پاکستان کے ماسٹر بلاسٹرز کا ایک تعارف
کہتے ہیں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور پاکستانی کرکٹ شائقین کو ایک ایسی اچھی اوپننگ جوڑی کے لیے طویل عرصہ صبر کرنا پڑا جو کہ سنچریاں بنا سکے۔
وہ دن چلے گئے جب محمد حفیظ اور احمد شہزاد کا متبادل بننے کے لیے کوئی موجود نہیں تھا۔ یہ ہمیشہ ہی اپنی اوسط سی بیٹنگ کے باوجود ٹاپ آرڈر میں رہتے، یہاں تک کہ تب جب اسکور کی سخت ضرورت ہوتی تھی تب بھی۔
مگر ٹیم میں دو نوجوان بائیں بازو کے بیٹسمینوں کی آمد سے پاکستان کو ٹاپ آرڈر میں ایسے قابلِ بھروسہ بیٹسمین ملے ہیں جو دنیا میں کہیں بھی کسی بھی باؤلنگ اٹیک کو تباہ کر سکتے ہیں۔
مگر آئیں ان 'دوسرے' ماسٹر بلاسٹرز کے بارے میں بات کرتے ہیں جو فخر زمان اور امام الحق جیسے سنچورینز سے پہلے آئے، اور ون ڈے میچز میں پاکستان پر سنچریز کا قحط آنے سے پہلے پاکستان کے لیے نام پیدا کیا۔
ماجد خان
پاکستان کے پہلے ون ڈے انٹرنیشنل سنچورین ماجد خان کے بارے میں لگتا تھا کہ انہیں بنایا ہی ون ڈے انٹرنیشنل میچ کھیلنے کے لیے ہے کیوں کہ وہ کوئی بھی گیند ضائع کیے بغیر رنز اسکور کرنا پسند کرتے تھے۔
یہ بالکل بھی حیران کن نہیں تھا جب وہ 1974 میں ناٹنگھم میں انگلینڈ کے خلاف اپنے دوسرے ہی ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں سنچری اسکور کرنے والے کھلاڑی بن گئے۔ یہ پاکستان کا بھی دوسرا ون ڈے انٹرنیشنل تھا جبکہ فارمیٹ کی ابتداء سے اب تک کا 14 واں ایسا میچ تھا۔ انہوں نے صرف 96 گیندوں پر 16 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے سنچری بنا ڈالی۔ یہی وہ میچ تھا جس میں انہوں نے پہلی وکٹ پر صادق محمد کے ساتھ 113 رنز اسکور کیے، اور جب تک سعید انور اور عامر سہیل نہیں تھے، تب تک انہیں ملک کی سب سے بہترین اوپننگ جوڑی تصور کیا جاتا تھا۔
ظہیر عباس
ایسا زمانہ جس میں سنچری اسکور کرنا ایک نایاب بات ہوا کرتی تھی، وہاں 'ایشیائی بریڈمین' ظہیر عباس ایک کے بعد ایک اننگز میں تین سنچریاں اسکور کرنے والے پہلے کھلاڑی بنے۔ دسمبر/جنوری 1982/83 میں 'زیڈ' اپنی زندگی کی بہترین فارم میں تھے۔ انہوں نے مہمان ہندوستانی باؤلرز کو تین لگاتار اننگز میں بے شمار چوکوں اور چھکوں کا مزہ چکھا کر تین سنچریاں اسکور کیں۔ یہ ریکارڈ بعد میں کئی کرکٹرز نے بنایا، مگر اسے 2015 میں سری لنکن بیٹسمین کمار سنگاکارا نے توڑا تھا جب انہوں نے ورلڈ کپ کے 4 میچز میں 4 سنچریاں بنائی تھیں۔
جاوید میاں داد
آخری گیند، چار رنز درکار ہیں، اور یہ رہا چھکا! یہ جاوید میاں داد تھے جنہوں نے اس وقت سب سے زیادہ سنچریاں اسکور کیں جب ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ کوئی بھی ایسا بیٹسمین، جسے آخری نمبر پر موجود ہوتے ہوئے ورلڈ چیمپیئنز کے خلاف آسٹریلیشیاء کپ جیتنے کے لیے 4 رنز چاہیے ہوتے، تو وہ گھبرا جاتا، مگر جاوید نہیں، جو اب تک 113 گیندوں پر 110 رنز بنا چکے تھے، اور انہوں نے اننگز میں اب تک صرف 3 چوکے اور 2 چھکے لگائے تھے۔ سنگلز اور ڈبلز کے سب سے بڑے حمایتی جاوید میاں داد نے ہندوستانی باؤلر چیتن شرما کی فل ٹاس گیند کو پارک کے باہر کا راستہ دکھا دیا اور باقی سب تو تاریخ ہے۔
رمیز راجہ
1990 کی دہائی کے وسط تک رمیز راجہ ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں پاکستان کے سب سے بہترین سنچری اسکورر تھے، بھلے ہی انہوں نے صرف 9 دفعہ 100 سے زائد اسکور کیا تھا جو کہ آج کے اعتبار سے تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مگر وہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف سنچری اسکور کرنے میں کافی آسانی رکھتے تھے، اور 1992 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی سنچری پاکستان کو ناک آؤٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کروانے میں مرکزی کردار کی حامل رہی، جس کی وجہ سے ہم بالآخر ورلڈ کپ جیت پائے۔ وہ پاکستان کے پہلے بیٹسمین تھے جنہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی دفعہ سنچری اسکور کی، وہ بھی اسی ٹورنامنٹ کے دوران آسٹریلیا کی باؤنسی وکٹوں پر۔
انضمام الحق
اور پھر انضمام الحق بھی تھے، جو نہ صرف عامر سہیل کے ساتھ 1994 میں دوسری وکٹ پر 236 رنز کی ورلڈ ریکارڈ پارٹنر شپ کا حصہ تھے، بلکہ وہ اسی میچ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے کھلاڑی بھی رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بائیں بازو والے پارٹنر نے ہی اس وقت شعیب محمد کا 126 رنز کا قومی ریکارڈ توڑا اور اپنی اننگز کا خاتمہ 134 رنز پر کیا۔ انضمام نے 137 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیل کر سنچریز کا دو سالہ قحط ختم کر دیا جبکہ اپنی سنچریز کی گنتی میں 7 کا مزید اضافہ بھی کیا۔ کریئر کے اختتام پر ان کی 10 ون ڈے انٹرنیشنل سنچریاں تھیں جن میں سے زیادہ تر جیتے جانے والے میچز میں تھیں۔ اس میں ان کی 25 ٹیسٹ سنچریاں بھی شامل کریں تو ایک وقت میں وہ دونوں فارمیٹس میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ اسکور کرنے والے کھلاڑی تھے، یہاں تک کہ چند سال بعد محمد یوسف نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔
سعید انور
سعید انور کو آسانی سے 1990 کی دہائی میں پاکستانی کرکٹ کی سب سے بہترین چیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ سنتھ جے سوریا نے اوپننگ بلے بازی کے آرٹ میں مہارت حاصل کی تھی، یہ سعید انور ہی تھے جو پاکستان کو تباہ کن آغاز فراہم کر رہے تھے۔ انہوں نے پاکستانیوں کے دلوں میں یہ اعتماد بٹھا دیا تھا کہ اگر دوسرے ایسا کر سکتے تھے، تو وہ ان سے بہتر انداز میں یہ کام کر سکتے تھے۔ اپنے 14 سالہ ون ڈے انٹرنیشنل کریئر میں بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کے اس ماہر کھلاڑی نے 20 مرتبہ 3 ہندسوں کو عبور کیا، اور انہیں کئی یکے بعد دیگرے سنچریاں اسکور کرنے کے لیے جانا جاتا تھا۔ ان دنوں یہ نہایت ہی نایاب بات تھی۔
نومبر اور دسمبر 1993 میں تین لگاتار میچوں میں سعید انور نے ویسٹ انڈین اور سری لنکن باؤلرز کو تباہ کر کے رکھ دیا، اور شارجہ میں تین سنچریاں اسکور کیں۔ تین سال بعد اسی میدان میں کیویز اور سری لنکنز نے سعید انور کا سامنا کیا، جہاں انہوں نے 2 میچز میں 2 سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے 1999 کے ورلڈ کپ میں یہ ٹرینڈ جاری رکھا اور زمبابوے اور نیوزی لینڈ کے طاقتور اٹیک کی دھجیاں اڑا دیں۔ وہ اس ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے پانچویں کھلاڑی رہے۔
سعید انور کا عظیم ترین لمحہ 1997 میں تب آیا جب انہوں نے ایک ہی اننگز میں سب سے زیادہ رنز بنانے کا سر ویوین رچرڈز کا ریکارڈ توڑ دیا۔ انہوں نے 146 گیندوں پر 194 رنز بنائے، وہ بھی روایتی حریف ہندوستان کے خلاف۔ فخر زمان نے حال ہی میں ان کا ریکارڈ توڑا ہے، ورنہ یہ قومی ریکارڈ 20 سال سے سعید انور کے پاس ہی تھا۔
سلیم الٰہی
ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلنے والے زیادہ تر کھلاڑیوں نے اپنے پہلے ہی ون ڈے میچ میں سنچری اسکور نہیں کی تھی، مگر پھر 1995 کے ایک دن سلیم الٰہی عامر سہیل کے ساتھ سری لنکا کے خلاف کریز پر آئے۔ اس دن وہ اپنے پہلے ہی ون ڈے میچ میں سنچری اسکور کرنے والے صرف 4 کھلاڑیوں میں سے ایک بنے، اور انہوں نے کھچا کھچ بھرے ہوئے گجرانوالہ اسٹیڈیم میں پاکستان کو 9 وکٹوں سے میچ جتوانے میں مدد دی۔
انہوں نے پہلی وکٹ کی پارٹنرشپ میں 156 رنز کا حصہ ڈالا، اور اس کے بعد رمیز راجہ کے ساتھ ناقابلِ شکست 78 رنز بنائے۔ 2002 میں وہ قومی ٹیم میں کامیاب انداز میں واپس آئے، اور انہوں نے 4 میچوں میں 3 سنچریاں اسکور کیں، جس میں پورٹ الزبتھ میں جنوبی افریقا کے خلاف 135 رنز کی ایک اننگز بھی شامل ہے۔ اس میچ میں انہوں نے ایلن ڈونلڈ، شان پولاک، اور مکھایا نتینی جیسے مایہ ناز باؤلرز کو 19 چوکے لگائے تھے۔
شاہد آفریدی
تیز ترین سنچریوں کی بات کریں تو فوراً ہی شاہد آفریدی کا نام ذہن میں ابھرتا ہے کیوں کہ وہ اسی لیے مشہور تھے۔ اکتوبر 1996 میں اپنی پہلی ون ڈے انٹرنیشنل اننگز میں 16 سالہ نامعلوم پختون لڑکے نے سری لنکا کے خلاف صرف 37 گیندوں پر دنیا کی تیز ترین سنچری بنا ڈالی، جس میں زیادہ تر اسکور انہوں نے سنتھ جے سوریا کی باؤلنگ پر کیا تھا جن کے پاس گزشتہ ریکارڈ موجود تھا۔
2005 اور پھر 2010 میں انہوں نے ہندوستان اور بنگلہ دیش کے خلاف 53 سے بھی کم گیندوں میں سنچریاں بنائیں جس پر انہیں 'بوم بوم' کا لقب ملا۔ وہ تیز ترین سنچریوں کی ٹاپ 10 فہرست میں 2 بار نظر آنے والے واحد کھلاڑی ہیں۔
محمد یوسف
جب انہوں نے ہندوستانی فاسٹ باؤلر تھیرو کماران کو ایشیا کپ 2000 میں آخری گیند پر چھکا مارا تب سے محمد یوسف (سابقہ یوسف یوحنا) نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ اپنا کریئر 15 ون ڈے انٹرنیشنل سنچریوں اور 24 ٹیسٹ سنچریوں کے ساتھ ختم کرنے پر کامیاب رہے (حالاں کہ انہوں نے ابھی تک باضابطہ طور پر ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کیا ہے۔)
وہ تمام طرح کی صورتحال میں نہایت تیز رفتاری سے رنز اسکور کر سکتے تھے جس کی وجہ سے وہ تمام باؤلرز کے لیے خطرہ تھے، چاہے وہ ہندوستانی ہوں، آسٹریلوی ہوں، جنوبی افریقی ہوں، یا سری لنکن ہوں۔ محمد یوسف کا 39 بین الاقوامی سنچریوں (تمام فارمیٹس میں) کا ریکارڈ یونس خان نے توڑا تھا جنہوں نے 34 ٹیسٹ سنچریاں اور 7 ون ڈے انٹرنیشنل سنچریاں بنائی تھیں۔
بابر اعظم
بھلے ہی وہ صرف 23 سال کے ہیں مگر اپنے مختصر کریئر میں بابر اعظم نے ظہیر عباس، یونس خان، احمد شہزاد، شاہد آفریدی اور سلیم ملک سے زیادہ سنچریاں اسکور کی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے اپنے 46 ویں میچ میں اپنی آٹھویں سنچری اسکور کی اور اب وہ ون ڈے انٹرنیشنلز میں 2000 رنز تک پہنچنے والے تیز ترین کھلاڑیوں کی دوڑ میں شامل ہیں۔ انہیں اپنی پہلی سنچری اسکور کرنے میں 15 میچوں کا عرصہ لگا مگر اس کے بعد اگلے دو میچوں میں انہوں نے دو مزید سنچریاں کر ڈالیں جس سے ان کے پاس 17 میچوں میں 3 سنچریاں ہوگئیں۔
اپنی کلاس رکھنے والے اس بیٹسمین نے دورہ آسٹریلیا کے دوران ایک اور سنچری اسکور کی، اور اس کے بعد کیریبیئن میں ایک بار پھر 3 ہندسوں کی حد عبور کی۔ گزشتہ سال انہوں نے دبئی اور ابو ظہبی میں سری لنکن باؤلرز کے چھکے چھڑاتے ہوئے دو مزید سنچریاں بنا کر اپنے سال کو 7 سنچریوں پر ختم کیا۔ حال ہی میں اپنی آٹھویں سنچری کے ساتھ وہ جاوید میاں داد اور سلمان بٹ کی لیگ میں آ گئے ہیں اور پاکستانی سنچورینز کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہیں۔
فخر زمان اور امام الحق
یہ دونوں شاید کرکٹ کے میدان میں نئے ہوں مگر فخر زمان اور امام الحق کو پاکستانی کرکٹ کے مسیحاؤں کے طور پر یاد رکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کرکٹ کے شائقین کو سنچریوں کے دور میں نئی امید دلائی ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کے لیے اچھا کھیل پیش کر سکتے ہیں۔
فخر زمان پہلی بار گزشتہ سال چیمپیئنز ٹرافی کے دوران منظرِ عام پر آئے اور انہوں نے فائنل میں ہندوستان کے خلاف ایک بروقت سنچری اسکور کر کے ٹورنامنٹ جیتنے میں مدد دی۔ پھر اس کے بعد انہوں نے حال ہی میں مکمل ہونے والے دورہ زمبابوے میں اپنے اعداد و شمار میں مزید دو سنچریوں کا اضافہ کیا، جبکہ تیسری سنچری ڈبل سنچری تھی۔ یہ کسی بھی پاکستانی کی پہلی ڈبل سنچری تھی۔ نہ صرف انہوں نے سعید انور کا ریکارڈ توڑا بلکہ سیریز کا اختتام 515 رنز کے ساتھ کیا جو کہ اب پانچ میچوں کی سیریز میں ایک ورلڈ ریکارڈ ہے۔
زمبابوے کے خلاف آخری میچ میں انہوں نے تیز ترین 1000 رنز کا ریکارڈ توڑا (جو کہ پہلے ویو رچرڈز اور بابر اعظم کے پاس بھی تھا) اور مردان سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے بلے باز کے علاوہ کسی نے بھی یہ ریکارڈ 18 میچز میں نہیں بنایا ہے۔
ٹاپ آرڈر میں ان کے پارٹنر امام الحق اپنے پہلے 9 میچوں میں 4 سنچریاں اسکور کرنے والے پہلے بیٹسمین بن چکے ہیں (انگلینڈ کے ڈینس ایمِس نے پہلے 10 میچوں میں 3 سنچریاں بنائی تھیں)۔ درحقیقت جب بھی امام الحق نے اپنے مختصر کریئر میں نصف سنچری بنائی ہے، تو انہوں نے 100 کا ہندسہ ضرور عبور کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقبل میں پاکستان کے لیے اہم اثاثہ ثابت ہوں گے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 اگست 2018 کو شائع ہوا۔