• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

سیارہ زحل کے چاند کے منصوبے پر تحقیق کرنے والا پاکستانی

شائع July 10, 2018
سیارہ زحل کا چاند انسلیدس کائنات کا منفرد چاند ہے—فوٹو: بزنس انسائڈڑ
سیارہ زحل کا چاند انسلیدس کائنات کا منفرد چاند ہے—فوٹو: بزنس انسائڈڑ

اگرچہ یورپین اسپیس ایجنسی اور ناسا کی جانب سے یہ اعلان ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے ایک اہم سیارے زحل کے چاند انسلیدس پر ایسے پیچیدہ نامیاتی مالیکول دریافت کیے گئے ہیں جہاں زندگی کسی صورت میں پنپ سکتی ہے، تاہم اس اعلان کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں سے لیکر عام افراد تک سب ہی اس نئی تحقیق کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں۔

لیکن اس تحقیق سے جڑے ایک پاکستانی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا جنہوں نے ڈاکٹر فرینک پوسٹ برگ کے ساتھ مل کر دنیا کے مایہ ناز سائنسدانوں کی ٹیم کی سرکردگی کی، اس ٹیم کا تہلکہ خیز ریسرچ پیپر (مقالہ) حال ہی میں دنیا کے ایک معتبر ترین سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوا ہے۔

آئیے ڈاکٹر نذیر خواجہ سے ملتے ہیں جن کا تعلق پنجاب کے ایک چھوٹے سے دیہاتی علاقے وزیر آباد کی ایک مڈل کلاس فیملی سے ہے۔

انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسپیس سائنسز میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی چلے گئے، اسی دوران وہ خلائی ریسرچ سے متعلق تحقیق کا حصہ بنے اور پھر ناسا کے تاریخی 'کیسینی مشن 'میں خدمات سر انجام دیتے رہے، جو نظام ِ شمسی کے سیارے زحل کی طرف بھیجا گیا تھا۔

ہم نےڈاکٹر نذیر کی کوششوں اور ان کی زندگی سے متعلق معلومات کو اس مختصر انٹرویو میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، جس میں یقینا ان کی زندگی اور کاوشیں نہیں سما سکتیں۔

سوال: دنیا بھر سے سائنس کے شیدائی اس وقت آپ کی نئی تحقیق کے سحر میں جکڑے ہوئے ہیں، کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ اس میں آپ کے لیے سب سے زیادہ متاثر کن کیا چیز رہی؟

ڈاکٹر نذیر: میرے لیے تو اس پورے مشن کی تفصیلات ہی انتہائی متاثر کن رہی ہیں، مگر عوامی حلقوں کی دلچسپی کے لیے میں اسے مختصرا یوں بیان کرنا چاہوں گا کہ ہمیں دوران تحقیق زحل کے چاند انسلیدس پر ایسے پیچیدہ نامیاتی مالیکیول کا سراغ ملا ہے جو سائز میں بھی بڑے ہیں، اگرچہ ماضی میں بھی اس پر تحقیق ہوتی رہی ہے جس کے مطابق کیسینی خلائی گاڑی پر موجود آلات (سی ڈی اے اور آئی این ایم ایس) نے انسلیدس کی سطح پر موجود ایک سمندر میں ایسے ہی چھوٹے نامیاتی مالیکول دریافت کیے تھے، لیکن ہماری تحقیق پہلی دفعہ نامیاتی اجزاء کے بہت بڑے مالیکیولز کی موجودگی کی تصدیق کرتی ہے، جو زمین سے باہر یا غیر ارضی دنیا پر موجود ہیں۔

سوال: تو کیا اس امر کے امکانات موجود ہیں کہ مستقبل میں انسانی تہذیب کی بقا کے لیے انسلیدس پر انسانی کالونیاں بنائی جا سکتی ہیں؟

ڈاکٹر نذیر: پہلی بات تو یہ ہے کہ خلاء میں انسان کا بسیرا، یا کالونیاں بنانا عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر کسی اور سیارے پر قیام کے حوالے سے سمجھنا چاہیے، چونکہ سیارہ زحل سورج سے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہے اوراس کی سطح کا درجۂ حرارت بھی تقریبا منفی 200 سینٹی گریڈ ڈگری کی حد تک کم ہے، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ انسلیدس پر انسانی کالونیاں بنانا یا مستقبل میں قیام ہر گز ممکن نہیں ہے، جو بڑے اور پیچیدہ نامیاتی مالیکیول ہم نے انسلیدس پر دریافت کئے ہیں وہ جاندار اور بے جان ذرائع دونوں ہی میں معاونت کر سکتے ہیں۔

ابھی تک ہم یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان نامیاتی مالیکیول کا ماخذ کوئی جاندار شے (زندہ حیات )رہی ہوگی، نہ ہی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسلیدس پر زندگی کے آثار موجود ہیں یا زندگی کسی صورت میں یہاں نمو پا سکتی ہے، ہم نے یہ تصور پیش کیا ہے کہ یہ پیچیدہ مالیکیولز انسلیدس کے زیریں سمندر کی گہرائی میں موجود ہائیڈرو تھرمل وینٹس سے وجود میں آئے ہیں، اس طرح کی ہائیڈرو تھرمل وینٹس ہمارے سیارے زمین پر موجود سمندروں گہرائی میں بھی موجود ہیں جہاں صرف خوردبینی جاندار پائے جاتے ہیں، لہذا ٰانسلیدس پر دریافت ہونے والے ان مالیکیول کی اصل یا ماخذ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن ان میں زمین سے باہر حیات ( ایسٹرو بائیو لوجیکل ) کے حوالے سے طاقت ضرور موجود ہے۔

یہ بھی پڑھین: سیارچے یا ایسٹیرائڈز کیا ہیں؟

سوال: سائنسی اصطلاحات سے ہٹ کر کیا آپ اس کی وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ انسیلیدس کو کیوں اتنی اہمیت دی جارہی ہے؟

ڈاکٹر نذیر: دراصل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسلیدس نظام شمسی میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی پنپ سکتی ہے، (سائنس میں ایسی جگہ کو ہیبی ٹیبل زون کہا جاتا ہے) مگر ابھی یہاں زندگی کی کسی بھی صورت میں موجودگی واضح نہیں ہو سکی، ابھی تک ہم انسلیدس کی تہہ میں موجود ایک سمندر پر تحقیق کر کے مختلف ممکنات پر بحث و مباحثے میں مصروف ہیں، جہاں کا درجۂ حرارت تقریبا 90 سینٹی گریڈ ڈگری ہے۔

مجھے علم ہے کہ عام افراد کے لیے ان سائنسی باتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے اس لیے میں اس کی وضاحت یوں کرنا چاہوں گا کہ کسی بھی مقام پر زندگی کے آغاز اور بعد ازاں پنپنے کے لیے تین علامات کا ہونا لازمی ہے اور سائنسدان جب زمین کے علاوہ کسی بھی دوسرے سیارے یا اس کے چاند پر زندگی کی موجودگی تلاشتے ہیں تو یہی 3 علامات سب سے پہلے ڈھونڈی جاتی ہیں، جن میں نمبر 1 مائع حالت میں پانی، نمبر 2 سورج کی طرح توانائی کا ایک مستقل ماخذ اور نمبر 3 نامیاتی مالیکیول ہیں۔

ہماری اب تک کی تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ زحل کے گرد گردش کرنے والے چاند انسلیدس پر یہ تینوں بنیادی علامات موجود ہیں، اور پیچیدہ نامیاتی مالیکیول سے متعلق ہماری نئی تحقیق نے اس یقین میں مزید اضافہ کیا ہے کہ انسلیدس کے اس سمندر میں مختلف النوع نامیاتی مرکبات وافر مقدار میں موجود ہیں، جو مجموعی طور پر اس امر کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ انسلیدس پر ایک ہیبی ٹیبل (زندگی کے موافق) سمندر موجود ہے، لہذا سائنسدانوں کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوگئی ہے، کیوں کہ یہ زمین سے باہر ہمارے نظام شمسی میں دریافت ہونے والا ایک ایسا مقام ہے جہاں زندگی کی ابتداء یا ارتقاء کے حوالے سے مزید تحقیق کی جاسکتی ہے اور اس تحقیق سے ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی کے مستقبل میں شروع کیے جانے والے دیگر اہم منصوبے 'یورپا کلپر' اور 'جوس'( جیوپیٹرآئیسی مون ایکسپلورر) میں بھی مدد ملے گی جو مشتری کے منجمد چاندوں کی جانب بھیجے جائیں گے اور کیسینی کی طرح وہاں زندگی کے آثار تلاش کریں گے۔

سوال: کیا آپ بناتا پسند کریں گے کہ کیسینی خلائی گاڑی کے ذریعے ہونے والی سب سے اہم دریافت کون سی تھی؟

خلائی تسخیر کی تاریخ میں کیسینی ہائیجنز مشن کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے جو اپنی نوعیت کے حوالے سے ایک بے نظیر کوشش تھی، 2005 میں کیسینی کے زحل پر پہنچنے کے فورا بعد سائنسدانوں نے اس خلائی گاڑی پر موجود آلات( آن بورڈ) سے دریافت کیا کہ زحل کے چاند انسلیدس کے جنوبی قطب کی جانب پانی کے بخارات اور اور برف کے ذرات (گرینز ) وافر مقدار میں خارج ہورہے ہیں۔

سائنسدانوں کے لیے یہ امر انتہائی حیران کن تھا کہ زمین سے باہر ہمارے نظام شمسی میں ایک ایسا چاند موجود ہے جو جغرافیائی حوالے سے کافی متحرک ہے، برف کے جو ذرات انسلیدس سے خارج ہورہے تھے وہ اس کی سطح سے کئی کلومیٹر اوپر تک جا تے تھے، ان میں سے زیادہ تر ذرات انسلیدس کی سطح پر واپس گر رہے تھے، مگر چند ایک چاند کی کشش ثقل سے فرار ہوکر زحل کے گرد مسلسل برف کے ذرات کا حلقہ بناتے جارہے تھے، زحل کے اس چاند کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی اوپری برف کی موٹی تہہ کے نیچے ایک ایک زیریں سمندر موجود ہے جو نمکیات سے بھرا ہوا ہے، جس کا چاند کے چٹانی خول (کرسٹ) سے براہ راست رابطہ ہے، سائنسدانوں کو یہاں متحرک ہائیڈرو تھرمل وینٹس کا سراغ ملا، جو زمین پر موجود سمندروں کے 'لوسٹ سٹی' ہائیڈرو تھرمل وینٹس سے مشابہہ ہیں۔

ڈاکٹر نذیر خواجہ پنجاب کے چھوٹے شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے—فوٹو: ڈاکٹر نذیر
ڈاکٹر نذیر خواجہ پنجاب کے چھوٹے شہر وزیر آباد میں پیدا ہوئے—فوٹو: ڈاکٹر نذیر

سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ انسلیدس پر زندگی کے آثار دریافت کر لینے سے مستقبل میں کوئی اہم پیش رفت ہوسکتی ہے اور زمین پر آباد مخلوقات کی زندگی پر اس کے کیا مثبت اثرات مرتب ہونگے؟

ڈاکٹر نذیر: جیسے کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ ہم ابھی تک کیسینی سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا جائزہ لے رہے ہیں اور ساتھ ہی کوشش کر ہے ہیں کہ جو مواد ہمیں انسلیدس سے حاصل ہوا ہے اس کی خصوصیات کے مطابق اس کی درجہ بندی کی جاسکے۔

اگرچہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ کیسینی نے زحل پر پہنچنے کے بعد بے انتہاء اہم کام سر انجام دیے لیکن میں عام افراد کی دلچسپی کے لیے یہ بتانا چاہوں گا کہ کیسینی پر موجود آلات جو ڈیٹا اکھٹا کرتے تھے وہ بہت پرانے ہو چکے تھے، اب جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم انسلیدس کے اس سمندر کو زیادہ بہتر طور پر تسخیر کر سکتے ہیں۔

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ستمبر 2017 میں کیسینی خلائی مشن ختم کردیا گیا تھا،لہذا ضرورت ہے کہ انسلیدس کی جانب جدید ترین ٹیکنالوجی سے مزین ایک نیا مشن بھیجا جائے جس سے معلوم کیا جاسکے کہ آیا اس سمندر میں زندہ حیات موجود ہیں یا نہیں؟

زمین سے باہر کسی بھی صورت میں زندگی کی موجودگی کی دریافت انسان کی اولین خواہش رہی ہے کسی اور سیارے یا اس کے چاند پرکسی بھی شکل میں زندگی کی دریافت سے بلاشبہ زمین پر رہائش کے حوالے سے انسان کا نظریہ مکمل طور پر تبدیل ہو جائیگا اور اس سے ہم اپنے اس اولین سوال کا جواب بھی ڈھونڈ لیں گے کہ ہمارے اپنے سیارے پر زندگی کا آغاز کس طرح اور کن حالات میں ہوا تھا ؟ یقینا اس کے انسانی زندگی پر دور رس اثرات کرتب ہونگے، جیسے کہ آپ میڈیکل سائنس ہی کو لے سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سیارہ زحل پر تاریخی طوفان

سوال: کیا آپ ہمیشہ سے ہی زمین پر زندگی کی ابتداء اور ارتقاء جیسے معموں میں دلچسپی رکھتے تھے جو سائنس میں روز افزوں پیش رفت کے باوجود انسان اب تک حل نہیں کر پایا؟

ڈاکٹر نذیر: ایسا ہے کہ میرے دماغ میں اس طرح کے سوال کسی حد تک بچپن سے مو جود تھے، مگر زمین سے باہر زندگی کے حوالے سے میری اصل حوصلہ افزائی میرے گریجویشن کے دوران ہوئی، یہاں میرے کئی دوست اور کلاس فیلوز ایسے تھے جو اس بارے میں معلومات رکھتے تھے اور میرا ان کے ساتھ تفصیلی مباحثہ ہوا کرتا تھا۔

ابتداء میں زمین سے باہر زندگی کی دریافت یا حیاتیاتی فلکیات کا بنیادی تعلق محض انسانی تجسس کی تسکین سے تھا، جس طرح سے ماضی میں کئی ایسی شاندار سائنسی دریافتیں موجود ہیں جو انسانی فلاح کے لیے استعمال ہوتی رہیں۔

یہاں میں نیوٹن کے قوانین حرکت اور کیپلر کے سیاروں کی حرکت سے متعلق قوانین کا حوالہ دینا چاہوں گا، جو شاید ہی عام آدمی کے ذہن میں موجود ہوں مگر خلاء کی تسخیر میں ان قوانین نے جو کردار ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے، اسی طرح زمین سے باہر زندگی کی تلاش کی اولین انسانی خواہش کی تکمیل سے نہ صرف سائنسدان زمین پر زندگی کی ابتدائی حالت کے بارے میں جان سکیں گے بلکہ اس سے انہیں ہمارے حال اور مستقبل کو بھی بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملے گا، جو زمین پر ایک صحت مند طرز زندگی کے لیے لازمی امر ہیں۔

سوال: ہمیں اپنے بچپن کے بارے میں کچھ بتائیے، آپ کہاں پیدا ہوئے اور گاؤں کے ایک اسکول میں سائنس پڑھنے کا تجربہ کیسا تھا؟ اس دوران کوئی ایسی شخصیت جس نے آپ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہو؟

ڈاکٹر نذیر: میں پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے وزیر آباد میں پیدا ہوا ،یہ علاقہ چاقو اور دیگر کٹلری کا سامان بنانے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں اپنا سارا ہوم ورک اسکول میں ہی ختم کر لیا کرتا تھا اور گھر آکر سارا دن کرکٹ کھیلنے، پتنگ بازی یا درختوں پر چڑھنے میں گزارا کرتا تھا۔

یہاں میں اپنے دادا کے بھائی خواجہ مقبول الٰہی کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اپنے بلند حوصلے اور ثابت قدمی کی وجہ سے نہ صرف میرے لیے بلکہ پورے خاندان کے لیے ایک رول ماڈل تھے، انھوں نے تعلیم حاصل کرنے پر ہمیشہ میری بہت حوصلہ افزائی کی، میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول وزیر آباد سے میٹرک کیا، جو اس وقت علاقے کا واحد ایسا ادارہ تھا جہاں اسکول کی سطح پر سائنس پڑھائی جاتی تھی۔

گریجویشن کے بعد میں نے ماسٹرز کے لیے لاہور کا رخ کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا، چوں کہ میرا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا لہذا ٰگریجویشن کے بعد تعلیم جاری رکھنے میں مجھے مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، مجھے آج بھی یاد ہے کہ میرے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کے دوران میرے والدین ( مسٹر /مسز خواجہ اشرف) بہت مشکل سے میری یونیورسٹی فیس اور دیگر اخراجات کا بندوبست کیا کرتے تھے۔

لہذا ماسٹرز کی تکمیل کے بعد میرا پہلا چیلنج اپنی فیملی کو مالی طور پر سپورٹ کرنا تھا، جس کے لیے میں نے اگلے 8 سال وزیر آباد کے مختلف اسکول اور کالجز میں ریاضی اور طبیعات کے مضامین پڑھائے، کچھ عرصے بعد مجھے موقع ملا اور میں مزید تعلیم کے لیے فن لینڈ چلا گیا جہاں سے میں نے فلکیات میں دوبارہ ماسٹرز کیا، جس کے لیے میں نے اپنا تھیسز یورپین اسپیس ایجنسی کے مشن روزیٹا میں استعمال ہونے والے آلے ' کو زیما ' پر لکھا، اسی منصوبے کے دوران مجھے یورپ کے مختصرالمدت سائنس مشن کے لیے گرانٹ ملی تاکہ میں جرمنی میں واقع میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف سولر سسٹم میں موجود کوزیما آلے پر بھی تحقیق کر سکوں، اس انسٹی ٹیوٹ میں دنیا بھر کے نامور سائنسدانوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ کام، میری زندگی کا ایک نا قابل فراموش واقعہ ہے۔

سوال: آپ نے اپنے کیریئر کا زیادہ تر عرصہ کیسینی مشن پر کام کرتے ہوئے گزارا ہے، کیا آپ اس مشن کی کچھ تفصیلات، خاص کر کیسینی کو زحل کی جانب بھیجنے اور وہاں پہنچنے سے متعلق تفصیلات ہمیں بتانا پسند کریں گے؟

ڈاکٹر نذیر: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ زحل ہمارے نظام شمسی کا چھٹا سیارہ ہے جو سورج سے ایک کروڑ 40 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ ہر جانب سے حلقوں سے گھرا ہوا ہے، جسے کسی بھی سیارے کے گرد موجود سب سے زیادہ پھیلا ہوا رنگ سسٹم سمجھا جاتا ہے۔، جو زیادہ تر برف اور مٹی کے ذرات پر مشتمل ہے۔

1997 میں امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے زحل کی جانب کیسینی ہائی جنز مشن بھیجا جاتا تھا تاکہ اس کے حلقوں اور متعدد چاندوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں، کیسینی خلائی گاڑی میں کئی طرح کے جدید آلات نصب کیے گئے تھے، جن میں 2 ماس اسپیکٹرو میٹر بھی شامل تھے، جن کا اصل کام زحل کے رنگ سسٹم میں موجود برف کے ذرات اور گیسوں کا مشاہدہ کرنا تھا، ان میں سے ایک کو زمک ڈسٹ انالائزر اور دوسرے کو آئن اینڈ نیوٹرل اسپیکٹرو میٹر کا نام دیا گیا تھا، کیسینی خلائی گاڑی 7 سال سفر کرنے کے بعد 2004 میں زحل پر پہنچی۔

یہ بھی پڑھیں: زحل کے حلقے، بَعض لوگوں کیلئے دِلکش اور کچھ کیلئے خوفناک

سوال: مایہ ناز سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ متعدد دفعہ اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ خلائی مخلوق سے ملاقات انسان کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے، کیا آپ ہاکنگ کے نظریات سے متفق ہیں؟

ڈاکٹر نذیر: میں نہ صرف بحیثیت انسان اسٹیفن ہاکنگ کی بہت قدر کرتا ہوں بلکہ فلکیات میں ان کی نمایاں تحقیق اور لیکچرز بھی مجھے پسند ہیں، میں خلائی مخلوق کے حوالے سے اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات سے کسی حد تک متفق ہوں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا کثیر المباحثہ موضوع ہے جس کے مختلف پہلو ہیں اور اس پر بہت احتیاط کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔

ساتھ ہی میں خلائی مخلوق سے متعلق ایک اور اہم نکتہ بھی بیان کرنا چاہوں گا جسے عام آدمی نہیں سمجھ پاتا، مگر یہ حقیقت سے زیادہ قریب تر معلوم ہوتا ہے، ہم سائنسدان جب زمین سے باہر زندگی کی تلاش شروع کرتے ہیں تو ہماری اصل کھوج خوردبینی حیات سے متعلق ہوتی ہے اور اسی کو ہم ایلین کہتے ہیں، جہاں تک موجودہ خلائی تسخیر کا تعلق ہے تو سائنسدان اس حوالے سے بہت محتاط اور حساس ہیں کہ زمین سے مواد کو کسی سیارے پر لیکر جانے، یا وہاں سے زمین پر منتقل کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے، لیکن ابھی تک ہمیں کسی اور سیارے پر خلائی مخلوق کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔

سوال: آپ 2017 میں پاکستان آئے اور پاکستان ایسٹرو بایولوجی نیٹ ورک کے نام سے ایک فلاحی سائنس سوسائٹی کے قیام کا اعلان کیا، اس نیٹ ورک کو آپ مستقبل میں کس طرح چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر نذیر: پاکستان ایسٹرو بایو لوجی نیٹ ورک ایک فلاحی ادارہ ہے جس میں یورپ اور امریکہ کے سائنسدانوں کے ساتھ پاکستان سے قابل افراد اور طلباء شامل ہیں، تھوڑے عرصے میں ہمیں اچھا ریسپانس ملا ہے اور اب تک امریکہ سے ڈاکٹر بروس ڈیمر، ناسا سے منصور احمد خان، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ڈاکٹر فریحہ حسن ہمارے ساتھ شامل ہو چکے ہیں، جب کہ جرمنی سے میرے تحقیقی معاون فیبیان کلینر بھی نہایت متحرک ہیں۔

ہم مستقبل میں پاکستان بھر کے اسکول و کالجز اور یونیورسٹیوں میں لیکچرز اور تقریبات کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاکہ فلکیاتی حیاتات کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جاسکے، میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ فلکیاتی حیاتات اور اسپیس سائنسز کے لیے کیریئر کاونسلنگ بھی ضروری ہے کیوں کہ کسی بھی دوسرے مضمون کو پڑھنے والے طلباء انہیں با آسانی سمجھ کر پیشے کے طور پر اختیار کرسکتے ہیں۔

اس انٹرویو کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


صادقہ خان نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے اپلائیڈ فزکس میں ماسٹرز کیا ہے، وہ پاکستان کی کئی سائنس سوسائٹیز کی فعال رکن ہیں۔ ڈان نیوز پر سائنس اور سپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@

تبصرے (3) بند ہیں

Ahmed Zarar Jul 10, 2018 10:24am
Thanks God , Sadeeqa Khan you are always here with a new dimension in science and still have Pakistani Passport.
Talha Jul 10, 2018 01:39pm
Ma Sha Allah...zabardast....
riz Jul 10, 2018 02:05pm
bohat hi shandaar aur full of motivation,, really love to see the success of our scientists,,

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024