• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

اسد قیصر قومی اسمبلی کے اسپیکر، قاسم سوری ڈپٹی اسپیکر منتخب

شائع August 15, 2018 اپ ڈیٹ August 17, 2018

اسلام آباد: الیکشن 2018 میں منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کو ایوان زیریں کا اسپیکر جبکہ قاسم سوری کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کر لیا۔

تحریک انصاف کے قاسم سوری کو 183 ووٹ ملے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار اسعد محمود نے 144 ووٹ حاصل کیے۔

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

خفیہ رائے شماری کے نتائج کے اعلان کے بعد قاسم سوری نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے کا حلف اٹھا لیا، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قاسم سوری سے حلف لیا۔

اس موقع پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے قاسم سوری نے کہا کہ 'میرا تعلق بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے سے ہے جہاں لوگ تعلیم، پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، بلوچستان کو ایک کالونی کی طرح چلایا گیا، لیکن میں بلوچستان کی رونقین بحال کرنے کی امید سے ایوان میں آیا ہوں۔'

انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف کی حکومت بلوچستان پر توجہ دے گی، ناراض بلوچ بھائیوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کریں گے اور تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں کوئٹہ کو دوبارہ لٹل پیرس بنائے گی۔'

قاسم سوری نے ووٹ دینے پر حامی جماعتوں اور اعتماد کرنے پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'میرے مخالف امیدوار اسعد محمود نے جمہوری انداز میں مقابلہ کیا۔'

قبل ازیں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ خورشید شاہ نے 146 ووٹ حاصل کیے اور 30 ووٹوں کی برتری سے اسد قیصر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

قومی اسمبلی کے نئے اسپیکر کے انتخاب کے لیے نو منتخب اراکین پارلمنٹ نے 330 ووٹ ڈالے، جس میں 8 ووٹ مسترد ہوئے۔

پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر کے بطور اسپیکر قومی اسمبلی کامیابی کے اعلان کے بعد اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے رکن قومی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے احتجاج کیا۔

مرتضیٰ جاوید نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سیاہ پٹی باندھ رکھی تھی، انہوں نے پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو جعلی قرار دیا اور ان پر تنقید کی لیکن حکومتی نشستوں پر بیٹھے قومی اسمبلی کے اراکین کے شور پر اپنی بات پوری نہیں کرسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نومنتخب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کون؟

جس کے بعد مرتضیٰ جاوید عباسی نے بھی ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا اور اپوزیشن نشستوں پر موجود مسلم لیگ (ن) کے دیگر اراکین نے مرتضیٰ جاوید کے نعرے کی تائید کی اور شدید نعرے بازی کی۔

بعض رکن اسمبلی مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی تصاویر بھی اٹھائے ہوئے تھے۔

شدید شور شرابے اور نعرے بازی کے دوران ایاز صادق نے اسد قیصر سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کا حلف لیا۔

حلف لینے کے دوران اسد قیصر نے ایوان کو متعدد مرتبہ 'آرڈر' میں آنے کے لیے کہا لیکن احتجاج جاری رہا، جس پر اسپیکر نے اجلاس میں کچھ دیر کا وقفہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ایوان کو بتایا کہ کچھ دیر بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز ہوگا اور اس میں ڈپٹی اسپیکر کے لیے خفیہ رائے شماری کی جائے گی۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کا حلف اٹھانے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا کہ 'اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں، عمران خان اور تمام ارکان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں'۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کا دوبارہ آغاز ہوا تو پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اپنی پارٹی کی جانب سے اسد قیصر کو کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔

خورشید شاہ نے مزید کہا کہ میرے قائدین نے پارلیمنٹ کے لیے قربانیاں دی ہیں اور پارٹی کی قربانیوں پر فخر ہے، بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ملک میں جمہوریت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کو بحال رکھیں گے، خورشید شاہ نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے 5 سال جمہوری طریقے سے پارلیمنٹ کو چلایا۔

انہوں نے کہا کہ سابق اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں جمہوری رویہ اختیار کیا، دعا ہے کہ پی ٹی آئی نے جو عوام سے وعدے کیے ہیں اسے پورا کرے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ میری دعا ہے کہ پارلیمان 5 سال کی مدت پوری کرے، ہم تحریک انصاف کی حکومت کو وعدے پورے کرنے کا موقع دیں گے، انہوں ںے اعلان کیا کہ ملک و قوم کے لیے قانون سازی میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے۔

خورشید شاہ کے بعد پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے جمہوری انداز کا اعتراف کرتا ہوں کیونکہ خورشید شاہ نے انتہائی فراخ دلی سے نتیجہ قبول کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ کی تقریر سیاسی فہم وفراست کا ثبوت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں 176 ووٹوں کا حساب لگا کر آئے تھے اور پورے ووٹ ملے۔

شاہ محمود نے کہا کہ ہم حزب اختلاف کے حقوق تسلیم کرتے ہیں اور تنقید کرنا ان کا حق ہے، اپوزیشن کی تنقید سے اصلاح کا پہلو خوش دلی سے قبول کریں گے۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق نے اسد قیصر کو اسپیکر قومی اسمبلی کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔

سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ اسپیکر کے منصب پر منتخب کرنے پر نواز شریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں، 2013 میں پہلی جمہوری حکومت نے پرامن اقتدار منتقل کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی اختلاف ضرور ہوسکتا ہے، اسپیکر کی تذلیل نہیں کروں گا جبکہ میں نے مسکرا کر جعلی اسپیکر کی آوازیں سنیں اور کبھی پیشانی پر بل نہیں آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلاف ہو مگر ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے، کبھی اسپیکر کا نام لے کر نہیں پکاروں گا۔

سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ حکومتی ارکان گلہ کرتے تھے کہ آپ اپوزیشن کا ساتھ دیتے ہیں، جمہوریت کی خاطر نواز شریف اور پوری اپوزیشن نے میرا ساتھ دیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مشکل وقت میں خورشید شاہ نے میرا ساتھ دیا جو قابل تعریف ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات میں ذمہ داری ادا نہیں کی لیکن الیکشن ایکٹ 2017 میں بہت محنت کی گئی تھی، الیکشن ایکٹ میں اتنےاختیارات دیے گئے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے اسد قیصر کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب ہونے پر مبارکباد دی اور کہا کہ مبارک باد کے مستحق جانے والے اسپیکر ایاز صادق بھی ہیں، ہم سب بات کررہے ہیں کہ جمہوری طریقے سے اقتدار منتقل ہوا ہے جبکہ جمہوریت کا یہ تسلسل ایک بہتر اور بہترین جمہوریت کی جانب قدم ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عوام نے اس ایوان کو اپنے خواب سپرد کیے ہیں اور اس ایوان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے خواب لوٹائیں، پاکستان کی عوام اور جمہور نے اس ایوان کو اپنی اُمید سپرد کی ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں یقین واپس لوٹائیں۔

اس سے قبل اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے لیے ایوان زیریں کے اجلاس کا آغاز ہوا جو ممکنہ طور پر 10 بجے ہونا تھا لیکن اراکین کی آمد میں تاخیر کے باعث اجلاس کا آغاز 10 بج کر 40 منٹ پر ہوا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے اپنے اراکین قومی اسمبلی کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے باعث تاخیر سے اجلاس میں شریک ہوئے۔

اجلاس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، اسد قیصر کو اسپیکر کے عہدے پر کامیاب کروانے کے لیے لابنگ میں مصروف رہے اور انہوں نے مختلف ارکان کی نشستوں پر جا کر ووٹ کی درخواست کی جبکہ عمران خان نے صاحبزادہ محبوب سلطان کی نشست پر جا کر ان کی مرحوم والدہ کے لیے فاتحہ خوانی کی۔

ایوان زیریں کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں اسمبلی کے نئے اسپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوا۔

