پشتونخوا ملی عوامی پارٹی
تجزیہ کار علی ارقم کا تبصرہ :
ایک پشتون رہنما
محمود خان اچکزئی کی حمایت بلوچستان کے پشتون ضلعوں اور خیبر پختونخوا کے پشتون خطے بشمول حال ہی میں ضم ہونے والے فاٹا کے علاقوں میں ہے۔
پی کے میپ کے چاہنے والے اچکزئی کو 'مشر' قرار دیتے ہیں جس کا پشتو میں مطلب بڑا یا رہنما ہے۔ پارٹی ان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔
چاہنے والے، جنہیں مریدان کہا جاتا ہے، اچکزئی، ان کے رشتے داروں اور ان کے قریبی لوگوں کے ہر عمل کی حمایت کرتے ہیں۔
اس عقیدت کا ایک منفی پہلو بھی ہے: اگر کوئی شخص مشر کے ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں آ جائے تو انہیں دھوکے کا مرتکب قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسا پارٹی کے چند رہنماؤں کے ساتھ ہو بھی چکا ہے۔
اس کی وجہ سے پارٹی میں دراڑیں بھی پڑی ہیں جو اس وقت گہری ہوگئیں جب اچکزئی کے بڑے بھائی محمد خان کو گورنر بلوچستان کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا، جبکہ ان کے چھوٹے بھائی حامد خان کو منصوبہ بندی اور ترقی کا صوبائی قلمدان دے دیا گیا۔
انتخابی محاذ پر دیکھیں تو پی کے میپ کی عوامی حمایت کی بنیاد بلوچستان میں پشتونوں کے حقوق کے مطالبے پر قائم ہے، جس میں پشتونوں کا وسائل اور نوکریوں میں بلوچوں کے برابر حصہ شامل ہے۔ کبھی کبھی تو وہ آگے بڑھ کر بلوچستان کے پشتون خطوں پر مشتمل صوبہ تک قائم کرنے کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔
جہاں اچکزئی کی شخصیت انہیں کچھ حلقوں میں فتح دلوا دے گی، وہیں پی کے میپ کو جے یو آئی ایف، طاقتور الیکٹیبلز، پشتون قبائلی اشرافیہ، اور ان کے دہائیوں پرانے مخالفین عوامی نیشنل پارٹی سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
اہم معاملات پر مؤقف:
فاٹا انضمام کے سخت مخالف تھے اور اس حوالے سے اصلاحات کا لائحہ عمل پیش کیا۔
سربراہ پشتونخوا عوامی ملی پارٹی نے فاٹا کو گورنر کے زیر انتظام یا سینیئر ارکان کی جانب سے منتخب کونسل کے ذریعے چلانے کی تجویز دی تھی۔
محمود خان اچکزئی نے 2005 میں کہا تھا کہ ان کی جماعت متنازع کالا باغ ڈیم کو کبھی قبول نہیں کرے گی، کیونکہ یہ ایک پختون مخالف منصوبہ ہے جو بڑے بھائی کی ترقی کے لیے چھوٹے بھائیوں کو نقصان پہنچائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑے صوبے کے مفاد کی خاطر چھوٹے صوبوں کے عوام کے لیے مشکلات کھڑی کرنا جمہوری روایات کے منافی ہے۔
سربراہ پشتونخوا عوامی ملی پارٹی افغان پناہ گزینوں سے متعلق نرم موقف رکھتے ہیں اور اس حوالے سے ایک بیان دینے پر انہیں سخت مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا تھا ’ اگر افغانیوں کو پاکستان کے کسی حصے میں تنگ کیا جاتا ہے تو انہیں پختونخوا صوبے میں آنا چاہیے، یہاں کوئی افغانیوں سے پناہ گزین کارڈ نہیں مانگے گا کیونکہ ہمارا تعلق بھی انہی سے ہے‘۔
انہوں نے 2014 میں دھاندلی کے حوالے سے نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنا دینے پر عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی پر توجہ دینی چاہیے‘۔
سربراہ پشتونخوا عوامی کا سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی سے متعلق موقف تھا کہ وہ لوگ جو نواز شریف کا احتساب چاہتے ہیں انہیں اُن لوگوں کے احتساب کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے جنہوں نے ملکی آئین کو پامال کیا اور پارلیمان کو غیر فعال بنایا۔
2016 میں کوئٹہ کے سول اسپتال میں بم دھماکے کے واقعے پر محمود خان اچکزئی کا ایک اور متنازع بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ اس بار دہشت گردی کا ذمہ دار بیرونی قوتوں کو ٹھہرانا درست نہیں ہوگا، خفیہ ایجنسیوں کو اس سنگین حملے کے ذمہ داروں کو سامنے لانا چاہیے‘۔انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے مطالبہ کیا تھا کہ حساس اداروں کو حکم دیا جائے کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سامنے لائیں۔
محمود خان اچکزئی نے امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی سے متعلق قومی اسمبلی کی قرارداد کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ’ ایک ایسی پارلیمنٹ جس کا اس ملک کے اپنے ادارے احترام نہ کریں، جہاں جب دل چاہے لوگ اسمبلی پر چڑھ دوڑیں،اُس پارلیمنٹ میں پیش اور اُسے منظور کی جانے والی قرارداد کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔
سربراہ پشتونخوا عوامی ملی پارٹی نے بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) پر آنے والے برے وقت میں اُس کا ساتھ دیا جب بلوچستان اسمبلی سے تعلق رکھنے والے 14 اپوزیشن ارکان نے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی۔
- محمود خان اچکزئی نے کہا تھا کہ ہم اصولوں پر کھڑے ہیں اور بلوچستان میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعاون کریں گے، انہوں نے حزب اختلاف پر بھی زور دیا تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد واپس لے۔