• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

راولپنڈی اسلام آباد میں سیاسی پنجے کی پنجہ آزمائی

پاکستانی سیاست کے 5 بڑے کھلاڑی راولپنڈی کے انتخابی میدان سے مقابلے میں ہیں۔
شائع July 6, 2018 اپ ڈیٹ July 18, 2018

تحریر: فیاض راجہ | ڈیزائن و گرافس: ایاز احمد لغاری

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عدلیہ کے ہاتھوں نااہل ہونے والے دونوں وزرائے اعظم کو اپنے اپنے نگرانوں کی ضرورت پڑی تو دونوں ہی نے راولپنڈی کی طرف دیکھا۔ پیپلز پارٹی کے عدالتی نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بقیہ حکومت کی نگرانی راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے عدالتی نااہل وزیراعظم نواز شریف کی بقیہ حکومت کی نگرانی راولپنڈی کی تحصیل مری سے تعلق رکھنے والے رکنِ قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی نے کی۔

کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ میاں نواز شریف جب 2002ء کے انتخابات کے موقعے پر عسکری مداخلت کے باعث انتخابی میدان سے دور تھے تو (ن) لیگ کے ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے پرانے مسلم لیگی شیخ رشید کا تعلق بھی راولپنڈی سے تھا اور آج 2018ء کے انتخابات کے موقعے پر جب نواز شریف عدالتی مداخلت کے باعث انتخابی میدان سے دور ہیں تو ایک بار پھر (ن) لیگ کے ٹکٹ سے محروم رہ جانے والے پرانے مسلم لیگی چوہدری نثار کا تعلق بھی راولپنڈی ہی سے ہے۔

یعنی یوں کہہ لیجیے کہ وہ راولپنڈی ہی کے سیاست دان تھے جن پر اقتدار سے نکالے گئے دونوں وزرائے اعظم نے اپنی پوری سیاسی جماعت میں سے سب سے زیادہ اعتماد کیا اور راولپنڈی کے سیاست دانوں ہی نے 2 بار نواز شریف کے اداروں سے ٹکراؤ کی کھل کر مخالفت کی۔

کیا اسے بھی محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ نواز شریف کے سیاسی حریفِ اول اور مستقبل میں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار عمران خان کے تعلیمی میدان میں دوست رہنے والے چوہدری نثار اور ان کے سیاسی میدان کے حلیف شیخ رشید دونوں کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ عمران خان تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر وزیرِ اعظم بننے کی جو مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے انہیں این اے 53 اسلام آباد میں اپنے جس سیاسی حریف شاہد خاقان عباسی کا سامنا کرنا ہے، ان کا تعلق بھی راولپنڈی ہی سے ہے۔

لگے ہاتھوں اس کو بھی اتفاق ہی سمجھ لیں کہ عمران خان نے 2013ء کے گزشتہ عام انتخابات کے بعد پشاور اور میانوالی سے جیتی اپنی قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں قربان کرکے جس حلقے کے لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کا فیصلہ کیا وہ بھی راولپنڈی سے جیتا ہوا حلقہ تھا۔

یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اہلِ راولپنڈی کی مدد سے اسلام آباد پہنچنے والوں سے لے کر، اپنے رہنماؤں کو اسلام آباد کی اقتدار کی کرسی پر بٹھانے والوں، اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ان کی کرسی پر بیٹھنے والوں اور اگلی صفوں میں رہ کر ان کی سیاسی مخالفت کرنے والوں تک سب کا تعلق کسی نہ کسی طرح راولپنڈی ہی سے رہا ہے۔

گویا پاکستانی سیاست کے 5 بڑوں چوہدری نثار، شیخ رشید، شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان کو راولپنڈی اسلام آباد کا سیاسی پنجہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اب یہ ایک الگ بات ہے کہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران جب جب راولپنڈی اور اسلام آباد کے سیاسی میدانوں میں پنجہ آزمائی ہوئی تو ان 5 بڑے سیاسی کھلاڑیوں کے نام کسی نہ کسی طرح پاکستانی سیاست کے میدانوں پر چھائے رہے۔

کتنا دلچسب اتفاق ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی پاکستان کے میدانِ سیاست کی پنجہ آزمائی انہی 5 بڑے کھلاڑیوں کے دم سے راولپنڈی اسلام آباد کے انتخابی حلقوں میں زبان زد عام ہے۔

چوہدری نثار علی خان

80ء کی دہائی کے اوائل میں مقامی سیاست کا آغاز کرنے والے چوہدری نثار نے 1985ء کے انتخابات میں اپنے سیاسی کریئر کا آغاز، راولپنڈی کے انتخابی حلقے این اے 40 سے کیا۔

2002ء کے انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیوں میں این اے 40 کو 2 حلقوں این اے 52 اور این اے 53 میں تقسیم کردیا گیا، چوہدری نثار علی خان نے دونوں حلقوں سے ن لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا اور قومی اسمبلی کی 2 نشستوں میں سے ایک نشست این اے 52 سے جیتے اور ایک نشست این اے 53 پر انہیں شکست ہوئی۔

2008ء کے انتخابات میں انہیں دونوں نشستوں پر کامیاب حاصل ہوئی تھی تاہم 2013 کے انتخابات میں انہیں این اے 52 کی نشست پر کامیابی حاصل کی جبکہ این اے 53 کی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار کے ہاتھوں کشکست سے دوچار ہوئے۔

2018ء کی نئی حلقہ بندیوں میں حلقہ این اے 52 کو بدل کر این اے 59 جبکہ حلقہ این اے 53 کو بدل کر این اے 63 کردیا گیا ہے۔ چوہدری نثار 2018ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں این اے 59 اور این اے 63 سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

این اے 59 سابقہ این اے 52 پر چوہدری نثار کا مقابلہ، مسلم لیگ نواز کے راجہ قمر اسلام اور تحریک انصاف کے غلام سرور خان سے ہے۔ این اے 63 سابقہ این اے 53 پر چوہدری نثار کا مقابلہ، مسلم لیگ (ن) کے سردار ممتاز اور تحریک انصاف کے غلام سرور خان سے ہے۔

شیخ رشید احمد

فرزندِ راولپنڈی کہلائے جانے والے شیخ رشید احمد نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔

2002 کے عام انتخابات سے قبل ہونے والی نئی حلقہ بندیوں میں یہ حلقہ این اے 38، دو حلقوں این اے 55 اور این اے 56 میں تقسیم ہوگیا۔ این اے 55 اور این اے 56 دونوں حلقوں سے ایک مرتبہ پھر لال حویلی کے امیدوار شیخ رشید ہی کامیاب ہوئے۔

این اے 55 سے شیخ رشید احمد آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے، جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے آغا ریاض السلام دوسرے اور مسلم لیگ نواز کے سردار طارق 14 ہزار 405 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

این اے 56 سے شیخ رشید احمد آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے سردار شوکت حیات نے 19 ہزار 888 ووٹ اور مسلم لیگ نواز کے ظفر علی شاہ 11 ہزار 441 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہے۔

2008 کے انتخابات میں این اے 56 سے مسلم لیگ نواز کے حنیف عباسی نے پہلی مرتبہ فرزند راولپنڈی شیخ رشید کو ان کے ہوم گراونڈ پر شکست دی۔

2008 کے انتخابات میں این اے 55 سے مسلم لیگ نواز کے بیرونی امیدوار جاوید ہاشمی نے فرزند راولپنڈی شیخ رشید کو ان کے ہوم گراؤنڈ پر شکست دی۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ دونوں حلقوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار دوسرے جبکہ شیخ رشید تیسرے نمبر پر رہے۔

2013ء کے عام انتخابات میں شیخ رشید عمران خان کے حق میں اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لیے اور 55 سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ این اے 56 حالیہ این اے 60 سے تحریک انصاف کے عمران خان نے سخت مقابلے کے بعد مسلم لیگ نواز کے حنیف عباسی کو 13 ہزار کے مارجن کے ساتھ شکست دی۔ عمران خان نے 80 ہزار سے زائد جبکہ حنیف عباسی نے 67 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے۔

2013 کے عام انتخابات میں این اے 55 حالیہ این اے 62 سے عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے سخت مقابلے کے بعد مسلم لیگ نواز کے شکیل اعوان کو 13 ہزار کے مارجن کے ساتھ شکست دی۔

2018 کے آئندہ عام انتخابات میں این اے 60 سابقہ این اے 56 پر عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد مسلم لیگ نواز کے حنیف عباسی کا مقابلہ کریں گے۔

راولپنڈی شہر کے حلقہ این اے 62 سابقہ این اے 55 پر فرزندِ راولپنڈی شیخ رشید احمد، پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت سے، نواز لیگ کے دانیال چوہدری کا مقابلہ کریں گے۔

شاہد خاقان عباسی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی ضلع راولپنڈی کے حلقے این اے 36 مری سے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں رکنِ اسمبلی منتخب ہوئے۔ خاقان عباسی نے 61 ہزار 618 جبکہ مخالف امیدوار راجہ ظفر الحق نے 53 ہزار 233 ووٹ حاصل کیے تھے۔

اوجڑی کیمپ حادثے میں والد خاقان عباسی کی وفات کے بعد شاہد خاقان عباسی نے 1988 کے انتخابات میں سیاسی کیرئر کا آغاز اپنے آبائی حلقہ این اے 36 مری ہی سے کیا۔

2002 کے عام انتخابات میں یہ حلقہ این اے 50 قرار دیا گیا، انہی انتخابات میں پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ ستی نے پہلی بار شاہد خاقان عباسی کو مات دی۔

2008 کے عام انتخابات میں فتح کی دیوی ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی پر مہربان ہوئی اور اس انتخابی کامیابی کا سلسلہ 2013ء کے انتخابات تک جاری رہا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی نااہلی کے بعد پارٹی نے وزارتِ عظمی کے عہدے کے لیے شاہد خاقان عباسی کو نامزد کیا۔

نئی حلقہ بندیوں کے تحت 2018ء کے عام انتخابات کے لیے یہ حلقہ این اے57 قرار دیا گیا ہے۔ 25 جولائی کے انتخابی معرکے میں این اے57 سے مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کے امیدوار صداقت عباسی اور پیپلز پارٹی کی امیدوار مہرین انور راجہ میدان میں ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد کے حلقے این اے 53 میں تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے مقابلے میں بھی آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

راجہ پرویز اشرف

پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے 1990ء، 1993ء میں سیاسی طور پر سرگرم رہے۔

1997ء کے عام انتخابات میں انہوں نے ضلع راولپنڈی کے حلقہ این اے 37 گوجر خان سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔

2002ء کے انتخابات میں حلقہ این اے 37 تبدیل ہوکر این اے 51 بن گیا تھا، راجہ پرویز اشرف نے 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

راجہ پرویز اشرف، پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی عدالتی نااہلی کے بعد وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے، مگر 2013ء کے انتخابات میں فتح ان کا مقدر نہ بن سکی۔

2018ء کی حلقہ بندیوں میں ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان کا حلقہ این اے 51 سے بدل کر اب این اے 58 بن چکا ہے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اس حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ اس حلقے میں ان کے مد مقابل مسلم لیگ (ن) کے راجہ جاوید اخلاص اور تحریکِ اںصاف کے چوہدری عظیم ہیں۔

عمران خان

سابق کرکٹر عمران خان نے 1996ء میں سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی اور 1997ء کے عام انتخابات سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے 1997ء کے عام انتخابات میں کراچی اور لاہور کے دو دو جبکہ ایبٹ آباد، ڈیرہ اسمعیل خان، سوات، اسلام آباد اور میانوالی سے قومی اسمبلی کے ایک ایک حلقے سے انتخابات میں حصہ لیا۔ عمران خان کو قومی اسمبلی کے تمام 9 حلقوں سے شکست ہوئی۔

عمران خان نے میانوالی سے 17 ہزار 859 ووٹ، سوات سے 10 ہزار 716 ووٹ، ڈیرہ اسمعیل خان سے 6 ہزار 1 ووٹ، اسلام آباد سے 5 ہزار 868 ووٹ، ایبٹ آباد سے 5 ہزار 227 ووٹ، لاہور کے دونوں حلقوں سے بالترتیب 4 ہزار 595 اور 5 ہزار 365 ووٹ جبکہ کراچی کے دونوں حلقوں سے بالترتیب 2 ہزار 37 اور 911 ووٹ حاصل کیے۔

عمراں خان نے 2002ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے 4 حلقوں کرک، سوات، میانوالی اور لاہور سے انتخابات میں حصہ لیا۔ انہوں نے میانوالی کے حلقہ این اے 71 سے 66 ہزار 737 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدِ مقابل، مسلم لیگ ق کے عبید اللہ آن شادی خیل نے 60 ہزار 533 ووٹ حاصل کیے۔

عمران خان کرک سے 9 ہزار 972 ووٹ، سوات سے 6 ہزار 60 ووٹ جبکہ لاہور سے 18 ہزار 638 ووٹ لے کر ناکام رہے۔ لاہور سے ایاز صادق نے 37 ہزار 537 ووٹ لے کر عمران خان کو شکست دی۔

عمران خان کی تحریکِ انصاف نے 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 30 اکتوبر 2011ء کو لاہور میں ہونے والے کامیاب سیاسی جلسے نے عمران خان اور تحریکِ انصاف کی سیاسی اٹھان میں اضافہ کیا۔

2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے پشاور، راولپنڈی، میانوالی اور لاہور سے قومی اسمبلی کے 4 حلقوں سے حصہ لیا۔ انہوں نے پشاور کے حلقہ این اے 1 میں 90 ہزار 500 ووٹ لے کر نشست جیتی جبکہ ان کے مد مقابل اے، عوامی نیشنل پارٹی کے غلام بلور 24 ہزار 468 ووٹ حاصل کرسکے۔

عمران خان نے راولپنڈی کے حلقہ این اے 56 میں 13 ہزار کے مارجن سے نواز لیگ کے حنیف عباسی کو پچھاڑا جبکہ میانوالی کے حلقہ این اے 71 میں نواز لیگ کے عبید اللہ شادی خیل کو 60 ہزار کے بھاری مارجن سے شکست دی۔ لاہور کے حلقہ این اے 20 سے عمران خان کو اسپیکر ایاز صادق کی ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پرا۔ ایاز صادق نے 93 ہزار 389 جبکہ مقابلے میں عمران خان نے 84 ہزار 517 ووٹ حاصل کیے۔

2018ء کے انتخابات میں میں وزیرِاعظم کے امیدوار عمران خان قومی اسمبلی کے 5 حلقوں این اے 35 بنوں، این اے 53 اسلام آباد، این اے 95 میانوالی،، این اے 131 لاہور اور این اے 243 کراچی سے میدان میں ہیں۔

عمران خان کے مدمقابل امیدواروں میں بنوں سے سابق وزیراعلی کے پی کے اکرم درانی، اسلام آباد سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، میانوالی سے نواز لیگ کے عبید اللہ شادی خیل، لاہور سے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق شامل ہیں جبکہ کراچی سے ایم کیو ایم کے علی رضا عابدی اور سندھ اسمبلی کی سابق ڈپٹی اسپیکر پیپلز پارٹی کی شہلا رضا ان کے خلاف میدان میں ہیں۔

پاکستانی میدان سیاست کے 5 بڑے کھلاڑی چوہدری نثار، شیخ رشید، شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور عمران خان راولپنڈی اور اسلام آباد کے انتخابی میدان سے مقابلے میں ہیں۔ کیا ہم ان 5 بڑوں کو راولپنڈی اسلام آباد کی سیاست کا انتخابی پنجہ کہہ سکتے ہیں؟

ویسے راولپنڈی اسلام آباد کے انتخابی میدان کے ان 5 بڑے سیاسی کھلاڑیوں میں سے سب سے سینئر اور زیادہ تجربہ کار کھلاڑی چوہدری نثار ہیں جبکہ سب سے جونیئر اور کم تجربہ کار کھلاڑی عمران خان ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ سیاسی پنجہ ایک انگوٹھے اور چار انگلیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ پاکستان سیاست میں انگوٹھا عوام کا، ایک انگلی پارلیمںٹ کی، دوسری انگلی میڈیا کی، تیسری انگلی عدلیہ کی اور چوتھی انگلی اسٹیبلشمنٹ کی مانی جاتی ہے، اب جو اس سیاسی پنجے میں امپائر کی انگلی ڈھونڈنا چاہتا ہے وہ مستقبل میں کسی بھی سیاسی پنگے کا خود ذمہ دار ہوگا۔


محمد فیاض راجہ گزشتہ 15 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، بزنس پلس ٹی وی، جیو ٹی وی اور سماء ٹی وی سے بطور رپورٹر وابستہ رہے ہیں. آج کل ڈان نیوز میں بطور نمائندہ خصوصی کام کر رہے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mfayyazraja@

فیاض راجہ

محمد فیاض راجہ گزشتہ 15  برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، بزنس پلس ٹی وی، جیو ٹی وی اور سماء ٹی وی سے بطور رپورٹر وابستہ رہے ہیں. آج کل ڈان نیوز میں بطور نمائندہ خصوصی کام کر رہے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mfayyazraja@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