ڈائری کا ایک صفحہ: میں نے جشنِ آزادی منایا
میں ایک محبِ وطن پاکستانی ہوں، مجھے پاکستان سے بے پناہ محبت ہے اور میں ہر سال جشنِ آزادی بھرپور جوش و جذبے سے مناتا ہوں۔
کل صبح 11 بجے میری آنکھ کھلی، رات کو دیر سے سونے کے باعث اٹھنے میں تاخیر ہوگئی۔ پرسوں رات کو میں اور ضمیر بینک روڈ پر ڈرفٹنگ کرنے گئے ہوئے تھے سو واپسی پر کافی دیر ہوگئی، ضمیر تو تمام وقت سویا پڑا رہا البتہ میں نے خوب کرتب دکھائے۔ آتش بازی کے مظاہرے نے بھی دل خوش کردیا۔
آتش بازی کے وقت ضمیر بہت خوش تھا البتہ وہ گھر آتے کے ساتھ ہی سوگیا مگر میں نے اسے یہ یاد کرایا کہ صبح جشنِ آزادی منانا ہے سو ٹائم سے جاگ جائے۔
ضمیر میرے بچپن کا دوست ہے، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے یہ میرے ساتھ ہی ہے اور میرے والدین بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ یہ بالکل ہمارے ہی گھر کے فرد جیسا ہے مگر ضمیر ہے بہت بھولا بالکل ’مامز بوائے‘۔ میں نے اسے ہزار دفعہ کہا کہ بھئی اب بڑے ہوجائے مگر اس کی معصومیت اب تک نہیں گئی۔
خیر کل میں 11 بجے اُٹھا اور ناشتے کے بعد نہا دھو کر تیار ہوگیا۔ سفید کپڑے پہنے، بیج لگائے، جھنڈا تیار کیا، ضمیر کو اپنے پیچھے بٹھایا اور بائیک لے کر جشنِ آزادی منانے نکل گیا۔ ہم سب سے پہلے مکینک کی دکان پر گئے اور وہاں سے بائیک کا سائلنسر نکلوایا تاکہ جشن کا مزہ دوبالا ہوسکے۔ ضمیر کہنے لگا کہ ایسا مت کرو لوگ مخل ہوں گے مگر میں نے اسے ایک گھوری کرائی تو وہ چپ ہوگیا۔ تمام دن اسی طرح شغل کیا۔
سائلنسر نکلوانے کے بعد سیدھا سینما گھر گیا اور وہاں ’سنجو‘ فلم کا شو دیکھا، سنیما گھر میں یومِ آزادی کی مناسبت پر تحریکِ پاکستان اور قائدِاعظم کی زندگی ہر خاص فلم کے شو کا اہتمام کیا گیا تھا۔
ضمیر نے مشورہ دیا کہ ہمیں وہ فلم دیکھنی چاہیے تاکہ ہمارا جذبہ ملی تازہ دم ہوجائے لیکن میں نے کہا کہ بے وقوف یہ گھسی پٹی کہانی دیکھنا چھوڑو، ابھی ہمیں اپنے جذبہ جوانی کو تازہ دم رکھنا ہے۔
میں نے دوپہر کا شو دیکھا تو واپسی پر بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے سو میں نے ایک امریکی فاسٹ فوڈ چین کا رُخ کیا کیونکہ مجھے پاکستانی کوزین بالکل بھی پسند نہیں۔ ضمیر کی بھوک نہ جانے کیوں مرچکی تھی سو اس نے کچھ نہ کھایا اور منہ بسورے بیٹھا رہا۔
کھانا کھانے کے بعد میں نے پھر بائیک کو کِک لگائی اور سیدھا مسجد کا رُخ کیا۔ وہاں عصر کے بعد ملکی سلامتی کے لیے دعا کا خصوصی اہتمام تھا۔ ضمیر کی خوائش تھی کہ ہم دعا میں شریک ہوجائیں مگر مجھے وہاں اپنے دوست سے ملنا تھا جس کے امّاں ابّا جشنِ آزادی منانے کے لیے اسے گھر سے نکلنے نہیں دے رہے تھے لیکن وہ نماز کا بہانہ بنا کر ملنے نکل آیا تھا۔
دوست سے ملنے کے بعد مجھے اُردو بازار کا چکر لگانا تھا۔ وہاں بُک اسٹالز پر دلکش قسم کے رسائل موجود تھے جو اگست کی مناسبت سے تیار کیے گئے تھے۔ یہ آزادی نمبر رعایتی قیمتوں پر دستیاب تھے۔
