پاکستانی مصوری کی تاریخ، منی ایچر آرٹ اور حاجی محمد شریف
ہمارے ہاں تصویر بنانا ایک طویل عرصے تک اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، تاہم مغل دور میں اگر ہم دیکھیں تو مصوری باقی دیگر تمام فنون کے ساتھ ساتھ جیسے تیسے چلتی رہی اور اپنے آپ کو منواتی بھی رہی۔
ویسے تو اگر ہم پاکستانی مصوری کی جڑیں تلاش کرنے جائیں گے تو ہمیں اجنتا اور ایلورا کے غاروں سے بھی گزرنا پڑے گا، موہن جو دڑو کی ڈانسنگ گرل سے بھی ملاقات کرنی پڑے گی اور ٹیکسلا میں پائے جانے والے مہاتما بدھ کے مجسموں سے بھی ہیلو ہائے کرنی ہوگی۔
ایسا کس طرح ممکن ہے کہ ہم سیدھا 1947ء پر لینڈ کر جائیں؟ اصل میں اپنے ماحول سے، اپنی تاریخ سے، اپنی جڑوں سے کٹ کر ہم کسی بھی طرح اپنے کسی فن کو سمجھ نہیں سکتے۔ ادھر تو پھر بھی پینٹنگ کی بات ہو رہی ہے۔ اپنے لباس کی مثال ہی لیجیے، ہم لوگ مغرب کی طرح پتلون قمیص پہنے برِصغیر میں کیوں نہیں آباد ہوئے؟ آج بھی گرمیوں میں دھوتی کُرتا بلکہ صرف دھوتی ہمارے بزرگوں کا پسندیدہ لباس کیوں ہے؟ کیا وجہ تھی کہ پنجابی اور پٹھان شلوار پہنتے تھے اور ادھر یو پی لکھنو میں پائجامے کے علاوہ ہر چیز غیر مہذب تھی؟ تو بنیادی طور پر موسم، تہذیب، روایات، عقیدے، رسوم و رواج یہ سبھی چیزیں مل کے ہمارے دماغوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، پھر چاہے وہ فن و ثقافت ہو یا پھر روزمرہ کا لباس، ہر چیز کو بار بار متاثر کرتی رہتی ہیں۔
ہمارے ساتھ تاریخ میں ایک ہاتھ ہوا لیکن اس کے فائدے اور نقصان دونوں سے ہی نظریں چرائی نہیں جاسکتیں۔ ہوا یہ کہ مغل دور میں اجنتا کے غاروں کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔ اس دور میں بھی تبت اور بنگال والوں کی مصوری ایرانی اور ترک مصوری سے الگ تھی لیکن چونکہ حکمرانی مغلوں کے پاس تھی اس لیے اسکول آف آرٹ کی تعریف اور اسے باقاعدہ اسٹیبلش کرنا بھی انہی کی ذمہ داری تھی۔ اگر اس دور میں اجنتا اور ایلورا کے غاروں میں پائے جانے والے مجسمے اور تصویریں دریافت ہوجاتیں تو ایک اچھی بات یہ ہوتی کہ ہماری مصوری ’ٹو ڈائمینشنل‘ نہ ہوتی، جو طویل عرصے تک رہی۔
مزید پڑھیے: یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں مصوری کی نئی جہتیں (حصہءِ اول)
ٹو ڈائمینشنل یعنی ایسی مصوری جسے ہم مغل منی ایچر کہتے ہیں۔ شہزادی کے ہاتھ میں گلاب ہے اور اس کے چہرے کا ایک رخ ہم دیکھ رہے ہیں۔ یا کوئی بہت وسیع و عریض باغ ہے لیکن باغ اور اس کی بارہ دری ہمیں کسی نقشے کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ اس میں ہرگز کوئی برائی نہیں تھی لیکن بہرحال یہ ایک باہر سے لائی گئی چیز تھی۔
تہذیبوں کے ٹکراؤ میں فاتح مغل تھے جو ترک تھے اور جو ایرانی یا چینی آرٹ سے متاثر تھے۔ اس مصوری کا اپنا ایک انداز تھا، ایک مزاج تھا، لیکن بہرحال کسی چیز کو بیان کرنے کی صلاحیت اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی اجنتا کے غاروں یا ٹیکسلا کے آرٹ میں ہے یا جو کسی حد تک مغربی مصوری میں پائی جاتی ہے۔
ریمبراں (Rembrandt) سولہویں صدی میں ادھر ہمارے والے مغل آرٹ سے متاثر ہوچکا تھا۔ وہ ہالینڈ سے ہندوستان کبھی نہیں آیا لیکن ہندوستانی تصویریں اس کے پاس پہنچ چکی تھیں۔ اس نے 24 سے 25 مغل دور کی تصویروں کے اسکیچز بنائے جو آج بھی مختلف کلیکشنز میں موجود ہیں لیکن وہ ان کی فضا بہرحال نہیں بناسکا۔ ریمبراں کے بنائے اسکیچ ہمیں سیدھے سادھے خاکے نظر آتے ہیں جن میں مغل آرٹ کی ٹریڈ مارک خوبی نہیں ہے، نہ وہ یک رخے چہرے ہیں، نہ وہ باریکی ہے اور نہ وہ رنگا رنگی ہے۔ تو یہ خیر ایک بات ہوگئی کہ ایرانی آرٹ ہندوستانی آرٹ سے مختلف تھا جو یہاں آیا اور ہماری روایات میں جیسے تیسے ضم ہوکر مغلیہ فنِ مصوری کہلایا اور اس کی دھومیں آج تک مچی ہوئی ہیں۔
نکتہ یہ تھا کہ اگر مغل دور میں اجنتا کے غار دریافت ہوجاتے تو کیا ہوتا؟ تو شاید ہماری مصوری ویسی ہوجاتی جیسی عبدالرحمن چغتائی نے بہت بعد میں کی۔ لیکن ایک نقصان بھی ہونے کا اندیشہ تھا۔ آئے روز کی جنگوں میں اگر ان غاروں کی شامت آتی تو آج بہرحال دنیا ایک عظیم ثقافتی ورثے کی بربادی کا رونا رو رہی ہوتی جیسا بامیان میں بدھا کے مجسموں کے ساتھ ہوا یا عراقی آثارِ قدیمہ کا حشر ہوا۔ ہم جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے، داستان باقی ہوتی لیکن جائے وقوع کی چھٹی ہوچکی ہوتی۔
انگریز نسبتاً زیادہ کلچرڈ تھے۔ 1819ء میں اجنتا کے غار دریافت ہوئے تو انہوں نے اس جگہ کی کافی دیکھ بھال کی اور اسے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا۔ ہمارے ٹیکسلا پر بھی سب سے زیادہ تحقیقاتی کام بھائی جان مارشل نے کیا اور ابھی پچھلی صدی میں ہی کیا۔ چونکہ ان دونوں جگہوں پر پائے جانے والے بت کافی بڑے سائز کے تھے اور انہیں یہاں سے ہلانا ممکن نہیں تھا اس لیے یہ ہمارے پاس ہی رہ گئے ورنہ آج یہ بھی برٹش میوزیم کے کسی کونے میں پڑے ہوتے لیکن بہرحال محفوظ زیادہ ہوتے۔
ایک انگریز اور ہے جس کے ذکر کے بغیر ہم پاکستانی مصوری پر لینڈ نہیں کرسکتے اور وہ ہے جان لاک ووڈ کپلنگ (John Lockwood Kipling)۔ کیا بندہ تھا قَسم سے! وہ مصور تھا، وہ مجسمہ ساز تھا، وہ آرکیٹیکٹ تھا، وہ صحافی تھا، وہ لکھاری تھا، وہ ریسرچر تھا، وہ اور بھی کافی کچھ تھا لیکن اس کا سب سے اہم کام میو اسکول آف آرٹس کی بنیادیں رکھنا تھا، جسے اب ہم این سی اے (نیشنل کالج آف آرٹس) کے نام سے جانتے ہیں۔
مزید پڑھیے: یورپی نشاۃِ ثانیہ کے اولين مصور جاٹو ڈی بونڈون
1875ء میں وہ لاہور میوزیم کا پہلا کیوریٹر بن کر آیا اور ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی اسے سونپی گئی۔ وہ بندہ اس زمین سے پیار کرتا تھا۔ اس کی کتابیں اور اس کی بنائی عمارتیں اگر ہم آج بھی دیکھیں تو ہمیں لگے گا جیسے یہ اس دھرتی کے عشق میں پھنسی ہوئی ایک گوری روح تھی۔
Beast and Man in India ہوگئی یا Tales of the Punjab, Told by the people یہ دونوں کتابیں خاص طور پر اس کی محنت اور ادھر والوں سے اس کا پیار منعکس کرتی ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہمارے یہاں جتنے بھی آرٹسٹ اور مصور رہے ان میں سے اکثر کا تعلق میو اسکول آف آرٹس سے کہیں نہ کہیں جا کر نکلتا ہے مثلاً استاد حاجی محمد شریف کی بات کرتے ہیں۔
لارڈ نیپئر کو 1871ء میں کہیں ہندوستانی آرٹ کی فکر ہوئی تو انہوں نے سارے راجوں، مہاراجوں اور نوابوں کو بلا کے ایک لیکچر دیا اور اس بات پر تان توڑی کہ بابا آپ لوگوں کے پاس وسائل ہیں، آپ نہیں کریں گے تو آرٹ کی سرپرستی کون کرے گا؟ اس کے بعد یہ ہوا کہ باقاعدہ بڑی سرکار کو خوش کرنے کے لیے بھی راجواڑوں میں شاعروں کی طرح مصوروں کو بھی شمولیت دی جانے لگی۔
استاد حاجی محمد شریف 18ویں صدی کی آخری دہائیوں میں پیدا ہوئے۔ ریاست پٹیالہ میں ان کے والد استاد بشارت اللہ سرکاری طور پر مصوری کے لیے مقرر تھے۔ ان کے دادا استاد اللہ دتہ بھی ریاستی مصور تھے۔ 17 سال کی عمر کے محمد شریف اتنا کام سیکھ چکے تھے کہ وہ بھی پٹیالہ دربار سے بحیثیت مصور وابستہ ہوگئے۔
ان کے والد انہیں گھڑی ساز بنانا چاہتے تھے لیکن مہاراجہ پٹیالہ ان میں فن کا جوہر دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے ذاتی طور پر گھر والوں سے بات کی تو استاد شریف کے لیے راستہ مزید آسان ہوگیا۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ پاکستان میں کوئی ایک ماہر فن ایسا ہو جو مغل منی ایچر آرٹ اگلی نسل تک منتقل کرجائے۔ یہ کام استاد شریف نے بخوبی کیا۔ عام بندے کو وہ صرف ڈاک ٹکٹ پر ملیں گے جو سرکار نے ان کی کسی برسی پر ایشو کیا تھا ورنہ اب ان کا نام اتنا زیادہ مشہور نہیں رہا۔
منی ایچر میں سب سے اہم چیز پینٹنگ کے لیے کاغذ تیار کرنا تھا۔ باقی سب کچھ ایک طرف رکھیں، صرف یہی کام اس قدر طویل اور انتظار کرنے والا ہے کہ لوگ اس سے بور ہوجاتے ہیں۔ مختلف طرح کے کاغذوں کی تہیں باقاعدہ ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کے وصلی تیار کی جاتی تھی۔ وصلی یعنی مغل منی ایچر کا کینوس۔ اس کے بعد باقی کہانی شروع ہوتی تھی، رنگ بنانا، سونے کا رنگوں میں استعمال، پتھروں کا اور جڑی بوٹیوں کا استعمال، گلہری کی دم سے برش بنانا، مطلب اچھا خاصا آزمائش والا فن تھا اور وہ اس کے ماہر استاد تھے۔
1945ء میں انہیں کہیں میو اسکول آف آرٹس سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تو وہ بخوشی اس کے آرٹ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہوگئے۔ وہ درویش آدمی تھے۔ ان کے آس پاس کی پوری دنیا مغربی مصوری سے شدید متاثر تھی لیکن استاد شریف چپ چاپ اپنے کام میں لگے رہتے تھے۔ جب ٹیگور 1907ء میں ڈی پی رائے اور نندہ لال بوس وغیرہ کے ساتھ ماڈرن اسکول کی بنیاد ڈال رہے تھے شریف تب بھی اپنی منی ایچر سے جڑے رہے۔
جب پورے برِصغیر کو پکاسو والے کیوبزم کا بخار چڑھا تھا شریف اس وقت بھی سر جھکائے اپنا کام کر رہے تھے۔ جب امرتا شیر گل پال گوگین کے رنگوں اور ٹیکنیک سے متاثر ہوکر اسے اپنی تصویروں میں خوبصورتی سے شامل کر رہی تھیں استاد شریف تب بھی چپ چاپ اپنی دھن میں مگن تھے۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم تھا کہ مصور جس وقت اپنا برش چھوڑ کر کسی اور لائن پر لگ جاتا ہے وہیں سے اس کی بربادی شروع ہوتی ہے۔ ان کی مہارت منی ایچر تھی، ان کی محبت منی ایچر تھی جس کا ساتھ انہوں نے کبھی نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ تھی کہ 1924ء میں جب ان کی تصویروں کی ایک نمائش لندن میں ہوئی تو انہیں بہت شہرت ملی۔ بڑے بڑے امرا و روسا نے ان کی تصویریں خریدیں اور سرکار انگلشیہ نے انہیں آنریری ممبر آف برٹش امپائر کا خطاب بھی دیا۔
مزید پڑھیے: یورپی مصوری میں زرد رنگ کی تاریخی اور معاشی اہمیت
استاد شریف ایک روایت پسند بزرگ تھے۔ ان کا حلیہ، ان کے پڑھانے کا انداز، تصویریں ٹھیک کرنے کا طریقہ سب کچھ دیسی تھا۔ اپنی روایات سے جڑا ہوا اور شفیق بزرگوں کے جیسا۔ منی ایچر مصوری ہندوستانیوں کے دوسرے فنون کی طرح نسل در نسل ہی چلتی تھی۔ جیسے باپ کلاسیکل موسیقار ہے تو سارے گن اپنے بیٹوں کو دے گا، ماں رقاصہ ہے تو سب سے انوکھے توڑے اپنی بیٹیوں کو ہی سکھائے گی ویسے ہی باپ مصور ہے تو رنگ اور کاغذ بنانے کی انوکھی تکنیکیں صرف اس کی اولاد تک ہی محدود رہتی تھیں۔
استاد شریف نے منی ایچر مصوری پڑھانی شروع کی تو چاہے وصلی ہو، چاہے رنگ ہوں، چاہے واش تکنیک ہو، چاہے برش بنانا ہو، ان سب کی بنیادی معلومات اپنے شاگردوں کو ضرور سکھائیں۔ جس زمانے وہ این سی اے میں استاد تھے، وہیں ایک اور استاد شیخ شجاع اللہ بھی ہوتے تھے۔ تب اس درس گاہ کے پاس منی ایچر کے 2 استاد اور فائنل امتحانوں میں اس فن کو جانچنے کے نمبر بھی صرف 2 ہوا کرتے تھے۔ ماسٹرز لیول کی ڈگری کے کُل 600 نمبروں میں سے صرف 2 نمبر منی ایچر سے متعلق ہوتے تھے۔ دوسری طرف ہسٹری آف ویسٹرن پینٹنگ (مغربی مصوری کی تاریخ) کے 100 نمبر تھے۔ کون کتنا سیکھتا اور کون کتنا پڑھاتا؟
آج پاکستان میں جہاں بھی منی ایچر پر کام ہوتا ہے وہاں استاد شریف کا تذکرہ لازمی ہوتا ہے۔ ان کی بنائی تصویریں سرکاری طور پر بھی بہت مقبول ہوئی تھیں۔ شاہ ایران کا دورہ ہو یا امریکا سے کوئی خاص مہمان آئے، سب کو استاد شریف کے بنائے ہوئے منی ایچرز پیش کیے جاتے تھے۔
1967ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی ملا لیکن میرے نزدیک یہ استاد شریف سے بڑھ کر ملک کے دیگر پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ حاصل کرنے والے لوگوں کے لیے اعزاز کی بات ہے کہ استاد شریف بھی ان کی صف میں شامل تھے۔
1978ء میں ان کی وفات ہوئی اور 1991ء میں ایک روپے والے سرکاری ٹکٹ پر اپنی ایک تصویر سمیت وہ دیکھنے کو ملے۔ آج دوبارہ یہ عالم ہے کہ منی ایچر تصویر سامنے آتے ہی اس کا نطفہ دوبارہ سیدھے مغلوں سے ملایا جاتا ہے، بیچ میں استاد شریف یا شیخ شجاع اللہ کا پڑاؤ کہیں نہیں ملتا۔ ویسے حق بات یہ ہے کہ منی ایچر اسلوب بنیادی طور پر ایک اسکول آف تھاٹ تھا، اس میں جو بھی آیا خود گمنام رہا اور اس اسلوب کو سینچ کر آگے بڑھ گیا۔
بنیادی طور پر گزرے ہوؤں کے فن میں کوئی تبدیلی کرنا یا کچھ نیا پیش کرنا انسان کو مشہور کرتا ہے، جب نیا کچھ نہیں ہوگا اور وہی 600 سالہ روایت آگے بڑھ رہی ہوگی تو مصور کا زندہ رہنا محال ہے، اسلوب ہی زندہ رہتا ہے۔ بشیر احمد اور خالد سعید بٹ منی ایچر میں ان کے بعد کے نام ہیں۔ تکنیک اب روایتی نہیں رہی نہ ہی موضوعات، لیکن جیسے تیسے استاد شریف کے بعد منی ایچر روایت پاکستان میں آگے بڑھتی جا رہی ہے۔
حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں