• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
شائع August 13, 2018 اپ ڈیٹ August 17, 2018
صرف 3 قومی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی—فائل فوٹو: ڈان
صرف 3 قومی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت مکمل کی—فائل فوٹو: ڈان

اگر ملک کی 71 سالہ پارلیمانی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے گی تو نہ صرف مایوسی ہوگی بلکہ اس کا تجزیہ کرنے کے بعد خوشی بھی ہوگی۔

کیوں کہ جہاں اس میں کئی خرابیاں رہیں وہیں اب یہ بہتری کی جانب گامزن بھی ہے۔

عوام کو نئی بننے والی حکومت اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں پہنچنے والے اپنے منتخب کردہ افراد سے تو کئی امیدیں وابستہ ہیں۔

تاہم یہ امیدوار اپنے عوام اور ووٹرز کی توقعات پر کتنا پورا اترتے ہیں اور وہ کس طرح ملک میں تبدیلی لائیں گے، اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ملک میں 15 ویں قومی اسمبلی کا قیام ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ملک اپنے قیام کی 71 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔

اس اسمبلی اور پہلی دستور ساز اسمبلی کو یہ اعزازات بھی حاصل ہے کہ یہ جشن آزادی کے موقع پر تشکیل میں آئیں۔

ملک کی گزشتہ 14 قومی اسمبلیوں میں نہ صرف آئین ساز اسمبلیاں شامل ہیں بلکہ ان میں پسندیدہ افراد سے بنی اسمبلیاں اور قومی مرکز شوریٰ جیسی خصوصی اسمبلیاں بھی شامل ہیں۔

13 اگست 2018 کو 15 ویں قومی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا —فائل فوٹو: ڈان
13 اگست 2018 کو 15 ویں قومی اسمبلی کا قیام عمل میں آیا —فائل فوٹو: ڈان

حیران کن بات یہ ہے ملک کی سیاست اور پارلیمانی تاریخ کے ابتدائی 38 سالوں میں صرف 8 دستور ساز، مجلس شوریٰ اور پسند کے امیدواروں کی اسمبلیاں بنیں۔

جب کہ باقی 33 سالوں میں 6 ایسی اسمبلیاں بنیں جن میں سے صرف 3 آخری اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔

اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی 3 میں سے بھی ایک اسمبلی نے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت میں مدت پوری کی جبکہ باقی آخری 2 اسمبلیوں نے پہلی مرتبہ جمہوری حکومتوں میں اپنی آئینی مدتیں پوری کیں۔

جہاں پہلی مرتبہ آخری 2 جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی، وہیں تاحال ملک میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔

اب خیال کیا جا رہا ہے کہ ملک کی 15 ویں اسمبلی میں حلف اٹھانے والا وزیر اعظم پہلی مرتبہ ملکی تاریخ میں اپنی آئینی مدت پورے کرے گا، لیکن اس حوالے سے تصدیق سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

پہلی سے تیسری قومی اسمبلی

11 اگست کو محمد علی جناح پہلی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کررہے ہیں —فائل فوٹو: نیشنل اسمبلی
11 اگست کو محمد علی جناح پہلی آئین ساز اسمبلی میں تقریر کررہے ہیں —فائل فوٹو: نیشنل اسمبلی

پہلی آئین ساز اسمبلی متحدہ ہندوستان کے آخری وائسراء لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی جانب سے جاری کردہ خصوصی لیٹر کی ہدایت پر بنائی گئی۔

انہوں نے اسمبلی کے لیے 26 جولائی 1947 کو لیٹر جاری کیا، جس کے تحت اسمبلی کے لیے مجموعی طور پر 79 ارکان کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی جن میں سے صرف ایک خاتون تھیں۔

پہلی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل 10 اگست 1947 کو قیام پاکستان سے 4 دن قبل سندھ اسمبلی بلڈنگ کراچی میں ہوئی اور 11 اگست کو محمد علی جناح کو اسمبلی کا صدر (اسپیکر) منتخب کیا گیا اور انہوں نے اپنا تاریخ خطاب بھی کیا۔

اسی اسمبلی نے پاکستان کے قومی جھنڈے کی منظوری دی اور 12 اگست کو اسمبلی نے محمد علی جناح کے نام کے ساتھ ‘قائد اعظم’ شامل کرنے کی قرار داد بھی منظور کی، اسی دن ہی قانون سازی کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی بنائی گئی۔

14 اگست کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اسی اسمبلی میں اپنے اختیارات گورنر جنرل آف انڈیا (محمد علی جناح) کو دیے اور اسی وقت ہی قائد اعظم نے تقریر کرتے ہوئے ریاست پاکستان کا ذکر کیا اور اگلے روز 15 اگست کو انہوں نے پہلے گورنر جنرل آف پاکستان کا حلف اٹھایا۔

پہلی آئین ساز اسمبلی نے ملک کا دستور بنانا تھا جس کے لیے اسے سخت مشکلات پیش آئیں، تاہم اسمبلی کی جانب سے جیسا تیسا آئیں بنایا گیا جس سے اس وقت کے سیاستدانوں میں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔

دوسری آئین ساز اسمبلی کی تشکیل 28 مئی 1955 کو کی گئی اور اسی اسمبلی کی مدت کے دورانیے میں ہی پاکستان میں مزید کئی حیران کن اور نئے واقعات پیش آئے۔

دوسری قومی اسمبلی کا منظر—فوٹو: ہسٹری پاک
دوسری قومی اسمبلی کا منظر—فوٹو: ہسٹری پاک

ملک میں گورنر جنرل کا عہدہ ختم کرکے صدر کا عہدہ متعارف کرایا گیا اور میجر جنرل اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر بنے۔

اسی اسمبلی کی مدت کے دوران 1956 کے آئین کے بعد 1962 کا آئین بھی بنایا جاچکا تھا، اس لیے اب آئین ساز اسمبلی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔

ملک میں پہلی قومی اسمبلی اور مجموعی طور پر تیسری اسمبلی کا قیام 8 جون 1962 کو عمل میں آیا اور پچھلی اسمبلیوں کی طرح اس کی مدت کے دوران بھی کئی حیران کن سیاسی و پارلیمانی واقعات پیش آئے۔

چوتھی سے 7 ویں قومی اسمبلی

چوتھی قومی اسمبلی کا قیام 14 اپریل 1972 کو عمل میں آیا۔

صحیح معنوں میں یہ وہ پہلی اسمبلی تھی جو عام عوام کے ووٹ سے منتخب بننے والے نمائندوں سے بنی تھی۔

یہ اسمبلی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اسلام آباد کی عمارت میں قائم کی گئی۔

چوتھی اسمبلی کے بعد بھی ملک میں سیاسی و پارلیمانی بحران برقرار رہا اور خود ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک قومی اسمبلی تحلیل کرکے وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔

7 مارچ 1977 کو انتخابات ہوئے اورعوام نے نئے امیدوار منتخب کیے، مگر اپوزیشن نے ان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور پھر ملک میں سیاسی بحران مزید سنگین ہوتا چلا گیا۔

جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرن کے ساتھ ہی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا تھا—فائل فوٹو: ہیرالڈ
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کرن کے ساتھ ہی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا تھا—فائل فوٹو: ہیرالڈ

جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں مارشل لاء نافذ کرنے کے بعد قومی اسمبلی کی جگہ مجلس شوریٰ قائم کردی، جس کا پہلا اجلاس 11 جنوری 1982 کو ہوا۔

بعد ازاں آئین کی بحالی کے بعد قومی اسمبلی بھی بحال ہوئی اور 20 مارچ 1985 کو ملک کی 7 ویں قومی اسمبلی بنی۔

یوں 1947 سے 1985 تک آئین ساز، پسندیدہ امیدواروں پر مبنی اور مجلس قومی شوریٰ کی اسمبلیوں سمیت 7 اسمبلیاں اپنی مدت پوری کر چکی تھیں۔

8 ویں قومی اسمبلی

نومبر 1985 میں ملک کی 8 ویں قومی اسمبلی بنی، جس نے متنازع آئینی شک 52 ٹو بی کو منظور کیا۔

اس شک کے ذریعے ملک کے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات حاصل ہوگئے اور محض 3 سال بعد ہی اسی اسمبلی کو اسی ہی شک کے تحت تحلیل کردیا گیا۔

9 ویں سے 11 ویں قومی اسمبلی

تین سال بعد 1990 میں ہونے والے انتخابات کے بعد 3 نومبر 1990 کو ملک کی 9 ویں اسمبلی کی تشکیل ہوئی اور اسے بھی ٹھیک 3 سال بعد اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان نے تحلیل کردیا۔

اپریل 1993 میں تحلیل کی گئی اسمبلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور عدالت عظمیٰ نے مئی میں اسمبلی کو بحال کرنے کا حکم دیا۔

تاہم بعد ازاں جولائی میں وزیراعظم کی تجویز پر صدر نے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کو تحلیل کردیا۔

دسویں قومی اسمبلی 15 اکتوبر 1993 کو تشکیل میں آئی، لیکن اس مرتبہ بھی اسے 3 سال کے اندر اندر اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے تحلیل کردیا۔

اگلی اسمبلی کے لیے فروری 1997 میں انتخابات ہوئے اور 15 فروری کو ملک کی 11 ویں قومی اسمبلی وجود میں آئی۔

ملک میں 1999 کو ایک مرتبہ پھر جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا اور سینیٹ و قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا گیا۔

12 ویں قومی اسمبلی

پہلی مرتبہ 12 ویں قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کی—فوٹو: ہمایوں اختر بلاگ
پہلی مرتبہ 12 ویں قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت مکمل کی—فوٹو: ہمایوں اختر بلاگ

12 ویں قومی اسمبلی کے لیے ملک میں 2002 میں انتخابات منعقد ہوئے اور 16 نومبر 2002 کو اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔

صحیح معنوں میں یہ پہلی قومی اسمبلی تھی جس نے اپنی آئینی مدت مکمل کی تھی۔

13 ویں سے 15 قومی اسمبلی

13 ویں اسمبلی جمہوری حکومت کی پہلی قومی اسمبلی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی—فوٹو: فرزانہ راجہ ڈاٹ کام
13 ویں اسمبلی جمہوری حکومت کی پہلی قومی اسمبلی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی—فوٹو: فرزانہ راجہ ڈاٹ کام

تیرہویں قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات کا اعلان 28 جنوری 2008 کو کیا گیا تھا، تاہم انتخابات سے کچھ دن قبل سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے باعث انتخابات کا انعقاد 18 فروری کو ہوا۔

ملک میں 13 ویں قومی اسمبلی 17 مارچ 2008 کو تشکیل پائی، جس میں پہلی مرتبہ ایک خاتون فہمیدہ مرزا اسپیکر بنیں۔

اسی اسمبلی اور حکومت نے آئین میں 18 ویں ترمیم کرکے جہاں 52 ٹو بی کی شک کو ختم کیا، وہیں صوبوں کو بھی خود مختاری دی گئی۔

پہلی مرتبہ 13 ویں سے 14 ویں اسمبلی کی تشکیل جمہوری حکومت کے دور میں ہوئی—فوٹو: نیشنل اسمبلی
پہلی مرتبہ 13 ویں سے 14 ویں اسمبلی کی تشکیل جمہوری حکومت کے دور میں ہوئی—فوٹو: نیشنل اسمبلی

یہ وہ پہلی قومی اسمبلی تھی جس نے کسی بھی جمہوری حکومت میں اپنی آئینی مدت مکمل کی تھی۔

چودہویں قومی اسمبلی کے لیے مئی 2013 میں عام انتخابات منتعقد ہوئے اور اسی مہینے میں ہی قومی اسملبی کی تشکیل ہوئی اور پہلی مرتبہ ایک جمہوی حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔

اس اسمبلی کی آئینی مدت مئی 2018 میں مکمل ہوئی، جس کے بعد 25 جولائی کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔

ملک کی 15 ویں قومی اسمبلی کا قیام 13 اگست 2018 کو ہوا۔

14 ویں قومی اسمبلی کا آخری اجلاس 31 مئی 2018 کو ہوا، جس کے بعد امیدواروں نے تصویریں کھچوائی—فوٹو: نیشنل اسمبلی
14 ویں قومی اسمبلی کا آخری اجلاس 31 مئی 2018 کو ہوا، جس کے بعد امیدواروں نے تصویریں کھچوائی—فوٹو: نیشنل اسمبلی