‘کابل، غزنی حملے کی وجوہات جاننے کیلئے اندورنی معاملات کا جائزہ لے‘
اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کابل کے مغربی علاقے غزنی میں دہشت گردوں کے حملے میں پاکستان کی جانب سے کوئی مدد فراہم نہیں کی گئی، ساتھ ہی انہوں نے حملے کی وجوہات جاننے کے لیے اندورنی معاملات کا جائزہ لینے کا بھی مشورہ دے دیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’چیف آف آرمی اسٹاف نے زور دیا ہے کہ افغانستان میں کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی میں پاکستان کا ہاتھ نہیں ہے اور افغانستان کو اپنے ملک کے اندر موجود مسائل کی طرف نظر کرنے کی ضرورت ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کا حملہ، نیٹو کی غلطی سے پولیس سمیت 17 ہلاک
واضح رہے کہ 15 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغربی علاقے میں خودکش حملے کے نتیجے میں طلبا سمیت 48 افراد ہلاک اور 67 زخمی ہوگئے تھے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے گزشتہ ہفتہ طالبان کے حملے کی ذمہ داری پاکستانی شہری پر عائد کی تھی۔
وائس آف امریکا کے مطابق اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’آرمی چیف جنرل قمرباجوہ نے دستاویزات پر دستخط کیے اور مجھے متعدد مرتبہ فون پر کہا تھا کہ الیکشن کے بعد وہ اس مسئلے پر توجہ دیں گے، لیکن اب مجھے جواب چاہیے کہ دہشت گرد کہاں سے آئے اور انہیں ہسپتالوں میں کیوں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہے‘۔
مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کا فریاب میں فوجی اڈے پر قبضہ،14 اہلکار ہلاک
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتہ ایک ہزار طالبان عسکریت پسند شہر میں داخل ہوئے اور 5 دن بعد پسپائی اختیار کی۔
افغانستان کے وزیرِ دفاع طارق شاہ اور دیگراعلیٰ افسران نے الزام لگایا تھا کہ بیرونی عناصر بشمول پاکستانی عناصر نے طالبان کو مدد فراہم کی تھی۔
آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ’افغانستان میں متعدد پاکستانی اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر چھوٹے کاروبار اور ملازمتیں کررہے ہیں اور اکثر و بیشتر وہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بن جاتے ہیں، تاہم متاثرین کو دہشت گرد قرار دینا مناسب نہیں ہے‘۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ’ٹی ٹی پی کے مختلف حلقے افغانستان کے اندر افغان شناخت کے حامل زخمی یا مردہ پاکستان میں علاج کے لیے منتقل کیے جاتے ہیں، افغان پناہ گزین اور ان کے رشتے دار بھی اسی طرح کے امور میں شامل ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: کابل ائرپورٹ پر دھماکے سے 14 افراد جاں بحق، 60 زخمی
اس دوران، دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے بھی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی خدمات کی سراہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’فروری 2018 میں سیکیورٹی کونسل کی 21 ویں رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ پاکستانی آرمی کے آپریشن کے باعث داعش کو علاقے میں اپنی انتظامی امور چلانے کی جگہ نہیں مل سکی۔
یہ خبر 18 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی