پاکستان مسلم لیگ (ن)
ایک قابل وارث؟
تجزیہ کار اشعر رحمن کا تبصرہ
نواز شریف سے چند برس چھوٹے شہباز شریف درحقیقت میاں صاحب کے سیاسی جڑواں ہیں، آئندہ انتخابات میں ان کو توازن قائم رکھنے کا مشکل ترین کام انجام دینا ہوگا۔
انہیں نواز ورثے کے لائق فائق وارث کے طور پر نظر آنے کے ساتھ ساتھ اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے ایک ایسا بیانیہ مرتب دینا ہوگا، جو نواز شریف اور مریم کے خلائی مخلوق مخالف نعرے سے بالکل جدا ہو۔
ووٹروں اور پارٹی حلقوں کی نظروں میں، ایک زاویے سے، انتخابات میں شہباز کی قدرو قیمت کا اندازہ اپنے بھائی کے ورثے کو آگے بڑھانے کی ان کی صلاحیت سے لگایا جائے گا۔
تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ پوری طرح سے اپنے بڑے بھائی پر منحصر ہیں۔
یہ باہمی طور پر سود مند تعلقات رہا ہے، شہباز شریف نے ایک عرصے سے اپنے بڑے بھائی کے لیے پرکشش ترقیاتی کاموں کی کافی تصویریں فراہم کرنے میں بڑی مدد کی ہے، وہ ایک ایسے ’پوسٹر بوائے‘ ہیں، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترقیاتی کاموں کے ماڈل کو بہتر انداز میں فروغ دے سکتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے، جیسے نواز شریف کے لیے اب شہباز کا احسان اتارنے کا وقت آچکا ہے، انہیں یہ کوشش کرنی ہوگی اور لوگوں کو یہ دکھانا ہوگا کہ وہ وزارت عظمی کے عہدے پر اپنے جانشین کے طور بھائی کے پیچھے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے ہیں، خاص طور پر ملک کے ان حصوں میں جہاں شہباز کے ترقیاتی کاموں کی رفتار کا لوگوں نے صرف سن رکھا ہے اور ’بدقسمتی‘ کے ساتھ ان کی حکومت سے براہ راست فیض یاب نہیں ہوئے۔
ایسی بے شمار تبدیلیاں ہیں، جو ناممکن ہیں، مگر اہم تصور کی جاتی ہیں، شہباز شریف کے خیرخواہ انہیں مشورہ دیں گے کہ وہ اپنا جذباتی انداز چھوڑے بغیر نواز شریف جیسا پروقار اور بے تاثر چہرہ بنائے رکھیں، بالکل ایسے جیسے کمان ایک بھائی سے دوسرے بھائی کے ہاتھوں میں ہی گئی ہے۔
کراچی میں اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر ہی ہونے والی غلطی بھی ان کے لیے ایک یاد دہانی ہے، جہاں انہوں نے بے وجہ، نہایت غیر ضروری شیخی کے ساتھ اپنی حس مزاح کے ذریعے ووٹرز کے دل جیتنے کی تباہ کن کوشش کی۔
انہیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دیگر شہروں کو لاہور میں بدلنے کے وعدے کس طرح وہاں کے لوگوں کو خوش کرنے کے بجائے ٹھیس پہنچا سکتے ہیں، وہی لوگ جنہیں ترقی یافتہ بنانے کے لیے شہباز شریف بے قرار ہیں۔
اہم معاملات پر موقف
تین دفعہ وزیرِ اعلیٰ رہنے والے اور اتفاق گروپ آف کمپنیز کے حصے دار، کامیاب کاروباری شخصیت شہباز شریف کو ایک مضبوط اور پرعزم شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو ایک قابل منتظم بھی ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے قابلِ دید کامیابی حاصل کی ہے جبکہ پنجاب کے میٹرو بس منصوبوں کو ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے قرار دیا جاتا ہے۔
وہ کئی علاقوں میں کروائے جانے والے تعمیراتی اور ترقیاتی کام پر فخر کرتے ہیں، اور انہیں لاہور کی ترقی پر بھی بہت فخر ہے۔ چند ہفتے قبل انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “پشاور اور کراچی کے لوگو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اگلے انتخابات میں ہمیں ووٹ دیا تو ہم کراچی، پشاور، سندھ، کے پی اور بلوچستان کو ویسی ہی ترقی کے لیے دن اور رات کام کریں گے جو کہ لاہور اور پنجاب میں نظر آتی ہے۔”
ماضی قریب اور ماضی بعید میں اپنے بھائی کی مشکلات، جن کی وجہ سے شہباز شریف کو جلاوطن بھی ہونا پڑا، کے باوجود شہباز شریف نواز شریف سے وفادار رہے ہیں۔
مارچ 2018 میں بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ “مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ہی وہ واحد پاکستانی سیاستدان اور رہنما ہیں، جنہیں جناح کا سیاسی وارث کہا جا سکتا ہے، نواز شریف جیسا قائد ملنا ہماری خوش قسمتی ہے۔”
نواز شریف، جن کی مشکلات کا ذمہ دار اکثر ‘ناراض اسٹیبلشمنٹ’ پر ڈالا جاتا ہے، سے وفاداری کے باوجود شہباز شریف سول ملٹری تعلقات کے معاملے پر اپنے بھائی کے سخت گیر مؤقف کے برخلاف ایک نرم رویے کے حامل نظر آتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر کا کہنا تھا کہ “سویلین اور ملٹری حکام کو پاکستان کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے۔”
شہباز شریف اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں خود کو وزیر اعلیٰ کہلوانے کے بجائے خادم اعلیٰ کہنا پسند کرتے تھے۔