مزید پڑھیں: عمران خان، بلاول بھٹو، شہباز شریف سمیت دیگر اراکین نے حلف اٹھالیا

عمران خان قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں — فوٹو، ڈان نیوز
عمران خان قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آرہے ہیں — فوٹو، ڈان نیوز

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کے لیے 2، 2 امیدوار میدان میں تھے جن میں اسپیکر کے عہدے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اسد قیصر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سید خورشید شاہ کے درمیان مقابلہ تھا اور اسد قیصر کامیاب رہے۔

دوسری جانب ڈپٹی اسپیکر کے لیے تحریک انصاف کے قاسم سوری اور اپوزیشن کے اسد محمود میدان میں ہیں۔

اجلاس کے آغاز میں کچھ نومنتخب اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا، یاد رہے کہ یہ اراکین، الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں زیر التوا کیسز کے باعث 13 اگست کو حلف نہیں اٹھا سکے تھے۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخابی عمل

نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب سے متعلق اسپیکر ایاز صادق کے اعلان کے ساتھ ہی ایوان کو پولنگ اسٹیشن میں تبدیل کردیا گیا، جس کے ساتھ ہی ووٹنگ کا عمل شروع ہوا اور یہ انتخاب قومی اسمبلی کے رول 9 (3) کے تحت ہوا۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دوران کسی بھی رکن کو موبائل سے ووٹ کی تصویر بنانے کی اجازت نہیں تھی اور ہر ووٹر کو بیلٹ پیپر، سیکریٹری اسمبلی کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر ضمنی انتخابات 2 ماہ میں ہوں گے‘

نئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے دوران دلچسپ صورت حال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ووٹ کے لیے عمران خان کا نام پکارا گیا اور پی ٹی آئی چیئرمین پولنگ افسر کے سامنے پیش ہوئے لیکن ان کے پاس اسمبلی کا کارڈ موجود نہیں تھا جس پر انہوں نے اسپیکر ایاز صادق سے ووٹ ڈالنے کے لیے اجازت طلب کی تو اسپیکر نے انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اسپیکر کے لیے ہونے والے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے بعد کچھ دیر کے لیے قومی اسمبلی سے چلے گئے۔

ایوان زیریں کے اجلاس کے دوران شاہ محمود قریشی، عمران خان سے بات چیت کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
ایوان زیریں کے اجلاس کے دوران شاہ محمود قریشی، عمران خان سے بات چیت کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

انتخاب کے لیے امیدواروں نے اپنے 2، 2 پولنگ ایجنٹس کے نام اسپیکر کو دیئے تھے جبکہ ووٹرز لسٹ کے مطابق تمام ووٹرز نے ووٹ ڈالے، جس کے بعد اسپیکر نے ووٹنگ عمل کے اختتام کا اعلان کیا۔

اس کے بعد امیدواروں اور پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی، جس کے بعد اسپیکر ایاز صادق نے سب کے سامنے نتیجے کا اعلان کیا۔

الیکشن 2018 میں منتخب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی نے خفیہ رائے شماری کے ذریعے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر اسد قیصر کو ایوان زیریں کا اسپیکر منتخب کیا۔

سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ خورشید شاہ نے 146 ووٹ حاصل کیے اور 30 ووٹوں کی برتری سے اسد قیصر اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

مذکورہ اعلان کے بعد ایاز صادق نے اسد قیصر سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کا حلف لیا، اس دوران مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے احتجاج کیا اور ایوان میں شدید نعرے بازی کی۔

نئے اسپیکر نے اجلاس میں کچھ دیر کا وقفہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ایوان کو بتایا کہ کچھ دیر بعد اجلاس کا دوبارہ آغاز ہوگا اور اس میں ڈپٹی اسپیکر کے لیے خفیہ رائے شماری کی جائے گی۔

وقفے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا آغاز ہوا اور پہلا ووٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ڈالا اور اس موقع پر اسپیکر اسد قیصر سے مصافحہ بھی کیا۔

ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد اسمبلی کا اجلاس اختتام پذیر ہوگا جبکہ آئندہ اجلاس میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے پولنگ ہوگی جس کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے عمران خان جبکہ مسلم لیگ (ن) اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے شہباز شریف کو نامزد کیا گیا۔

تاہم بدھ کے روز اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے دوران ایک موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے شہباز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کرنے پر اعتراض اٹھایا۔

25 جولائی کو انتخابات کے بعد 13 اگست کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں الیکشن میں کامیاب ہونے والے اراکین اسمبلی نے حلف اٹھایا تھا، ان میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر نو منتخب اراکین اسمبلی شامل تھے۔

اسی روز سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے اجلاس بھی ہوئے تھے جس میں اراکین صوبائی اسمبلی نے حلف اٹھایا تھا۔

مجموعی طور پر ملک کی 15ویں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اسپیکر ایاز صادق نے قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے 328 ارکان سے حلف لیا تھا، جس کے بعد نو منتخب اراکین نے رول آف ممبر پر دستخط کیے تھے۔

واضح رہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں قومی اسمبلی کے 2 حلقوں پر انتخاب نہیں ہوسکا تھا جبکہ 8 امیدواروں نے اپنی زائد نشستیں چھوڑ دی تھیں، اس کے علاوہ خاتون کی ایک مخصوص نشست پر کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کا احتجاج

مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے انتخابات 2018 میں مبینہ دھاندلی کے خلاف قومی اسمبلی کے اجلاس میں احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور رہنماؤں نے قومی اسمبلی کے باہر احتجاج کیا، اس موقع پر انہوں نے بازوں پر سیاہ پٹیاں اور ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر مختلف نعرے درج تھے، مسلم لیگ (ن) کے مظاہرے کی صدارت مریم اورنگ زیب کررہیں تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف قافلے کی صورت میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پہنچے تو ان کے ہمراہ کارکنوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔

اس موقع پر شہباز شریف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کے قائد نواز شریف اور ان کی بیٹی کے خلاف استغاثہ کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا، موجودہ الیکشن پاکستان کی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پوری قوم الیکشن کو مسترد کرچکی ہے لیکن ہم جمہوریت کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض انجام دینے میں مکمل ناکام رہا اور ہم دھاندلی کے سوالوں کا جواب لے کر رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آر ٹی ایس سسٹم مکمل طور پر ناکام ہوا اور جو نگراں حکومت تھی، وہ ان انتخابات میں فریق بن چکی تھی۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کا حساب ضرور لے کر رہیں گے اور اس حوالے سے تحریک انصاف اور ان کے اتحادی کو غلط فہمی نہیں رہنی چاہیے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایک دلچسپ صورت حال اس وقت بھی سامنے آئی جب مسلم لیگ (ن) کی نو منتخب خاتون رکن اسمبلی نے نواز شریف کا پوسٹر اپنے ہمراہ اسمبلی لے جانے کی کوشش کی تاہم انہیں پولیس نے پوسٹر کے ساتھ ایوان میں داخل ہونے سے روک دیا۔

انہوں ںے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف ان کے قائد ہیں اور اگر انہیں اپنے قائد کے پوسٹر کے ساتھ اندر جانے نہیں دیا گیا تو وہ احتجاج کرتے ہوئے حلف نہیں اٹھائیں گی۔

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ یہ کٹھ پتلیوں کا تماشا ہے اور کچھ لوگ کٹھ پتلی بننے کے خواہشمند ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسی پارٹی جو شہید بے نظیر کی پارٹی ہے وہ بھٹو خاندان کی ہی پارٹی رہے تو اسی میں ان کی بقا ہے اور جس ایوان میں ہم موجود ہیں اس کا تقدس بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ اصولوں پر فیصلہ کیا جائے۔

یہ رد عمل انہوں نے پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیراعظم کے امیدوار پر تحفظات اور اپوزیشن الائنس کا ساتھ دینے کے حوالے سے کیے گئے سوالات کے جواب میں دیا۔

یاد رہے کہ خرم دستگیر نواز شریف کا پوسٹر لیے ایوان آئے تھے، جس پر 'میرا قائد' درج تھا۔

ادھر اجلاس سے قبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام تر مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن ہے، اس کے ساتھ انہوں نے اس بات پرخوشی کا اظہار کیا کہ انہیں اس ایوان میں شامل ہو کر اپنے لوگوں اور اپنی جماعت کی نمائندگی کا موقع ملا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایوان میں آنے والے چہروں کی تبدیلی پاکستان کے مقدر کی تبدیلی ثابت ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کی پیش رفت کے مطابق ہماری خواہش ہے کہ اس نازک مرحلے پر ملکی استحکام کے لیے جس جماعت نے انتخابات میں زیادہ مینڈیٹ حاصل کیا اسی کا حق ہے کہ وہ حکومت بنائے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ آج سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ایوان میں زیادہ مقبول نظر آرہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ خورشید شاہ کو اتحادیوں اور مخالفین دونوں جانب سے پسند کیا جاتا ہے تاہم اسپیکر کے انتخاب کا نتیجہ کیا آتا ہے اس بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر خورشید شاہ کامیاب ہوگئے تو وہ ایک بہترین اسپیکر ثابت ہوں گے کیوں کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنا بخوبی جانتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد غیر فطری ہے، شاہ محمود قریشی

اجلاس سے قبل پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا الائنس غیر فطری ہے، دونوں جماعتوں کی قدریں بھی مشترک نہیں۔

ڈپٹی اسپیکر کے لیے نامزد کردہ تحریک انصاف کے امیدوار قاسم سوری کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ قابلِ احترام ہیں لیکن وہ جیت نہیں سکتے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہونے کی بنا پر اسد قیصر با آسانی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوجائیں گے۔

دوسری جانب اسے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسپیکر کے انتخاب کے لیے قواعد و ضوابط پر عمل کیا جارہا ہے لیکن یہ مقابلہ یک طرفہ ہوگا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ باآسانی 180 سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ ہماری تعداد سادہ اکثریت سے کہیں زیادہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اتحادی جماعتیں تحریک انصاف کے جھنڈے تلے متحد ہیں جس کے باعث ہمیں اسپیکر کے انتخاب میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں ہوگا۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ 17 اگست ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم کے انتخاب ہوگا اور بعد ازاں 18 اگست کو وزیراعظم حلف اٹھائیں گئے، آخر میں 20 اگست کو کابینہ حلف اٹھائے گی جس کے بعد انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہوجائے گا، ان کا کہنا تھا تمام کارروائیاں قانون کے مطابق جاری ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صدر مملک کا انتخابات 25 اگست کو ہونا ہے تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سلسلے میں تاحال کوئی شیڈول جاری نہیں کیا گیا، البتہ ہم صدر کے انتخاب کے لیے تیار ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک یا 2 روز میں پنجاب کے وزیراعلیٰ کا اعلان بھی کردیا جائے گا۔

اپوزیشن اتحاد میں دراڑ کے حوالے ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ہم ایک متحرک اپوزیشن کے کردار کی اہمیت سے آگاہ ہیں، اور ہم ان میں فارورڈ بلاک بنانے یا ان کے اراکین کو توڑنے کے خواہشمند نہیں جبکہ انہوں نے بھی پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحاد کو غیر فطری قرار دیا۔

علاوہ ازیں پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آج (بدھ) کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو ہی کامیابی ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کے بعد سب اچھا ہے، قوم نے عمران خان کو بھاری ذمہ داری دی ہے، ان کا مزید کہنا تھا عمران خان وزیراعظم ہوں گے اور اسپیکر بھی پی ٹی آئی کا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں بغیر حلف کے بھی عمران خان کے ساتھ ہوں اور عمران خان کے ساتھ کندھے سے کندھا جوڑے کھڑا ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ شہباز شریف وکٹ کی دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔

بعد ازاں تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کے لیے ایک ایسے شخص کا منتخب ہونا بہت ضروری ہے جو نہ صرف تجربہ کار ہو بلکہ ایماندار بھی ہو۔

اسی سلسلے میں تحریک انصاف کے نومنتخب رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ ان کی اپوزیشن سے اب تک ہونے والی گفتگو بہت تعمیری رہی ہے۔

اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم اپنے آپ کو عقلِ کُل نہیں سمجھیں گے بلکہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

اس کے ساتھ اپوزیشن کے جائز مطالبات نہ صرف سنیں گے بلکہ ان کی تجاویز پر عمل درآمد بھی کریں گے۔

اسمبلی میں بڑا ہنگامہ نظر نہیں آئے گا، طلعت حسین

معروف صحافی اور تجزیہ کار طلعت حسین نے ڈان نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کے سیاسی کردار سے واضح ہوجائے گا کہ وہ احتجاج کو اس حد تک نہیں لے جانا چاہتے جس سے نظام کو دھچکا لگے۔

انہوں نے پیش گوئی کی کہ اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی میں چھوٹے پیمانے پر شور و غل تو ضرور ہوگا لیکن کوئی بڑا ہنگامہ نظر نہیں آئے گا۔

طلعت حسین کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے داماد، ایل ڈی اے کے سابو سربراہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کی گرفتاری مسلم لیگ (ن) کے صدر کے لیے پریشان کن ہے اور ان حالات کے پیشِ نظر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ’مولا جٹ‘ کا کردار ادا کریں۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پہلی خاتون اسپیکر

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ملک کی قانون ساز اسمبلی کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے، وہ 11 اگست 1947 سے لیکر 11 ستمبر 1948 میں اپنی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔

قائداعظم کے بعد مولوی تمیز الدین خان، عبدالوہاب خان، فضل القادر، عبدالجبار خان، ذوالفقار علی بھٹو، فصل الہی چوہدری، صاحبزادہ فاروق علی، ملک معراج خالد، سید فخر امام، حامد ناصر چھٹہ، گوہر ایوب خان، سید یوسف رضا گیلانی، الہی بخش سومرو، چوہدری امیر حسین، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور سردار ایاز صادق قومی اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر فائز رہ رہے۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر اور سردار ایاز صادق کو ایک ہی قومی اسمبلی کا 2 مرتبہ اسپیکر منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

مولوی تمیزالدین، ملک معراج خالد اور سردار ایاز صادق 2، 2 مرتبہ قومی اسبملی کے اسپیکر رہے ہیں جبکہ فضل الہی چوہدری سب سے کم عرصے کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر اور مولوی تمیز الدین خان سب سے زیادہ عرصے تک قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے ہیں۔

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف سرفہرست

ملک میں حکومت بنانے کے لیے تحریک انصاف کی پوزیشن مضبوط ہے اور قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کے ساتھ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ملا کر پی ٹی آئی 151 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔

خو رشید شاہ اور راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی میں موجود ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
خو رشید شاہ اور راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی میں موجود ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

تاہم 172 ارکان کی مطلوبہ تعداد تک پہنچنے کے لیے تحریک انصاف کو اپنے اتحادیوں کی ضرورت ہوگی، جس کے لیے وہ پہلے ہی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے 7، مسلم لیگ (ق) کے 3، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے 5، بی این پی کے 5 اراکین، عوامی مسلم لیگ کے ایک، جمہوری وطن پارٹی کے ایک رکن اور 4 آزاد ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل کرچکی ہے۔

قومی اسمبلی میں نشستوں کی بات کی جائے تو مخصوص نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) 81 اراکین کے ساتھ دوسری جبکہ پیپلز پارٹی 53 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اس کے علاوہ متحدہ مجلس عمل قومی اسمبلی میں ایک اقلیتی نشست اور 2 خواتین کی نشستیں حاصل کرکے 15 نشتیں حاصل کرچکی ہے جبکہ اے این پی کا ایک رکن قومی اسمبلی میں موجود ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024