فلپائن: خوبصورت جزیروں، فطرت کے رنگوں اور ایڈونچر کی دنیا کا نام
3 نومبر 2013ء کو 315 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لاکھوں گھروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے سمندری طوفان ہیان (Haiyan) نے خوبصورت جزیروں کے ملک فلپائن کو بُری طرح متاثر کیا۔
ٹیکلوبان (Tacloban) سے لیکر سیبو (Cebu) اور لیتے (Leyte) تک سیکڑوں خوبصورت جزائر اس طوفان کی تباہی کا شکار ہوچکے تھے۔ تقریباً 6 ہزار 300 افراد کو لقمہ اجل بنانے والے اس طوفان کو تباہی کے لحاظ سے فلپائن کی تاریخ میں بڑے طوفانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ فلپائن کے ماحولیاتی، جیوفزیکل اور فلکیات کے ادارے پگاسہ (PAGASA) کے مطابق ہر سال اس طرح کے 8 سے 9 بڑے طوفانوں کا فلپائن کی عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
طوفان کی تباہی دیکھ کر جہاں فلپائن کی حکومت امدادی کاموں کے لیے حرکت میں آئی وہاں دیگر ممالک کی امدادی ٹیمیں، اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے اور فلاحی تنظیمیں بھی امدادی کارروائیوں کے لیے فلپائن پہنچنا شروع ہوگئیں۔ ان اداروں میں امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی ایک فلاحی تنظیم نے بھی امدادی کاموں کے لیے اپنی ٹیم بجھوانے کا اعلان کیا اور مجھ سمیت 2 رکنی ٹیم پاکستان اور تھائی لینڈ سے روانہ کردی گئی۔
پاکستان سے ایک دن میں ویزا اور ٹکٹ کے بعد براستہ دبئی میں فلپائن کے دارالحکومت منیلا کے لیے محو پرواز ہوا۔ ایمریٹس ائیر لائن کے خوبصورت جہاز میں تقریباً 8 گھنٹے اور 10 منٹ کے سفر کے بعد دن 11 بجے کے قریب فلپائن کے دارالحکومت منیلا کے انٹرنیشنل نی نوئے ایکوئینو انٹرنیشنل ائیرپورٹ (Ninoy Aquino International Airport) پر اترے۔
امیگریشن کاؤنٹر پر چند روایتی سوال جواب ہوئے۔ ’نام، ملک کا نام اور کیا کرتے ہو‘، جس کے بعد پوچھا گیا کہ ’کیا کرنے آئے ہیں؟‘ جواب دیا، ’طوفان کے متاثرین کی مدد کے لیے رضا کار کے طور پر آیا ہوں‘۔ جواب سن کر آفیسر نے مجھے پاسپورٹ واپس پکڑاتے ہوئے انتظار کرنے کا کہا۔ چونکہ دنیا کے مختلف ائیرپورٹس پر امیگریشن کے ساتھ اس طرح کے معاملات ہوتے آئے ہیں لہٰذا فوراً میں نے اپنے بیگ سے ضروری دستاویزات نکالنے شروع کیے تاکہ بوقتِ ضرورت امیگریشن والوں کو دکھا سکوں۔
ابھی دستاویزات نکالنے میں ہی مصروف تھا کہ خاتون آفیسر نے مجھے ’ہیلو‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ انہوں نے اپنا تعارف ڈائریکٹر امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے طور پر کروایا۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم معذرت خواہ ہیں، آپ کو انتظار کرنا پڑا، دراصل انتظار کراونے کا مقصد آپ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا تھا، کہ اتنی دور سے آپ ہمارے مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کے لیے آئے ہیں‘۔ انہوں نے میرے پاسپورٹ پر وزٹ ویزے کے بجائے ’نائن ای ویزہ‘ (9e) جو سفارت کاروں کو عموماً ملتا ہے، کی مہر ثبت کرکے فوراً خروج کی مہر لگائی اور پاسپورٹ واپس کردیا۔
ائیرپورٹ کی عمارت میں جگہ جگہ فلپائن کے خوبصورت جزیروں، ثقافت اور لوگوں کے رہن سہن کو اُجاگر کرنے کے لیے بل بورڈز آویزاں کیے گئے تھے، جس پر خوش آمدید کے ساتھ ساتھ ’Its more fun in the Philippine‘ لکھا تھا۔ یہ بل بورڈز بلاشبہ فلپائن کو ایکسپلور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ائیرپورٹ کی عمارت سے نکلے تو باہر بادلوں سے ڈھکے منیلا کے خوبصورت موسم نے ہمارا استقبال کیا اور ہم بھی کچھ دیر موسم کے سحر سے خوب محظوظ ہوئے۔ اب ہوٹل جانا تھا سو ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔ ڈرائیور کے ساتھ ایک طویل بحث کے بعد 600 پیسو (Peso) پر اتفاق ہوا اور ہم منیلا کی سڑکوں پر رواں دواں تھے۔
سڑک کے دونوں اطراف ٹریفک کے شدید رش کی وجہ سے تقریباً 30 منٹ کا سفر بمشکل 2 گھنٹے میں منیلا کے قلب مکاتی سٹی میں واقع ایک ہوٹل کے سامنے ختم ہوا۔ ہوٹل میں 2 گھنٹے آرام کے بعد بھوک کی شدت نے اُٹھنے پر مجبور کیا تو ہوٹل کی استقبالیہ ڈیسک سے حلال فوڈ کے بارے میں دریافت کیا تو مجھے ایشین انسٹی ٹیوٹ کی میس جانے کے لیے کہا گیا۔ تقریباً 5 منٹ کی واک کے بعد انسٹی ٹیوٹ کی میس میں اُبلے ہوئے سفید چاول مچھلی کے سوپ کے ساتھ کھائے، فلپائن میں کھایا گیا یہ میرا پہلا کھانا تھا۔
انسٹی ٹیوٹ میں پورے ایشیا سے طلبا و طالبات پڑھنے آتے ہیں، جن میں مسلمان طلبا کی بڑی تعداد بھی موجود ہے۔ پاکستان سے بھی طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد اس انسٹی ٹیوٹ میں زیرِ تعلیم ہیں۔ خوش قسمتی سے یہاں میری ملاقات سوات سے تعلق رکھنے والے منیجمنٹ اور سائنس کے طالب علم اشفاق احمد سے ہوئی۔ اشفاق کے ساتھ منیلا جیسے شہر میں پشتو میں گپ شپ غنیمت سے کم نہ تھی۔ انہوں نے فلپائن کی تاریخ، رہن سہن اور روزگار کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کے بعد شام کے وقت مکاتی شہر گھومنے کا مشورہ دیا۔ اشفاق نے فلپائن کو دنیا کے خوبصورت جزیروں اور ساحلوں کا ملک قرار دیا اور اس کو پوری طرح ایکسپلور کرنے کا کہا۔
7 ہزار 107 خوبصورت جزیروں پر مشتمل اس ملک کو مجموعہ الجزائر فلپائن بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 72واں بڑا ملک ہے اور اس کی کُل آبادی تقریباً 10 کروڑ ہے۔ منیلا کے علاوہ دیگر اہم شہروں تک جانے کے لیے سمندری راستے ہیں۔
فلپائن کا نام اسپین کے بادشاہ فلپ کے نام پر ’جزائر فلپ‘ رکھا گیا۔ ہسپانوی کلونیل دور 1565ء سے لے کر 1896ء تک جاری رہا۔ 1898ء میں ہسپانوی-امریکی جنگ کے نتیجے میں امریکہ نے 1903ء میں فلپائن پر قبضہ کرلیا جو 1946ء میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد اختتام پزیر ہوا۔
یہاں دینِ اسلام 14ویں صدی میں پہنچا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت یہاں 5 سے 9 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
فلپائن میں شرح خواندگی 95 فیصد ہے۔ یہاں کا معیارِ تعلیم بہت اچھا تصور کیا جاتا ہے جو یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں انتہائی سستا ہے۔
ٹیگلاگ (Taglog) فلپائن میں بولی جانی والی سب سے بڑی زبان ہے لیکن انگلش آفیشل زبان ہونے کی وجہ سے ہر جگہ سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً جاپان، چین اور تائیوان وغیرہ سے بڑی تعداد میں طلبا و طالبات یہاں انگریزی سیکھنے آتے ہیں۔
فلپائن کی معشیت کا ایک بڑا حصہ سیاحت سے بھی وابستہ ہے۔ یہاں سیاحوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے تفریخی مقام کو بھی ہر سہولت سے آراستہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عصر کے وقت اپنے میزبان صلاح الدین کے ساتھ تباہ حال علاقوں کی صورتحال اور جاری ریلیف کے کاموں کے بارے تفصیلی نشست اور کل کا پروگرام طے کرنے کے بعد ہم نے مکاتی سٹی کے خوبصورت شاپنگ مالز سینچری سٹی مال، ایس ایم جیز مال، گلوریٹا مال کا رخ کیا۔ یہاں لوگوں کا رش دیکھ کر گمان ہوا کہ پورے شہر کے لوگ ان مالز میں موجود ہیں۔
صلاح الدین سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فلپائنی لوگ کھانے، خوش لباسی اور ناچ گانے کے شوقین ہیں۔ ہر ریسٹورینٹ دن کے کسی بھی پہر لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فلپائنی قوم کھانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کرتی۔ یہاں خواتین کی تعداد زیادہ ہے لہٰذا شعبہ ہائے زندگی کے تقریباً تمام شعبوں میں عورتوں کی تعداد غالب نظر آتی ہے۔ فلپائنی مہمان نواز، خوش اخلاق اور ملنسار اور مذہبی اعتبار سے کافی آزاد خیال ہیں۔ فلپائن کا سرکاری مذہب کیتھولک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے پر مسیحی ثقافت کے رنگ حاوی ہے البتہ جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے وہاں مسلم معاشرے کا رنگ بھی خوب خوب نظر آتا ہے۔
کافی دیر تک شاپنگ مالز میں گھومنے اور امدادی فوڈ پیکیج کے ریٹس معلوم کرنے کے بعد ہم رات کو دیر سے ہوٹل پہنچے۔
سیبو جزیرہ
اگلے دن منیلا کے مختلف علاقوں اور ترکی سے آئے ہوئے ایک وفد سے ملاقات میں تباہ حال جزیرہ ٹیکلوبان میں جاری امدادی کام کی تفصیلات لے کر شام کو ہوائی سفر کے ذریعے سیبو نامی ایک خوبصورت جزیرے پر پہنچے۔ تقریباً ایک گھنٹے 10 منٹ کی پرواز کے بعد سیبو میں پہلے سے موجود تھائی لینڈ سے آئے ہوئے نوجوان رضاکاروں نے ہمارا ائیرپورٹ پر استقبال کیا۔ سیبو کی سب سے بڑی مسجد الخیریہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان رضاکاروں نے بیٹھتے ہی سیبو شہر کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔ میں نے بھی اس موقعے کو غنیمت سمجھ کر سوالوں کے انبار لگا دیے۔ میرا پہلا سوال سیبو میں مسلمانوں کی حالت، مذہبی ہم آہنگی اور سیر و تفریح کے مقامات کے حوالے سے تھا۔ جواب میں مقامی نوجوانوں نے بھی سیبو شہر کی تعریف میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
سیبو، منیلا کے بعد فلپائن کا دوسرا بڑا جزیرہ اور شہر مانا جانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ فلپائن میں مسیحیت کی جائے پیدائش بھی سمجھا جاتا ہے۔ سیبو کی 95 فیصد آبادی رومن کیتھولک ہے جبکہ دوسرے اہم مذاہب میں مسلمان اور بدھ مت شامل ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی اگرچہ بہت کم ہے مگر شہر کے 3 بڑے حصوں میں رہائش پذیر ہے۔ (شہر کے عین وسط میں قائم سٹی مریم مسجد، مسجد الخیریہ اور گرین مسجد یہاں پر مقیم مسلمانوں کے متحرک ہونے اور دین سے وابستگی کا بڑا ثبوت ہیں۔)
ائیرپورٹ سے ایس ایم مال اور پھر رابن سن مال سے ہوتے ہوئے تقریباً آدھے گھنٹے کے معلوماتی سفر کا اختتام مسجد الخیریہ کی خوبصورت عمارت کے سامنے ہوا۔ مسجد میں نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد امام مسجد نے پرتپاک استقبال کیا۔ مسجد میں پہلے سے موجود ترکی، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملیشیا اور انڈونیشیا کی فلاحی تنظیوں کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات کے بعد اب ہم مسجد الخیریہ کے رضاکاروں کے ساتھ اگلے دن کی منصوبہ بندی کے لیے بیٹھ گئے۔
سیبو جزیرہ اور اسکے اردگرد تباہ ہونے والے جزائیر کا جائزہ لینے اور تباہ حال علاقوں کا نقشہ تیار کرنے کے بعد ڈائیونگ کے لیے دنیا بھر میں مشہور سیبو کا خوبصورت جزیرے ’مالا پاسکوا‘ (Malapascua) کے امدادی کاموں کا انتخاب کیا گیا۔ مالا پاسکوا طوفان کی وجہ سے شدید متاثر ہونے والے علاقوں میں سے ایک ہے۔
پہلے مرحلے میں میڈیکل کیمپ کے لیے 6 رکنی ٹیم اور 200 خاندانوں میں فوڈ پیکیج اور کپڑے تقسیم کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ چنانچہ پوری رات کپڑوں اور اشیاء خورد و نوش کی پیکنگ میں گزری۔ رات دیر تک مسجد کے احاطے میں پیکنگ اور امام مسجد کے گھر کے بنائے ہوئے دال چاول کھانے کے بعد ہوٹل پہنچے اور تھکن سے چور ہونے کی وجہ سے بستر پر گر پڑے۔
اگلے دن صبح الارم مقررہ وقت پر بجنے لگا اور نہ چاہتے ہوئے بھی بستر چھوڑنا پڑا۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو ٹھیک 8 بجے ہوٹل کے گیٹ کے سامنے ایک لمبی مگر خوبصورت سواری ’جیپنی‘ آ کھڑی ہوئی۔ جیپنی، جیپ سے تھوڑی بڑی اور سوزکی پک اپ کی طرح سیبو اور منیلا کی مشہور پبلک ٹرانسپورٹ ہے۔ جس میں 12 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے اور ہماری ٹیم بھی 12 لوگوں پر ہی مشتمل تھی۔
دوپہر کے لیے کھانا پیک کرنے کے بعد تقریباً نصف گھنٹے کے سفر کے بعد ہم شہر کی بلند و بالا عمارتوں سے نکل کر لہلہاتے سر سبز کھیت اور اس کے درمیاں بنائے گئے ایک اور 2 کمروں کے خوبصورت گھروں پر مشتمل وادیوں سے گزرے۔ مالا پاسکوا جزیرے تک پہنچنے کے لیے مایا پورٹ تک 5 گھنٹے کا طویل مگر خوبصورت سفر فوٹو گرافی کرنے میں ہی گزرا۔ مایا پورٹ سیبو کی شمالی بندرگاہ ہے جہاں پر سیبو سے جڑے تمام جزیروں پر لے جانے کے لیے کشتیاں موجود رہتی ہیں۔
یہاں سے مالا پاسکوا کے لیے 50 پیسو فی سواری کے حساب سے کشتی کی سروس موجود ہوتی ہے جو صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک سیکڑوں سیاحوں اور مقامی لوگوں کو آمد و رفت کی سہولت بہم پہنچاتی ہے۔ جبکہ سیاحوں کے لیے 1000 سے 1500 پیسو میں پرائیویٹ کشتی کی سروس بھی موجود ہے۔
مالا پاسکوا جزیرے کے لیے پرائیویٹ کشتی کی بکنگ، سامان کی منتقلی اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم سمندر کی نیلگوں پانی اور دلفریب مناظر سے محظوظ لگے۔
مالا پاسکوا جزیرہ
تقریباً 6.8 کلومیٹر کے اس خوبصورت سفر کا اختتام دنیا کے خوبصورت جزیروں میں سے ایک مالا پاسکوا کے طوفان سے تباہی و بربادی کے مناظر کے ساتھ ہوا۔
تقریباً 4 ہزار نفوس کی آبادی، سفید رتیلے ساحل، نیلگوں پانی اور صاف شفاف سمندر اور ناریل کے خوبصورت درختوں پر مشتمل مالا پاسکوا کی ایک سے 2 گھنٹے میں سیر کی جاسکتی ہے۔ مقامی زبان سیبوانو میں ’مالا پاسکوا‘ کا مطلب ’بُرا کرسمس‘ ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق 15ویں صدی میں اسپین کی افواج جب اس جزیرے میں داخل ہوئیں تو اُس دن شدید طوفان اور کرسمس کا دن تھا، اس لیے اس نسبت سے اس سے جزیرے کا نام مالا پاسکوا (بُرا کرسمس) کا نام پڑگیا۔ جزیرے میں موجود ہوٹلز، ریسٹورینٹس، نائٹ کلب، مساج سینٹر اور ڈائیونگ ٹریننگ سینٹر کی موجودگی یہاں پر آنے والی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کی نشاندہی کر رہی تھی۔
سفید ریت والے ساحل کے کنارے ہماری کشتی رُک گئی۔ امدادی سامان منتقل کرنے کے بعد میڈیکل ٹیم نے جزیرے کے صحت مرکز میں چیک اپ اور ادویات کی فراہمی کا آغاز کردیا۔ پورے جزیرے میں طوفان کی وجہ سے کوئی گھر یا بلڈنگ محفوظ نہیں بچی تھی۔ ناریل کے درخت زمین پر بکھرے پڑے تھے۔ اس قدر تباہی و بربادی کے باوجود بھی وہاں لوگ مطمئن اور ان کے چہروں پر مسکراہٹ نظر آرہی تھی اور انہیں دیکھ کر مجھے کافی حیرت ہوئی۔ ہماری ٹیم کے پہنچنے پر ان کا روایتی استقبال دیدنی تھا۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور اطمینان اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ قوم ہر قسم کی آزمائش کا مقابلہ کرسکتی ہے۔
یہاں پر پہلے سے قائم مقامی ریلیف کمیٹی کے ذریعے 200 خاندانوں میں خوراک اور کپڑوں کی تقسیم بااحسن طریقے سے کرنے کے بعد رات کا قیام اس خوبصورت جزیرے کے ساحل پر بنے ہوٹل میں ہوا۔ اگلے دن ہم نے نئی امدادی مہم کے لیے سیبو کی راہ لی۔
جزیرہ بوہول (Bohol)
مالا پاسکوا سے سیبو لوٹے ہوئے کافی عرصہ گزر گیا۔ دفتری کام اور مسلسل میٹنگز کی وجہ سے کہیں باہر نکلنے کا پروگرام ہی نہیں بن رہا تھا۔ کچھ عرصے بعد امریکی مسلمانوں کی طرف سے زلزلے اور طوفان سے متاثرہ سیبو کے جنوب مشرق میں واقع خوبصورت جزیرے بوہول کا سروے کرنے کو کہا گیا۔
بوہول جزیرہ ویسیاس ریجن کا ایک بڑا صوبہ بھی ہے۔ ہمارے لیے یہ موقع غنیمت تھا کہ اب ہم دفتری روٹین سے ہٹ کر فلپائن کے دیگر حصے دیکھ سکیں گے۔
ہوائی سفر کے ٹکٹس لینے گئے تو پتا چلا کہ خوش قسمتی سے اگلے ایک ہفتے کے سارے جہاز بُک ہیں۔ خوش قسمتی اس لیے کہ ہمیں اب فلپائن کا بحری سفر کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ عصر تک ہمارے پاس بوہول جزیرہ کے صدر مقام تکبیلارن (Tagbilaran) تک جانے کے لیے جدید فیری (اوشن جیٹ) کے ٹکٹس 500 پیسو فی ٹکٹ پہنچ گئے۔ ٹکٹس ملتے ہی ہم نے اس سفر کو پُرلطف بنانے کی تیاری کرلی۔ اگلے دن علی الصبح ہم سیبو کے خوبصورت سی پورٹ پر پہنچ گئے۔
سیبو کی بندرگاہ پر جہاں لوگوں کے بیٹھنے کے لیے بہترین بندوبست تھا وہیں مسافروں کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے سی پورٹ کے ایک کونے میں مساج تھراپی کی جگہ بھی موجود تھی، جہاں کی دلچسپ بات یہ تھی کہ مساج کرنے والے افراد نابینا تھے۔
فلپائن میں ہرجگہ مساج تھراپی سینٹرز موجود ہیں جو یہاں کے لوگوں کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں کے لوگ باقاعدہ اس ہنر کو سیکھنے کے لیے کورسز کرتے ہیں بلکہ سرکاری سطح پر بھی اس ہنر کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
میرے لیے نابینا افراد کے ہاتھوں سے مساج کروانا ایک کافی منفرد تجربہ تھا کیونکہ پاکستان میں تو نابینا افراد کو ہم گھر بیٹھا کر دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں، مگر یہاں فلپائن میں معزور افراد کو ہر ادارے میں یکساں مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔
مساج تھیراپی کے بعد ہم اوشن جیٹ کی خوبصورت کشتی میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ اوشن جیٹ مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ فیری میں سیٹنگ اریجمنٹ جہاز کی طرح ہوتا ہے، یعنی بزنس کلاس، اکانومی اور لوئر اکانومی۔
ابھی ہمارے سفر کو نصف گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ اچانک اسپیکر پر اعلان ہوا کہ، ’فیری کی بائیں طرف چند سو میٹر کے فاصلے پر ڈولفن مچھلیوں کا ایک گروہ نظر آرہا ہے‘۔ ہم اور فیری کے اکثر مسافر ڈولفن دیکھنے کے لیے دوڑے۔ یہ تقریباً 8 سے 10 ڈولفنز کا بڑا گروپ تھا۔ کچھ ڈولفنز نے فیری کے ساتھ دوڑ لگانا شروع کردیا تو چند نے فیری کے کافی قریب آنے کی کوشش کی مگر تیز رفتار فیری انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔
چند لمحوں بعد ایک بار پھر اسپیکر پر اعلان ہوا جس میں مسافروں کو بتایا گیا کہ ہم تکبیلارن کے پورٹ پر پہنچنے والے ہیں۔ ہمارا یہ خوبصورت سفر 2 گھنٹے کی مسافت کے بعد تکبیلارن پورٹ پر ختم ہوا۔
تکیبلارن کی اس چھوٹی بندرگاہ پر نہ صرف مسافر جہاز بلکہ مال بردار بڑے جہاز بھی یہاں لنگر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں مسافر جہاز فلپائن کے دیگر جزائر کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس پورٹ پر روزانہ 4 سے 5 ہزار سیاح و مسافر آتے ہیں۔
تکبیلارن سٹی بھی ایک چھوٹا مگر خوبصورت شہر ہے۔ فلپائن کی ایک خاص بات جو ہماری توجہ کا مرکز بنی وہ چھوٹے سے چھوٹے شہر اور جزیروں کی سڑکوں، سرکاری دفاتر، اسکولوں، ہسپتالوں اور کمیونٹی سینٹرز کی بہترین حالت اور طرزِ تعمیر۔
ہر برنگائے (محلے) میں باسکٹ بال کورٹ، اسکول اور کمیونٹی سینٹر موجود ہے۔ تکبیلارن ٹاؤن میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہ تھی۔ خوبصورت سڑکیں، بڑے بڑے شاپنگ مالز، جگہ جگہ اسکول اور بہترین ہوٹل جو سیاحوں کو زبردست سہولیات فراہم کرنے میں مصروف تھے۔
جزیرہ بوہول کے اردگرد 75 چھوٹے جزائر واقع ہیں جو پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتے ہیں۔ تکبیلارن کے علاوہ بوہول جزیرے میں انڈہ، لوبوک، کارمن، کوریلہ، توبیگان، بیکلیان، بیلار، ڈاوس اور ڈایماو نامی چھوٹے چھوٹے قصبے موجود ہیں۔
بھوک ستانے لگی تو پورٹ پر موجود کوسٹل گارڈ سے کسی قریبی حلال فوڈ ریسٹورینٹ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے سٹی مال میں ایک انڈین ریسٹورینٹ کے بارے میں بتایا۔ ہم تکبیلارن سی پورٹ سے بزریعہ چی این چی (رکشہ) آئی لینڈ سٹی مال کی طرف روانہ ہوگئے۔
رکشہ ڈرائیور نے بیٹھتے ہی معلومات کی پٹاری کھول دی اور تکبیلارن سٹی کے علاوہ بوہول کی مشہور سیاحتی مقامات لوبوک کی مشہور چاکلیٹ ہلز، مگ آسو واٹرفالز (آبشار) (Mag-aso)، مین میڈ جنگل، بڑی آنکھوں اور لنگور نما جانور ترشئیر (Tarsier) دیکھنے کا کہا۔ ہم نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رکشے والے سے مقامی حکومت کے دفاتر کا پتا پوچھا اور دفتری اوقات کے بارے میں معلوم کیا، ساتھ ہی ساتھ لوگوں کے رہن سہن، کاروبار اور سیاحوں کے لیے اس جزیرے پر موجود سہولیات کی تفصیلات بھی حاصل کرلیں۔
تقریباً 20 منٹ کے اس معلومات سے بھرپور سفر کا اختتام سٹی مال کے دروازے پر ہوا۔ اس مال کے چوتھے فلور پر فوڈ کورٹ میں دہلی سے تعلق رکھنے والے انڈین مسلمان کے ریسٹورنٹ سے ہمیں قورمے کی صورت میں کافی عرصے بعد روایتی دیسی کھانا کھانے کو ملا۔ لذیذ کھانا کھانے کے بعد ہماری اگلی منزل مقامی حکومت کے دفاتر تھے جہاں ہماری ڈیزاسٹر منیجمنٹ آفیسر سے ملاقات ہوئی اور اگلی ملاقات ایک دن بعد طے پائی۔ جس میں تباہ شدہ علاقوں کا ڈیٹا، بندرگاہ پر امدادی کنٹینرز کی کسٹم کلئیرنگ کے مرحلے پر گفتگو کی جانی تھی۔
اس خوبصورت جزیرے کو قریب سے دیکھنے کے لیے ہمارے پاس 2 دن تھے۔ اگلے 2 دنوں کی منصوبہ بندی کرکے ہم سٹی مال کے قریب ساحل کنارے پر واقع ایک شاندار ہوٹل میں سستے داموں پر کمرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، یوں رات دیر تک ہم ساحل کنارے کھلے اور صاف سمندر کا نظارہ کرتے رہے۔
اگلی صبح ہم نے بائیک پر آوارہ گردی کرنے کا فیصلہ کیا۔ بائیک رائڈرز کے ساتھ فی بائیک 650 پیسو میں پورا بوہول اور فنگلاو جزیرے کی سیر اور واپس تکبیلارن چھوڑنے کی ڈیل فائنل ہوئی۔ اب ہم 2 موٹرسائکل سواروں ٹام اور جون کے ساتھ اپنی پہلی منزل مین میڈ فاریسٹ اور چاکلیٹ ہلز کی طرف روانہ ہوئے۔
صاف آسمان میں سورج پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور ہلکی سی گرمی بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ ہمارا کیپٹن ہائے رے گرمی کیے جا رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کتنی گرمی ہے آج؟ ٹام کہنے لگا کہ 33 ڈگری سنٹی گریڈ۔ میں نے کہا یہ تو نارمل موسم ہے زیادہ گرمی تو نہیں۔ میرا جواب سن کر وہ کچھ کہے بغیر موٹر سائیکل کی اسپیڈ بڑھاتے ہوئے آگے دیکھنے لگا۔ اُسے کون سمجھاتا کہ مجھ جیسے پشاور، ملتان اور ریسالپور کی شدید گرمی برداشت کرنے والے کے لیے یہ موسم نارمل ہی ہے۔
سفر کے آغاز سے ہی بوہول کے قدرتی مناظر نے ہم پر سحر طاری کردیا تھا۔ سڑک کی دونوں جانب ناریل کے درخت، سر سبز و شاداب کھیت اور خوبصورت گھر تھے، جن کے سامنے پھولوں سے بھری کیاریاں بوہول جزیرے کو مزید خوبصورتی بخش رہی تھیں۔
تقریباً 20 منٹ کے سفر کے بعد ہم ایک گھنے جنگل میں داخل ہوئے، جنگل میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی پورا ماحول ہی تبدیل ہوگیا، وہاں ایک عجیب سی تازگی محسوس ہونے لگی۔ درختوں اور پودوں کی مہک نے ماحول کو معطر کیا ہوا تھا۔ مہوگنی درختوں کا یہ گھنا جنگل فلپائن کا واحد انسان کا بنایا ہوا جنگل (مین میڈ فاریسٹ) ہے۔ مہوگنی ایک سرخ طویل القامت درخت ہے جو اکثر امریکا میں پائے جاتے ہیں۔ مہوگنی درخت کے ساتھ اس جنگل میں چھوٹی جڑی بوٹیوں کے علاوہ دیگر انواع کے درخت بھی اُگائے گئے ہیں۔ یہاں پر تقریباً نصف گھنٹے تک فوٹو گرافی کرنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل چاکلیٹ ہلز کمپلیکس کی طرف بڑھ گئے.
ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم بوہول کے سب سے مشہور سیاحتی مقام چاکلیٹ ہلز کمپلیکس پہنچ گئے۔ سیاحوں کو یہاں پہنچنے کے لیے کوئی دشواری پیش نہیں آتی کیونکہ گول گول چوٹیاں 20 منٹ پہلے ہی دور سے نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ کمپلیکس کے دروازے کے قریب ہی ایکو ایڈونچر کلب کا سائن بورڈ لگا ہوا تھا، جس میں زپ لائن (zipline) پر سائیکل چلانے اور زپ لائن (zepline) کے ذریعے ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک جانے کے ایڈونچر کے بارے میں بھی لکھا ہوا تھا۔
بورڈ دیکھ کر ہم نے واپسی پر ایکو ایڈونیچر کلب کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا اور چاکلیٹ ہلز کے مرکزی مقام کے لیے روانہ ہوگئے۔ جو سیاح بس کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں وہ مرکزی مقام تک جانے کے لیے 50 پیسو کی موٹر بائیک بک کروا لیتے ہیں مگر چونکہ ہم پہلے سے موٹرسائیکلوں پر سوار تھے اس لیے ہم تقریباً 5 منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔ چاکلیٹ ہلز کے ٹاپ تک جانے کے لیے 50 پیسو کا ٹکٹ لے کر سیڑھیوں کے ذریعے ویو پوائنٹ تک پہنچے۔ یہاں سے چاکلیٹ ہلز کا نظارہ دیدنی تھا۔
کم از کم 1 ہزار 268 فٹ چاکلیٹ کی طرح نظر آنے والی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں بوہول کے کارمین، بٹان اور ساببان کے میونسپلٹیوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ ہری گھاس سے ڈھکی 30 سے 50 میٹر بلند چوٹیاں خشک موسم میں رنگ بدل لیتی ہیں اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے دلفریب نظارہ پیش کرتی ہیں۔ کچھ دیر تک کیمرے میں تصاویر قید کی گئیں اور ہلکا سا کھانا کھانے کے بعد ہم ایکو ایڈونچر کلب کی طرف روانہ ہوگئے۔
کلب میں داخلہ فیس اور زیپ لائن کا ٹکٹ لے کر ہم گھنے جنگل میں داخل ہوگئے۔ جنگل میں بنے ہوئے ایڈونچر سے بھرپور چھوٹے رستوں اور پلوں سے گزر کر ہم پہلے مرحلے میں زیپ لائن پر سائیکل چلانے کے قدرے خطرناک ایڈونچر کرنے کی جگہ پر پہنچ گئے۔
زمین سے 50 میٹر بلند چاکلیٹ ہلز کی ایک چوٹی سے دوسری چوٹی تک زیپ لائن پر سائیکل چلانا قدرے مشکل لگ رہا تھا، خیر وہاں موجود اسٹاف، انسٹرکٹر کی تفصیلی بریفنگ اور سیفٹی اقدامات اور ایڈونچر کے شوق نے آخرکار زپ لائن پر سائیکل چلانے پر مجبور کردیا۔ میں زندگی کے اس بہترین ایڈونچر کے لیے ہیلمٹ پہن کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
شروع میں تو تھوڑی مشکل پیش آئی مگر پھر جب حوصلہ پیدا ہوا تو چند منٹوں کے اندر پوری رفتار کے ساتھ کامیابی کے ساتھ دوسری طرف پہنچ گیا۔ لیکن ابھی ایڈونچر مکمل نہیں ہوا تھا کیونکہ اب مجھے دوبارہ اسی جگہ پر جانا تھا جہاں سے سائیکل کو چلا کر لایا تھا۔ دوسری لائن پر موجود سائیکل پر بیٹھ کر واپسی کے سفر کا آغاز پُراعتماد انداز میں کیا لیکن نصف لائن ہی عبور کی تھی کہ میری نظر اچانک زمین کی طرف پڑی، خود کو اس قدر بلندی پر پاکر میرے پاؤں لڑکھڑا گئے اور سائیکل کا اسٹیرنگ تھوڑا سا ٹیڑھا ہوگیا جس سے سائیکل اپنی جگہ پر رک گئی۔
ایک لمحے کے لیے لگا کہ جیسے کہ اب میں گر جاؤں گا لیکن جب میں نے اپنی نظریں دوسری طرف چوٹی پر جمائیں تو وہاں موجود انسٹرکٹر میرا حوصلہ بڑھانے لگے اور مجھے سائیکل چلانے اور اسٹیرنگ سیدھا کرنے کا اشارہ کرنے لگے۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد سائیکل دوبارہ چلنا شروع ہوئی اور اللہ اللہ کرکے میں منزل مقصود تک پہنچ ہی گیا۔
اب باری تھی دوسرے ایڈونچر کی، اس میں ہمیں زیپ لائن پر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جانا تھا۔ زیپ لائن کا یہ ایڈونچر قدرے آسان تھا لیکن اس کی بلندی گزشتہ ایڈونچر سے دگنی تھی۔ ایڈونچرز سے خوب محظوظ ہونے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل ترشئیر (بڑی آنکھوں والے لنگور) کے تخفظ اور افزائش نسل کے لیے بنائے گئے مرکز کی طرف روانہ ہوئے جو چاکلیٹ ہلز سے تقریباً 40 منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔
جانوروں پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق ترشیئر 45 ملین سالوں سے دنیا کی مختلف جگہوں پر موجود تھے۔ لیکن اب یہ صرف فلپائن، دنیا کے تیسرے اور ایشیا کے سب سے بڑے جزیرے بورنیو اور انڈونیشیا میں پائے جاتے ہیں۔ 1960ء تک یہ فلپائن کے جنوبی حصے میں ایک بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب ان کی تعداد بہت ہی محدود ہوچکی ہے۔
فلپائن کے محکمہ برائے قدرتی وسائل نے نیشنل ترشئیر فاونڈیشن کی مدد سے بوہول کی مقامی حکومت کے ساتھ مل کر 20 ایکڑ اراضی پر مشتمل ترشئیر تخفظ سینٹر قائم کیا ہے جس میں اس جانور کی باقاعدہ افزائش نسل اور تخفظ کے لیے کام کیا جاتا ہے۔
منیلا ائیرپورٹ پر پہلی دفعہ اس جانور کی تصویر دیکھ کر دل میں اس جانور کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی اور وہاں یہ خواہش بھی پوری ہوئی۔ اس جانور کو پہلی بار دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی۔ میرے ذہن میں تھا کہ یہ ایک بڑا جانور ہوگا لیکن یہ تو میرے ہاتھ سے بھی چھوٹا جانور تھا۔ بندر جیسی جسامت اور بڑی بڑی آنکھوں والا یہ جانور یقیناً قدرت کا منفرد شاہکار ہے۔ ترشئیر کے قریب جاکر بغیر فلیش کے تصویر بنانے کی اجازت ہے لیکن اس کو چھونے پر سخت پابندی تھی۔
دوسرے دن صبح ہماری منزل مشہور مگ آسو واٹر فالز (آبشار) تھی۔ ناشتے کے فوراً بعد ٹام اور جون ہوٹل گیٹ پر پہنچ چکے تھے۔ تقریباً 40 منٹ کے سفر کے بعد ہم اس خوبصورت آبشار کو جانے والے راستے کے مرکزی دروازے پر تھے۔ 200 پیسو کی ٹکٹ لیکر تقریباً ایک کلومیٹر کی ٹریکنگ کرنے کے بعد ہم مگ آسو آبشار تک پہنچ گئے۔
آبشاروں کے اس خوبصورت سیاحتی مقام پر مقامی حکومت نے سیاحوں کے لیے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی ہوئی ہیں مگر پاکستان کے شمالی علاقہ جات ناران، کاغان، وادی نیلم اور اسکردو تک ایسی کئی آبشاریں ہیں جو اس سے کئی گنا زیادہ حسین ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کے باعث سیاحوں کی رسد سے دور ہیں اور یا گندگی کے ڈھیر بن چکی ہیں۔
آبشار میں سوئمنگ کے حوالے سے ہر قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کی گئیں تھیں۔ لائف جیکٹ پہن کر کافی دیر تک ہم ان خوبصورت آبشاروں کے پانی میں بھیگتے اور لُطف اندوز ہوتے رہے۔
آبشار کے بعد ہماری اگلی منزل جزیرہ پنگلاو کا ساحل تھا، جہاں شام دیر تک قدرت کے رنگوں سے آنکھیں خیرہ کیں اور یوں ہمارا فلپائن کا سفر تمام ہوا۔
عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں