نیب کو لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا کوئی حق نہیں، چیف جسٹس
لاہور: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب میں 56 کمپنیوں سے متعلق کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو طلب کرلیا۔
سپریم کورٹ لاہو رجسٹری چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ نے پنجاب کی 56 کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران نیب میں پیش ہونے والے افراد کی میڈیا پر آنیوالی خبروں کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کو پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر کے ہمراہ 27 اگست کو اپنے چیمبر میں طلب کرلیا۔
مزید پڑھیں: 56 کمپنیوں میں مبینہ کرپشن: شہباز شریف سپریم کورٹ میں پیش
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کو لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیا نیب یہ چاہتا ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والا سرمایہ کار خوف سے ہی بھاگ جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نیب میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں، ملزمان کو نوٹس بعد میں ملتا ہے لیکن اس حوالے سے ٹیلی ویژن چینلز پر خبریں پہلے ہی نشر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اگر کسی تفتیشی افسر یا نیب کے اہلکار کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اس نے میڈیا میں خبر جاری کی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ جتنی معلومات ملک کے چیف جسٹس کے پاس ہیں شاید ہی یہ معلومات کسی اور ادارے کے پاس ہوں، تاہم کسی کی طلبی کے معاملے کو خفیہ ہی ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: 56 کمپنیوں کے افسران کا تنخواہیں واپس کرنے پر آمادگی کا اظہار
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ طلب ہونے والا شخص اگر انکوائری میں بے گناہ ثابت ہوجائے تو میڈیا میں پہلے سے چلنے والی خبروں کی وجہ سے اس کی کیا عزت رہ جائے گی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں جرم ثابت ہوئے بغیر نیب کیسے کسی کو مجرم کہہ سکتا ہے؟
نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اصغر نے عدالت کو بتایا کہ اس حکومتی ادارے میں بھی خود احتسابی کا عمل جاری ہے۔
افسران کو 3 ماہ میں رقم واپس کرنے کا حکم
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اضافی تنخواہیں وصول کرنے والے حکومتی افسران کو 3 ماہ میں رقم واپس کرنے کا حکم دے دیا۔
سماعت کے دوران نیب کے پراسیکیوٹر جنرل اصغر حیدر نے 3 لاکھ روپے سے زائد تنخواہیں وصول کرنے والے افسران کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
رپورٹ کے مطابق 58 افسران نے مجموعی طور پر 52 کروڑ 74 ہزار روپے وصول کیے۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ34 افسران رضاکارانہ طور پر اقساط کی صورت میں رقم واپس کرنے کے خواہشمند ہیں۔
مزید پڑھیں: نیب کا 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ
نیب رپورٹ میں بتایا گیا کہ احد چیمہ نے 5 کروڑ 14 لاکھ سے زائد جبکہ مجاہد شیر دل نے 2 کروڑ 41 لاکھ روپے اضافی تنخواہیں وصول کیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اضافی تنخواہوں کی واپسی کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا جا سکتا، میرے جانے کے بعد کسی نے ایک ٹکا بھی واپس نہیں کرنا۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیے کہ تنخواہوں کی واپسی کی حد تک معاملہ نمٹایا جا سکتا ہے، تاہم اختیارات کے ناجائز استعمال کا معاملہ سامنے آیا تو نیب دیکھے گا۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