سپریم کورٹ نے اثاثوں سے متعلق مشرف، زرداری کا بیان حلفی مسترد کردیا
سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری، جنرل (ر) پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک محمد قیوم کے ملکی و غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے بیان حلفی مسترد کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) 2007 کے حوالے سے پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے تینوں افراد کو گزشتہ 10 سالوں کے اپنے ملکی و غیر ملکی اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے تفصیلات جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔
عدالت نے تینوں افراد کو اپنے زیر کفالت افراد کی بھی ملکی و غیر ملکی اثاثوں و بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم جاری کیا۔
پرویز مشرف کے پاس دبئی میں اپارٹمنٹ اور 3 گاڑیاں ہیں
سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف کے پاس دوبئی میں اپارٹمنٹ، 3 غیر ملکی اکاؤنٹس اور تین گاڑیاں ہیں۔
اثاثوں کے حوالے سے تفصیلات میں بتایا گیا کہ پرویز مشرف کے پاس دبئی کے ڈاؤن ٹاؤن میں 54 لاکھ درہم مالیت کا ایک فلیٹ ہے۔
دستاویزات کے مطابق پرویز مشرف کے ملکیت میں 2 لاکھ 30 ہزار درہم کی 2015 ماڈل کی مرسڈیز، 1 لاکھ 50 ہزار مالیت کی 2017 ماڈل کی جیپ اور 1 لاکھ 30 ہزار درہم کی 2018 ماڈل کی شیورلیٹ امپالا ہے۔
مزید پڑھیں: این آر او سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے شواہد نہیں ملے، نیب
پرویز مشرف کے پاس 3 غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں 92 ہزار 100 درہم، 21 ہزار 550 پاؤنڈز اور 2 لاکھ 68 ہزار 653 درہم موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف ساری زندگی کی تنخواہ سے بھی فلیٹ لے سکتے تھے، پرویز مشرف سے کہیں عدالت آکر خود وضاحت دیں جس پر وکیل نے کہا کہ مشرف کے غیر ملکی اثاثے صدارت چھوڑنے کے بعد کے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا لیکچر دینے کے اتنے پیسے ملتے ہیں کیوں نہ میں بھی ریٹائرمنٹ کے بعد لیکچر دوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چک شہزادفارم ہاوس کس کا ہے جس پر پرویز مشرف کے وکیل نے جواب دیا کہ وہ ان کے موکل کا ہے۔
چیف جسٹس نے پرویز مشرف کے پاکستان میں موجود اثاثوں اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانے کا حکم جاری کردیا۔
آصف علی زرداری کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا، وکیل
آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ آصف زرداری 9 سال جیل میں رہے کچھ ثابت نہیں ہوا 9 سال قید کا کچھ تو صلہ ملنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے کلیئرنس کی صورت میں ہی صلح مل سکتا ہے، 9 سال جیل میں رہ کر اثاثے ڈکلئیر نہیں کیے جا سکتے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آصف زرداری کی غلطی ہے کہ وہ سیاست دان ہیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لیڈروں کو اپنے اوپر لگے داغ دور کرنے چاہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون کا 'این آر او' سے لاتعلقی کا اظہار
چیف جسٹس نے آصف علی زرداری کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آصف زرداری کاسوئیٹزرلینڈ میں اکاؤنٹ تھا؟، کیا بے نظیر بھٹو شھید یا بچوں کے نام پر کوئی اکاؤنٹ تھا؟، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کا جواب وہ آصف علی زرداری سے معلوم کر کے دیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آصف علی زرداری 2007 کے بعد سے لیکر اب تک اپنے ملکی و غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آصف علی زرداری کسی ٹرسٹ کے مالک یا بینفشری ہیں یا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی اکاؤنٹ کے مالک یا شراکت دار ہیں تو عدالت کو آگاہ کریں۔
عدالت نے آصف علی زرداری کے بیان حلفی کو مسترد کرتے ہوئے 10 سالہ ملکی و غیر ملکی جائیدادوں اور بنک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں۔
عدالت نے آصف زرداری کے بچوں کی بھی 10 سالہ تفصیلات طلب کرتے ہوئے نیا بیان حلفی طلب کر لیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز آصف علی زرداری کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی میں انہوں نے تصدیق کی تھی کہ ان کے پاس پاکستان سے باہر کوئی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد نہیں اور نہ ہی کوئی بینک اکاؤنٹ ہے۔
دوسری جانب عدالت نے سابق چیف آف آرمی پرویز مشرف اور سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم سے بھی 10 سالہ جائیدادوں اور بینک اکاﺅنٹس کی تفصیلات طلب کر لی۔
عدالت نے آصف علی زرداری، پرویز مشرف اور ملک قیوم کو بھی 10 سالہ تفصیلات پر 3 ہفتوں میں بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی۔