• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

عہد ساز شخصیت "نیلسن منڈیلا"

شائع July 18, 2018

آج نیلسن منڈیلا کی 100ویں سالگرہ کے موقع پردنیا بھر میں ان کا دن منایا جارہا ہے، ان کی طویل جد وجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

آج ساری دنیا جس عظیم انسان کو خراجِ تحسین پیش کررہی ہے، ایک زمانہ وہ بھی گزرا ہے، جب امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی طاقتیں اور سیاستدان اسے ایک خطرناک شخصیت قرار دیتے تھے۔

سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے طویل جدوجہد کرنے والے منڈیلا نے جیلیں بھی کاٹیں، جلا وطنیوں کا دکھ بھی سہا، تکالیف، اذیت اور اپنوں سے دوری کا غم بھی جھیلا، اور پھر بالآخر وہ وقت بھی آیا جب وہ سنہ 1994 میں جنوبی افریقہ کے صدر منتخب ہوئے۔

یہ نیلسن منڈیلا ہی تھے جن کی طویل جدوجہد نے جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کا خاتمہ کیا، صدر بننے کے بعد انہوں نے اعلان کیا، "آج قانون کی نظر میں جنوبی افریقہ کے تمام لوگ برابر ہیں وہ اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتے ہیں"۔

وہ کہتے تھے "زندگی میں کبھی ناکام نہ ہونا عظمت نہیں، بلکہ گرنے کے بعد اٹھنا عظمت کی نشانی ہے"۔

منڈیلا کی پیدائش 1918ء میں جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی تھی — فوٹو: اے ایف پی
منڈیلا کی پیدائش 1918ء میں جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوئی تھی — فوٹو: اے ایف پی
وہ مديبا قبیلے سے تھے اور جنوبی افریقہ میں انہیں اکثر ان کے قبیلے کے نام یعنی مدیبا کہہ کر بلایا جاتا تھا  — فوٹو: اے پی
وہ مديبا قبیلے سے تھے اور جنوبی افریقہ میں انہیں اکثر ان کے قبیلے کے نام یعنی مدیبا کہہ کر بلایا جاتا تھا — فوٹو: اے پی
ان کے قبیلے نے ان کا نام ”رولہلاہلا دالب ہگا“ رکھا تھا لیکن ان کے اسکول کے ایک ٹیچر نے ان کا انگریزی نام نیلسن رکھا  — فوٹو: اے ایف پی
ان کے قبیلے نے ان کا نام ”رولہلاہلا دالب ہگا“ رکھا تھا لیکن ان کے اسکول کے ایک ٹیچر نے ان کا انگریزی نام نیلسن رکھا — فوٹو: اے ایف پی
ان کے والد تھیبو راج خاندان میں مشیر تھے اور جب ان کی وفات ہوئی تو نیلسن منڈیلا 9 سال کے تھے  — فوٹو: اے ایف پی
ان کے والد تھیبو راج خاندان میں مشیر تھے اور جب ان کی وفات ہوئی تو نیلسن منڈیلا 9 سال کے تھے — فوٹو: اے ایف پی
ان کا بچپن تھیبو قبیلے کے سربراہ جوگنتابا دلنديابو کی نگرانی میں گزرا — فوٹو: اے پی
ان کا بچپن تھیبو قبیلے کے سربراہ جوگنتابا دلنديابو کی نگرانی میں گزرا — فوٹو: اے پی
انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور 1952ء میں جوہانسبرگ میں اپنے دوست اولیور ٹیبو کے ساتھ وکالت شروع کی ان دونوں نے نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مہم چلائی — فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور 1952ء میں جوہانسبرگ میں اپنے دوست اولیور ٹیبو کے ساتھ وکالت شروع کی ان دونوں نے نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مہم چلائی — فوٹو: اے ایف پی
منڈیلا افریقہ کے کئی ممالک میں بحالیٔ امن کے عمل میں بھی شامل رہے — فوٹو: اے ایف پی
منڈیلا افریقہ کے کئی ممالک میں بحالیٔ امن کے عمل میں بھی شامل رہے — فوٹو: اے ایف پی
وہ لوگ جنہوں نے نیلسن مینڈیلا کو جیل میں قید رکھا، انہیں اذیتیں دیں، انہوں نے ان کے لیے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی — فوٹو: اے ایف پی
وہ لوگ جنہوں نے نیلسن مینڈیلا کو جیل میں قید رکھا، انہیں اذیتیں دیں، انہوں نے ان کے لیے کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی — فوٹو: اے ایف پی
وہ ہمیشہ خوش مزاج نظر آئے اور ان کی شخصیت اور زندگی کی داستان نے پوری دنیا کو متاثر کیا — فوٹو: اے پی
وہ ہمیشہ خوش مزاج نظر آئے اور ان کی شخصیت اور زندگی کی داستان نے پوری دنیا کو متاثر کیا — فوٹو: اے پی
ان کی پہلی شادی 1944ء میں ہوئی تھی، اور اس سے ان کی 3 اولادیں ہوئیں،13 برس کے بعد ان کی علیحدگی ہوگئی — فوٹو: اے  پی
ان کی پہلی شادی 1944ء میں ہوئی تھی، اور اس سے ان کی 3 اولادیں ہوئیں،13 برس کے بعد ان کی علیحدگی ہوگئی — فوٹو: اے پی
5 سال صدر کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد 1999ء میں انہوں نے اقتدار چھوڑدیا اور جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ بااثر سفارتکار ثابت ہوئے — فوٹو: اے ایف پی
5 سال صدر کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد 1999ء میں انہوں نے اقتدار چھوڑدیا اور جنوبی افریقہ کے سب سے زیادہ بااثر سفارتکار ثابت ہوئے — فوٹو: اے ایف پی
نیلسن مینڈیلا کہتے تھے کہ "میرے ذہن میں ایک ایسے جمہوری اور آزاد معاشرے کا تصور ہے جہاں تمام لوگ پُرامن طریقے سے رہیں اور اُنہیں برابری کا موقع ملے۔ یہ وہ سوچ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے میں جینا چاہتا ہوں، لیکن اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے میں مرنے کو بھی تیار ہوں" — فوٹو: اے ایف پی
نیلسن مینڈیلا کہتے تھے کہ "میرے ذہن میں ایک ایسے جمہوری اور آزاد معاشرے کا تصور ہے جہاں تمام لوگ پُرامن طریقے سے رہیں اور اُنہیں برابری کا موقع ملے۔ یہ وہ سوچ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے میں جینا چاہتا ہوں، لیکن اگر ضرورت پڑی تو اس کے لیے میں مرنے کو بھی تیار ہوں" — فوٹو: اے ایف پی

تبصرے (1) بند ہیں

saifullah Jul 19, 2018 04:32pm
the great person in new world