چارا، غرارہ، نعرہ ضروری ہیں!
جس طرح شادی کے لیے شرارہ غرارہ لازم ہے، بریانی کے لیے آلوبخارہ ضروری ہے، گائے بکرے پالنا ہو تو چارا ناگزیر ہے، پتھارہ فٹ پاتھ کی پہچان ہے، نکاح کے لیے چھوارہ چاہیے اسی طرح سیاست جس کے بغیر نہیں چلتی وہ ہے نعرہ۔
کہنا تو یہ چاہیے کہ ہمارے ملک میں چلتی ہی نعرے کی سیاست ہے اور اس نعرہ سیاست نے ملک اور عوام کا ناس مار رکھا ہے۔ یہ نعروں کی سیاست کا کمال ہے کہ وہ اچھے بھلے آدمی کو دُم لگا کر اُسے شیر بنا دیتی ہے اور وہ خود کو جانور بلکہ درندہ قرار دینے پر مسرور ہوتا اور ایسے نعروں کے جواب میں بانچھیں چیر اور ہاتھ ہلاہلا کر اقرار کرتا ہے،’ہاں ہاں تم ٹھیک کہتے ہو میں درندہ ہوں‘۔ اسی طرح مرحومین نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ زندگی کے مقابلے میں کہیں زیادہ فعال اور کاپی پیسٹ ہوکر ہر گھر سے نکلنے لگتے ہیں۔ منزل نہیں چاہیے ہوتی صرف راہ نما کی طلب ہوتی ہے، جو اپنے پیچھے لگا کے گھماتا رہے۔ کسی بلڈر کے پروجیکٹ کی طرح پورا کا پورا ملک ہی نیا بنانے کا دعویٰ کردیا جاتا ہے۔
ہم نے سوچا کہ انتخابی فضا میں کیوں نہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو ایسے نئے نعرے دیے جائیں جو کسی گانے کے بول اور سلوگن کی صورت میں عوام کی یادداشت میں محفوظ ہوں، ساتھ ہی سیاسی جماعت اور شخصیت کے حالات، اوصاف اور نظریات کے آئینہ دار بھی ہوں۔ ہم نے گانوں اور ان کے بولوں اور اشتہارات میں کچھ ترمیم اور اضافہ کرکے انہیں نعرے کی شکل دے دی ہے۔ ہماری ان تجاویز سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مسلم لیگ (ن)
مسلم لیگ (ن) کے حالات کے مطابق یہ نعرہ کیسا رہے گا؟
’دُھلیں گے، کچے ہوتے ہیں داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔‘
بس خدشہ ہے کہ جواباً (ن) لیگ کے مخالفین کہیں یہ نعرہ نہ بنالیں کہ،
’ہر داغ کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔‘
نوازشریف کے بیانیے سے اختلاف کے باوجود جماعت کے نئے صدر شہباز شریف ان کے نام کی سیاست کرنے پر مجبور ہیں، ایسے میں ان کے لیے یہ نعرہ ٹھیک رہے گا،
’اس وچ مسئلہ کیہڑا ہے ٹیڑھا ہے پر میرا ہے‘۔
مریم نواز اپنی مہم اس نعرے کے ساتھ چلاسکتی ہیں کہ
’جانتے تو ہو کیا ہوں، بابا کی بٹیا ہوں‘۔
پاکستان پیپلزپارٹی
پاکستان پیپلزپارٹی پہلی بار بلاول بھٹو کی قیادت میں الیکشن لڑے گی، اس کا نعرہ ہونا چاہیے،
’یہی کام کریں گے اچھے، بچے من کے سچے‘۔
دوسرا نعرہ یہ ہوسکتا ہے،
’پولنگ بوتھ میں جا کر تیر پہ ٹھپا لگانا رے، چھوٹا بچہ جان کے ہم کو بھول نہ جانا رے‘۔
رہے آصف زرداری تو ان کے لیے موزوں نعرہ ہوگا،
’جو ہے سب کو پسند میری مٹھی میں بند‘۔
پاکستان تحریکِ انصاف
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لیے تجویز کردہ ہمارا نعرہ ہے،
’میں جادوگر میرا نام گوگا جو میرے ساتھ آئے گا صاف ہوگا‘۔
پی ٹی آئی یہ نعرہ بھی لگاسکتی ہے،
’آجائے وہ پارٹی چھوڑ کر، کِنے کِنے جانا اے بلّو دے گھر‘۔
متحدہ مجلس عمل
متحدہ مجلسِ عمل میں شریک جماعتوں کے راہ نما ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یہ نعرہ لگائیں تو کتنا اچھا لگے گا،
’الیکشن تک تو رہے گی جاری سچی یاری سب پہ بھاری‘۔
مجلسِ عمل کے راہ نما دیانت، امانت اور تقویٰ کے دعووں کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترے ہیں، اس لیے ایم ایم اے یہ نعرہ بھی لگا سکتی ہے،
’کوئی نہ ان میں سے ہارے زمیں پر، تارے زمیں پر، تارے زمیں پر‘۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان
ایم کیو ایم پاکستان نہ صرف مظلومیت کا رونا روتی ہے بلکہ اس کے دُکھی راہ نما بات بات پر رو بھی پڑتے ہیں۔ ایسے میں یہ جماعت رائے دہندگان کو اس نعرے سے متوجہ اور اپنے حالات بتاتے ہوئے ووٹ دینے کی اپیل کرسکتی ہے،
’خود ہی جاکے ووٹ دو، سو رہا ہوں میں، سُن رہا ہے ناں تو رو رہا ہوں میں‘۔
پاک سرزمین پارٹی
پی ایس پی کے لیے ہم جو نعرہ تجویز کر رہے ہیں اس میں رائے دہندگان سے کارکنوں اور راہ نماؤں سب سے اپیل ہی نہیں دھمکی بھی ہے، لہٰذا یہ نعرہ بہت مؤثر ثابت ہوگا،
’کیا اب تک تجھ پر نہیں کُھلا؟ وہ مانے پی ایس پی کا دُھلا‘۔
اب بات کرتے ہیں بعض سیاسی شخصیات کی:
شریف خاندان سے ناتا توڑنے والے چوہدری شجاعت اپنے سابق دوستوں اور قیادت کے بارے میں کچھ کہتے کہتے رُک جاتے ہیں اور اپنی اس ہکلاہٹ کو مروت بتاتے ہیں۔ ان کے حامی انہیں بلوانے کے لیے یہ نعرہ لگا سکتے ہیں،
’چھڈو مُروت رہنے دو سب کہہ دو، سب کہہ دو‘۔
اردو محاورے،
’پانڈے جی پچھتائیں گے، پھر وہی چنے کی دال کھائیں گے‘۔
کی جیتی جاگتی تصویر ڈاکٹر فاروق ستار کل جس پارٹی کے سربراہ تھے آج اس کے کارکن ہیں۔
یہ بلاگ لکھا ہی جارہا تھا کہ وہ الیکشن سے دست برداری پر مُصر ہوگئے۔ وہ الیکشن لڑیں تو ان کے لیے ہمارا مجوہ نعرہ ہے،
’بھائی کی کچھ عزت رکھ لو پیارے ووٹر تم ہی تو ہو‘۔
’میں اور عمران خان مل کر حکومت بنائیں گے‘ کی شیخی بگھارنے والے شیخ رشید اپنی اور عمران خان کی ’مخلوط حکومت‘ کے لیے یہ نعرہ لگاسکتے ہیں،
’ہم حکومت میں آئے کے آئے، پھر بس میں تم اور ایک کپ چائے‘۔
بلیک بیری اور عمران کے ساتھ عائشہ گلالئی کا نام خود بہ خود ذہن میں آجاتا ہے۔ بطور انتخابی امیدوار ان کا نعرہ ہونا چاہیے،
’کسی پارٹی میں جانا ذرا سوچ کے سمجھ کے، سیل فون سے ذرا بچ کے، سیل فون سے ذرا بچ کے‘۔
تبصرے (2) بند ہیں