیل پانے والے موجودہ کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ کے معاملات میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے کو بھی بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کا فارمیٹ ہر سال تبدیل کردیا جاتا ہے۔ 71 سال کے عرصے میں کرکٹ کو چلانے والے یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہیں کہ ہمارا ڈومیسٹک اسٹرکچر آخر ہونا کیا چاہیے۔

کبھی ہم علاقائی کرکٹ کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی محکموں کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارے اربابِ اختیار کو یہ ادراک ہی نہیں کہ ہمارے ڈومیسٹک کرکٹ میں کتنے چار روزہ، سہ روزہ یا ایک روزہ میچ ہونے چاہیئں۔ میدانوں کی دگرگوں حالت بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ میچوں کی پچز تیار کرنے والے گراؤنڈز مین بھی پچ تیار کرنے کی بنیادی تربیت نہیں رکھتے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں عوام کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: قومی کرکٹ بچانی ہے تو اسکول کرکٹ بحال کریں

وزیر اعظم عمران خان علاقائی کرکٹ کے حامی ہیں جبکہ موجودہ چیئرمین احسان مانی محکموں کے مداح ہیں۔ پاکستان کے مخصوص زمینی حالات کے تناظر میں میرا خیال ہے کہ ہم محکموں کو کرکٹ سے علیحدہ نہیں کرسکتے۔ ہمارے ابھرتے ہوئے کھلاڑی کرکٹ کی دنیا میں بڑا نام بننے کی چاہت میں تعلیم مکمل نہیں کر پاتے اور اس تناظر میں مختلف محکمے ان کھلاڑیوں کو نوکریاں فراہم کرکے ان کا مستقبل محفوظ کرتے ہیں اور ان کو معاش کی فکر سے آزاد کرکے پوری توجہ کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

نجم سیٹھی نے اپنے دور میں پاکستان سپر لیگ کا آغاز اور کسی حد تک بین الاقوامی کرکٹ کو پاکستان لاکر بہت شاندار کارنامہ انجام دیا ہے۔ امید ہے کہ نیا آنے والا بورڈ ان شعبوں میں مزید اقدامات کرے گا اور پاکستان مکمل طور پر بین الاقوامی کرکٹ کے منظرنامے پر واپس آجائے گا۔

کرکٹ کے ایک مداح کی حیثیت سے میں چاہتا ہوں کہ نئے چیئرمین احسان مانی اور ان کی ٹیم کرکٹ کے کھیل کی بہتری کے لیے درج ذیل اقدامت کرے:

گراؤنڈز کی حالت بہتر کریں

پاکستان میں جن میدانوں پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی جاتی ہے ان کی حالت بہت خراب ہے۔ سابق کپتان مصباح الحق نے لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن (LCCA) گراؤنڈ کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں میدان کے ڈریسنگ روم کی ابتر حالت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ نئے کرکٹ بورڈ سے توقع ہے کہ میدانوں کی حالات بہتر کرنے پر توجہ دی جائے گی تاکہ نوجوان کرکٹرز کو کھیلنے کے لیے بہتر ماحول میسر آسکے۔

گراؤنڈز مین کی تربیت کا انتظام کریں

یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ پچ بنانے کے فن سے آشنا ہو سکیں اور ڈومیسٹک کرکٹ کی سطح پر کھیلنے والے کھلاڑی مختلف انداز کی پچوں پر پریکٹس کرکے اپنے کھیل میں بہتری لاسکیں۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں ہر میدان پر مختلف انداز کی پچیں تیار ہوں۔ کسی پچ پر فاسٹ باؤلنگ کرنے والوں کو مدد ملے اور کہیں پر اسپنرز کو مدد حاصل ہو۔ مختلف نوعیت کی پچوں پر کھیلنے سے کھلاڑیوں کے کھیل میں بہتری آئے گی اور ان میں اعتماد بھی پیدا ہوگا۔

تعلیمی اداروں میں کرکٹ کی بحالی

پاکستان کی آزادی کے وقت ڈومیسٹک اسٹرکچر موجود نہیں تھا لیکن اسکول اور کالج کی سطح پر مضبوط اسٹرکچر کی موجودگی کی وجہ سے ہمارے پاس اگلی کئی دہائیوں تک انتہائی مہارت یافتہ کھلاڑی تیار ہوتے رہے۔ اس لیے اس نظام کو واپس لینے اور تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی مزید حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام براہِ راست پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی میں ہونا چاہیے۔

غیر قانونی کاموں سے بچاؤ کی تربیت

ڈومیسٹک کرکٹ کی سطح پر ہی کھلاڑیوں کو ممنوعہ ادویات کے استعمال سے بچاؤ اور میچ فکسنگ کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں تاکہ یہ کھلاڑی ان معاملات سے پہلے سے آشنا ہوں اور قومی ٹیم میں شمولیت کے بعد اپنی کسی منفی حرکت کی وجہ سے ملک کی بدنامی کا باعث نہیں بنیں۔

بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کے اقدامات

پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ آئی سی سی اور دیگر ممالک کے کرکٹ بورڈز کے نمائندوں کو پاکستان کے حالات میں آنے والی بہتری کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کریں تاکہ ان بورڈز کے اعتماد میں اضافہ ہو اور یہ جلد از جلد اپنی ٹیموں کو پاکستان بھیجنے پر آمادہ ہوں۔

ڈومیسٹک کرکٹ کا ایک مکمل اور جامع فارمیٹ متعارف کروایا جائے

فارمیٹ متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا بھی نہایت ضروری ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کے فارمیٹ میں ہر سال تبدیلی کرکے ہمارے اربابِ اقتدار کرکٹ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

جانیے: درخشاں یادیں سمیٹے پاکستان کا واحد کرکٹ میوزیم

نئے آنے والے چیئرمین احسان مانی نے اپنی اولین پریس کانفرنس میں عندیہ دیا ہے کہ وہ ایک ایسا ڈومیسٹک سسٹم لانا چاہتے ہیں جو حقیقی معنوں میں پاکستان کا اپنا ڈومیسٹک سسٹم ہوگا۔ امید ہے کہ جو بھی نیا ڈومیسٹک سسٹم آئے وہ تسلسل کے ساتھ کم از کم 4 سال جاری رہے تاکہ اس سے پاکستان کی کرکٹ پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔

پاکستان کا قومی کھیل تو ہاکی ہے لیکن ہمارے عوام کرکٹ کے بہت زیادہ مداح ہیں۔ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کمزور ڈومیسٹک اسٹرکچر کے باوجود بین الاقوامی سطح پر شاندار کارکردگی دکھاتی رہی ہے۔ امید ہے کہ احسان مانی ایک تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے مسائل حل کریں گے اور پاکستان کرکٹ کو ترقی کی نئی منازل کی طرف گامزن کریں گے۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024