• KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
شائع June 29, 2018 اپ ڈیٹ July 30, 2018

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کا تعلق تو کسی اور ملک سے ہوتا ہے، مگر وہ کسی اور ملک جاکر وہاں کے کسی مقام میں لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیتے ہیں۔

ایسی ہی ایک کہانی جرمنی سے تعلق رکھنے والی گرافک ڈیزائنر ڈاکٹر سینتا سِلّر کی ہے، جنہوں نے ایک پاکستانی گاﺅں میں لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔

پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں واقع گاﺅں 'ٹھٹہ غلام کا دھیروکا' میں ڈاکٹر سینتا سِلّر کو گڑیاﺅں کے گاﺅں کی ملکہ سمجھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سینتا سِلّر اس گاﺅں میں جاری پاک جرمن ترقیاتی منصوبے کی بانی ہیں، جس کا آغاز 25 سال قبل ویمن آرٹ سینٹر نامی ایک دستکاری مرکز سے ہوا۔

وہ خود بتاتی ہیں کہ ' مجھے ٹھٹہ غلام کا دعوت نامہ ملا تھا، وہاں جانے کا مقصد اس گاﺅں کی ترقی کی خواہش بنی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ' میں وہاں اپنا خرچہ خود اٹھاتی تھی، تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں، مجھے دن میں ایک مرتبہ بہت لذیذ کھانا دیا جاتا، مجھے چولہے کے پاس بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی جبکہ یہ ایک بہت مختلف احساس تھا، وہاں سڑکیں نہیں تھیں، نہ بجلی تھی اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ اس گاﺅں میں بنیادی سہولیات نہیں تھیں'۔

ڈاکٹر سینتا سِلّر 1990 میں پہلی بار اپنے شوہر کے ہمراہ ٹھٹہ غلام کا دھیرو کا آئیں اور گاﺅں کے باسیوں کی میزبانی سے متاثر ہوکر انہوں نے اس جگہ کی ترقی و بہبود کا ارادہ کرلیا۔

ان کے بقول ' مجھے ایسی شے کی تلاش تھی جو کہیں بھی ہو، میں بازاروں میں گئی اور ڈھونڈا کہ وہاں کئی ایسی شے موجود نہیں، میں نے دیکھا کہ وہاں ہاتھ سے بنی ایک گڑیا بھی دستیاب نہیں تھی'۔

ڈاکٹر سینتا سِلّر کا یہ ترقیاتی منصوبہ گاﺅں کی زندگی میں مثبت انقلاب لے کر آیا۔

اب اس گاﺅں میں ہاتھ سے بنی 100 سے زائد مختلف طرح کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ' میں نے اجرک کے نمونوں پر شیشے کی کڑھائی والے کرسمس کارڈز تیار کروائے، سنہری رنگت والے یہ کارڈز اتنے خوبصورت تھے کہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوگئے'۔

بحثیت گرافک ڈیزائنر سینتا سِلّر کو دستکاری کے نمونوں میں شروع سے ہی گہری دلچسپی تھی۔

وہ ٹھٹہ غلام کا دھیروکا کی خواتین اور لڑکیوں کی کشیدہ کاری میں مہارت سے بے حد متاثر ہیں۔

انہوں نے منصوبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ' اس منصوبے کے تحت اگر 100 روپے کی آمدنی ہو تو 30 روپے دستکار خواتین کو دیے جاتے اور 30 روپے نئے سامان کی خریداری کے لیے مختص کیے جاتے جبکہ باقی اسکول کی عمارت کی تعمیر کے لیے رکھ لیے جاتے تھے، وہاں پر کوئی عمارت نہیں تھی، یعنی ہمیں کارخانے تعمیر کرنے تھے اور آہستہ آہستہ خواتین کو ایسا ماحول فراہم کرنا تھا، جہاں وہ تسلی اور آرام و سکون کے ساتھ کام کرسکیں'۔

اب ویمن آرٹ سینٹر میں خواتین گڑیائیں اور کئی دیگر انتہائی اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرتی ہیں۔

ڈاکٹر سینتا سِلّر کے مطابق ' اگر کوئی خاتون تنہا اور خودمختار طور پر اعلیٰ معیار کا کام مکمل کرسکتی ہے، جسے 'فرسٹ کلاس' نوعیت کا معیاری کام کہا جاسکتا ہے، تو ایسی خواتین کو گھر بیٹھے کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے'۔

اس ویمن آرٹ سینٹر کو سینتا سِلّر کے اعزاز میں Senta Siller Art Center کا نام دیا جاچکا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ' اس عمل کے دوران لڑکیاں باہمت بھی ہوگئیں، وہ مجھے کہنے لگی کہ سینتا تم جیسے پہلے یہ کام سر انجام دو گی، ہم ویسے ہی اس کو دہرائیں گے، اب ہمیں کوئی ڈر نہیں ہے'۔

یہاں بننے والی گڑیائیں پاکستان کے مختلف علاقوں کی ثقافتوں کی آئینہ دار ہیں۔

جرمن خاتون نے پاکستان کی تعریف ان الفاظ میں کی کہ ' مجھے پاکستان بہت پسند آیا، کیونکہ لوگ بہت زیادہ دوستانہ مزاج رکھتے ہیں، جبکہ موسم میرے لیے اچھا اور ایک دم گرم ہے، میں پاکستان سے بے حد متاثر ہوئی ہوں'۔

ڈاکٹر سینتا سِلّر ریٹائرمنٹ کے بعد برانڈن برگ میں ناﺅن نامی چھوٹے سے شہر میں رہائش پذیر ہیں۔

آخر میں وہ کہتی ہیں کہ 'یہ ترقیاتی مدد ایک معاشرے کی نچلی سطح سے اوپر کی جانب تھی، نہ کے 5 لاکھ کی امداد بالائی سطح پر لگائی جائے اور نچلی سطح تک کچھ بھی نہ پہنچ پاتا‘۔


یہ تحریر ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کے اشتراک سے تحریر کی گئی۔

تحریر: فیصل ظفر — ایڈیٹر : وقار محمد خان