درخت لگائیے لیکن یہ بھی سوچیے کہ یہ بحران پیدا کیسے ہوا؟
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے 5 سالوں کے دوران ملک بھر میں 10 ارب درخت لگائیں گے اور اس کا باقاعدہ افتتاح اتوار کے روز وزیرِاعظم عمران خان نے درخت لگاکر کردیا۔
شجر کاری کی اہمیت اور ضرورت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہے۔ اس مہم کی کامیابی کے لیے سب کو مل کر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے کیوں کہ اس کے نہ صرف مستقبل میں پاکستان پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے بلکہ پورا خطہ اس سے مستفید ہوگا۔
تاہم ہمیں اس منصوبے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی ضرور بات کرنی چاہیے کہ مہم کی کامیابی کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں اور اس مہم کی کامیابی کے راستے میں کیا رکاوٹیں ہیں جن کو ختم کیا جانا ناگزیر ہوچکا ہے۔
شجرکاری مہم کی ضرورت کیوں پڑی
ہمارے ملک میں جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے اور ماحول کو بہتر بنانے کے لیے شجرکاری مہم ضروری ہے۔ شجرکاری مہم کے اہم ترین مقاصد میں ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانا اور فضائی آلودگی کا خاتمہ بھی شامل ہیں۔
پڑھیے: ایک پودہ وطن کے نام
لیکن جب حکومت تمام تر سنجیدگی کے ساتھ درخت لگانے کا کام نہ صرف خود کررہی ہے بلکہ عوام کو بھی بھرپور شرکت کی دعوت دے رہی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ان سوال کا جواب بھی تلاش کرنا چاہیے کہ آخر یہ جنگلات ختم کیوں ہورہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں محض یہ جواب دیا جانا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے کہ یہ سب ٹمبر مافیا کی وجہ سے ہورہا ہے، کیونکہ یہ تصویر کا محض ایک رُخ ہے۔ اگر اس سوال کا مکمل جواب چاہیے تو ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ لکڑی کو کہاں کہاں استعمال کیا جاتا ہے اور لوگ درختوں کو اپنی کن کن ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کاٹتے ہیں، اور یہ جانے بغیر درختوں کا تحفظ کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہے۔
لکڑی کا استعمال بطور ایندھن
یہ سب سے اہم اور لازمی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں جہاں جہاں گیس اب تک نہیں پہنچی ہے وہاں لکڑی کو ہی بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ کھانا پکانے سے لے کر سردیوں میں خود کو گرم رکھنے کے لیے لکڑی سے آگ جلائی جاتی ہے اور اس مقصد کے لیے درخت کاٹے جاتے ہیں۔
یہ درخت یا تو لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے لگاتے ہیں یا پھر یہ قدرتی طور پر اُگتے ہیں اور مقامی لوگ ان پودوں کی حفاظت کرکے ان کو تناور درخت بننے دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں یہ درخت ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے کام آسکیں۔
کھانا کھانے کے بغیر زندہ رہنے کا تصور ناممکن ہے، لیکن جب مقامی لوگوں کو گیس کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جاسکے تو پھر وہ کس طرح کھانا پکائیں گے؟ لہٰذا سرکار کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان علاقوں میں جتنی سرمایہ کاری شجرکاری پر کررہی ہے وہ گیس کی فراہمی پر کرے، اور صرف گیس کی فراہمی تک معاملہ نہ رکے، بلکہ عوام کے لیے ایک ریلیف پیکج کا بھی اعلان کیا جائے کہ مذکورہ علاقوں میں مخصوص حد تک گیس خرچ کرنے والوں سے بل نہیں لیا جائے گا۔
اس اعلان کی وجہ اور ضرورت اس لیے ہے کہ لکڑی کاٹ کر چولہا جلانا انتہائی سستا پڑتا ہے اور گیس کا استعمال ان کی جیب پر بھاری پڑسکتا ہے، لیکن پیکج کے اعلان کی وجہ سے مقامی لوگ گیس کا استعمال شروع کردیں گے اور یوں ایندھن کے لیے کاٹے جانے والے درخت محفوظ رہیں گے۔ بل میں رعایت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنی ذاتی زمینوں پر درخت لگاتے ہیں جو معاشرے کو آکسجن فراہم کرتے ہیں اور ان سے سب یکساں مستفید ہوتے ہیں، لیکن یہ سب اسی وقت ہوسکے گا جب ان کی اپنی ضرورت دوسرے ذرائع سے پوری ہورہی ہوں گی۔
گھروں کی تعمیر میں لکڑی کی ضرورت
دیہی علاقوں کی آبادی کا زیادہ حصہ کچے مکانات پر مشتمل ہوتا ہے اور کچے مکانات کی تعمیر میں لکڑی کا بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ گرم اور ٹھنڈے دونوں موسموں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے گھروں کی چھتوں پر مٹی ڈالی جاتی ہے اور اس کو سہارا دینے کے لیے مضبوط لکڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ چنانچہ عموماً جنگلات کے 60 فٹ سے اونچی درختوں کو کاٹا جاتا ہے تاکہ ایک ہی درخت زیادہ سے زیادہ ضرورت پوری کر سکے۔ اس کے علاوہ گھریلو استعمال کی اور بھی کئی اشیاء ہیں جو لکڑی سے بنتی ہیں۔
چونکہ گھر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے لیے حکومت کو ایسے متبادل گھر تعمیر کرنے چاہیئں جن میں لکڑیوں کا استعمال کم ہو اور اس کے لیے درخت کاٹنے کی ضرورت نہ ہو۔ ویسے بھی حکومت ملک میں 50 لاکھ نئے گھر تعمیر کرنے کا اعلان کرچکی ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ یہ گھر ان علاقوں میں تعمیر کیے جائیں جہاں لوگ گھروں کی تعمیر کے لیے درخت کاٹتے ہیں تاکہ مقامی لوگوں کے پاس گھروں کے لیے درخت کاٹنے کا جواز ختم ہو۔
مزید پڑھیے: جنگل اگا کر کراچی کو گرمی سے بچانے کی کامیاب کوشش
لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں آبادی بہت زیادہ ہے، چنانچہ سب کے لیے تو گھر تعمیر نہیں کیے جاسکتے لیکن حکومت یہ ضرور کرسکتی ہے کہ ہر گاوں اور دیہات میں نمونے کے طور پر ایسے گھر ڈیزائین کرے جس پر خرچہ بھی کم ہو اور اس میں چھتوں پر مٹی کے ڈالنے کے لیے لکڑی کاٹنے کی بھی ضرورت نہ ہو۔ ساتھ ساتھ اس جگہ کے موسم کے لحاظ سے گھر موزوں بھی ہوں۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحول کی بہتری
موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے تحفظ اور ماحول کی بہتری کے لیے شجر کاری ضروری ہے لیکن صرف اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ حکومت کو اس بات پر بھی سوچنا چاہیے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کی وسیع تر وجوہات کیا ہیں، تاکہ ایک طرف درخت لگا کر آلودگی کو کم اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جاسکے تو دوسری طرف آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کو معلوم کیا جاسکے اور اس پر قابو پانے کے لئے بھی حکومتی سطح پر موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔
دو طرفہ پالیسی ہی ماحولیات کے حوالے سے بہتر مستقبل کی ایک ضامن ہوسکتی ہے کیونکہ اگر ہم صرف ایک طرف درخت ہی لگاتے جائیں اور دوسری طرف موسمیاتی تبدیلیوں اور آلودگی کی وجوہات کو نظر انداز کردیں تو یہ کھبی بھی موثر پالیسی نہیں ہوسکتی۔
سرسبز پہاڑ پر جنگلات کیوں نہیں؟
ملک کے بیشتر حصوں اور خصوصاً خیبر پختونخوا میں ایسے بہت سارے پہاڑ ہیں جو اپنی فطرت میں تو زرخیز ہوتے ہیں لیکن ان پر درخت نہیں ہوتے۔ ان سرسبز پہاڑوں پر جنگل نہ ہونے کی کئی وجوہات ہوتی ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ ان پہاڑوں سے جانوروں کے لیے چارہ کاٹا جاتا ہے۔
ان پہاڑوں کو خالی کرنے میں ٹمبر مافیا کا بھی کردار ہے لیکن اس میں سے اکثر پہاڑوں سے مقامی لوگ اپنے جانوروں کے لیے گرمیوں میں ہر سال گھاس کاٹتے ہیں جسے خشک کرکے پھر سردیوں میں بطور چارہ جانوروں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب یہ گھاس کاٹی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ہر سال ہزاروں پودے جو مستقبل میں بڑے تناور درخت بن سکتے ہیں، وہ بھی کاٹ دیے جاتے ہیں اور بہت سارے پہاڑ جنگل بننے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
جانیے: شہری شجرکاری: کیا حکومت اتنی عجلت میں یہ کام کرپائے گی؟
ان پہاڑوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں اگر کوئی شجرکاری نہ کی جائے تب بھی یہاں قدرتی جنگل بن سکتا ہے اور ایسا کرنے کے لیے کسی قسم کی سرمایہ کاری کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایسا ہونے کے لیے یہ لازم ہے کہ زیادہ نہیں محض 5 سالوں کے لیے ان پہاڑوں سے گھاس نہ کاٹی جائے۔ ایک رکاوٹ جو اس کام میں سامنے آسکتی ہے وہ یہ کہ اگرچہ ان پہاڑوں میں بعض تو صوبائی حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں لیکن چند عوام کی ذاتی ملکیت بھی ہوتے ہیں، اور انہیں اپنی زمین پر ایسا کرنے سے محض حکومت ہی روک سکتی ہے۔ لیکن صرف روکنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا متبادل بھی پیش کرنا انتہائی ضروری ہے۔
