کینواس پر دیوی دیوتاؤں سے کھیت کھلیانوں تک کا سفر
منی ایچر کے بعد دوسری روایت ہمارے پاس یورپ سے امپورٹ شدہ ریئلزم والی تصویروں کی رہی ہے۔
راجہ روی ورما (Raja Ravi Varma) برِصغیر میں ریئلزم والی تصویروں کے بانی کہلائے جاسکتے ہیں۔ آئیے اسے ہم سادہ زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب سے 15 سے 20 سال پہلے تک وہ جو سنیما کے بڑے بڑے پوسٹروں پر جو تصویریں ہوتی تھیں، جو رنگ ہوتے تھے اور جس طرح کی خوبصورت شکلیں اور منظر پینٹ کیے جاتے تھے، سمجھ لیجیے راجہ روی ورما نے ڈیڑھ سو برس پہلے پینٹنگ کو اس راستے پر چلانے کی بہت کامیاب کوشش کی۔
انہوں نے دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنائیں، مہا بھارت کے سین تصویروں میں اتارے، لینڈ اسکیپس کی مہارت دکھائی، پورٹریٹ بنائے (بڑی بڑی ریاستوں کے نواب اس چکر میں ان کے سامنے ہاتھ باندھے بیٹھے رہتے تھے)، تھیٹریکل آرٹ کیا اور اس سب کے نتیجے میں ان سے متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان میں موجود تھی۔
انہیں اصل شہرت تب ملی جب انہوں نے بھارتی دیویوں کی تصاویر بنائیں اور ’نچلی ذات والے‘ جو بے چارے مندر کے اندر داخل ہو کر پوجا پاٹ نہیں کرسکتے تھے، وہ ان کی بنائی ہوئی تصویریں پوجنا شروع ہوگئے۔
روی ورما جدید ہندوستانی مصوری کا اہم ترین نام تھے۔ ان کے بعد ایک اور صاحب تھے آرچی بالڈ ہرمن ملر، یہ جرمن تھے لیکن ہندوستان میں ہی رہتے تھے۔ یہ بھی روی ورما کے فن سے متاثر تھے اور تقریباً انہی کے جیسی تصویریں بناتے تھے۔
ان دونوں میں ہندو مذہبی داستانیں عام موضوع ہوا کرتی تھیں۔ دونوں اپنے اپنے طریقے سے انہیں مصور کرتے تھے اور عام لوگوں سے داد پاتے تھے۔ اہم شخصیات ان کے پورٹریٹس اور لینڈ اسکیپ کی دیوانی تھیں۔
جب استاد اللہ بخش پیدا ہوئے تو راجہ روی ورما کا آخری وقت چل رہا تھا اور آرچی بالڈ انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ٹھیک ٹھاک مشہور ہوچکے تھے۔ استاد اللہ بخش کے والد ریلوے میں تھے۔
ان کی پیدائش کے 6 یا 7 سال بعد والد کا انتقال ہوگیا، اب استاد کے سامنے بہت بڑا مسئلہ گھر چلانا تھا۔ وہ کئی بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے مشہور پینٹر (اور منی ایچر اسپیشلسٹ) ماسٹر عبداللہ سے انگریزی حروف تہجی لکھنا سیکھے اور ریلوے میں ہی ٹرین کے ڈبوں میں لکھنے کا کام پکڑ لیا۔
اس زمانے میں یہ کام ایسا تھا کہ جسے آجائے وہ بھوکا نہیں مرتا تھا، یعنی روزی روٹی کا مستقل آسرا سمجھا جاتا تھا۔ وہ اس کام میں ایسے چلے کہ جتنی دیر میں ان کے ساتھی ایک بوگی مکمل کرتے یہ 3 سے 4 بوگیوں میں اپنا کام پورا کرچکے ہوتے۔ ساتھ ساتھ بغیر کسی استاد کی شاگردی کے، اللہ بخش تصویریں بنانے کی پریکٹس بھی کرتے رہے۔ کبھی مشہور یورپی تصویروں کی نقل بناتے، کبھی کسی اور مصور کی تصویر کاپی کرتے لیکن اپنا ریاض چلاتے رہے۔ اس دوران انہیں تھیٹر کے پردے بنانے کی آفر ہوئی تو انہوں نے وہ کام بھی شروع کردیا بلکہ کافی عرصہ آغا حشر کے تھیٹر سے بھی وابستہ رہے۔ ایک بار بمبئی سے چند ایکٹر لاہور آئے اور انہوں نے استاد اللہ بخش کے بنائے ہوئے پردے دیکھے۔ انہوں نے استاد سے کہا کہ آپ کو قسمت آزمانے کے لیے بمبئی ضرور آنا چاہیے، موقع ملتے ہی یہ وہاں پہنچ گئے۔
مزید پڑھیے: یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں مصوری کی نئی جہتیں (حصہءِ اول)
اب ادھر کوئی جاننے والا نہیں تھا۔ ایک دکان پر مصوری کا بورڈ لگا دیکھا تو اندر چلے گئے۔ دکان کے مالک نے پوچھا کہ بھائی کیا کرلیتے ہو تو انہوں نے کہا جو آپ کہیں۔ اس نے کوئی کام بتایا اور انہوں نے پھرتی سے تصویر بنا کے سامنے رکھ دی۔ یہ ان کی باقاعدہ مصوری کا آغاز تھا۔ ایک بار انہیں معلوم ہوا کہ بمبئی کے ہندو اپنی دکانوں میں کرشن جی کی تصویریں لگانا پسند کرتے ہیں تو انہوں نے بیٹھے بیٹھے ایک تصویر بنائی اور اپنے کسی جاننے والے سے کہا کہ اس کے جتنے آرڈر ملتے ہیں لے آؤ۔ شام تک 50 آرڈر آچکے تھے جن کی قیمت اس زمانے میں 5 ہزار روپے بنتی تھی۔ ایک ہفتے میں ساری تصویریں بن گئیں۔ اس کے بعد یہ تصویر ایسی مشہور ہوئی کہ دکاندار آتے اور 100 روپے ایڈوانس دے کر تصویر کی بکنگ کروا لیتے۔ مہاراجہ پٹیالہ بھی استاد اللہ بخش کی بنائی بہترین تصویروں کے گاہک ہوا کرتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد استاد اللہ بخش بھی میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے۔ اب وہ دیوی دیوتاؤں کی تصویریں نہیں بناتے تھے۔ اب ان کی تصویروں میں سوہنی مہیوال، ہیر رانجھا اور پنجاب کے لینڈ اسکیپ نظر آنے لگے۔ کہیں کوئی کسان 2 بیلوں کے ساتھ ہل چلا رہا ہے، کہیں بہت سے پہاڑوں کا کوئی منظر ہے، کہیں لڑکیاں کھیتوں میں گندم کاٹ رہی ہیں، کہیں کسی جھیل کا کنارہ ہے اور کوئی بہت ہی اداس سی شام ہے۔ لیکن ان سب تصویروں پر تھیٹر پن حاوی تھا، وہی خوبی جو راجہ روی ورما یا آرچی بالڈ ملر کی تصویروں میں تھی۔
وہ کہانی سنتے سنتے بھی اس کی تصویر بنانے پر قادر تھے۔ کانوں سے واقعہ سن کر تصویر بنا لینا شاید اپنی نوعیت کا ایک انوکھا کام ہے جو ان کی روزمرہ پریکٹس میں شامل تھا۔ استاد اللہ بخش اپنی تصویریں بنانے کے لیے کسی ماڈل کا سہارا بھی نہیں لیتے تھے، جو کچھ بناتے اپنے دماغ کے زور پر بناتے تھے۔
اگر آپ کسی حد تک تھیٹر کی روایت سے واقف ہیں یا کلاسیکل تھیٹر کے پردے اور سیٹ ڈیزائن آپ کو یاد ہے یا سنیما کے پرانے سیٹ کبھی آپ نے دیکھے ہیں تو استاد اللہ بخش کی تصویریں دیکھتے ہی وہ سب کچھ آپ کو یاد آجائے گا۔
خالد اقبال کے علاوہ اگر لینڈ اسکیپ میں ہمیں کوئی مشہور پاکستانی نام ان سے پہلے نظر آتا ہے تو وہ استاد اللہ بخش تھے لیکن اللہ بخش کسی کا شاگرد نہیں تھا۔ کسی ادارے سے نہیں سیکھا تھا۔ اللہ بخش گھر سے پیسے کمانے نکلا تھا اور شہرت کما کر واپس لوٹا۔ 1978ء میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی یاد میں بھی ایک ڈاک ٹکٹ جاری ہوچکا ہے اور انہیں بھی پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں دلی لٹنے کے بعد مصوروں کی گزر بسر کے بارے میں بتایا ہے۔ دلی جب برباد ہوا تو ان بے چاروں کی تصویریں بھی ساتھ ہی تباہ ہوگئیں، جو باقی کہیں تھوڑی بہت رہ گئی تھیں وہ ان سے انگریزوں نے خرید لیں۔ اب آگے مرزا صاحب کے اپنے لفظوں میں دیکھتے ہیں۔ ’ایک مصور کے پاس ایک تصویر ہے وہ 30 روپے سے کم میں نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ 3، 3 اشرفیوں کو میں نے صاحب لوگوں کے ہاتھ بیچی ہیں، تم کو 2 اشرفی میں دوں گا۔ ہاتھی دانت کی تختی پر وہ تصویر ہے۔ میں نے چاہا اس کی نقل کاغذ پر اتار دے، اس کے بھی 20 روپے مانگتا ہے، پھر خدا جانے اچھی ہو یا نہ ہو۔‘
آج بھی الحمداللہ مصوروں کی یہی اوقات ہمارے یہاں سمجھی جاتی ہے۔ مصور چھوڑیں کوئی رقاص، کوئی گانے والا، کوئی اداکار، کون ہے جسے معاشرے میں اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہو؟ ان انگریزوں کا اللہ بھلا کرے جو 3، 3 اشرفیوں میں ان مصوروں سے ہاتھی دانت پر بنے منی ایچر خرید گئے ورنہ مرزا غالب یا باقی دوسرے لوگ تو شاید بھاؤ تاؤ کروانے کے بعد 5 روپے سے زیادہ مول نہ دیتے۔ ہم میں سے کون ہے جس نے کبھی اپنے گھر میں سجانے کے لیے کوئی تصویر خریدی ہو؟
نئے آرٹسٹوں کا بنایا گیا کام ایک ہزار سے 10 یا 15 ہزار تک مارکیٹ میں وافر دستیاب ہے، کسے معلوم ہے؟ اپنی زندگی میں جو پاکستانی مصور اپنی قدردانی دیکھ گیا، جس کی تصویریں ہمیشہ مہنگے داموں فروخت ہوئیں اور جس نے پاکستانی مصوروں میں تقریباً وہی مقام پایا جو شاعروں میں علامہ اقبال کا ہے، وہ عبدالرحمن چغتائی تھے۔
مزید پڑھیے: یورپی نشاۃِ ثانیہ کے اولين مصور جاٹو ڈی بونڈون
چغتائی ان خوش نصیب پاکستانی مصوروں میں سے تھے جن کے فن کو بہت زیادہ سراہا گیا۔ ان کی تصویر قدیم اور جدید کا ایک خوبصورت امتزاج تھی۔ ان کا آرٹ اپنی زمین سے جڑا نظر آتا تھا۔ مغلیہ دور کی مصوری، ایرانی مصوری، چینی مصوری، بنگالی مصوری، جاپانی مصوری اور قدیم ہندوستانی آرٹ (اجنتا، ایلورا، کھجوراہو) کو اگر کسی ایک فارم میں اکٹھا دیکھنا ہو تو وہ چغتائی کی تصویریں تھیں۔
ان کی تصویروں کی مجموعی فضا سنجیدہ تھی۔ عام طور پر جب مصور کوئی تصویر بناتا ہے تو اپنے آس پاس کے حالات سے متاثر ہو رہا ہوتا ہے، کہیں جنگ ہے، کہیں بم دھماکے ہیں، کہیں پھول ہیں، کہیں خوشبو ہے، کہیں بہار ہے، کبھی رات ہے کبھی بارش ہے، کبھی کوئی اچھی خبر ہے، کبھی کوئی بڑا واقعہ ہے، چغتائی کی طرف ایسا نہیں تھا۔ ان کی دنیا ایک بالکل الگ دنیا تھی، وہ دنیا جو ان کی اپنی ایجاد تھی۔ ان کے موضوعات میں علامہ اقبال کے بہت سے اشعار شامل رہے، غالب کو انہوں نے مصور کیا، کچھ کتابوں کے ٹائٹل بھی بنائے لیکن جو کچھ کیا وہ 100 فیصد ان کے آس پاس کے حالات سے کٹا ہوا تھا۔ ان کا تمام آرٹ ان کی اپنی ذہنی اختراع تھی۔ انسپریشن اگر کوئی تھی تو وہی ساری قدیم و جدید مصوری اور ادب جس کی بنیاد مشرق تھا۔
عبدالرحمن چغتائی نے کبھی کسی روایت سے جڑا ہونے کا اعتراف نہیں کیا۔ اس معاملے میں ان کی تصویر پرکھنے والے کو خود ہی زحمت کرنی پڑتی ہے۔ ان کے بہت سے مقالے، انٹرویوز اور کئی دوسری تحریریں آج بھی محفوظ ہیں جس میں وہ مصوری پر استادانہ نظر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی اپنی مصوری میں بہت سی چیزیں ایسی تھیں جو انہوں نے راز ہی رکھنا پسند کیں۔ مثال کے طور پر تصویر بنانے کے بعد کا ایک عمل جو رنگوں کو پکا کرنے کے لیے ہوتا ہے اور جسے پرانے مصور استعمال کرتے تھے وہ واش کہلاتا ہے۔
چغتائی کی اپنی واش تکنیک تھی جو غالباً منی ایچر والوں کی تکنیک سے اخذ کردہ تھی لیکن انہوں نے کبھی اس بارے میں زیادہ بات نہیں کی۔ ان کے رنگوں کی انفرادیت پر بھی وہ زیادہ بات کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انہوں نے کبھی کسی کی شاگردی نہیں کی۔ ان کے زمانے میں شروع ہونے والی نیو بنگال اسکول آف آرٹ تحریک سے وابستہ مصوروں کی تصویریں دیکھی جائیں تو کافی حد تک سمجھ میں آتا ہے کہ چغتائی کی انسپریشن کیا تھی، بالخصوص کشیتندراناتھ موجمدار اور ابیندراناتھ ٹیگور کی تصاویر کافی حد تک وہی کیفیت لیے ہوئے ہیں جو ہمیں چغتائی میں نظر آتی ہے۔ چغتائی دراصل کلچر کی تقسیم عقیدوں پر کرنے کے بہت حد تک قائل تھے اس لیے اپنا تعلق بنگال اسکول یا قدیم ہندوستانی مصوری سے جوڑنا انہیں اپیل نہیں کرتا ہوگا۔
مزید پڑھیے: یورپی مصوری میں زرد رنگ کی تاریخی اور معاشی اہمیت
بنگال اسکول آف آرٹ کے باقی مصوروں کی نسبت چغتائی کے زیادہ مشہور ہونے کی وجوہات 2 تھیں۔ ایک تو انہوں نے روایتی ہندو متھولاجی پر زیادہ فوکس نہیں کیا بلکہ ان کے موضوعات بہت زیادہ وسیع رہے۔ انہوں نے لوک کہانیوں کے کرداروں پر توجہ دی، مغل منی ایچر کے موضوعات اپنائے، شاعری کو تصویر کی صورت پیش کیا، قدیم فنِ تعمیر پر دھیان دیا اور یہ سب کرنے کے ساتھ اپنی تصاویر میں ایک مخصوص قسم کی جھلک مغربی مصوری کی بھی دی۔ یہ تصویر کی پریزینٹیشن بہتر بنانے کی اور اسے عام انسان کی سطح تک لانے کی ایک شعوری کوشش تھی جو کامیاب رہی۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ جب پاکستان بنا تو اس وقت عبدالرحمن چغتائی اپنے فن کے عروج پر تھے۔ ہم لوگ ہر چیز میں پاکستانی ثقافت تلاش کر رہے تھے۔ پکے گانوں کی بندشوں تک پر سوال اٹھتا تھا کہ اس میں فلاں عنصر ہندوانہ کیوں ہے، کوئی اور بندش گائی جائے۔ ایسے میں چغتائی آرٹ خالصتاً پاکستانی فکر کے لیے قابلِ قبول صورت میں سامنے آیا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ انہیں انگریز حکومت سے خان بہادر کا خطاب ملا اور پاکستان بننے کے بعد ہلالِ امتیاز اور پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے حکومتِ پاکستان کے لیے ڈاک ٹکٹس اور سکوں کے ڈیزائن پر بھی کام کیا۔ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے لوگو بھی انہی کے ڈیزائن کیے ہوئے ہیں۔
چغتائی شاید واحد پاکستانی مصور تھے جو خطاطی کیے بغیر بھی اتنے مشہور ہوگئے کہ آج تک ہر خاص و عام فن پارے کو دور سے دیکھ کر چغتائی آرٹ کو پہچان سکتا ہے ورنہ لوگوں کو اپنے فن کی طرف متوجہ کرنے کے لیے تقریباٌ ہر مشہور پاکستانی مصور کبھی نہ کبھی خطاطی کی تجربہ گاہ میں قدم ضرور رکھتا ہے۔ خطاطی بہرحال سراسر ایک مقدس فن رہا ہے جس سے جڑے لوگ آج بھی ہمارے یہاں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ عبدالرحمن چغتائی کا 1975 میں انتقال ہوا۔
حسنین جمال ادب، مصوری، رقص، باغبانی، فوٹوگرافی، موسیقی اور انٹیکس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک قومی اخبار کے مستقل کالم نویس ہیں۔ رسائل کے لیے لکھتے ہیں۔ بلاگنگ کی دنیا میں پچھلے چار پانچ سال سے موجود ہیں۔ فیس بک پر آپ انہیں یہاں فالو کرسکتے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں