شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی
سیاسی چالوں کا ماہر
تجزیہ کار سہیل سانگی کا تبصرہ
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی کی سربراہی آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آگئی اور تب سے وہ ملک کے سیاسی میدان میں انتہائی اہم کردار کر رہے ہیں۔
اہلیہ کے قتل کے بعد زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، یہ وہ وقت تھا کہ جب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سندھ میں علیحدگی پسند بینظیر بھٹو کے قتل پر مشتعل ہوسکتے ہیں۔
ایک سینئر رکن پارلیمنٹ نے ایک بار کہا تھا کہ زرداری کے ذہن کو سمجھنے کے لیے سیاسی چالبازی کے ہنر کا ماہر ہونا ضروری ہے، مشکل صورتحال سے نمٹنے کی کمال مہارت کی وجہ سے لوگوں کو ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
2008 سے انہوں نے سیاسی مخالفین کے ساتھ معاہدے کرنے کی زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا، چاہے پھر وہ سیاسی مخالف نواز شریف ہو، گجرات کے چوہدری ہوں یا پھر متحدہ قومی موومنٹ ہو۔
وہ زرداری ہی تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نواز شریف کو اس وعدے کے ساتھ قائل کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیں گے، 2008 میں نواز شریف اور ان کے درمیان مری معاہدہ بھی ہوا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت کے باوجود مفاہمتی پالیسی کے تحت متحدہ قومی موومنٹ کو مخلوط حکومت میں اپنا اتحادی بنایا۔
جب مرکز میں نواز شریف کے ساتھ اتحاد زیادہ عرصہ ٹک نہ سکا، تو آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) کو اپنا اتحادی بنالیا، حتیٰ کہ کچھ عرصہ پہلے ہی پیپلز پارٹی کے بے نظیر کے قتل میں ان کے مبینہ کردار کی وجہ سے مسلم لیگ (ق) کو قاتل لیگ پکارا تھا۔
اگرچہ اقتدار کی تمام تر مدت میں آصف زرداری کو امتحانوں اور دشواریوں کا بھرپور سامنا رہا، مگر انہوں نے کبھی بھی تصادم کا راستہ نہیں اپنایا، ان کا اتحادی فارمولا آخری وقت تک قائم رہا اور ان کی حکومت میں پارلیمنٹ کی مدت کی تکمیل پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ سے کم نہیں تھی۔
18ویں ترمیم کی منظوری اور 7واں این ایف سی ایوارڈ بھی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کا نتیجہ تھا۔
پیپلز پارٹی ایک نئی حکمتِ عملی کے ساتھ کام کر رہی ہے، اب لوگوں کے لیے پارٹی کا چہرہ بلاول بھٹو زرداری ہیں، جنہیں سیاسی مخالفین کو جارحانہ انداز میں للکارنے کا کام دیا گیا ہے، فریال تالپور کو سندھ کے معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے, قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اب زرداری آزاد ہیں۔
ہم نے اس کا نتیجہ بھی دیکھا کہ جب بلوچستان حکومت کو غیرمستحکم کرنے اور پھر اس کی جگہ نئی حکومت کے قیام میں پیپلزپارٹی نے اہم کردار کیا۔
2018 کے اتنخابات کے بعد ممکنہ طور پر پارلیمنٹ میں کسی بھی واضح اکثریت نہیں ہوگی, اس طرح زرداری کو حکومت سازی کے فیصلے میں اہم کردار حاصل ہوگا۔
زرداری سیاست اور پیپلزپارٹی کو کامیابی دلوانے کے ایک نئے ماڈل کے خالق ہیں، یعنی الیکٹیبلز کے ذریعے کامیابی، یہ طریقہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی طرزِ سیاست سے متضاد ہے کیونکہ وہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ مانتے تھے۔
اہم معاملات پر موقف
پیپلز پارٹی کے سربراہ ہندوستان سے بلاتعطل مذاکرات کے بھی حامی ہیں، تاکہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر حل کر سکیں، پاکستان کے پڑوسی ملک کے ساتھ امن کے داعی کے طور پر صدر زرداری نے ایک بار پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پہلے استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا، جو کہ پاکستان کے سالہاسال سے موجود دفاعی ڈاکٹرائن کے خلاف تھا۔
یہ زرداری کے ایٹمی ہتھیاروں کی وسیع تر مخالفت کا حصہ ہے، وہ ان کے استعمال کے سخت مخالف ہیں جبکہ انہوں نے بار بار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکان کو رد کیا ہے۔
زرداری کی صدارت اور پی پی پی کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ دیا، جس سے صدر کے اہم اختیارات میں کمی ہوئی اور منتخب حکومتیں تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار واپس لے لیا گیا، ترمیم کے تحت کئی وزارتوں کو صوبوں تک منتقل کر دیا گیا، جس سے مرکز کی طاقت میں کمی ہوئی اور اکائیوں کو مزید اختیار ملا۔
زرداری اور ان کی پارٹی کا 2008 میں حکومت بناتے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پہلا ٹاکرا تب ہوا جب انہوں نے انٹرسروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کو وزارتِ داخلہ کے براہِ راست ماتحت لانے کی کوشش کی، فیصلے کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں پی پی پی حکومت کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کئی حلقوں کے درمیان شدید تناؤ کی وجہ سے اور بے پناہ بیک چینل کوششوں کے بعد اس فیصلے کو واپس لینا پڑا، ان کی پارٹی کو 2008 سے 2013 تک کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں کچھ کو اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے بھی قرار دیا گیا مگر زرداری اور پیپلز پارٹی اپنا دور پورا کرنے میں کامیاب رہے۔
پی پی پی کے سربراہ نے ایک دفعہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جون 2015 میں خیبر پختونخوا اور فاٹا میں پارٹی کے عہدیداران سے گفتگو کرتے ہوئے زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی جماعتوں کی کردار کشی سے باز رہنے کے لیے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر آپ لوگ نہ رکے تو میں پاکستان کے قیام سے اب تک کے ملزم جنرلز کی فہرست لے کر آؤں گا‘، انہوں نے اپنے الفاظ میں ’فوجی ذہنیت‘ کو پاکستان کی سست رفتار ترقی کا ذمہ دار قرار دیا۔
مگر بعد میں زرداری نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی، یہ ان کے سابقہ مؤقف سے مختلف تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے ہوتے ہوئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کو غیر منصفانہ طور پر ہدف بنایا جائے گا۔
مئی 2017 میں زرداری نے باقاعدہ طور پر مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اپنی مفاہمت کی پالیسی ختم کرتے ہوئے کہا کہ اب پارٹی مفاہمت نہیں بلکہ ‘مزاحمت کی سیاست’ کرے گی۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ نے سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی 2017 میں نااہلی و برطرفی کی متواتر حمایت کی ہے، اسی سال کے شروعات میں انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو “گزشتہ انتخابات میں ہمارا مینڈیٹ چرانے والا قومی چور” قرار دیا تھا، انہوں نے نواز شریف کو ہٹلر سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ کو ملک کی اقتدار کی سیاست سے باہر نکالنے کا وقت آ چکا ہے۔
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حامی زرداری سمجھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے کئی مسائل کا حل سرائیکی صوبے کے قیام میں ہے، اسی سال کے شروعات میں ایک ورکرز کنونشن سے سرائیکی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب سرائیکی صوبے کے قیام میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں، ایک نئے صوبے کا قیام جنوبی پنجاب کے کئی مسائل کو حل کر دے گا۔
اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق زرداری کا کہنا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اس منصوبے کا تصور پیش کیا، واضح طور پر مسلم لیگ (ن) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعے کون اس منصوبے کا کریڈٹ لیتا ہے۔