• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیلِ نو کردی گئی

شائع September 6, 2018

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی تشکیل نو کردی جس میں زیادہ تر اراکین صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق پاکستان پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم واپس لینے کے مبینہ منصوبے کے خلاف خبردار کیا تھا جس کے تحت صوبوں کو متعدد معاملات میں خود مختاری حاصل ہے۔

وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ (آئی پی سی) کے نوٹی فکیشن کے مطابق 8 اراکین پر مبنی کونسل کی سربراہی وزیراعظم عمران خان کریں گے، جبکہ اراکین میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور 2 وفاقی وزرا، وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ اور وزیر برائے صنعت و پیداوار شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’ڈیمز کی تعمیر کیلئے جمع ہونے والے فنڈز کسی کو کھانے نہیں دیں گے‘

نوٹی فکیشن کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین نے آئین کے آرٹیکل 153 کے تحت وزیر اعظم کی تجویز پر مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیلِ نو کی منظوری دی۔

نو تشکیل شدہ کونسل میں 4 اراکین کا تعلق سندھ سے ہوگا جبکہ گزشتہ دورِ حکومت میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں کونسل کے 4 اراکین کا تعلق پنجاب سے تھا اور اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ہر صوبے کے 2، 2 اراکین شامل تھے۔

واضح رہے کہ اسد عمر موجودہ وزیر خزانہ جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈٖی اے) کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو وزارت بین الصوبائی رابطہ تفویض کی گئی تھی، اس کے علاوہ معروف کاروباری شخصیت عبدالرزاق داؤد وزیر اعظم کے مشیر برائے صنعت و پیداوار ہیں جن کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔

مزید پڑھیں: مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس، پاکستان کی پہلی آبی پالیسی کی منظوری

آئین کے آرٹیکل 153(2) کے تحت وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مشترکہ مفادات کونسل میں وقت کے ساتھ ساتھ 3 وفاقی وزرا کو نامزد کرسکیں۔

خیال رہے کہ کونسل کی ساخت اس لیے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں تمام فیصلے اکثریتی رائے کے تحت ہوتے ہیں، نوتشکیل شدہ کونسل میں زیادہ تر اراکین حکمراں اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے واحد رکن ہیں۔

واضح رہے کہ 1973 کے آئین کے تحت قائم کی جانے والی مشترکہ مفادات کونسل کی اہمیت میں 18ویں ترمیم کے بعد کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، کیونکہ یہ کونسل صوبوں اور وفاق کے درمیان معاملات کو حل کرتی ہے اور ہر 3 ماہ میں اس کا ایک اجلاس ہونا لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے کوٹہ سسٹم کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سمیت پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو 18ویں ترمیم کو واپس لینے کے مبینہ ارادے کے خلاف خبردار کیا تھا۔

اس کے علاوہ پی پی پی رہنما نثار کھوڑو نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ صوبوں کی محرومیوں کو دور کرنے کے بجائے 18ویں ترمیم کو واپس لینے، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں صوبوں کا حصہ کم کرنے اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کو ختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں: وفاق پر این ایف سی ایوارڈ کے نفاذ کیلئے دباؤ

ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ قومی خزانے میں 70 فیصد حصہ ڈالتا ہے جس کی وجہ سے این ایف سی میں اس کے حصے میں اضافہ ہونا چاہیے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت فاروق لغاری کا دور واپس لانا چاہتی ہے جس میں صوبوں کا حصہ 37 فیصد جبکہ وفاق کا حصہ 67 فیصد تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024