ڈان تحقیقات: 30 سال بعد بھی جنرل ضیاء الحق کی موت کی وجوہات 'نامعلوم'
17 اگست 1988 کو دوپہر 3 بج کر 51 منٹ پر پاک ون پرواز دریائے ستلج کے قریب بہاولپور سے کچھ میل کے فاصلے پر گر کر تباہ ہوگی، جس میں اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق موجود تھے۔
طیارے کے پائلٹس، وینگ کمانڈر مشہود حسن اور فلائٹ لیفٹننٹ ساجد، کے علاوہ طیارے، سی 130 ہرکیولیس پر 29 افراد سوار تھے، ان میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمٰن، چیف آف جنرل اسٹاف محمد افضال، پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ارنلڈ رافیل اور امریکا کے سینئر ملٹری اتاشی جنرل ہربرٹ ایم واسوم شامل تھے۔
وینگ کمانڈر انور عالم، جو چکلالہ ایئربیس سے بیک اپ سی 130 اڑا رہے تھے، نے ایئر کنٹرولر سے سنا کہ پاک ون کے پائلٹ سے رابطہ نہیں ہو رہا، جس پر اے ٹی سی نے برگیڈیئر نسیم خان سے رابطہ کرنے کے لیے کہا، وہ ان پائلٹس میں شامل تھے جو وی آئی پی ڈیوٹی پر تعینات تھے اور کور کمانڈر ملتان جنرل شمیم عالم کو اپنے فرانسیسی ساختہ پومہ ہیلی کاپٹر میں منتقل کررہے تھے تاہم برگیڈیئر نسیم بھی رابطہ کرنے میں ناکام رہے جبکہ مشاق ایئر کرافٹ کے پائلٹ نے پیغام دیا کہ 'پاک ون گر کر تباہ ہوگیا'۔
اس اطلاع کے کچھ ہی دیر بعد برگیڈیئر نسیم اور جنرل عالم حادثے کے مقام پر موجود تھے اور اس وقت بھی اس مقام سے حادثے کے باعث اٹھنے والے گردو غبار اور طیارہ تباہ ہونے کے باعث اٹھنے والے دھوئیں کے بادل موجود تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کو یاد کرتے ہوئے برگیڈیئر نسیم نے ڈان کو بتایا کہ 'میں حادثے کے اطراف میں دیکھ رہا تھا، طیارہ تقریب 90 ڈگری کے زاویے سے زمین سے ٹکرایا تھا، میں نے پہلے امریکا کے ملٹری اتاشی اور ساتھ ہی جنرل اختر رحمٰن کی نشاندہی کی، اس کے بعد میں نے ایک فرد کی کٹی ہوئی ٹانگ دیکھی جس نے سیاہ موزے اور جوتے پہن رکھے تھے، میں نے انہیں مبینہ طور پر جنرل ضیاء الحق سمجھا'۔
کرنل سید منہاج علی، جو وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ کے طیارے پر تعینات تھے، اپنے طیارے میں موجود تھے کہ انہیں حادثے کی اطلاع ملی، جس کے ساتھ ہی جنرل اسلم بیگ نے انہیں حادثے کے مقام پر جانے کے لیے کہا، راولپنڈی میں رہائش پذیر کرنل منہاج علی نے ڈان کو بتایا کہ 'حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا اگلا حصہ زمین میں دھنس چکا تھا اور ہم جان چکے تھے کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا ہوگا'، جس کے بعد کرنل منہاج کو حکم دیا گیا کہ وہ وائس چیف کو دھامیال ایئر بیس پر واپس لے جائیں۔
اسکوڈرن لیڈر نعمان فاروقی، جو مشہود حسن کے چھوٹے بھائی ہیں، جب انہیں حادثے کی اطلاع ملی تو وہ بہاولپور ایئر فیلڈ سے 90 میل دور شورکوٹ بیس پر موجود تھے، انہوں نے ڈان کو بتایا کہ 'ایک لمحے کے لیے میں نے مشہود کے بارے میں سوچا تاہم خیال آیا کہ انہیں وی آئی پیز کے لیے طیاروں اور فیلکن پر تعینات کیا جا چکا تھا، ہم لوگ ایف 16 پر میزائل اور دیگر اسلحہ نصب کررہے تھے کہ بیس کمانڈر مجھ تک پہنچے، انہوں نے اپنے بازوں پھیلاتے ہوئے مجھے کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں، جس پر میں نے سوال کیا کہ کیا کوئی بچا ہے، انہوں نے کہا کہ نہیں، اور بس یہ اختتام تھا'۔
اسی دوران جنرل ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق اپنے اہل خاہ کے ساتھ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں اپنی اہلیہ کی چھوٹی بہن کے گھر میں موجود تھے، جو جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹے غازی اختر خان کی اہلیہ ہیں، اعجاز الحق نے ڈان کو بتایا کہ 17 اگست کو تقریبا 10 بجے تھے کہ ان کے فون کی گھنٹی بجی اور دوسری جانب ان کے والد جنرل ضیاء الحق کے اے ڈی سیز میں سے ایک کیپٹن پیر محمد موجود تھے، جہنوں نے طیارے کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی، میں سمجھا کہ ہمیں یہ اطلاع دینے کے لیے انہیں مناسب انداز اپنانے کو کہا گیا تھا'، کچھ دیر بعد میرے ماموں ڈاکٹر بشارت الٰہی نے کال کی اور حادثے کی اطلاع دی، جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ میرے والد اب زندہ نہیں رہے'۔
اس واقع کو 30 سال ہوچکے ہیں جب پاکستان کے صدر اور آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کا طیارہ 'پاک ون' گرکر تباہ ہوا لیکن ان سوالات کا جواب حاصل نہیں کیا جاسکا کہ کیا حادثہ تکنیکی وجوہات کے باعث ہوا یا یہ قتل تھا؟ اگر یہ غداری تھی تو اس کے پیچھے کون ملوث تھا؟ واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے شفیق الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو کیوں منظر عام پر نہیں لایا گیا؟
ڈان کے اس آرٹیکل میں مذکورہ حادثے کے دن اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کے لیے ہم نے ڈان کے آرکائیو اور ریکارڈ، امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی منظر عام پر آنے والی دستاویزات، اس معاملے سے منسلک افراد کے انٹرویوز کیے ہیں۔
ان سب کے بعد مذکورہ حادثہ ایسی جانچ پڑتال کا متقاضی ہے جس سے معلوم ہوسکے کہ ملک میں تیسری اور طویل ترین فوجی آمریت کا خاتمہ کیسے ہوا، تاہم اس کے باوجود 3 دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس حادثے کی پُراسراریت اپنی جگہ موجود ہے۔
آخری پرواز
جنرل محمد ضیاء الحق، دیگر فوجی عہدیداروں کے ہمراہ بہاولپو پہنچنے تو 2 امریکی بھی ان کے ہمراہ ہوگئے تھے، جو چند روز قبل ہونے والے مقامی کانوینٹ سے منسلک ایک امریکی راہبہ کے قتل پر تعزیت کرنے آئے تھے، جس کے بعد انہوں نے امریکی ساختہ ایم-آئی ٹینک کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے لیے 60 کلومیٹر دور ٹامیوالی علاقے کا مختصر دورہ کیا، جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ تقریباً ڈھائی گھنٹے پر محیط یہ تقریب مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہوئی کیونکہ ٹینک کسی بھی مقام پر صحیح نشانہ نہیں لگا سکا۔
طیارہ حادثے کی 7 ویں سالگرہ کے موقع پر لکھے گئے بریگیڈیئر (ر) نسیم کے آرٹیکل کے مطابق مذکورہ ٹینک کا مظاہرہ میجر جنرل محمود درانی نے کیا تھا اور انہوں نے ہی بریفنگ کے دوران اس کی مکمل معلومات فراہم کی تھیں، جس میں ایک نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ '90 دن' کا بھی ذکر کیا اور ازراہِ مذاق کہا کہ جنرل ضیاء الحق والے 90 دن نہ سمجھے جائیں، جس پر حاضرین نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔
ٹامیوالی سے بذریعہ ہیلی کاپٹر بہاولپور واپسی کے دوران جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں کے ساتھ آرمی میس میں ظہرانے کے لیے بھی رکے تھے، سی 130 طیارے کی پرواز کے لیے انہوں نے دستور کے مطابق کئی افراد کو بذاتِ خود اس وی وی آئی پی ایئر کرافٹ میں سوار ہونے کی دعوت دی جس میں امریکی سفارتکار آرنلڈ لیوس رافیل نے پیشکش قبول کی اور کافی ہچکچاہٹ کے بعد امریکی بریگیڈیئر جنرل ہربرٹ ایم واسون نے بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔
1989 میں جنرل ضیاء الحق کی موت کے حوالے سے امریکی صحافی جے ایپسٹین نے وینٹی فیئر کے ایک شمارے میں لکھا تھا کہ ’پاک ون پرواز تمام افراد کی زندگی کی آخری پرواز ثابت ہوئی، مقامی افراد نے دیکھا کہ پاک ون فضا میں ہچکولے کھا رہی ہے جیسا کہ کسی نادیدہ رولر کوسٹر پرسوار ہو اور تیسرے جھٹکے کے بعد طیارہ سیدھا زمین کی سمت آ کر ریت میں دھنس گیا جس کے بعد ایک دھماکا ہوا اور ایندھن کے جلنے کے سبب آگ کے گولے میں تبدیل ہوگیا۔
انہوں نے مزید لکھا یقینی طور پر افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرنے، جو اصل میں گزشتہ دہائی میں پاکستانی فوجی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی سب سے بڑی مہم تھی، میں شامل تقریباً تمام ہی مرکزی کردار طیارے میں سوار تھے۔
آنے والے دنوں میں کئی طرح کی افواہیں پھیلیں کہ کسی میزائل نے طیارے کو نشانہ بنایا، یا بیچ فضا میں دھماکا ہوگیا، ہلاکت خیز گیس کا اخراج ہوا یا آگ بھڑک اٹھی وٖغیرہ، یہ تمام امکانات اخبارات میں بھی شائع ہوئے تاہم صدر مملکت غلام اسحٰق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سمیت سول اور فوجی حکام کی جانب سے اسے تخریب کاری قرار دیا گیا۔
منظر عام پر لائی جانے والی خفیہ امریکی دستاویزات کے مطابق جنرل اسلم بیگ نے جنرل ضیاء الحق کی موت کے حوالے 25 اگست کو فوجی افسران سے ایک گھنٹہ طویل خطاب کیا تھا اور اس میں روسی ترجمان کی جانب سے دی گئی حالیہ دھمکی آمیز بیان کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا تاہم انہوں نے واضح طور پر الزام لگانے سے گریز کیا تھا۔
دراصل ان کا کہنا تھا کہ 'غیر ملکی ایجنٹس کے علاوہ کچھ ہمارے اپنے لوگ بھی اس لرزہ خیز واردات میں ملوث تھے، کبھی بھی کوئی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہوئی جب تک اس میں اندرونی طور پر لوگوں کا تعاون حاصل نہ ہو‘، اسی خطاب کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ پھر سول حکومت اور 16 نومبر 1988 کو ہونے والے انتخابات کے لیے پاک فوج کی حمایت کا اعادہ بھی کیا تھا۔
طیارہ حادثے کے فوراََ بعد تحقیقات کا آغاز کردیا گیا تھا اور 19 اگست کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ کریش کی وجوہات جاننے کے لیے انہوں نے اسلام آباد کی معاونت کرنے کے لیے ٹیم تشکیل دے دی ہے، جس کے بعد 6 رکنی ٹیم 22 اگست کو پاکستان پہنچی اور اسے حادثے کے مقام پر لے جایا گیا جس کو فوجی اہلکاروں نے واقع کے فوری بعد محفوظ کردیا تھا۔
23 اگست 1988 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق غیر ملکی اور مقامی ماہرین کی سمجھ سے یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح ایک ایسے طیارے میں، جسے بہاولپور آمد کے بعد اور روانگی سے قبل 14 تکنیکی ماہرین نے چیک کیا ہو، میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے، جس کے بعد پرواز کے ٹکڑے ٹیسٹ کے لیے امریکا بھی لے جائے گئے۔
جنرل ضیاء الحق کی موت پر لکھے گئے محمد حنیف کے شہرہ آفاق ناول میں آموں کی پیٹیوں کو مرکزی کردار کے طور پر ظاہر کیا گیا جو بہاولپور میں مرحوم صدر کو بطور تحفہ دی گئیں تھیں، ڈان اخبار کے مطابق جنرل ضیاء الحق کو تحفہ دینے والے متعدد افراد، جن میں بہاولپور کے میئر اور ایک صوبائی وزیر بھی شامل تھے، تفتیش کے لیے 8 گھنٹے تک پولیس کی حراست میں رہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق زمینی عملے سمیت دیگر 80 افراد کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا جبکہ ونگ کمانڈر مشہود حسن اور فلائٹ لیفٹننٹ ساجد کے لواحقین سے بھی تحقیقات کی گئیں جس کے بعد دونوں بے گناہ پائے گئے، کیپٹن مشہود کو ایک ایسا پائلٹ سمجھا جاتا تھا جس کے ساتھ سفر کرنا جنرل ضیاء الحق کافی پسند کرتے تھے۔
'ممکنہ طور پر سبوتاژ'
365 صفحات پر مشتمل طیارہ حادثے کی سرخ جلد والی تکنیکی رپورٹ کابینہ کے اجلاس میں 16 اکتوبر کو صدر غلام اسحاق خان کے سامنے پیش کی گئی۔ یہ ایئر کموڈور عباس ایچ مرزا کی سربراہی میں بورڈ آف انکوائری نے تیار کی تھی اور اس میں گروپ کیپٹن صباحت علی خان (سی 130 کے پائلٹ/اسپیشلسٹ) اور گروپ کیپٹن ظہیر الحسن زیدی (حادثات کے تحقیقاتی ماہر) اور امریکی تکینکی اور ہوا بازی ماہرین کی ایک ٹیم بھی شامل تھی۔
رپورٹ اپنے نتائج پر تمام دیگر امکانات کو رد کرنے کے تکلیف دہ مرحلے سے گزر کر پہنچی تھی۔ ملبے کے جائزے سے واضح ہوا کہ طیارہ ہوا میں بکھرا نہیں تھا، اسے کسی میزائل سے نشانہ نہیں بنایا گیا تھا، نہ ہی طیارے کے اندر آگ لگی تھی — جو اکلوتا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، وہ امریکی بریگیڈیئر ویسم کا تھا۔ ان کی سانس کی نالی میں سے کوئی راکھ یا کاربن کے ذرات برآمد نہیں ہوئے تھے، جس کا مطلب تھا کہ وہ طیارہ گرنے سے لگنے والی آگ سے پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے۔
برقی نظام کی خرابی کا کوئی بھی ثبوت نہیں ملا، پروپیلر بلیڈز کی حالت سے واضح تھا کہ انجن پوری رفتار سے کام کر رہے تھے۔ تمام برقی نظام اور ایندھن کے پمپ نارمل انداز میں کام کر رہے تھے۔
مکینیکل ناکامی کا امکان بھی زیرِ غور آیا، مگر سی 130 میں ایک دوسرے سے علیحدہ کام کرنے والے دو ہائیڈرالک سسٹم تھے اور دونوں ہی کریش کے وقت کام کر رہے تھے۔ مختصراً یہ ایسی طرز کا طیارہ تھا جسے انتہائی قابلِ اعتماد گھوڑا تصور کیا جاتا ہے اور یہ ایک صاف موسم والے دن توقعات کے عین مطابق کام کر رہا تھا۔ مگر ناقابلِ توجیہہ انداز میں آسمان سے نیچے آگرا تھا۔
ملبے کا کیمیائی تجزیہ جب پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں کیا گیا تو اس میں طیارے کے لیے اجنبی کیمیکلز غیر معمولی مقدار میں پائے گئے۔ مثال کے طور پر اس میں پینٹائریتھیریٹول ٹیٹرا نائٹریٹ (پی ای ٹی این) کی کچھ مقدار ملی۔ یہ ایک دھماکا خیز مواد ہے جو تب سے اب تک کئی دہشت گرد حملوں میں استعمال ہو چکا ہے، بشمول 2 ایسے حملوں کے جن کا مقصد کسی نہ کسی طیارے کو گرانا تھا۔ اینٹیمونی اور فاسفورس ایسے کیمیکلز ہیں جو عام طور پر طیاروں کے ڈھانچے یا ایندھن میں موجود نہیں ہوتے، مگر کیمیائی تجزیے میں ان کی موجودگی بھی سامنے آئی۔
رپورٹ کے مطابق پائے گئے عناصر کو 'ہریلی گیسوں سے بھری پریشرائزڈ بوتلیں پھاڑنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا جن کے پھٹنے سے پائلٹس اور طیارے میں موجود دیگر افراد جزوی یا مکمل طور پر بے جان ہو سکتے تھے۔ گیسوں کو فوری طور پر انتہائی شدید انداز میں اثر انداز ہونا ہوگا تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ طیارے میں موجود کسی بھی شخص کو آکسیجن ماسک پہننے کا موقع نہ ملے'۔
رپورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ 'تکنیکی وجہ کی عدم موجودگی میں اس حادثے کی دوسری واحد ممکنہ وجہ مجرمانہ کارروائی یا سبوتاژ کی کارروائی ہو سکتی ہے'۔ رپورٹ نے ذمہ داران کو بے نقاب کرنے کے لیے تحقیقات کی سفارش بھی کی تھی۔
آس پاس موجود دیگر پائلٹس کے بیانات بھی کافی حیران کن ہیں۔ ونگ کمانڈر مشہود سے انہوں نے جو آخری الفاظ سنے وہ یہ تھے، 'اسٹینڈ بائی، اسٹینڈ بائی' جبکہ ان کا لہجہ غیر معمولی طور پر تناؤ سے بھرپور تھا۔ ونگ کمانڈر منور کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے پش ٹو ٹاک (پی ٹی ٹی) بٹن کی ٹک ٹک سنی، جس کے بعد ایک دھیمی سی آواز سنائی دی، "مشہود، مشہود" اور پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔
رپورٹ، جس کے صرف 30 صفحات عوام کے سامنے لائے گئے، کے انکشافات سے متعلق ایک پریس کانفرنس میں سیکریٹری دفاع اجلال حیدر زیدی نے کہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ، جب بہاولپور ایئر بیس میں تھا، تو فوجی اور سویلین سیکیورٹی اہلکاروں نے اس کے گرد پہرہ دیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں ایئر کموڈور مرزا نے کہا کہ طیارے میں کوئی فلائٹ ریکارڈر نہیں تھا۔
31 اکتوبر تک یہ اطلاعات آرہی تھیں کہ عوام شاید مکمل تحقیقاتی رپورٹ نہ دیکھنے پائیں اگر رپورٹ کو 'ملکی سلامتی و یکجہتی کے لیے ضرر رساں پایا گیا'۔
جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹوں اور دیگر کا کہنا تھا کہ جنرل ضیاء الحق، جنرل مرزا اسلم بیگ کے بطور وائس چیف فوج کے آپریشنل پہلوؤں کا مزید کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں سے ناخوش تھے اور انہیں لیفٹننٹ جنرل محمد افضال سے بدلنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ شاید یہ بھی طیارہ حادثے کے تناظر میں جنرل اسلم بیگ کو شک کی نگاہ سے دیکھے جانے کی ایک وجہ تھی۔
کئی کوششوں کے باوجود جنرل مرزا اسلم بیگ نے انٹرویو دینے سے انکار کیا۔ مگر جب ڈان نے ان سے رابطہ کیا تو وہ سالہا سال سے اپنی شہرت پر لگنے والے داغوں کے متعلق تلخ تھے اور انہوں نے پوچھا کہ اگر ان کا اس پورے کھیل میں کوئی کردار ہوتا تو انہوں نے حکومت پر قبضہ کیوں نہ کر لیا ہوتا۔
یہ ان لوگوں کے خاندانوں کے لیے اطمینان کن نہیں جن کے پیارے 1988 میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہلاک ہوئے اور جن کے خاندان اب بھی واقعہ کے محرکات کی تلاش میں ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ دونوں ہی جنرلز اس طیارے پر نہیں جانا چاہتے تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن آرمرڈ کور سے تعلق نہیں رکھتے تھے، چنانچہ ٹینکوں کی نمائش میں جانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ ان کے خاندان کا مؤقف ہے کہ وہ بریگیڈیئر امتیاز باللہ (بینظیر بھٹو کے خلاف آپریشن مڈنائٹ جیکال کے دو مرکزی سازشی کرداروں میں سے ایک) جنہوں نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) کو بہاولپور جانے پر قائل کیا تاکہ وہ فوجی قیادت کی اس تبدیلی پر بات چیت کر سکیں جس کا منصوبہ جنرل ضیاء الحق بنا رہے تھے۔ اختر کہتے ہیں کہ 'بریگیڈیئر امتیاز کو میرے والد کو طیارے پر بھجوانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ وہ باقاعدگی سے ان کے ساتھ رابطے میں تھے اور ایک 2 دن پہلے انہوں نے ان سے ملاقات بھی کی تھی'۔
جنرل ضیاء الحق بھی نہیں جانا چاہ رہے تھے مگر میجر جنرل محمود درانی اصرار کرتے رہے۔ اعجاز الحق یاد کرتے ہیں کہ 'میرے والد کے اے ڈی سیز میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ ان کی بار بار فون کالز میں سے ایک کے بعد آخر انہوں (ضیاء) نے گالی دیتے ہوئے کہا کہ 'اس کا مسئلہ کیا ہے؟ یہ میرے وہاں جانے کے لیے اتنا بے تاب کیوں ہے؟'
ہمایوں اختر، جو اپنے تین بھائیوں کے ساتھ جنرل اختر عبدالرحمٰن کی موت تک ملک سے باہر رہتے تھے، کہتے ہیں کہ 'جنرل ضیاء الحق اور میرے والد ہندوستان میں کمیشن حاصل کرنے والے پاکستانی فوج کے آخری 2 افسران تھے۔ اگست 1988 میں وہ امریکا میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے مگر حادثے کے وقت اپنے بھائی کی طرح پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ میرے والدین آپس میں بہت محبت کرتے تھے اور یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ میرے دیگر 2 بھائی بھی فوراً گھر کی جانب بھاگے'۔
انہوں نے پاکستان میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا اور وقت کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی کمپنی بنانے میں کامیاب رہے۔ 2 بھائی، بشمول ہمایوں اختر، بلک کے نامور سیاستدانوں میں سے ہیں۔
وہ لاہور میں اپنے شاندار، لکڑی کے کام سے آراستہ گھر کے ڈرائنگ روم میں ڈان کو بتاتے ہیں کہ 'ہم نے جتنی کوشش ہو سکے وہاں تک تفتیش کے لیے کی۔ ہم نے بہت محنت کی اور اس دوران کئی لوگ [جنہیں طیارہ حادثے کے پیچھے موجود حقائق میں دلچسپی تھی] ہمارے دوست بنے، مثلاً جے ایپسٹائن، اور جارج کرائل [چارلی ولسنز وار کے مصنف]۔ مگر ہمیں اندازہ ہو گیا کہ ہمیں کہیں بھی نہیں پہنچ پائیں گے'۔
اس دوران ونگ کمانڈر مشہود کے بھائی گروپ کیپٹن نعمان کو ان کے والد نے کہہ دیا کہ وہ اس معاملے سے دستبردار ہوجائیں۔ نعمان کے مطابق میرے والد نے مجھے کہا کہ 'میں پہلے ہی ایک بیٹا کھو چکا ہوں، اب ایک اور نہیں کھونا چاہتا'۔
پردہ ڈالنے کا ثبوت؟
جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن، دونوں ہی کے خاندان ہرکولیس سی 130 کے تیار کنندہ لاک ہیڈ پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنا چاہتے تھے۔ 'ایسا نہیں تھا کہ ہمیں پیسے چاہیے تھے۔ ہم صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ ثابت کریں کہ طیارے کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مگر ہمیں امریکی انٹیلی جنس برادری میں [جنرل کے] دوستوں نے منع کر دیا کہ ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ حالات پر نظر رکھیں، آپ لوگوں کو اس ملک میں رہنا بھی ہے'۔
انہوں نے امریکا میں ایک وکیل ایف لی بیلی (بعد میں او جے سمپسن کے وکیلِ دفاع) تک بھی رسائی حاصل کی، جنہوں نے اعجاز الحق کے مطابق تفصیلات سننے کے بعد اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کیس قرار دیا۔ 'کچھ دن کے بعد فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ نے انہیں لنچ پر دعوت دی جو انتہائی غیر معمولی بات تھی'۔
اس وقت تک مرحوم سفیر آرنلڈ رافیل کی اہلیہ نینسی ایلی رافیل اور بریگیڈیئر ویسم کی اہلیہ، دونوں ہی نے سچ کی تلاش میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کے خاندانوں کا ساتھ دینے کا اظہار کیا تھا۔ اعجاز الحق کہتے ہیں کہ'پھر اچانک بیلی نے ہمارے فون اٹھانے بند کر دیے۔ نینسی نے اپنا نمبر تبدیل کر لیا اور ہم ان تک رسائی بھی حاصل نہیں کر سکے، چنانچہ ہم اس معاملے سے دستبردار ہوگئے'۔
ڈان نے اس رپورٹ کے لیے مس ایلی رافیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اعجاز الحق کہتے ہیں کہ کئی سال بعد انہیں ایک فوجی ذرائع سے ایئر فورس کے ایک پائلٹ آفیسر اکرم اعوان کے متعلق معلومات ملیں جنہیں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کچھ ماہ قبل پاکستان کے خلاف را اور موساد کے لیے جاسوسی کے شک میں دھر لیا تھا۔ وہ ایک محفوظ ٹھکانے پر اخبارات تک رسائی کے بغیر حراست میں رکھے گئے، اعوان سے 3 انٹیلی جنس افسران نے تفتیش کی جن میں میجر عامر خان (آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے حوالے سے مشہور) بھی شامل تھے۔ اعجاز الحق کے مطابق سی 130 کے حادثے کے ایک ہفتے یا کچھ کے بعد انہیں جنرل ضیاء الحق کے جنازے کی ویڈیو دکھائی گئی۔ 'جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے سوتیلے والد میجر جنرل ایم ایچ اعوان بھی ہلاک شدگان میں سے ایک تھے تو انہوں نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا اور کہنے لگے کہ، 'مجھے پتہ نہیں تھا کہ حرامزادے [nerve gas] کو اس کام کے لیے استعمال کریں گے!'
'اس کے بعد پوری کہانی سامنے آ گئی۔ انہوں نے کہا کہ [ایک غیر ملکی سفارت خانے] کا کوئی شخص ملوث تھا اور یہ کہ گیس ہندوستان کے راستے سے لائی گئی تھی۔ انہوں نے کیمرا کے سامنے ایک اعترافی بیان بھی ریکارڈ کروایا'۔
اس کے اگلے ہی دن 3 انٹیلی جنس افسران میں سے ایک کو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کو بائی پاس کرتے ہوئے جی ایچ کیو طلب کر لیا گیا۔ اعجاز الحق کے مطابق جنرل اسلم بیگ نے اعوان کا بیان اور ویڈیو ریکارڈنگ ان کے حوالے کرنے کے لیے کہا، یہ کہتے ہوئے کہ معاملات کو احتیاط سے لے کر چلنا ہوگا اور یہ کہ معلومات مناسب وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔
پردہ ڈالنے کا مزید ثبوت بھی موجود ہے۔ انکوائری بورڈ کے ایک رکن گروپ کیپٹن ظہیر زیدی معاملات کو تکنیکی انکوائری پر ختم نہ ہونے دینے کے لیے پرعزم تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر سبوتاژ کے مزید ثبوت ڈھونڈ نکالے تھے، ڈان کو دیگر ذرائع سے بھی اس کی تصدیق ہوئی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے بیٹے کے مطابق زیدی اپنی اکھٹی کردہ معلومات پر ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے، اور انہوں نے 90 کی دہائی کے وسط میں باب ووڈ وارڈ سے رابطہ کیا تھا جو مشہور کتاب All The President's Men کے شریک مصنف تھے، تاکہ انہیں کتاب کا خلاصہ دیا جائے اور شہرت یافتہ لکھاری سے کتاب ایڈٹ کروائی جائے۔ 'مگر جب تک وہ پاکستان واپس آئے، ان کی رپورٹ پینٹاگون کے ذریعے پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں تک پہنچ چکی تھی اور انہیں بلایا گیا اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا'۔
Zia crash report by Dawndotcom on Scribd
اس کے علاوہ سینڈی گال اور اسٹیو لیوائن جیسے صحافیوں نے اگلے چند سالوں میں پاکستان کا دورہ کیا، اور اعجاز الحق کی معاونت سے معلومات اکھٹی کیں اور انٹرویوز کیے، مگر کوئی بھی مضمون یا دستاویزی فلم کبھی منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔ 'اسٹیو اتنے شرمندہ تھے کہ انہوں نے رابطہ ہی ختم کر دیا۔ بالآخر وہ مشرف کے مارشل لاء کے بعد مجھ سے ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے مجھ سے بے انتہا معافی مانگی اور کہا کہ ان کے باس نے انہیں یہ اسٹوری کرنے کے لیے اجازت دی تھی مگر انہوں نے بعد میں اجازت واپس لے لی'۔
غیر ملکی ہاتھ
اگر پاکستانی ملٹری کے کچھ عناصر اس میں شامل تھے بھی، جیسا کہ 17 اگست 1988 کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے کچھ خاندانوں کا ماننا ہے، تو بھی امکان ہے کہ یہ ایک یا اس سے زائد غیر ملکی طاقتوں کی ایماء پر کیا گیا تھا، ایسے متعدد افراد تھے جن کے پاس ارادے بھی تھے اور وسائل بھی۔
جنرل ضیاء الحق، ان کے اعلیٰ فوجی حکام اور انٹیلی جنس حکام اس وقت ایک دہائی طویل افغان جہاد کا اختتامی باب ترتیب دینے میں مصروف تھے جبکہ سوویت یونین کا افغانستان سے مکمل انخلاء صرف 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں ہونا تھا۔ امریکا اور پاکستان کے درمیان مجاہدین کی مزاحمت کو مسلح کرنے اور ترتیب دینے کی شراکت داری بالآخر رنگ لا رہی تھی۔ مگر اسٹریٹجک سطح پر معاملات کہیں زیادہ پیچیدہ اور تناؤ کا شکار تھے۔
پاکستانی فوج اپنے اس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے برعکس جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کی ترجیح افغان حکومت کی ترتیب کا فیصلہ ہونے تک انتظار کرنے کی تھی۔ دوسری جانب امریکا بظاہر کابل میں ایک مستحکم حکومت کے قیام سے زیادہ دلچسپی وہاں سے سوویت یونین کے انخلاء میں رکھتا تھا۔ اعجاز الحق کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر فخر امام نے انہیں جنرل ضیاء الحق اور ایک مہمان امریکی وفد کے درمیان ملاقات کا احوال بتایا، جس میں پاکستان کے آرمی چیف نے 'امریکیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، امریکا افغانستان میں استحکام نہیں دیکھنا چاہتا تھا اور میرے والد جنیوا معاہدوں سے خوش نہیں تھے'۔
علاوہ ازیں امریکا، جنرل ضیاء الحق کی جانب سے گلبدین حکمت یار کو ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی پر بھی تشویش کا شکار تھا۔ حکمت یار کبھی سی آئی اے کے سب سے ترجیحی مجاہدین کمانڈر تھے مگر کافی عرصے سے وہ خطرناک حد تک امریکا مخالف نظریات کے حامل فرد کے طور پر دیکھے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ وسیع تر علاقائی صورتحال بھی ایسی سمت میں جا رہی تھی جو امریکا نہیں چاہتا تھا۔ پاکستان سے عسکریت پسندوں نے ہندوستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں دراندازی شروع کر دی تھی جس سے مقبوضہ خطے کی مقامی جدوجہد میں ایک نئے ہلاکت خیز عنصر کا اضافہ ہوا۔ یہ واضح تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی آشیر باد اور 'معاونت' سے جہاد کا ایک نیا تھیٹر شروع ہونے والا تھا۔
اگر اس سے زیادہ نہیں تو اتنے ہی اہم جنرل ضیاء الحق کے ایٹمی ارادے تھے جو اب افغان جہاد کے بتدریج اختتام کی جانب گامزن ہونے کی وجہ سے پریشان کن بن چکے تھے۔ اسے 'افغان جنگ کا ایک چھوٹا سا شرمناک راز' قرار دیتے ہوئے جارج کرائل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے امریکی صدر رونالڈ ریگن سے کافی پہلے ہی یہ رعایت حاصل کر لی تھی کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف سی آئی اے سے مل کر کام کرنے کے بدلے میں امریکا ایٹم بم کے معاملے پر نظریں پھیرے رکھے گا۔
مگر 1987 میں ایک کینیڈین نژاد پاکستانی کاروباری شخصیت ارشد پرویز، جنہیں جنرل ضیاء کا ایجنٹ سمجھا جاتا تھا، انہیں امریکی ریاست فلاڈیلفیا میں ایٹم بم بنانے کے لیے اہم 25 ٹن اسٹیل الائے خریدتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔ جس کے بعد امریکی کانگریس میں پاکستان کی امداد بند کرنے کے مشتعل مطالبے کیے گئے۔ ان تمام پیش رفتوں کو دیکھتے ہوئے کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ سی آئی اے کے اندر چند عناصر نے جنرل ضیاء الحق کے ایٹمی اور علاقائی ارادوں کے آگے ہمیشہ کے لیے بند باندھنے کا فیصلہ کرلیا ہو؟
دلچسپ بات ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے 26 اکتوبر کو یہ غور کرنے کے لیے ایک اجلاس ہوا کہ آیا طیارہ حادثے کی تحقیقات کرنے کے لیے احتساب بورڈ تشکیل دینے کے لیے امریکی وزیرِ خارجہ جارج شلٹز کو سفارش کی جائے یا نہیں۔ اجلاس میں متفقہ طور پر اس کے خلاف فیصلہ ہوا اور اس کی تمام پیش رفتیں ایک مراسلے میں مسٹر شلٹز کو بھیج دی گئیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ حادثے کے بعد ایف بی آئی کی ٹیم کو پاکستان آنے میں بھی تقریباً ایک سال لگا۔ اختر کے مطابق 'مجھے لگتا ہے کہ وہ صرف کچھ قانونی لوازمات پورے کرنے کے لیے آئے تھے کیوں کہ امریکی شہری غیر ملکی سرزمین پر ہلاک ہوئے تھے۔ انہوں نے کچھ نہیں کیا'۔
جنرل ضیاء الحق کے بیٹے نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ 'میں نے انہیں ان 26 لوگوں کی فہرست دی جن سے انہیں انٹرویو کرنا چاہیے تھا، آخر میں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ صرف جگہیں دیکھنے کے لیے آئے تھے، تو آنے کا فائدہ ہی کیا تھا'۔
اپنی جانب سے سفیر رابرٹ اوکلے کی جانب سے شلٹز کو ایف بی آئی ٹیم کے دورے کے حوالے سے بھیجے گئے امریکی محکمہ خارجہ کے مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ 'وہ حکومتِ پاکستان کے تعاون سے مطمئن نظر آئے۔ ایک مایوسی چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ اور وزیرِ داخلی سلامتی جنرل نصیر اللہ بابر کی جانب سے میرے زور دینے کے باوجود ان سے ملنے سے انکار تھا۔ انہوں نے اظہار کیا کہ حکومتِ پاکستان کی بندیال کے ماتحت جاری تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہ ہو رہی تھی، اور نہ ہی ہونے کا امکان تھا'۔
(مگر بریگیڈیئر نسیم ایسے بندے ہیں جنہیں یہ پورا خیال ہی نہایت بے ہودہ لگتا ہے کہ امریکا اس میں ملوث ہو سکتا ہے۔ 'امریکا آخر کیوں اپنے سب سے فرماں بردار خادم کو قتل کرے گا؟')
سوویت یونین کی کے جی بی ایک اور ممکنہ مشکوک ادارہ ہے۔ روس میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے مسٹر شلٹز کو طیارہ حادثے کے بعد بھیجے گئے مراسلے میں لکھا گیا تھا کہ 'سوویت اورئینٹل انسٹیٹیوٹ کے ماہرِ افغانستان یوری گانکووسکی نے سفارت خانے کے اہلکاروں کو 25 اگست کو بتایا کہ پاکستان کے صدر ضیاء الحق کی موت سے شاید پاکستان افغانستان کے معاملے پر زیادہ مساوی حکمتِ عملی اپنائے۔ سوویت یونین افغانستان پر ضیاء الحق کی لی گئی راہ سے بہت بے چین تھے۔ ان کے مطابق ضیاء الحق کے پاکستان کی جماعتِ اسلامی اور نتیجتاً گلبدین حکمت یار سے نہایت قریبی روابط تھے'۔
طیارہ حادثے سے کچھ ماہ قبل سوویت قیادت نے پاکستان سے اپنی یہ ناراضگی واضح کر دی تھی اور اسے رکاوٹیں ڈالنے اور جنیوا معاہدوں کی شرائط کی خلاف ورزی کا موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ درحقیقت صرف 2 دن قبل ہی ڈان میں رپورٹ آئی تھی کہ سوویت یونین نے اعلان کر دیا تھا کہ 'پاکستان کی جانب سے اس پالیسی کا جاری رکھنا اب مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا'۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے اس نکتے پر زور نہیں دیا اور نہ ہی اپنی واحد مخالف سپر پاور سوویت یونین پر الزام ڈالنے کی کوشش کی۔ درحقیقت امریکی حکومت نے اس تکنیکی خرابی کے نظریے کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا جسے اس کے اپنے ماہرین نے پاکستان تفتیش کاروں کے ساتھ مشترکہ رپورٹ میں جھٹلا دیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ میں اپنے روابط کے ذریعے ایپسٹائن نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ 'سچ سامنے آنے پر تناؤ بھرے تعلقات نرم کرنے کی کوششیں ختم ہوجائیں گی، پاکستان کی سرحدوں پر مسلح تنازعات ہو سکتے ہیں اور متزلزل نئی پاکستان حکومت غیر مستحکم بھی ہوسکتی ہے، جس سے وہ سب بکھر جائے گا جو امریکا حاصل کرنا چاہ رہا تھا'۔
ہندوستان بھی پاکستان کے خلاف عناد رکھے بیٹھا تھا۔ اس کا الزام تھا کہ پاکستان سکھ علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم کر رہا تھا اور اب کشمیری مزاحمت کی آگ بھڑکانے پر کام کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھیہ معروف ہورہی تھی کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے ایک طویل عرصے سے پاکستان میں اثاثے موجود تھے۔
ایک قابلِ اعتماد گھوڑا
اپنی پہلی حکومت کے دوران نواز شریف نے طیارہ حادثے کی تحقیقات کرنے کے لیے شفیق الرحمٰن کمیشن قائم کیا۔ تاہم نہ ہی اختر اور نہ ہی اعجاز الحق کے پاس اس کمیشن کی تحقیقاتی کاپی موجود ہے۔ کچھ سالوں بعد کمیشن نے ایک 'خفیہ رپورٹ' جاری کی جس میں فوج کے چند عناصر پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے جان بوجھ کر تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالیں۔ مثال کے طور پر پاکستان ایئر فورس نے انہیں ملتان ایئربیس میں موجود ملبے تک رسائی نہیں دی۔
اس حوالے سے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ 'نواز شریف نے ان تحقیقات کو جنرل اسلم بیگ پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی اسے کسی نہ کسی موڑ پر روکنا چاہتا تھا کیوں کہ اس سے پوری کی پوری فوج بدنام ہونے کا خدشہ تھا'۔
مگر فوج میں ایسے کئی لوگ ہیں جو واقعات کے حوالے سے اس مؤقف کی تصدیق کرنے سے نہ صرف انکار کرتے ہیں، بلکہ اس سے انہیں ٹھیس بھی پہنچتی ہے۔ جنرل آغا مسعود، جو جنرل ضیاء الحق کے شدید معترف ہیں، یہاں تک کہ ان کی باقیات بھی انہوں نے قبر میں اتاری تھیں اور جنرل بیگ کے بھی کافی قریب تھے، پُرزور انداز میں کسی بھی سازش کی موجودگی کا انکار کرتے ہیں۔
وہ مانتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے اندرونی دشمن تھے۔ 'بھٹو اور سندھی [ان کے دشمن تھے]، پنجابی، پٹھان اور بلوچ نہیں۔ اس کے علاوہ غیر ملکی دشمن بھی تھے۔ پر اگر [غیر ملکی قوتیں] انہیں قتل کرنا چاہتی بھی تھیں تو وہ ایسا کرنے کا آسان طریقہ استعمال کر سکتی تھیں۔ وہ اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ وی وی آئی پیز کو حاصل انتہائی بلند سطح کی سیکیورٹی سے آرمی چیف کو لے جانے والے طیارے کے ساتھ گڑبڑ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ان کے مطابق آرمی کے افسر حلقے کے اندر کسی سازش کی موجودگی کے امکان پر بات تک نہیں ہوئی۔
بریگیڈیئر نسیم کو مکمل یقین ہے کہ یہ جہاز کی مرمت و دیکھ بھال کا مسئلہ تھا جس سے طیارے میں تباہ کن ثابت ہونے والی خرابی پیدا ہوئی۔ بریگیڈیئر نسیم کے مطابق 'جنرل ضیاء الحق ہمیشہ پوچھتے تھے کہ انہیں ایسے جہاز میں سفر کیوں کروایا جاتا ہے۔ مگر اس دعوے کو اعجاز الحق سختی سے رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے والد کو سی 130 میں سفر کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، 'در حقیقت ہم تو لاہور میں اپنے بھائی کی شادی کے لیے انتہائی خراب موسم میں بھی سی 130 میں گئے تھے'۔
10 ہزار گھنٹوں تک سی 130 اڑانے والے ونگ کمانڈر منور اس طیارے کے قابلِ اعتماد ہونے اور اس کے حفاظتی ریکارڈ کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق 'اگر پائلٹ کنٹرولز پر سو بھی جائے، سی 130 تب بھی اڑتا رہ سکتا ہے'۔
30 سال گزر جانے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی موت اب بھی اسرار کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہے۔ ذمہ داران کو بے نقاب کرنے کے لیے کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟ اس کے برعکس ذمہ دار قرار دینے والے ثبوتوں کو دبانے کے لیے اتنی کوششیں کیوں کی گئیں؟ ثبوتوں کا جائزہ لینے اور کئی گواہان سے بات کرنے کے بعد یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اب وقت نہیں کہ پاکستان اب اپنے ماضی سے سمجھوتہ کر کے ان تمام حقائق کا سامنا کرے جنہوں نے آج تک دن کی روشنی نہیں دیکھی؟
یہ رپورٹ 17 اگست 2018 کو ڈان میں شائع ہوئی