• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

انتخابات 2018: کیا تحریک انصاف خواتین ووٹرز کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب رہی؟

قومی اسمبلی کے270میں سے18حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مردوں کے مقابلے میں زیادہ رہا،2013میں صورتحال بلکل مختلف تھی۔
شائع August 8, 2018 اپ ڈیٹ August 9, 2018

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے انتخابات 2018 کے نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 52.4 فیصد رہا اور تقریباً 5 کروڑ 49 لاکھ 8 ہزار 4 سو 72 افراد نے رائے شماری میں حصہ لیا۔

25 جولائی 2018 کو ہونے والے انتخابات میں ملک کے مجموعی ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 50 سے زائد تھی جس میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 92 لاکھ جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 4 کروڑ 67 لاکھ تھی۔

ادھر صوبائی اسمبلیوں کی بات کی جائے تو مجموعی طور پر ان کا ٹرن آؤٹ 53.6 فیصد رہا تاہم سندھ اسمبلی کے لیے ووٹرز ٹرن آؤٹ 47.6 فیصد، پنجاب اسمبلی کے لیے 58.3 فیصد، خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے 45.5 فیصد اور بلوچستان اسمبلی کے لیے 45.3 فیصد رہا۔

مزید پڑھیں: کم ٹرن آؤٹ، 2 حلقوں میں پولنگ کالعدم قرار دیے جانے کا امکان

حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے 270 پر الیکشن ہوئے تھے، این اے 60 اور این اے 103 پر الیکشن ملتوی کیے گئے تھے، تاہم 270 میں سے 18 حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مردوں کے مقابلے میں زیادہ رہا۔

قومی اسمبلی کے 270 حلقوں میں سے 126 حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زائد رہا جبکہ 4 حلقوں میں خواتین اور مردوں کا ووٹرز ٹرن آؤٹ تقریباً برابر رہا۔

50 فیصد سے زائد خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ والے 126 حلقے

ان حلقوں میں این اے ون، این اے 17، این اے 52، این اے 53، این اے 56 سے این اے 59 تک، این اے 63 سے این اے 68 تک، این اے 70 سے این اے 72 تک، این اے 74 سے این اے 79 تک، این اے 84 سے این اے 89 تک، این اے 91 سے این اے 101 تک، این اے 104 سے این اے 106 تک، این اے 109، این اے 111 سے این اے 118 تک، این اے 120، این اے 122، این اے 132، این اے 137 سے این اے 154 تک، این اے 157 سے این اے 169 تک، این اے 171 سے این اے 188 تک، این اے 192 سے این اے 195 تک، این اے 201، این اے 204، این اے 206، این اے 209، این اے 211 اور این اے 212، این اے 214 سے این اے 216 تک، این اے 219 سے این اے 224 تک اور این اے 230 شامل ہیں۔

4 حلقوں میں خواتین اور مرد ووٹرز ٹرن آؤٹ تقریبا برابر

قومی اسمبلی کے 4 حلقوں میں خواتین اور مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ تقریباً برابر رہا، ان میں این اے 39 (ڈی آئی خان ٹو) شامل ہیں، یہاں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے محمد یعقوب شیخ 5 ہزار 5 سو 11 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے جبکہ متحدہ مجلس عمل کے فضل الرحمٰن 4 ہزار 76 ووٹ حاصل کر سکے تھے، اس حلقے میں رجسٹر ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 28 ہزار 4 سو 28 تھی تاہم اس حلقے میں سب سے کم 11 ہزار 3 سو 3 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، یہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 3 فیصد جبکہ مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 3.76 فیصد رہا اور مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 3.44 فیصد رہا جبکہ 3 سو 61 ووٹ مسترد ہوئے۔

این اے 67 (جہلم ٹو) میں تحریک انصاف کے فواد احمد چوہدری نے 93 ہزار ایک سو 2 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے راجہ مطلوب مہدی نے 82 ہزار 4 سو 75 ووٹ حاصل کرسکے، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 4 ہزار 2 سو 12 تھی جن میں سے 2 لاکھ 9 ہزار 6 سو 71 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 4 ہزار 4 سو 9 ووٹ مسترد ہوئے، خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 51.94 فیصد اور مردوں کا 51.80 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 51.87 فیصد تھا۔

اس کے علاوہ این اے 209 (خیرپور ٹو) میں پیپلز پارٹی کے پیر فضل علی شاہ گیلانی 95 ہزار 9 سو 21 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پیر صدرالدین شاہ 76 ہزار 46 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 34 ہزار 8 سو 25 تھی جن میں سے ایک لاکھ 87 ہزار 3 سو 6 نے حق رائے دہی کا اظہار کیا جبکہ 9 ہزار 7 سو 92 ووٹ مسترد کیے گئے، اس حلقے میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 55.90 فیصد رہا جبکہ مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 55.97 فیصد رہا اور مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 55.94 فیصد تھا۔

این اے 268 (چاغی کم نوشکی کم خاران) میں متحدہ مجلس عمل پاکستان کے محمد عثمان خان بدینی 12 ہزار 2 سو 72 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے جبکہ ان کے مدمقابل بلوچستان نیشنل پارٹی کے محمد ہاشم نے 14 ہزار 4 سو 35 ووٹ حاصل کیے، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 34 ہزار 2 سو 91 تھی جن میں سے 48 ہزار 2 سو 24 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور 2 سو 7 ووٹ مسترد ہوئے، خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 20.68 فیصد اور مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 20.65 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 20.58 فیصد تھا۔

خواتین کے زائد ووٹرز ٹرن آؤٹ والے 18 حلقے

ایوان زیریں کے جن 18 حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مردوں کے مقابلے میں زیادہ رہا ان میں پنجاب سے قومی اسمبلی کے 13 حلقے جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا سے 2، 2 اور بلوچستان سے ایک حلقے شامل ہے، جن کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔

این اے 1 (چترال) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 61.57 فیصد جبکہ ان کے مقابلے میں مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 60.49 فیصد رہا، اس حلقے میں مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 60.96 فیصد تھا، یہاں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 2 لاکھ 69 ہزار 5 سو 79 تھی جس میں سے ایک لاکھ 64 ہزار 3 سو 55 ووٹ ڈالے گئے تاہم اس میں سے 5 ہزار 4 سو 30 ووٹ مسترد ہوئے، متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالشکور نے 48 ہزار 6 سو 16 (30.59 فیصد) ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے عبدالطیف 38 ہزار 4 سو 81 (24.21 فیصد) ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 46 (قبائلی علاقہ 7) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 43 فیصد رہا جبکہ مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 42.63 فیصد رہا اور مجموعی ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 43.17 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 72 ہزار 4 سو 97 تھی جس میں سے 74 ہزار 4 سو 72 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ ایک ہزار ایک سو 35 ووٹ مسترد ہوئے، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ساجد حسین طوری 21 ہزار 4 سو 61 ووٹ لے کر پہلے جبکہ تحریک انصاف کے سید اقبل میاں 16 ہزار 9 سو 38 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 56 (اٹک ٹو) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 63.03 فیصد رہا اور ان کے مقابلے میں مردوں کا ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 62.19 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 52.5 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹر ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ 38 ہزار 9 سو 37 تھی جن میں سے 3 لاکھ 99 ہزار 9 سو 49 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 10 ہزار 1 سو 43 ووٹ مسترد ہوئے، تحریک انصاف کے طاہر صادق ایک لاکھ 63 ہزار 3 سو 25 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ملک سہیل خان 99 ہزار 4 سو 4 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 64 (چکوال ون) میں خواتین کا ووٹرز ٹرن آؤٹ 60.72 فیصد اور مردوں کا 55.67 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 58.15 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 51 ہزار 11 تھی جن میں سے 3 لاکھ 20 ہزار 3 سو 94 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 9 ہزار 39 ووٹ مسترد ہوئے، پاکستان تحریک انصاف کے ذوالفقار علی خان ایک لاکھ 55 ہزار 2 سو 14 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے طاہر اقبال نے ایک لاکھ 30 ہزار 51 ووٹ لیے۔

این اے 65 (چکوال ٹو) میں خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ 59.01 فیصد اور مردوں کا 55.81 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 57.35 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 52 ہزار 5 سو 23 تھی جن میں سے 3 لاکھ 16 ہزار 8 سو 82 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 9 ہزار 9 سو 7 ووٹ مسترد ہوئے، پاکستان مسلم لیگ کے پرویز الہٰی ایک لاکھ 57 ہزار 4 سو 97 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے محمد فائز ملک ایک لاکھ 6 ہزار 81 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 66 (جہلم ون) میں خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ 52.88 فیصد اور مردوں کا 51.07 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 51.94 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 41 ہزار 2 سو 96 تھی جن میں سے 2 لاکھ 81 ہزار ایک سو 59 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور 11 ہزار 5 سو 13 ووٹ مسترد ہوئے، تحریک انصاف کے چوہدری فرخ الطاف ایک لاکھ 12 ہزار 3 سو 56 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری ندیم خادم 92 ہزار 9 سو 12 ووٹ لے کر دوسرے نمبر رہے۔

این اے 68 (گجرات ون) میں خواتین ووٹرز ٹرن آؤٹ 56.31 فیصد اور مردوں کا 50.31 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 53.01 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 53 ہزار 9 سو 90 تھی جن میں سے 2 لاکھ 40 ہزار 6 سو 52 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 6 ہزار 3 سو 34 ووٹ مسترد ہوئے، پاکستان مسلم لیگ کے حسین الہٰی ایک لاکھ 4 ہزار 6 سو 78 حاصل کرکے کامیاب ٹھہرے جبکہ مسلم لیگ (ن) نوابزادہ غضنفر علی گل 68 ہزار 8 سو 10 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔

مزید پڑھیں: خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بڑھانا ہوگا

این اے 70 (گجرات تھری) میں خواتین کا ووٹرز ٹرن آؤٹ 51.85 فیصد اور مردوں کا 47.99 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 49.74 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 94 ہزار 7 سو 80 تھی جن میں سے 2 لاکھ 46 ہزار 84 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 10 ہزار 5 سو 59 ووٹ مسترد ہوئے، تحریک انصاف کے سید فیض الحسان 95 ہزار ایک سو 68 ووٹ لے کر پہلی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے جعفر اقبال 67 ہزار 2 سو 33 ووٹ حاصل کرکے دوسری پوزیشن حاصل کی۔

این اے 71 (گجرات فور) میں خواتین کا ووٹرز ٹرن آؤٹ 52.69 فیصد اور مردوں کا 49.28 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 50.87 فیصد تھا، حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 97 ہزار 5 سو تھی جن میں سے 2 لاکھ 53 ہزار ایک سو ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 6 ہزار 2 سو 44 ووٹ مسترد ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے چوہدری عابد رضا 88 ہزار 5 سو 88 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ٹھہرے جبکہ تحریک انصاف کے محمد الیاس چوہدری نے 81 ہزار 5 سو 38 ووٹ حاصل کیے۔

این اے 72 (سیالکوٹ ون) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 59.34 فیصد اور مردوں کا 57.16 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 58.11 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 47 ہزار 3 سو 9 تھی جن میں سے 2 لاکھ 59 ہزار 9 سو 22 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 7 ہزار 15 ووٹ مسترد ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے چوہدری ارمغان سبحانی نے ایک لاکھ 29 ہزار 41 ووٹ حاصل کرکے کامیابی سمیٹی جبکہ تحریک انصاف کی فردوس عاشق 91 ہزار 3 سو 93 ووٹ لے سکیں۔

این اے 74 (سیالکوٹ تھری) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 56.09 فیصد اور مردوں کا 54.85 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 55.4 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 75 ہزار 8 سو 66 تھی جن میں سے 2 لاکھ 63 ہزار 8 سو 7 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 8 ہزار 9 سو 28 ووٹ مسترد ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے علی زاہد نے 97 ہزار 2 سو 35 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ تحریک انصاف کے غلام عباس نے 93 ہزار 7 سو 34 ووٹ حاصل کیے۔

این اے 76 (سیالکوٹ 5) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 58.10 فیصد اور مردوں کا 57.33 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 57.68 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 69 ہزار 8 سو 26 تھی جن میں سے 2 لاکھ 70 ہزار 9 سو 79 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور 6 ہزار 25 ووٹ مسترد ہوئے، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رانا شمیم احمد خان ایک لاکھ 33 ہزار 6 سو 64 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے محمس اسلم 93 ہزار ایک سو 90 ووٹ حاصل کر سکے۔

این اے 77 (نارووال ون) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 56.32 فیصد اور مردوں کا 53.78 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 54.86 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 7 ہزار 9 سو 95 تھی جن میں سے 2 لاکھ 78 ہزار 7 سو 4 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ 11 ہزار 1 سو 19 ووٹ مسترد ہوئے، مسلم لیگ (ن) کی مہناز اکبر عزیز ایک لاکھ 6 ہزار 3 سو 66 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ٹھہریں جبکہ آزاد امیدوار محمد طارق انیس 70 ہزار 5 سو 96 ووٹ حاصل کر سکے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018: خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ مردوں سے زیادہ

این اے 187 (لیہ ون) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 61.85 فیصد اور مردوں کا 58.85 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 63.45 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 57 ہزار 2 سو 52 تھی جن میں سے 2 لاکھ 90 ہزار 2 سو 88 لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا جبکہ 9 ہزار 5 سو 16 ووٹ مسترد کیے گئے، تحریک انصاف کے عبدالمجید خان 93 ہزار 9 سو 3 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ آزاد امیدوار سردار بہادر احمد خان 88 ہزار 2 سو 25 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 192 (ڈیرہ غازی خان فور) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 55.19 فیصد اور مردوں کا 54.65 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 54.88 فیصد تھا، اس حلقے سے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 2 ہزار 4 سو 37 تھی جن میں سے ایک لاکھ 65 ہزار 9 سو 92 نے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور 5 ہزار 6 سو 32 ووٹ مسترد کیے گئے، تحریک انصاف کے سردار محمد خان لغاری 80 ہزار 5 سو 22 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے میاں شہباز شریف 67 ہزار 6 سو 8 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 221 (تھرپارکر ون) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 72.83 فیصد اور مردوں کا 65.39 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 68.68 فیصد تھا، اس حلقے سے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 42 ہزار 4 سو 58 تھی جن میں سے ایک لاکھ 66 ہزار 5 سو 27 افراد نے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور 9 ہزار 9 سو 41 ووٹ مسترد کیے گئے، پیپلز پارٹی کے پیر نور محمد شاہ جیلانی 79 ہزار 98 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی 72 ہزار ایک سو 27 لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

این اے 222 (تھرپارکر ٹو) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 71.40 فیصد اور مردوں کا 70.51 فیصد رہا جبکہ مجموعی ووٹرز ٹرن آؤٹ 70.91 فیصد تھا، اس حلقے سے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 31 ہزار 8 سو 72 تھی جن میں سے 2 لاکھ 35 ہزار 3 سو 40 لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور 12 ہزار 7 سو 63 ووٹ مسترد کیے گئے، پیپلز پارٹی کے مہیش کمار ملانی ایک لاکھ 6 ہزار 6 سو 30 ووٹ لے کر کامیاب رہے جبکہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے ارباب ذکاء اللہ 87 ہزار 2 سو 51 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

مزید پڑھیں: 2013 انتخابات: 95 فیصد خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے

این اے 271 (کیچ) میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 43.20 فیصد اور مردوں کا 36.66 فیصد رہا جبکہ ووٹرز ٹرن آؤٹ 39.51 فیصد تھا، اس حلقے میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 22 ہزار 6 سو 31 تھی جن میں سے 87 ہزار 9 سو 55 ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور 2 ہزار 6 سو 5 ووٹ مسترد ہوئے، بلوچستان عوامی پارٹی کی زبیدہ جلال 32 ہزار 8 سو 66 ووٹ حاصل کرکے کامیاب قرار پائیں جبکہ ان کے مد مقابل بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے سید احسن شاہ نے 20 ہزار 5 سو 83 ووٹ حاصل کیے۔

2 حلقوں میں خواتین ووٹرز کا 10 فیصد سے کم ٹرن آؤٹ

ایک جانب جہاں حالیہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے 126 سے زائد حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد دے زائد رہا تو دوسری جانب 2 حلقے ایسے بھی تھے جہاں الیکشن کمیشن کی تنبیہ کے باوجود خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم رہا، جس کے باعث الیکشن کمیشن نے دونوں حلقوں میں پولنگ کا عمل اور اس کے نتائج کالعدم قرار دے دیئے۔

انتخابات کے حوالے سے یہ فیصلہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-10 (شانگلہ) اور این اے- 48 (شمالی وزیرستان) میں ووٹ ڈالنے کی شرح کم رہنے اور خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم رہنے کے باعث کیا گیا۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق کسی حلقے میں مرد اور خواتین ووٹرز کی مجموعی تعداد میں اگر خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہوگی تو اس حلقے کے نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے اور پولنگ کا عمل کالعدم قرار پائے گا۔

مزید پڑھیں: تھر: خواتین نے 73 فیصد ٹرن آؤٹ کے ساتھ انتخابات میں مثال قائم کی

قومی اسمبلی کے جن حلقوں کے نتائج کالعدم قرار دیے گئے ان میں شانگلہ کے حلقہ این اے 10 شامل ہیں جن میں رجسٹر ووٹرز کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 74 ہزار 3 سو 43 اور اس میں مرد ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 12 ہزار 2 سو 94 ہے، جس میں سے ایک لاکھ 15 ہزار 6 سو 39 مرد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، یعنی تقریباً 54 فیصد مردوں نے ووٹ ڈالا جبکہ ایک لاکھ 62 ہزار 49 خواتین ووٹرز میں سے صرف 12 ہزار 6 سو 63 نے رائے شماری میں حصہ لیا، مذکورہ حلقے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار عنایت اللہ 34 ہزار 70 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے حریف عوامی نیشنل پارٹی کے سعیدالرحمٰن نے 32 ہزار 6 سو 65 ووٹ حاصل کیے تھے۔

اس کے علاوہ شمالی وزیرستان کے حلقہ این اے 48 میں رجسٹر ووٹرز کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 74 ہزار 2 سو 5 ہے جس میں ایک لاکھ 96 ہزار 6 سو 68 مرد ووٹرز میں سے 57 ہزار 6 سو نے رائے شماری میں حصہ لیا، اس طرح تقریباً 29 فیصد مردوں نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ 77 ہزار 5 سو 37 خواتین ووٹرز میں سے صرف 8 فیصد یعنی 6 ہزار 3 سو 64 نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، اس حلقے سے آزاد امیدوار محسن جاوید 16 ہزار 4 سو 96 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جن کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے اورنگزیب خان نے 10 ہزار 3 سو 69 ووٹ حاصل کیے تھے۔

2013 کے انتخابات میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ

ڈان کی رپورٹ کے مطابق الیکشن 2013 میں قومی اسمبلی کے 17 حلقوں میں 95 فیصد سے زائد رجسٹرڈ خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کیا تھا، الیکشن کمیشن کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان 17 حلقوں میں سے 5 حلقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ ایک فیصد سے بھی کم رہا تھا تاہم 2018 کے الیکشن میں صورت بہت بہتر رہی۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اپر دیر کے حلقہ این اے 33 میں ایک لاکھ 38 ہزار 9 سو 10 ووٹرز میں صرف ایک خاتون نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جبکہ اس سے ملحقہ حلقے این اے 34 لوئر دیر میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آئوٹ 0.11 فیصد رہا تھا، جہاں 2 لاکھ 6 ہزار 5 سو 66 ووٹرز میں سے صرف 2 سو 34 ووٹرز خواتین تھیں۔

این اے 37 کرم ایجنسی میں ایک لاکھ 56 ہزار 8 سو 11 ووٹرز میں سے صرف 4 سو 59 ووٹرز خواتین تھیں اور اس حلقے میں رجسٹر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 0.29 فیصد رہا تھا، شورش زدہ علاقے خیبر ایجنسی کے حلقے این اے 34 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 0.02 فیصد رہا تھا جبکہ خیبر ایجنسی کے این اے 46 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 0.2 فیصد تھا۔

شورش زدہ علاقوں کی روایات اور وہاں کی بدامنی کی وجہ سے صرف وہاں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم نہیں رہا بلکہ پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی خواتین کا کم ٹرن آؤٹ رپورٹ ہوا تھا، جیسے ملتان کے این اے 152 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ صرف 1.92 فیصد رہا تھا، جہاں 3 لاکھ 90 ہزار ووٹرز میں سے صرف 75 ہزار 4 سو 22 خواتین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا، اس حلقے میں مرد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 2.13 فیصد رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 2013 انتخابات : 95 فیصد خواتین نے ووٹ نہیں ڈالے

اسی طرح این اے 178 مظفرآباد میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 2.13 فیصد رہا تھا جبکہ اس کے ملحقہ حلقے این اے 177 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2.24 فیصد رہا، این اے 175 راجن پور میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 2.34 فیصد، این اے 174 راجن پور میں 2.71 فیصد، این اے 145 اوکاڑہ میں 2.82 فیصد، این اے 61 چکوال میں 4.42 فیصد جبکہ این اے 64 سرگودھا میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 9.59 فیصد رہا تھا۔

دستاویزات کے مطابق این اے 31 شانگلہ میں 4.59 فیصد رجسٹر خواتین نے اپنا ووٹ استعمال کیا تھا، بلوچستان کے ضلع خاران کے حلقےاین اے 271 میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 3.51 فیصد رہا جبکہ حیران کن طور پر وہاں مردوں کا ٹرن آؤٹ 3.04 فیصد تھا۔