استاد بیلجیئم
استاد بلاول بیلجیئم کی ایک یادگار تصویر -- فوٹو بشکریہ لکھاری --. معروف صحافی اور صحافیوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے مظہر عباس نے گذشتہ دنوں ایک انگریزی اخبار میں لیاری کے بارے میں ایک مضمون لکھا۔ اس حوالے سے انہوں نے لیاری کے صحافیوں نادر شاہ عادل، صدیق بلوچ، سعید سربازی، لطیف بلوچ اور عزیز سنگر کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق لیاری کی وجہ شہرت صرف گینگ وار یا جرائم پیشہ افراد ہی نہیں بلکہ صحافی بھی ہیں۔ ہم ان سے سو فیصد متفق ہیں۔ لیکن لیاری میں صرف صحافی ہی نہیں فٹ بالرز بھی ہیں، موسیقار اور گلوکار بھی۔ کیپٹن عمر بلوچ، عباس بلوچ، علی نواز پاکستان کی فٹ بال ٹیم کی قیادت بھی کر چکے ہیں۔ موسیقی کے حوالے سے فیض بلوچ، جاڑوک، غلام جان، نور محمد نورل سازندوں کے حوالے سے نمایا ں نام بینجو نواز بلاول بیلجیئم کا ہے۔ صحافت کے حوالے سے رحیم بخش آزاد اور نسیم تلوی بھی بڑا نام ہیں۔ اس بلاگ کے لیئے ہم نے معروف بینجو نواز 'استاد بلاول بیلجیئم' کا انتخاب کیا ہے. لیاری کی نامور شخصیات پر لکھنے کے لئیے بہت زیادہ تحقیق اور وقت کی ضرورت ہے، ہم کوشش کریں گے کہ اس سلسلے کو جاری رکھیں۔ بلاول بیلجیئم ایک باکمال موسیقی کار اور بینجو نواز تھے۔ ان کا تعلق لیاری سے تھا۔ ان کی والدہ مائی ماگی بھی بلوچی زبان میں گیت گاتی تھیں، بلاول بیلجیئم کے بارے میں لکھنے کے لیے جب ہم نے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو یہ بہت مشکل کام نکلا.
استاد بلاول بیلجیئم اپنی والدہ مائی ماگی اور بھائیوں کے ساتھ -- فوٹو بشکریہ لکھاری ہماری مشکل بلاول کے ایک ہر دل عزیز شاگرد حیدر آباد کے عزیز بھائی نے حل کی۔ بلاول نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ حیدرآباد میں گذارا تھا۔ عزیز نے نہ صرف بینجو بجا کر اور سندھ میں مختلف ایوارڈز حاصل کر کے ان کا حق شاگردی ادا کیا بلکہ ان کے فن اور زندگی پر ایک کتاب بھی چھپوائی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ شاگرد جب باکمال ہو جائے تو استاد کو بھول جاتا ہے۔ لیکن ایک لیاری کے بلوچ استاد کا اردو بولنے والا یہ شاگرد کمال ہے۔
بلاول بیلجیئم کے شاگرد محمّد عزیز بینجو بجاتے ہوئے -- فوٹو بشکریہ لکھاری مقتول بلوچی دانشور اور ماہر تعلیم پروفیسر صباء دشتیاری نے ہمیں بتایا تھا کہ بینجو دراصل کوئی ساز نہیں بلکہ ایک جاپانی کھلونا تھا جسے بلاول نے ایک ساز کی شکل دی۔ سائل آزاد ماہنامہ نئی زندگی (سندھی) کے اکتوبر 1968 کے شمار میں بلاول کا نام بیلجیئم کیسے پڑا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بلاول نے انھیں بتایا کہ وہ اپنے اوائلی دور میں بینجو پر ریاض کرنے کے لیے میر پور خاص میں واقع سائیں تقی شاہ کی درگاہ پر جاتے تھے۔ ایک بار جب وہ ریاض کر رہے تھے تو ایک سننے والے نے بے ساختہ کہا کہ تم بینجو کے بیلجیئم ہو! بس اس کے بعد میرا یہ نام پڑ گیا۔ معروف صحافی اور دانش ور شیخ عزیز، 21، اکتوبر 2001 کو روزنامہ ڈان میں شائع اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ماہر موسیقار اور براڈ کا سٹر زیڈ اے بخاری نے بینجو کی بہ حیثیت ساز کے ریڈیو کے آرکسٹرا میں شمولیت دینے کی سخت مخالفت کی۔ لیکن جب انھوں نے بلاول سے بینجو سنا تو نا صرف بینجو کو بہ طور ساز قبول کیا بلکہ بلاول کو اسٹاف آرٹسٹ مقرر کیا۔ یہ واقعہ شاید 1950 یا 1952 کا ہے ۔ بلاول نے ریڈیو پاکستان کراچی پر آرکیسٹرا کے علاوہ تنہا بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کئی گلوکاروں کے لیے دھنیں بھی ترتیب دیں۔ انھیں بلوچی، سندھی اور کلاسیکی موسیقی پر بھی عبور حاصل تھا۔ بلاول بیلجیئم نہ صرف بینجو نواز تھے بلکہ ایک مکمل موسیقار بھی تھے۔ انھوں نے ایک سندھی فلم "تنجھیوں گالھیوں سجن" (تیری باتیں صنم) کی بیک گراؤنڈ موسیقی کے علاوہ فلم کے تمام گانوں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔ یہ گانے احمد رشدی، ربینہ قریشی (معروف فلم اسٹار مصطفی قریشی کی بیوی)، استاد محمد جمن اور حسین بخش خادم کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ ان کے ایک شاگرد خیر محمد پشوری کے مطابق جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو وہ استاد کے ساتھ حیدرآباد کے کیپیٹل سینما میں فلم کا پہلا شو دیکھنے گئے۔ فلم جیسے ہی شروع ہوئی تو بیک گراونڈ میں استاد کا میوزک تھا جب کہ پردے پر فلم کا ہیرو ایک درخت ر چڑھا بیٹھا تھا۔ استاد یہ منظر دیکھتے ہی ایک دم غصہ میں آ گئے۔ مجھے بازو سے پکڑ کر کہا چلو، یہ فلم بنائی ہے ڈائریکٹر نے۔ پہلے ہی سین میں ہیرو درخت پر چھپا بیٹھا ہے۔ میں نے استاد کو سمجھایا کہ ہمارا مقصد فلم دیکھنا نہیں بلکہ ہم تو بیک گراونڈ میوزک اور فلم کے گیتوں کے لیے ترتیب دی جانے والی موسیقی سننے آئے ہیں۔ بڑی مشکل کے بعد میں انھیں قائل کر پایا اور یوں ہم نے پوری فلم دیکھی۔
بینجو -- فوٹو بشکریہ وکی میڈیا کامنز بینجو ایک ایسا ساز ہے جس کے بغیر سندھی اور بلوچی موسیقی ادھوری ہے۔ نصیر مرزا اپنی کتاب 'بلاول بیلجیئم' کے صفحہ نمبر 9 پر لکھتے ہیں؛ "بینجو جاپانی ساز ہے، ہوگا! لیکن بینجو کو ساز بنا کر بجانے والی ہستی کا نام بلاول بیلجیئم ہے۔ بلاول نے اس ساز کوایک نیا انداز دیا"۔ بلاول کے شاگرد رحمت اللہ نے ایک دلچسپ واقعہ یوں بیان کیا کہ ایک دن موسم ابر آلود تھا، ہم جھولے لال ہوٹل پر "ترنگ" میں بیٹھے تھے۔ شام کے 6 بجے کا وقت تھا۔ ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر سید صالح محمد شاہ کا فتح خان والا پروگرام کچہری شروع ہو چکا تھا۔ استاد بلاول کے قریب حسب دستور ریڈیو چل رہا تھا۔ اچانک ریڈیو سنتے سنتے اُستاد چھلانگ مار کر اُٹھ بیٹھے۔ اور کہنے لگے رحمت اللہ اُٹھو آج کچہری میں بینجو بجائیں گے۔ ہم کمرے سے نیچے اُتر آئے۔ وہ ہوٹل کے باہر اپنی سائیکل پر سوار ہوئے۔ کیرئیر پر مجھے بٹھایا۔ چند منٹوں میں ہم ریڈیو اسٹیشن پہنچ گئے۔ انھوں نے اسٹوڈیو میں بیٹھتے ہی فتح خان کو اشارے سے کہا کہ وہ بینجو بجائیں گے۔ بلاول جیسا فنکار ساز بجانے کے لیے اصرار کرے تو کون بھلا انکار کرے گا۔ پروگرام والے تو خود اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ کب بلاول آئیں اور بینجو بجائیں۔ خیر بینجو کے سُروں پر جب انھوں نے انگلیاں چلائیں تو ایک انڈین گانے کے یہ بول سامنے آئے۔ "دھیرے سے آجا رے انکھیئن میں نندیا آجا رے آجا". یہ 82-1981 کا سال تھا۔ انڈین گانے اور ان کی دھنیں ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے پر پابندی تھی۔ ایم ای انصاری جیسے تند مزاج انسان اسٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہ یہ پروگرام اپنے دفتر میں غور سے سن رہے تھے۔ دفتر سے بھاگتے بھاگتے اسٹوڈیو پہنچے اور بلاول کو گریبان سے پکڑ کر اُٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن یہ بلاول اُستاد تھے۔ اُٹھے ہی نہیں۔ دھن بجاتے رہے۔ انصاری کی جانب دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر انھیں کہا، "خاموش"۔ آخرکار انھوں نے دُھن مکمل کی، اسٹوڈیو سے نکل کر بینجو اُٹھایا اور سائیکل پر بیٹھ کر ہوٹل لوٹ آئے۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا کہ ہم نے اپنا شوق پورا کیا۔ اب ریڈیو والے جانیں اور اُن کا کام۔ اگر نوکری سے نکال دیں تو ہم کسی اور ریڈیو ٹیشن پر جا کر بینجو بجائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور کچھ عرصے بعد وہ لاہور ریڈیو جا پہنچے۔ یہ تھے ملنگ فطرت استاد بلاول.
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
تبصرے (16) بند ہیں