ضمیر پڑھنے پڑھانے کا شوقین ہے اس نے مشورہ دیا کہ ہمیں یہ رسائل لینے چاہئیں کہ ان میں سیکھنے کو بہت کچھ ملے گا مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ ایک فضول خرچ انسان ہے سو میں نے تمام رسائل میں سے ہندی فلم راج اور ہالی ووڈ ان سائٹ کے رسالے خریدے تاکہ اگلے تمام ہفتے مزے سے گزر سکیں۔
راستے میں ایک جگہ مجھے پولیس نے بھی روکا مگر میں نے کمال مہارت سے سگنل توڑ کے کٹ مارا اور نکل گیا۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ ضمیر میرا دوست ہی نہیں، عجیب انسان ہے کہہ رہا تھا مجھے رُک کر، اپنی غلطی مان کر چالان کرا لینا چاہیے۔ اس کی ایسے کی تیسی۔ میرے پاس حرام کے پیسے ہیں کیا؟
رات کو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی تو میں نے گھر کی راہ لی۔ ویسے بھی میں تمام دن جشنِ آزادی منا منا کر تھک گیا تھا۔ مگر گھر آنے کے ساتھ ہی میرا سارا موڈ خراب ہوگیا۔ ضمیر میرے ہی گھر اُترا۔ گھر پہنچا تو چھوٹا بھائی ضد کرنے لگا کہ اس نے جن جھنڈیوں سے گھر سجایا تھا وہ بارش کے باعث بھیگ کر گرنے لگی ہیں اس لیے آئیں انہیں سنبھال لیتے ہیں۔
مجھے اس کی بات پر شدید غصہ آیا۔ کیسا جذباتی بچہ ہے۔ بھائی کی تھکن کا بھی کچھ خیال نہیں۔ ابھی بھائی کو ڈانٹ کے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ دادی نے بلا لیا۔ ان کا معمول ہے کہ وہ ہر 14 اگست کو ایک ہی فرسودہ سا قصہ لے کے بیٹھ جاتی ہیں اور رو رو کر سناتی ہیں کہ کس طرح ان کا بھائی امرتسر سے لاہور آتے ہوئے شہید ہوگیا تھا انہوں نے کیسے تمام رات چھپ کر گزاری تھی۔ یہ سراسر ان کی جذباتیت تھی۔ میں چڑگیا کہ مجھے یہ سب نہیں سننا یہ اب گئے زمانے کی بات ہے۔ ضمیر مجھ سے بہت خفا ہوا کہ مجھے دادی سے چڑنا نہیں چاہیے تھا مگر اسے تو معلوم تھا کہ میں کتنا تھکا ہوا اور بے زار ہوں۔
رہی سہی کسر امّی نے نکال دی۔ کہنے لگیں میری دوائیں ختم ہیں وہ لا دو۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ میں رات کے اس پہر گھر سے نکلتا جبکہ انہیں معلوم تھا کہ میں جشنِ آزادی منا منا کر تھکا ہوا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ دوائیں فرصت ملنے پر کل لے آؤں گا اور سیدھا اپنے کمر ے میں آگیا۔ ضمیر یہ سب دیکھتا رہا اس نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا، رات بھی نصیحتیں کرتا رہا مگر ماشاءاللہ سے میرا رعب اتنا ہے کہ اس کی میرے سامنے کسی طور نہیں چلتی۔
میں کمرے میں آگیا اور کپڑے بدل کر اب آج کا تمام دن ڈائری پر لکھ رہا ہوں۔ ضمیر بلا کا سوندو ہے اور کمرے میں آتے ساتھ ہی سوگیا ہے۔ یہ رات بھی یہ میری طرف ہی گزارے گا۔
اب رات کافی ہوگئی ہے اور صبح مجھے جلدی اُٹھنا ہے، کیونکہ کینیڈین سفارت خانے میں ویزا کے لیے میرا انٹرویو ہے اور اس کے لیے صبح اُٹھ کر تیاری بھی کرنی ہے۔ مگر آج کے دن کا لبِ لباب یہی تھا کہ میں ایک محبِ وطن پاکستانی ہوں اور میں نے آج جشنِ آزادی خوب جوش و جذبے سے منایا ہے۔ اب چلتا ہوں۔
شب بخیر!