پاکستان جسٹس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی
تجزیہ کار عدنان رسول کا تبصرہ
ایک باغی سے اجنبی تک
جسٹس افتخار چوہدری حقیقتاً وہ پہلے چیف جسٹس تھے جنہوں نے جوڈیشل ایکٹویزم کی حمایت کی اور عدلیہ کی آزادی کے لیے جگہ بنائی۔
وکلا تحریک کے ذریعے ان کی جدوجہد نے ایک آمر کو اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا لیکن جمہوریت کو اپنا کام کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے بالآخر ان کی جدوجہد داغدار ہوگئی۔
10 برس بعد داغدار ساکھ کے ساتھ ان کے پاس نہ اختیار ہے اور نہ ہی کوئی پیش رو۔
سیاسی کارکردگی
- افتخار محمد چوہدری نے کبھی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کسی حکومتی عہدے پر تعینات رہے۔
بحیثیت چیف جسٹس اور سیاستدان اہم معاملات پر مؤقف
افتخار چوہدری نے دہشت گردوں کے خلاف ٹرائل کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی۔ انہوں نے 2014 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’فوجی عدالتوں کا قیام غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، آئین کا بنیادی ڈھانچہ آزاد عدلیہ کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آزاد عدلیہ کی موجودگی میں فوجی عدالتیں قائم نہیں ہوسکتیں‘۔
افتخار چوہدری نے پاکستانی شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے میں ملوث حکام کو گرفتار کرنے اور لاپتہ کیے جانے والے افراد کو عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیے۔
- ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا کوئی قانون نہیں ہے جو ملک میں شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی اجازت دیتا ہو، اگر کسی فرد کو حراست میں لینے کی ضرورت ہو تو وزیراعظم کو اس حوالے سے قانون ساز کرنی چاہیے، تاہم اس وقت تک جو ہورہا ہے وہ غیر قانونی ہے‘۔
افتخار چوہدری نے پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری سے متعلق 2006 میں دیے گئے عدالتی فیصلے کو منسوخ کیا اور اس فیصلے سے حکومت دباؤ میں آگئی جبکہ انہوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تمام عمل ’واضح کررہا ہے کہ یہ قانون کی انتہائی خلاف ورزی اور بے قاعدگی ہے‘۔
ان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے ریکو ڈک اور تانبے کی کانوں کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ معاہدہ ملک کے قانون کے متصادم ہے۔
ان کی سربراہی میں قائم ایک اور بینچ نے فیصلے میں کہا کہ آئین تمام حقوق کی اجازت دیتا ہے جس میں وراثت اور اپنی مرضی کے پیشے کو اپنانا شامل ہے۔