تحریک لبیک پاکستان
’فاتح یا فتح کو نقصان پہنچانے والا‘
تجزیہ کار اشعر رحمن کا تبصرہ
خادم حسین رضوی ایسی شخصیت ہیں، جن پر نظر رکھنی ہوگی، چاہے انہیں ابھی تک عام انتخابات میں فاتح یا کھیل خراب کرنے والے کے طور پر اپنی کارکردگی ثابت کرنی ہے، مگر وہ فیض آباد دھرنے کے ذریعے فخریہ طور پر ریاست کو اپنے گھٹنوں پر جھکا کر طاقت کا اظہار کر چکے ہیں۔
وہ اس بات کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں کہ ان کی کمان میں کئی گروہ ہیں اور یہ گروہ حال ہی میں لاہور کے ساتھ ساتھ چکوال کے ضمنی انتخابات میں بھی سرگرم تھے۔
کیا خادم حسین رضوی انتخابات میں بھی ان حربوں کا استعمال کریں گے، جو کہ سیاست میں ان کا کردار متعین کرنے کے لیے اہم ہے؟
کئی لوگوں کو امید ہوگی کہ مرکزی دھارے کی پاکستانی سیاست میں داخلے کے بعد وہ اپنی اس شعلہ بیانی کو تھوڑا دھیما کر دیں گے، جس کی وجہ سے وہ 'خطاب کرنے والے دیگر افراد' سے ممتاز ہوتے ہیں۔
خادم رضوی کے لیے خطرہ یہ ہوگا کہ ان کی جانب سے نرم پڑنے کا شبہ بھی دیگر شعلہ بیانوں کو اپنے بیانیے سے ان کی جگہ لینے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
بریلوی شاخ، جس کی خادم رضوی قیادت کرتے ہیں، نے مسجد کو مرکزی دھارے کی سیاست میں داخلے کے لیے استعمال کیا ہے۔
مسجد کے نیٹ ورک کا نسبتاً خاموش استعمال خادم حسین رضوی کی بلند بانگ، جذباتی اور تقریباً باقاعدہ اعلانات کے ساتھ ساتھ چلتا رہا ہے۔
اب انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ دیگر امیدواروں سے مقابلہ انہی تشہیری طریقوں کے استعمال سے کریں گے، جو وہ استعمال کرتے ہیں، یا پھر وہ جارحانہ قسم کی لڑائی کو ترجیح دیں گے، جو کہ ان کے وفادار پیروکار مختلف حلقوں میں استعمال کر رہے ہیں۔
خادم حسین رضوی کی کمان میں موجود گروہوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ عوام میں افراتفری کیسے پھیلائی جائے۔
مثال کے طور پر 2002 میں لاہور کے ایک حلقے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار اعتزاز احسن کو ایک نامعلوم بریلوی امیدوار بس شکست دیتے دیتے رہ کیا تھا، جس کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔
جھنگ میں 1970 کی دہائی میں یادگار سُنی 'نشاۃِ ثانیہ' اور حالیہ بریلوی چیلنج کے درمیان موازنہ ایک اچھی بحث ہوگی مگر یہ ہم عام انتخابات کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔
فی الوقت ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس سیاسی گروہ نے اپنے مخالفین کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ مقابلہ پلٹنے کی قوت رکھتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنے حق میں بھی مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اہم معاملات پر موقف
خادم حسین رضوی خود کو ختمِ نبوت اور توہینِ مذہب کے قانون یعنی تعذیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی کا محفاظ شمار کرتے ہیں۔
انہوں نے ختمِ نبوت کے حلف نامے میں ترمیم کے خلاف اسلام آباد میں فیض آباد انٹرچینج پر 20 روزہ طویل دھرنا دیا تھا، دارالحکومت میں دھرنے کا اختتام معاہدہ فیض آباد کے بعد ہوا، جس میں فوج نے ثالث کا کردار ادا کیا۔
کراچی سے انتخابی مہم کے آغاز کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اعتماد ہے کہ ختمِ نبوت پر یقین رکھنے والے ہمارا ساتھ دیں گے‘۔
تحریکِ لبیک پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بھی بنانا چاہتی ہے۔
جب ان سے ایک رپورٹر نے منشور کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا منشور وہی ہے، جو اسلام کا منشور ہے، ہماری پوری جدوجہد ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے ہے‘۔
اہلِ سنت کے بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے خادم حسین رضوی نے بریلویوں کے مفادات کے تحفظ کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔
ڈان اخبار کے میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے تحریک لبیک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’بریلویوں کو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے تک جبر و استبداد کا نشانہ بنایا گیا اور اب معاملہ الٹ سمت میں جانا شروع ہو گیا ہے‘۔