علاوہ ازیں اگر پہاڑوں سے گھاس کی کٹائی پر پابندی لگتی ہے تو اس سے لائیو اسٹاک کے لیے چارے کی کمی ہو سکتی ہے۔ اس سے دیہی علاقوں میں ایک معاشی مسئلہ جنم لے سکتا ہے کیونکہ دیہی علاقوں میں عوام کی اکثریت کا زیادہ تر دار و مدار لائیو اسٹاک پر ہوتا ہے اور جانوروں کے لیے چارہ لازمی ہے۔
چنانچہ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ جہاں جہاں شجرکاری کی جارہی ہو وہاں نہ صرف گھاس کی کٹائی پر پابندی ہو، بلکہ وہاں جانور لے جانے اور ان کے لیے چارے کے استعمال پر بھی پابندی ہو، اگر ایسا ہوا تو نہ صرف درختوں کو نقصان پہنچے گا بلکہ محنت اور سرمایہ دونوں ضائع ہوگا۔
ایسے درخت لگائے جائیں جو بطور چارہ استعمال ہوں
دیہی علاقوں میں لائیو اسٹاک کے لیے چارہ اہم مسئلہ ہے اس لیے سرکار کو چاہیے کہ شجرکاری کرتے وقت سب سے زیادہ توجہ ان مقامی درختوں پر دیں جن کے پتے جانوروں کے لیے بطور چارہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان پودوں کی افزائش نسل کی جائے جو بطورہ چارہ استعمال ہوتے ہوں۔
اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ خود ہی ان پودوں کی حفاظت کریں گے کیونکہ مقامی لوگوں کے مفادات بھی ان سے وابستہ ہوں گے اور یوں جنگل کا جنگل بھی لگ جائے گا اور مقامی لوگوں کے جانوروں کے چارے کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی، کیونکہ اس کے لیے صرف پتے اور چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں ہی توڑی جاتی ہیں، درخت کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔
پھل دار درخت لگائے جائیں
خیبر پختونخوا کے پہاڑ بہت زرخیز ہیں اور ان پہاڑوں پر مختلف اقسام کے پھلوں کے درخت لگائے جاسکتے ہیں جو محض بارانی پانی پر بھی اپنا کام کرسکتے ہیں۔ بلکہ ان پہاڑوں پر لوگوں نے اپنے گھروں کے آس پاس مختلف قسم کے پھلوں کے درخت لگائے بھی ہیں جو اگرچہ تعداد میں کم ہیں لیکن اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان پہاڑوں پر بڑے پیمانے پر پھلوں کے درخت لگائے جاسکتے ہیں جو لوگوں کے لیے آمدنی کا بھی ذریعہ بنیں گے اور ماحولیات کی بہتری میں بھی کردار ادا کریں گے۔
گرین پاکستان کے نام سے ٹیکس لگایا جائے
گرین پاکستان کے لیے شجرکاری کے ساتھ ساتھ قانون سازی کی بھی ضرورت ہے اور اس کے لیے گرین پاکستان کے نام سے ٹیکس بھی لگادیا جائے جو انتہائی مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ جب عالمی ماحولیاتی آلودگی کی بات ہورہی ہوتی ہے تو بہت سارے ماہرین کا یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ صنعتیں بھی ہیں، اس لیے دنیا میں صنعتی طور پر ترقی یافتہ قوموں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے زیادہ اقدامات اٹھائیں اور اس کے لیے زیادہ سرمایہ بھی ان ممالک سے لیا جائے۔
اسی طرح ملکی سطح پر جو عوامل فضائی آلودگی کہ ذمہ دار ہیں، ان پر گرین ٹیکس عائد کیا جائے۔ دوسری طرف یہ بھی قانون سازی ضروری ہے کہ جن لوگوں کی ذاتی ملکیت پر درخت موجود ہوں، گرین پاکستان ٹیکس میں سے ماہانہ ان افراد کے لیے درختوں کی تعداد کے حساب سے وظیفہ مقرر کیا جائے، کیوں کہ جو لوگ معاشرے کو موت یعنی کاربن ڈائی آکسائڈ فراہم کرتے ہیں وہ تو لاکھوں کروڑوں روپے ماہانہ کماتے ہیں، لیکن جن لوگوں کی زمینوں پر معاشرے کو زندگی یعنی آکسجن فراہم کرنے والے درخت موجود ہیں، ان کو ان درختوں سے ایک روپے کا بھی فائدہ نہیں ہوتا۔
وظیفہ مقرر کرنے سے باقی لوگ بھی اپنی زمینوں پر درخت لگانے شروع کریں گے جو ایک طرف ان افراد کے لیے ماہانہ آمدنی کاذریعہ بنیں گے تو دوسری جانب فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے یہ ایک مؤثر اقدام کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔
امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں