وہ سیاسی جماعتیں، جن کے ’قائد‘ انتخابات سے باہر ہیں
عام انتخابات میں اگرچہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں سمیت غیر معروف پارٹیوں کے امیدوار بھی میدان میں اتریں گے۔
تاہم 25 جولائی کو پاکستان کے عوام ملک کی اہم ترین سیاسی جماعتوں کے سرپرست اور اپنے چند پسندیدہ ترین رہنماؤں کو منتخب کرنے سے محروم رہیں گے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں انتخابات کے لیے اہل رجسٹرڈ 122 سیاسی جماعتوں میں سے اگرچہ اس بار بھی کم سے کم 2 درجن سیاسی پارٹیوں کے قائد، سرپرست، چیئرمین، صدر اور سربراہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔
تاہم اس بار کچھ ایسے سیاسی رہنما بھی انتخابی عمل سے باہر ہوئے، جنہوں نے پہلے ہی 2018 کے انتخابات میں حصہ لے کر اپنی جیت سے متعلق قیاس آرائیاں کی تھیں۔
ان سیاسی رہنماؤں میں ملک کے 3 مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف، سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔
نواز شریف - تاحیات قائد مسلم لیگ (ن)
ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے 68 سالہ نواز شریف اگرچہ گزشتہ برس کے وسط تک پاکستان کے وزیراعظم تھے، تاہم وہ سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد انتخابی مہم سے دور ہوگئے ہیں۔
پاناما اسکینڈل کیس میں نااہل ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی صدارت کے ساتھ ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل ہوگئے تھے اور اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
انہیں لندن میں غیر قانونی طور پر جائیداد رکھنے کے ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 10 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
نواز شریف پہلی مرتبہ 1990 سے 1993، دوسری مرتبہ 1997 سے 1999 جبکہ تیسری اور آخری مرتبہ 2013 سے جولائی 2017 تک ملک کے وزیراعظم رہے۔
الطاف حسین - بانی متحدہ قومی موومنٹ
ماضی میں پاکستان کی سیاست میں تہلکہ مچانے والے 64 سالہ الطاف حسین نے اگرچہ کبھی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا، تاہم سندھ بلخصوص کراچی کے الیکشن میں ان کا کردار ہمیشہ ہی رہا ہے۔
گزشتہ انتخابات میں ان کی قیادت میں ہی ایم کیو ایم نے انتخابات میں حصہ لیا تھا، تاہم اس بار ایم کیو ایم کے رہنما اپنے بانی قائد کو ہی پارٹی سے نکال چکے ہیں، داخلی انتشار کا شکار متحدہ قومی موومنٹ، ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے الیکشن لڑ رہی ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف - سرپرست آل پاکستان مسلم لیگ
پاک فوج کے سابق سربراہ اور سابق صدر مملکت 74 سالہ پرویز مشرف نے انتخابات سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ نہ صرف عام اتنخابات میں حصہ لیں گے، بلکہ وہ جیت کر پاکستان کی قسمت بھی بدلیں گے۔
ماضی میں طاقت اور اقتدار کا مزہ لوٹنے والے پرویز مشرف اس وقت خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ عام انتخابات کی دوڑ سے بھی باہر ہیں۔
البتہ ان کی سیاسی جماعت کے صدر ڈاکٹر امجد سمیت درجنوں امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
پیر پگارا - صدر پاکستان مسلم لیگ (ف)
پاکستان مسلم لیگ (ف) کی یہ روایت رہی ہے کہ ان کے سرپرست انتخابات میں حصہ نہیں لیتے۔
پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی سے قبل پارٹی کے سرپرست رہنے والے حروں کے چھٹے روحانی پیشوا سید شاہ مردان شاہ ثانی نے بھی کبھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔
اپنی روایات کو برقرا رکھتے ہوئے حالیہ پیر پگارا بھی خود انتخابی میدان میں نہیں اترے، تاہم ان کی قیادت میں درجنوں امیدوار گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈے اے) کے پرچم تلے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
طاہر القادری - بانی قائد پاکستان عوامی تحریک
اگرچہ پی اے ٹی کے صدرقاضی زاہد حسین ہیں، تاہم طاہرالقادری ہی اس پارٹی کے سرپرست ہیں۔
تحریک منہاج القرآن اور پی اے ٹی کے سرپرست 74 سالہ طاہر القادری 2004 میں رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں، تاہم وہ 2008 اور 2013 کی طرح اس بار بھی انتخابات میں ذاتی طور پر حصہ نہیں لے رہے۔
تاہم طاہر القادری سیاسی طور پر متحرک رہتے ہیں اور 2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور 2014 میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور کئی روز تک دھرنے دے چکے ہیں۔
چوہدری شجاعت حسین - صدر پاکستان مسلم لیگ (ق)
ماضی میں مختصر مدت کے لیے ملک کے وزیراعظم سمیت وفاقی وزیر داخلہ رہنے والے 72 سالہ چوہدری شجاعت حسین بھی اس بار انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔
وہ 2009 سے 2015 تک سینیٹر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ ان کا شمار ملک کے اہم ترین سیاستدانوں میں ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اس مرتبہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔
غنویٰ بھٹو - چیئرپرسن پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو)
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقتول بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی لبنانی نژاد بیوی غنویٰ بھٹو اگرچہ آج تک رکن ایوان منتخب نہیں ہوئیں، تاہم وہ ماضی میں انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرتی رہیں۔
تعلیمی اہلیت نہ رکھنے اور غیر ملکی ہونے کی وجہ سمیت دیگر اسباب کی بناء پر ماضی میں ان کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہوتے رہے، تاہم اس بار انہوں نے انتخابات میں خود ہی حصہ نہیں لیا۔
پارٹی ذرائع کے مطابق صحت کی خرابی کی وجہ سے انہوں نے 2018 کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔
حافظ خادم حسین رضوی - سرپرست تحریک لبیک پاکستان
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف نومبر 2017 میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کرنے اور پھر دارالحکومت میں احتجاجی دھرنے دے کر حکومت کو مشکل میں ڈالنے والے 52 سالہ حافظ خادم حسین رضوی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔
ان کی پارٹی کے متعدد امیدوار ملک کے چاروں صوبوں سے قومی و صوبائی حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں، وہ خادم حسین رضوی ان کی انتخابی مہم میں بھی نظر آتے ہیں، تاہم وہ خود اس بار الیکشن کے امیدوار نہیں ہیں۔
افتخار چوہدری - صدر پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری، جو ریٹائرمنٹ کے بعد 2015 سے ملکی سیاست میں متحرک نظر آئے، وہ بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔
افتخار چوہدری کی فوجی آمر پرویز مشرف کی جانب سے 2007 میں معزولی کے بعد بحالی نے جہاں ملک میں سیاسی بھونچال پیدا کیا، وہیں 72 سالہ افتخار چوہدری 2013 میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی طور پر متحرک نظر آئے، لیکن اس کے باوجود وہ اس بار الیکشن نہیں لڑ رہے۔
میر حاصل بزنجو - صدر نیشنل پارٹی
ملک کے اہم ترین سیاستدانوں اور ماضی میں وزارتوں پر رہنے والے 60 سالہ میر حاصل بزنجو بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے، تاہم ان کی جماعت کے کئی امیدوار انتخابی میدان میں اتریں گے۔
حاصل بزنجو اس وقت ملک کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن ہیں، اسی وجہ سے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔
مولانا سمیع الحق - سربراہ جمعیت علماء اسلام (س)
مولانا سمیع الحق ماضی میں سینیٹر رہ چکے ہیں، جبکہ انہیں بھی ملک کے اہم ترین سیاستدانوں میں شمار کیا جاتا ہے، تاہم اس بار 80 سالہ مولانا سمعیع الحق خود انتخابات نہیں لڑ رہے۔
راجہ ناصر عباس -سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری بھی اس بار عام انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے، وہ بھی ملکی سیاست کے حوالے سے ہمیشہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔
ساجد میر - امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
پروفیسر ساجد میر جو خود ایک پارٹی کے امیر ہیں، وہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ہیں، ساجد میر پہلے بھی سینیٹر رہ چکے ہیں۔
علامہ ساجد میر 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