ہالینڈ کا طلسماتی جزیرہ، گل لالہ کے کھیت اور صوفیہ کا ساتھ
صوفیہ اور میری سائیکل ساتھ ساتھ تھی۔ کبھی وہ آگے نکلنے کی کوشش کرتی اور کبھی میں اور کبھی ہم دونوں ہی تھک کر سائیکل آہستہ آہستہ ایک ساتھ چلانا شروع کردیتے۔ ٹیولپ کے سرخ، پیلے، زعفرانی اور نرگس کے سفید پھول تاحد نگاہ پھیلے ہوئے تھے۔
گلِ لالہ اور نرگس کے اتنے زیادہ اور اتنے وسیع رقبے پر پھیلے یہ پھول میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھے تھے۔ یہ کھیت کائنات کے کسی اَن دیکھے طلسماتی جزیرے کے لگ رہے تھے اور یہ مناظر لمحوں کو صدیوں پر محیط اور محسوسات کو امر کردینے والے تھے۔
ٹیکسل جزیرے کے ان کھیتوں کے درمیان سائیکل کے لیے خصوصی راستے بنے ہوئے تھے اور ہم گزشتہ 2 گھنٹوں سے قوسِ قزاح کی طرح ان ست رنگی کھیتوں کے بیچوں بیچ سیدھے اور ہموار راستوں پر بے ترتیب گھوم رہے تھے۔ کبھی کبھار ہوا کا تیز جھونکا آتا تو ہم دونوں کی سائیکلیں ڈولنا شروع کردیتیں۔ تیز ہوا سامنے سے پڑتی تو تمام تر زور لگانے کے باوجود سائیکل کو آگے کی طرف لے جانا مشکل ہوجاتا۔
ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے صوفیہ کے آسمانی مسکراہٹ والے گندمی گال اور خوبصورت نوکیلی ناک ہلکی ہلکی سرخ ہوچکی تھی لیکن وہ کسی بے ڈور پتنگ کی طرح بس آگے سے آگے نکلنے کی دُھن میں تھی۔ پھولوں کے ان میلوں میل پھیلے ہوئے حسین اور دلفریب سلسلے میں وہ اُفق کی آخری حدوں کو چھونے کی طلب میں تھی۔
ہالینڈ پھولوں کا دیس ہے۔ دنیا کے تقریباً 80 فیصد فلاور بلب (گھٹیاں) ہالینڈ سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ گل لالہ (ٹیولپ) بھی یہی ملک برآمد کرتا ہے۔ اس ملک میں ٹیولپس کی ہزاروں اقسام پیدا کی جاتی ہیں۔ ہالینڈ میں دیگر درجنوں اقسام کے پھول بھی اگائے جاتے ہیں اور ان میں سے تقریباﹰ 90 فیصد دیگر ملکوں کو برآمد کیے جاتے ہیں۔
سالانہ لاکھوں لوگ ہالینڈ کی سیر صرف پھولوں کے کھیتوں کی وجہ سے کرنے آتے ہیں۔ ہارلیم نامی علاقے کو ایسے گلوں کا مرکز کہا جاتا ہے لیکن پھولوں کی سالانہ پریڈ اور سیکڑوں اقسام کے پھولوں کے ’کوکن ہاف پارک‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اصل میں ہالینڈ اور ٹیولپ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ٹیولپ اس ملک کا پھول نہیں ہے۔ اسے 15ویں صدی کے عثمانی دور میں قیمتی ترین پھول سمجھا جاتا تھا۔ اس خوبصورت گل کو پہلی مرتبہ 1555ء میں ویانا کے بادشاہ فیرڈینانڈ اول کا ایک سفارت کار استنبول سے یورپ لایا تھا اور وہاں سے پھر یہ وسطی یورپ کے شہزادوں اور بادشاہوں کے باغوں تک پہنچا۔ بعدازاں 16ویں صدی میں انہیں ترکی سے باقاعدہ ہالینڈ درآمد کیا جانے لگا۔
معیشت کی دنیا میں آپ نے یہ اکثر سنا ہوگا کہ یہ ’ٹیولپ مانیا‘ نہ ثابت ہو۔ یہ ٹیولپ مانیا کا لفظ اسی ٹیولپ یا گل لالہ سے نکلا ہے۔ 1630ء کی دہائی میں ہالینڈ میں اس پھول کی قدر ایک گھر کی قیمت کے برابر ہوچکی تھی۔ یہ پھول فراری کار کی طرح ایک اسٹیٹس سمبل بن چکے تھے۔ ہالینڈ کے امراء، تعلیم اور مراعات یافتہ طبقے کے باغیچوں میں اس پھول کو رکھنا باعث عزت سمجھتے تھے۔ منافع بخش ہونے کی وجہ سے کسانوں سمیت ہالینڈ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس تجارت میں شامل ہوچکا تھا۔
پھر فروری 1637ء کو ایک دم اس کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں اور اس طرح دنیا کا پہلا ریکارڈ شدہ معاشی بحران پیدا ہوا تھا، جسے ہم آج تک اکنامک ببل یا ’ٹیولپ مانیا‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
یہ جزیرہ بھی ٹیولپس سے لدا ہوا تھا اور ہم چند دوست گزشتہ شام ہی ہالینڈ کے اس سب سے بڑے جزیرے پر پہنچے تھے۔ میں دوسری مرتبہ ہالینڈ آیا تھا لیکن اس جزیرے پر آکر مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میری برسوں کی تھکن اتر رہی ہو۔ یہ اپریل کا مہینہ تھا اور ہالینڈ کے اس شمالی جزیرے کو نارتھ سی کی یخ بستہ ہواؤں نے ابھی تک اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
اس جزیرے پر پہنچنے کے لیے ہالینڈ کے شہر ’دِن ہیلڈر‘ تک تو آسانی سے آیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد گاڑیوں سمیت ایک بڑے بحری جہاز پر سوار ہونا پڑتا ہے، جو مسافروں کو یہاں تک لے آتا ہے۔ ہم نے جزیرے پر ایک مکان پہلے ہی چند روز کے لیے بُک کر رکھا تھا۔ ہماری گاڑیاں تو اسی کاٹیج نما مکان میں کھڑی تھیں لیکن یہ سائیکل ہم نے گھر کے قریب ہی واقع ایک دکان سے کرایے پر لی تھیں۔
ہالینڈ کی خاص بات یہ ہے کہ حکومت انتہائی ماحول دوست ہے۔ ڈچ حکومت سن 2025ء تک ڈیزل اور پٹرول گاڑیوں کی فروخت پر پابندی کا منصوبہ رکھتی ہے تاکہ صرف الیکٹرک گاڑیاں اور سائیکلیں ہی سڑکوں پر چل سکیں۔
اس ملک کی آبادی سے زیادہ یہاں پر سائیکلیں ہیں۔ دنیا میں سائیکل چلانے کے حوالے سے سب سے محفوظ ترین ملک ہالینڈ کو ہی تصور کیا جاتا ہے۔
اس جزیرے پر بھی سائیکلوں کے لیے خوبصورت راستے دل موہ لینے والے تھے۔ میلوں تک پھولوں کے کھیت اور کٹوروں جیسے صندلی نینوں والی صوفیہ کی ہمراہی میں مجھے یہ جزیرہ واقعی بہشت کا کوئی ٹکڑا لگ رہا تھا، پھولوں اور صوفیہ کی دلفریب مسکراہٹ کا طلسم آنکھوں کو پتھر کر رہا تھا۔
میں نے پہلی مرتبہ اتنے زیادہ پھولوں کے کھیت فلم ’پریم روگ‘ میں دیکھے تھے۔ گاؤں میں کرایے کا وی سی آر اور اس فلم کی ویڈیو کیسٹ لائی گئی تھی۔ محلے کے تمام شوقین مزاج لڑکے، بڑے اور بزرگ جمع تھے۔ اس میں ایک گانا تھا ’بھنورے نے کھلایا پھول، پھول کو لے گیا راج کمار‘۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس فلم میں پھولوں کے کھیت دیکھ کر وہاں بیٹھا ہر کوئی حیران رہ گیا تھا۔ ابراہیم مستری نے دھوتی کو اپنے مخصوص انداز میں ٹھیک کرنے کے بعد حقے کی گُڑگُڑ کرتے ہوئے کہا تھا، ’انگریزنیاں وانگوں ایناں دیاں پہلئیاں وی سوہنیاں نیں‘ (انگریزنیوں کی طرح ان کے کھیت بھی سوہنے ہیں۔)
گاؤں میں اس وقت کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ پھولوں کے یہ کھیت ہالینڈ میں ہیں۔ تب تو میرے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ایک دن اسی فلمی سین کی طرح میں بھی کبھی ان کھیتوں میں جرمن بولنے اور جینز کے اوپر ٹی شرٹ پہننے والی لڑکی کے ساتھ سائیکل تیز بھگانے کی شرط لگاؤں گا اور ہار جاؤں گا۔ شاید میں جیتنا بھی نہیں چاہتا تھا میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ ہارے اور اس دلنشیں اور مختصر رفاقت کا چائے کے آخری اور ٹھنڈے گھونٹ کی طرح مزہ کم ہوجائے۔
ہم اس دن کافی دیر بے معنی باتیں کرتے رہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان بے معنی باتوں میں سے بھی کوئی نہ کوئی مزید بات نکل آتی تھی۔ جب 6 گھنٹے سائیکل پر آوارہ گردی کرکے ہم واپس گھر پہنچے تو تھکاوٹ سے ہمارا بُرا حال ہوچکا تھا، پاؤں کی چھوٹی چھوٹی رگیں ڈھولکی کی کھال کی طرح ارتعاش کرتی محسوس ہو رہی تھیں۔
ہم چند دوست گزشتہ 3 برسوں سے سال میں ایک سفر مل کر کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم ہالینڈ، بیلجیم کے ساحلی علاقے ڈیپان، سوئٹزرلینڈ اور فرانس کا ایک ایک سفر مل کرچکے ہیں لیکن اس جزیرے میں کچھ الگ ہی کشش تھی۔ جرمنی پہنچ کر اس گروپ میں سب سے پہلی دوستی فلوریان سے ہوئی تھی اور پھر باقی ہم مزاج دوست بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔
شام کے کھانے کے بعد ہم سبھی مل کر فلم دیکھ رہے تھے لیکن صوفیہ ہم سب سے بے نیاز ہوکر آتش دان کے قریب بیٹھی جوجو موئس کا بیسٹ سیلر رومانوی ناول ’می بیفور یُو‘ کا جرمن ترجمہ انہماک سے پڑھنے میں مصروف تھی۔ یہ ناول ایک ایسے امیر اور خوبصورت نوجوان کے گرد گھومتا ہے، جو ایک حادثے میں اپاہج ہوجاتا ہے اور قانونی خودکشی کا راستہ تلاش کرتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال کے لیے ایک 26 سالہ غریب لڑکی لوئزا کلارک کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ لوئزا ناول کے اپاہج ہیرو ولیم کے بال تراشنے سے لے کر داڑھی سنوارنے تک کا کام سر انجام دیتی ہے۔ آہستہ آہستہ لوئزا اپاہج ولیم کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے، دونوں ایک دوسرے کے انتہائی قریب آجاتے ہیں لیکن ولیم خودکشی کا ارادہ ترک نہیں کرتا۔
ایک کونے میں بیٹھی صوفیہ ایک دم سے چلائی، ’ایسا بھلا کون کرتا ہے؟ اگر اسے ایک اچھی لڑکی مل ہی گئی ہے اور دل سے اس کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے تو پھر وہ کیوں مرنا چاہتا ہے؟ اسے زندگی سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟‘
صوفیہ نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور ہوا کے ساتھ کروٹیں بدلتے ہوئے بادلوں جیسی انگڑائی لیتے ہوئے ایک نعرہ بلند کیا، ’ساحل پر کون کون چلے گا؟ ساحل پر ایک لائٹ ہاؤس ہے کون کون دیکھے گا؟‘
رات کے 10 بج چکے تھے اور ہر کوئی گرم کمبل میں بیٹھا ہوا تھا پہلی آواز میں کسی نے بھی ہاں نہ کی۔
صوفیہ پھر بولی، ’تم میں سے کسی نے پہلے لائٹ ہاؤس دیکھا ہے اور وہ بھی ایک جزیرے پر اور وہ بھی اتنی رات گئے؟ ایسی بکواس فلمیں تو گھر پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ چلو اٹھو سبھی!‘ صوفیہ نے ایک دم سے تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی مِینو کا کمبل کھینچا۔
کچھ ہی دیر بعد ہم سبھی ساحل پر کھڑے تھے۔ ٹھنڈی ہوا گرم کپڑوں کا سینہ چیرتے ہوئے اندر تک اپنی ٹھنڈک کا احساس دلا رہی تھی۔ میں نے جلدی سے اپنے اونی مفلر سے گلے کے ساتھ ساتھ اپنے کانوں کو بھی لپیٹ لیا۔ سردی سے ہاتھ کوٹ کی جیبوں سے باہر نکالنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ لائٹ ہاؤس کی بتیوں سے نکلنے والی تیز روشنی پیڈسٹل پنکھے کی طرح دائیں سے بائیں اور پھر بائیں سے دائیں جانب مڑنے کا ناختم ہونے والا سفر جاری رکھے ہوئے تھی۔
دسمبر جیسی برفیلی تیز ہوا کی سرسراہٹ، گھپ اندھیرا اور شور مچاتی ہوئی لہریں ماحول کو انتہائی پُراسرار بنا رہی تھیں۔ وہاں رات کو اس وقت ہمارے قہقہوں اور سمندری بگلوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ ساحل پر تیز ہوا کے ٹھنڈے تھپیڑے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔
چند ہی منٹوں بعد نارتھ سی کی جما دینے والی ہواؤں کی وجہ سے آنکھوں سے ہلکا ہلکا پانی نکلنا شروع ہوا تو ہم سب کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ وسط دسمبر کی کسی ٹھنڈی اور سنسنان رات میں آپ کو ساحل پر کھڑا کردیا جائے اور اوپر سے تیز آندھی کی طرح بے لگام ہوائیں چل رہی ہوں تو آپ ٹھٹھرتے ہوئے جسم کے ساتھ بھلا کتنی دیر وہاں قیام کرسکتے ہیں؟
سب نے مل کر ایک مرتبہ صوفیہ کی کلاس لینے کی کوشش کی کہ اسی کا مشورہ تھا لیکن وہ ڈٹی رہی کہ اتنی ٹھنڈ ہے نہیں جتنا آپ سب نے شور ڈالا ہوا ہے۔ ہمارا کاٹیج نما گھر ساحل سے تقریباﹰ ایک کلومیٹر دور تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد صوفیہ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے کوٹ کی جیب میں ڈال دیا۔ اس کے ہاتھ شاید ہم سب سے زیادہ بلکہ برف کی طرح ٹھنڈے تھے۔ میں نے خاموشی اس کی مخروطی انگلیوں کو اپنی نیم گرم مُٹھی میں دبا لیا۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے یوں لگا کہ جیسے اس جزیرے کے سب رنگ سِمٹ کر میری مٹھی میں آگئے ہوں۔
گھر واپس پہنچتے ہی ہم سب آتش دان کے قریب بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد صوفیہ نے اپنا ناول پکڑا اور اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں موپساں کے افسانے پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ باقی لوگ کمبل اوڑھے اور سامنے چپس کے پیکٹ رکھے دوبارہ فلم دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔
اگلے دن 11 بجے کے قریب ہم سبھی جزیرے کے مشرقی حصے میں پہنچ چکے تھے۔ اس حصے میں ایک چھوٹی سے بندرگاہ ہے جہاں پر مچھیروں کی کشتیاں کھڑی رہتی ہیں۔ ان میں سے چند کشتیاں چند یوروز کے عوض سیاحوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہیں اور وہ بھی ماہی گیری میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ہم ابھی بندرگاہ کی طرف پیدل جا رہے تھے کہ صوفیہ ایک دکان میں داخل ہوگئی۔ ’یہ لو اونی ٹوپی، یہ تمہارے لیے ہے۔ یہ میں نے رات والا بدلہ چکا دیا تمہارا! لیکن اسے گفٹ مت سمجھ لینا، اس کے پیسے لے لوں گی کسی دن تم سے‘۔
اصل میں یہاں کا موسم ہماری توقع سے زیادہ ٹھنڈا ہوچکا تھا اور میں بس ایک کوٹ اور گلے کے گرد لپیٹنے والا مفلر ساتھ لے کر آیا ہوا تھا۔ بحری جہاز کے ڈیک پر کھڑے ہوکر واقعی مجھے لگا کہ اگر یہ ٹوپی اور گلے میں اونی مفلر نہ ہوتا تو یہاں پر ایک منٹ بھی کھڑا رہنا مشکل تھا۔ یہاں ہوا بہت تیز چلتی ہے، اسی لیے کئی سیاح بادبانی کشتیاں چلانے یا سرفنگ کرنے کے لیے بھی اس جگہ کا رُخ کرتے ہیں۔
ہم جس بحری جہاز پر سوار ہوئے اس پر فلم ’پائریٹس آف دا کیریبئن‘ کی طرح قذاقوں والا جھنڈا لہرا رہا تھا لیکن یہ جہاز کیپٹن جیک اسپیرو کا نہیں بلکہ مچھلیاں پکڑنے والوں کا تھا۔ ہمارے ساتھ لمبے چوڑے قد کاٹھ والے مقامی ڈچ سیاح بھی موجود تھے۔ دنیا میں سب سے طویل القامت ڈچ مرد ہی ہیں اور اس حوالے سے خواتین دوسرے نمبر پر آتی ہیں۔
نارتھ سی میں اس طرح کسی جہاز پر مچھیروں کے ساتھ ماہی گیری کرنا ایک لائف ٹائم تجربہ ہے۔ پکڑے گئے جھینگوں کو جہاز پر ہی بوائل کیا جاتا ہے اور تمام سیاحوں کو کھانے کے لیے پیش کردیا جاتا ہے۔
ہالینڈ آنے والے زیادہ تر سیاح اس کے مرکزی شہروں تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن اس جزیرے پر گزارے ہوئے چند دن اور روایتی پن چکیاں آپ کو زندگی کے ایک نئے روپ سے متعارف کرواتی ہیں۔ ہالینڈ میں ایک ہزار سے زائد پن چکیاں ابھی تک موجود ہیں اور ان میں سے درجنوں کو یونیسکو کا عالمی ادارہ عالمی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر 17ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھیں۔ روایتی طور پر انہیں آبپاشی اور اناج پیسنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ان میں سے چند ایک ہی کام کرتی ہیں۔
چند ماہ پہلے تک میں بھی اس جزیرے سے ناواقف تھا لیکن ایک دن میری دفتری ساتھی ویدی نے مشورہ دیا تھا کہ ٹیکسل جزیرے پر کبھی ضرور جانا، تم ہمیشہ یاد رکھو گے۔ ویدی انڈونیشین ہے لیکن ہالینڈ کا وکی پیڈیا ہے۔ اُسی نے ہی مجھے بتایا تھا کہ 20ویں صدی میں ہالینڈ کا ایک مکمل صوبہ سمندر سے نکلا ہے۔ فلیوولینڈ نامی اس علاقے کو 1986ء میں باقاعدہ طور پر ایک نئے صوبے کا درجہ دے دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ آپ نے گاجروں کی ایک نئی قسم دیکھی ہوگی جو نارنجی کلر کی ہوتی ہیں۔ اس رنگ والی گاجریں پہلی مرتبہ ہالینڈ نے ہی دنیا میں متعارف کروائی تھیں۔ ہالینڈ کا 60 فیصد حصہ زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سائز میں چھوٹا ہونے کے باوجود زرعی اجناس کی برآمد میں یہ دنیا کی بڑی معیشتوں چین، امریکا اور جرمنی کا مقابلہ کرتا ہے۔ یہ بیجوں، درختوں، پودوں اور پھولوں کا دنیا میں سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔
دنیا کی معیشت کا تعلق بھی کسی نہ کسی لحاظ سے اس ملک سے جڑتا ہے۔ 1602ء میں اسٹاک سامنے لانے والی ڈچ ایسٹ انڈیا کپمنی کو دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل کمپنی قرار دیا جاتا ہے۔ اسی کمپنی نے 1602ء میں ہی ایمسٹرڈم اسٹاک ایکسچینج کی بنیاد رکھی تھی، جسے دنیا کی ’قدیم ترین ماڈرن ایکسچیج‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس جزیرے کے چاروں اطراف ریت کے بڑے بڑے ٹیلے ہیں اور درمیان میں کئی کلومیٹر کا علاقہ جھیل کے پانی کی طرح بالکل ہموار ہے اور اپریل کے مہینے میں رنگ برنگے پھول اسے اپنی نرم گداز آغوش میں لے لیتے ہیں۔ جو کھیت باقی بچتے ہیں وہاں آپ کو بھیڑیں ہی بھیڑیں نظر آتی ہیں۔ جزیرے کے وسط میں ایک چھوٹا سا بازار ہے، جہاں ریسٹورینٹ سمیت کھانے کی ہر چیز دستیاب ہے۔
اس سے اگلے دن شام کو میں اور صوفیہ دوبارہ سائیکل لے کر ساحل کے ساتھ ساتھ ریت کے ٹیلوں کے درمیان بل کھاتے راستوں پر نکل گئے۔ یہ اونچے نیچے ٹیلے گھاس اور سرکنڈوں کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اور جہاں ختم ہوتے ہیں وہاں درختوں کے جھنڈ ہی جھنڈ ہیں۔ راستوں میں ہر ایک دو میل کے بعد بینچ رکھے ہوئے ہیں اور ایک گالف کا میدان بھی ہے، جو دور ہی سے نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ جزیرہ مختلف النوع اور رنگ برنگے پرندوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔
ہم راستے میں ایک بینچ پر بیٹھ کر وہاں گھوم رہی 4 یا 5 مرغابیوں اور ان کے بچوں کو دیکھ رہے تھے کہ صوفیہ نے اچانک صبح بھیڑوں کو ایک جگہ جمع کرنے والے کتے کی بات چھیڑ دی۔ اس دن صبح سویرے ہم جزیرے پر موجود اسکائی ڈائیونگ کے مرکز چلے گئے تھے لیکن اسکائی ڈائیونگ کے لیے کئی دن پہلے سے اپوائنٹ منٹ لینی پڑتی ہے۔ وہاں سے مایوس ہوئے تو ہم جزیرے پر واقعے ایک چرواہے کے کھیتوں میں چلے گئے، جہاں ایک کتا مالک کی سیٹی کی آواز سنتے ہی 300 سے 400 بھیڑوں کو ایک باڑے میں جمع کردیتا تھا۔
اس کی جھیل سی گہری آنکھیں ابھی تک ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے ہوئے مرغابیوں کے بچوں کا پیچھا کر رہی تھیں۔ وہ میری طرف دیکھے بغیر بولی، ’امتیاز تمہیں پتا ہے کہ یہ صرف خوف ہے! ورنہ کتا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ بعض مرتبہ ہم ساری زندگی یونہی خوفزدہ ہوکر ایک عمل کرتے رہتے ہیں، اپنی آزادی دوسروں کے خوف کے عوض گروی رکھ دیتے ہیں۔ اگر ہمت کی جائے تو ہوتا کچھ بھی نہیں‘۔
وہاں بیٹھے بیٹھے بات یہاں سے شروع ہوئی اور اس مختصر سی زندگی میں روشن خوابوں کے ریزہ ریزہ ہونے کے ڈر اور خوف تک چلتی گئی، زندگی مختصر ہے یا طویل؟ انسان 200 سال زندہ رہتا تو اسے دنیا اتنی ہی حسین لگتی؟ ایک نہ ختم ہونے والی بے معنی سی بحث جاری تھی کہ وہاں ڈوبتے ہوئے سورج نے دستک دے کر ہمیں یاد دلایا کہ تم دونوں گھر سے کئی کلومیٹر دور ہو۔
مغرب سے کچھ دیر پہلے ہم سائیکلوں کی اسپیڈ تیز کرچکے تھے۔ ہم اترائی سے نیچے کی طرف جا رہے تھے کہ پیچھے سے صوفیہ سائیکل بھگاتے ہوئے میرے قریب آئی اور آہستہ کرو، آہستہ کرو! آگے نالی پر جنگلا نہیں ہے، کا شور مچانے لگی۔ میں نے تو وقت پر بریک لگا لی مگر رفتار زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اس وقت تک نیچے گرچکی تھی۔
میں نے فوری طور پر اسے اٹھایا تو اس کے ایک ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کی پسندیدہ جینز گھٹنوں سے پھٹ چکی تھی۔ اس کی موٹی موٹی اور مخمور آنکھوں میں درد نمایاں تھا لیکن وہ پھر بھی کہہ رہی تھی ’کچھ بھی نہیں ہوا، بس چھوٹی سی چوٹ ہی ہے‘، ابھی خون بہنا بند ہوجائے گا۔ اس نے اپنی شال کو اپنے ہاتھ پر لپیٹا اور میں راستہ بھر یہی کہتا رہا کہ مجھے نظر آ رہا تھا، تمہیں سائیکل تیز کرتے ہوئے میرے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی؟
گھر پہنچ کر اس کے ہاتھ پر پٹی تو لگا دی گئی لیکن وہ پھر ساری شام چپ چاپ اپنا ناول ہی پڑھتی رہی۔ صبح واپسی کے راستے پر میں نے پوچھا کہ ’اداس کیوں ہو، ابھی تک درد ہو رہا ہے؟‘
اس کی سحر زدہ کردینے والی نگاہیں کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہی تھیں، نہیں میں اس چوٹ کی وجہ سے پریشان نہیں ہوں۔
’تو؟‘ میں نے پوچھا۔
’ولیم نے لوئزا سے شادی نہیں کی بلکہ وہ سوئٹزرلینڈ چلا جاتا ہے، جہاں اسے ڈاکٹر زہر کا ٹیکہ لگا دیتے ہیں۔ اس کو لوئزا سے شادی کرلینی چاہیے تھی ویسے، وہ اچھی لڑکی تھی، اس سے محبت کرتی تھی‘۔
اس نے اپنا دھیان کھڑکی کی طرف ہی رکھا، ’تمہیں پتا ہے وہ اپنے آخری خط میں لوئزا کے نام بہت سی دولت بھی کرجاتا ہے اور آخری لائن میں لکھا ہے، ’اچھی زندگی گزارنا۔‘
وہ بولتی جا رہی تھی!
’اب یہ بھلا کیسے ممکن ہے؟ صرف دولت سے تو اچھی زندگی نہیں گزرتی! پتا نہیں ایسے بکواس اور اداس کر دینے والے ناول بیسٹ سیلر کیسے بن جاتے ہیں؟
*شناخت کے تحفظ کے لیے نام تبدیل کردیا گیا ہے۔
امتیاز احمد جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو سے بطور صحافی وابستہ ہیں۔ یونیورسٹی آف بون سے ایشین اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ سیاحت اور فوٹوگرافی ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔انہیں فیس بک پر فالو کریں۔
تبصرے (14) بند ہیں