پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا قیام 1989 میں آیا، یہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی نیشنل عوامی پارٹی ( این اے پی ) کے منتشر گروہوں میں سے ایک تھی۔
پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں، جنہوں نے 1973 میں ہونے والے بم دھماکے میں اپنے والد عبدالصمد خان اچکزئی کی وفات کے بعد ان کی جماعت پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔
اہم رہنما
- محمود خان اچکزئی
- حمید خان اچکزئی (محمود خان اچکزئی کے بھائی )
- محمد عثمان خان کاکڑ
اہم معاملات پر مؤقف
پی کے میپ خیبرپختونخوا، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور بلوچستان کی پختون قومیت کی وکالت کرتی آئی ہے اور صوبوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کرتی ہے۔
یہ جماعت 18ویں آئینی ترمیم کی بھرپور حامی ہے، اور اس بات کا مطالبہ کرتی رہی ہے کہ اس پر عمل ہونا چاہیے۔
پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے خلاف ہے جبکہ صوبائی خودمختاری کی حمایت کرتی ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے پی کے-میپ کا موقف رہا ہے کہ تمام ممالک سے غیر جانبدارانہ تعلقات ہونے چاہیے، جبکہ یہ بھی موقف بھی رکھتی ہے کہ پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کیا جائے۔
انتخابات 1990
گزشتہ انتخابات کا جائزہ لیا جائے، تو پی کے میپ نے قیام کے ایک سال بعد انتخابات میں 1990 میں 3 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں تھیں جبکہ بلوچستان کے ضلع پشین سے محمود خان اچکزئی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
انتخابات 1993
1993 کے انتخابات میں پی کے میپ کو قومی اسمبلی کی 3 اور صوبائی اسمبلی کی 4 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
انتخابات 1997
1997 کے انتخابات کی بات کریں، تو اس میں پی کے میپ 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرسکی تھی۔
انتخابات 2002
2002 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو صوبائی اسمبلی کی 3 اور ایک قومی اسمبلی کی نشست حاصل ہوئی تھی۔
انتخابات 2008
2008 کے عام انتخابات میں اے پی ڈی ایم (آل پارٹیز ڈیموکریٹک الائنس) کا حصہ ہونے کی وجہ سے پی کے میپ نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
اس الائنس میں پی کے میپ کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) اور دیگر قومی جماعتیں شامل تھی اور انہوں نے مشرف حکومت کی جانب سے منعقدہ انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔
انتخابات 2013
گزشتہ انتخابات کی بات کی جائے تو پشتونخوا ملی عوامی پاٹی نے قومی اسمبلی میں 3 نشتیں حاصل کی تھیں۔
محمود خان اچکزئی اور عبدالقہر خان وادان جنرل نشستوں جبکہ نسیمہ حفیظ پانیزئی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئی تھیں۔
اس کے علاوہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بڑے بھائی محمد خان اچکزئی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔
پی کے میپ پاکستان مسلم لیگ(ن) کی اتحادی بھی رہی، لیکن جب 14 اراکین اسمبلی کی جانب سے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی، تو اس جماعت نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔
تنازعات اور سیاسی کردار
2013 کے انتخابات میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کسی جماعت سے اتحاد نہیں کیا تھا، لیکن پھر بھی یہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی اتحادی رہی تھی۔
مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے ساتھ کچھ مشکل وقت میں بھی پی کے میپ نے بھر پور ساتھ دیا، تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے 2014 میں حکومت مخالف دھرنے دیئے تھے، اس دوران محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں نواز شریف کی حکومت کو بھر پور سہارا دیا۔
جنوری 2018 میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کردار ادا کرنے اور بعد ازاں میر عبد القدوس بزنجو کو ووٹ دینے پر پی کے میپ نے اپنے رکن اسمبلی کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ پی کے میپ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے احتجاج کی حمایت کی، جماعت کے ایک سینیٹر عثمان خان کاکڑ کو پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کے ساتھ ایک تصویر میں بھی دیکھا گیا تھا۔