کیا مودی کے پاس مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی منصوبہ ہے بھی؟
ہندوستان کے نائب وزیرِ اعظم ولبھ بھائی پٹیل نے کشمیر پر اقوامِ متحدہ کے ثالث اوون ڈکسن کو 30 جولائی 1950ء کو کہا تھا کہ ’ہم میں سے زیادہ تر یہ سوچتے ہیں کہ یہ ہندوستان کے لیے بدنامی ہے، اور کسی فائدے کا باعث نہیں ہے کہ اس مسئلے کو اتنے عرصے تک کھینچا گیا ہے‘۔
اب تقریباً 70 سال بعد اس بدنامی میں اضافہ ہوا ہے، عوام ناقابلِ تصور پستیوں کا شکار ہیں جبکہ ظالمانہ جبر میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
پٹیل نے پاکستان کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ ان کے ذہن میں نہرو اصل ذمہ دار تھے۔ نہرو کی ہٹ دھرمی سے تنگ آ کر پٹیل نے اپنے قابلِ اعتماد افسر وی پی مینن کو ہندوستان میں امریکی سفیر کے پاس یہ بتانے کے لیے بھیجا کہ وہ (پٹیل) اس مسئلے کے حل کے لیے کتنے بے تاب تھے۔
نہرو کے منصوبے کے خدوخال سونامارگ سے 25 اگست 1952ء کو شیخ عبداللہ کو لکھے گئے خفیہ نوٹ میں موجود تھے۔ منصوبہ یہ تھا کہ تنازعے کو یک طرفہ طور پر حل کیا جائے۔ انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ عوام میں کیے گئے وعدوں کے برعکس 1948ء میں ہی رائے شماری کے امکان کو مسترد کرچکے تھے۔
پڑھیے: پاکستان کو ہندوستان سے بات کن شرائط پر کرنی چاہیے
اور کشمیر کے عوام کا کیا؟ نہرو کا کہنا تھا کہ ’بھلے ہی وہ کئی معاملات، مثلاً ذہانت اور فنکاری کے حوالے سے بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہیں، مگر وہ نرم مزاج اور آسان زندگی کے عادی ہیں‘۔
شیخ صاحب کی مزید یقین دہانی کے لیے نہرو نے اضافہ کیا کہ ’ایک اور پہلو ہے جس پر ہم نے زور دیا ہے، اور جو اہم بھی ہے۔ یہ معاملہ کشمیر کی عوام کی امنگیں ہیں۔ اگر کشمیر کے لوگ واضح اور حتمی طور پر ہندوستان سے علیحدگی چاہتے ہیں تو معاملہ یہاں ختم ہوجاتا ہے‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’چنانچہ رائے شماری کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے ہمیں کشمیر کی موجودہ قیادت اور کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کو کشمیری عوام کی امنگوں کی نمائندہ کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ کسی بھی صورت میں ہم یہاں عوام کی اظہار کردہ مرضی کے بغیر نہیں رہ سکتے‘۔ 1950ء میں نہرو نے خود ہی اس باڈی کو مسئلے کا حل کرنے سے روک دیا تھا۔
خبردار ہوچکے شیخ صاحب یہ معاملہ اپنی جماعت نیشنل کانفرنس تک لے گئے۔ اس کی 8 رکنی کمیٹی میں اتفاقِ رائے ایک علاقائی رائے شماری کے لیے ڈکسن پلان کے حق میں تھا۔ نہرو اس حوالے سے باخبر تھے۔ 31 جولائی 1953ء کو انہوں نے اپنے پرائیوٹ سیکریٹری ایم او متھائی کے نام ہدایت نامہ جاری کیا کہ شیخ عبداللہ کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد قید کردیا جائے۔ فوجی کردار کا بھی اشارہ موجود تھا۔ یہ 8 اگست 1952ء کی بات ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہوا ہے۔
1989ء سے کشمیر کے عوام نے ’ہندوستان سے راہیں الگ کرنے‘ کے عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا ’اظہار‘ نہایت ’وضاحت اور حتمیت‘ کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اب وہ ہندوستان سے اپنے وعدے کی تکمیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ معلومات دنیا تک پہنچنے سے روکنے کے لیے 22 جون 2018ء کو حکومتِ ہندوستان نے بین الاقوامی صحافیوں کو کشمیر کے اندر ’پیشگی اجازت/خصوصی پرمٹ‘ کے بغیر سفر کرنے سے روک دیا۔ ہندوستان میں واشنگٹن پوسٹ کی شہرت یافتہ بیورو چیف اینی گووِن نے 22 جون کو اجازت نامے کے لیے درخواست دی۔ وہ 31 جولائی کو سری نگر میں ایک دوست کی شادی میں شرکت کے لیے موجود تھیں۔ سری نگر میں گھومتے ہوئے اپنی آنکھیں بند رکھنے کا امکان کم تھا۔ انہوں نے ہیومن رائٹس واچ، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز، رپورٹرز کمیٹی فار فریڈم آف دی پریس، اور کولمبیا جرنلزم ریویو کو اس حوالے سے خبردار کیا۔ آہنی پردوں میں شگاف جابجا موجود ہیں۔
پڑھیے: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘
2018ء میں ہندوستان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرسکتا مگر اس نے مفاہمت کی کسی بھی پالیسی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ نعروں سے لدے ہوئی زیادتی کو ترجیح دیتا ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے نعرے ’انسانیت، جمہوریت، کشمیریت‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ انہوں نے 26 جون 2000ء کو اپنے اتحادی فاروق عبداللہ کی خودمختاری کی بحالی کے مطالبے کو سختی سے مسترد کردیا تھا اور جولائی 2001ء میں آگرا سربراہی کانفرنس کو بھی نقصان پہنچایا۔
مگر 27 مارچ 2003ء کو امریکا اور برطانیہ کے مشترکہ بیان نے ہندوستان اور پاکستان کے لیے کچھ اقدامات تجویز کیے جن میں جنگ بندی سے لے کر پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کا انعقاد تک شامل تھا۔ فریقین نے اس پر اتفاق کیا۔ یہ اس کے بعد ہی 18 اپریل 2003ء کو واجپائی نے سری نگر میں 'انسانیت' کی بات کی اور اپریل 23 کو پارلیمنٹ میں 'جمہوریت' اور 'کشمیریت' کو بھی اپنے بیان میں شامل کیا۔
مودی نے یومِ آزادی 2018ء پر انکار کی راہ اپنائی۔ ’ان 3 بنیادی عناصر کے ساتھ ہم جموں و کشمیر کو ترقی بھی دلوانا چاہتے ہیں۔ ہم کشمیر، جموں و لداخ میں متوازن ترقی چاہتے ہیں۔ ہم گولی اور گالی کی راہ پر سفر نہیں کرنا چاہتے۔ ہم محبت اور قربت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘۔ لوگوں کو مسئلے کے تصفیے کے بجائے نعرے پیش کرنا ظالمانہ اقدام ہے۔
کشمیر میں ایسا کوئی دن نہیں ہوتا جب اس کا کم از کم ایک نوجوان فورسز کی گولیوں کا نشانہ نہ بنے۔ کشمیر کو قابلِ عمل پالیسی کی ضرورت ہے۔ مذاکرات تب تک بے نتیجہ رہیں گے جب تک کہ تینوں فریقوں، یعنی پاکستان، ہندوستان، اور کشمیری عوام کی امنگوں کو قابلِ قبول ایک متفقہ بنیاد تلاش کرنے کا عزم موجود نہ ہو۔
ابتداء اس سے کی جاسکتی ہے کہ وہ اٹارنی جنرل کے ذریعے سپریم کورٹ کو بتائیں کہ ریاست آئین کی شق 35 (الف) پر قائم ہے جو کہ زمینوں اور ملازمتوں کے حوالے سے عوام کو خصوصی حقوق فراہم کرتی ہے۔
پوری وادی اس شق کی معطلی کی کوششوں کے خلاف مسلح جدوجہد پر اتری ہوئی ہے۔ کیا مودی اس حوالے سے کوئی عملی اقدام اٹھائیں گے؟ بنیادی طور پر کیا ان کے پاس تصفیے کے لیے کوئی منصوبہ موجود ہے؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 اگست 2018ء کو شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں