این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں، آصف زرداری
سپریم کورٹ میں قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) کے حوالے سے دائر مقدمے میں سابق صدراور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے جواب جمع کرادیا۔
آصف علی زرداری کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ این آر او کو قانون بنانے میں میرا کوئی کردار نہیں تھا۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ سال 2007 میں این آراو قانون کے تحت مقدمات واپس لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
تاہم جب عدالت نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو واپس لیے گئے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے تھے، انہوں نے اپنے جواب میں مزید بتایا کہ انہیں فوجداری مقدمات میں عدالتوں کا سامنا کرکے رہائی ملی۔
یہ بھی پڑھیں: این آر او کیس: لارجر بنچ کی تشکیل
اس حوالے سے آصف زرداری کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ ان پرخزانے کولوٹنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کا کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا۔
سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے جواب میں آصف زرداری نے بتایا کہ میرے خلاف مخالفین نے سیاسی مقدمات بنائے تھے، جو دراصل مجھے اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش تھی۔
خیال رہے کہ فیروز شاہ گیلانی نامی شہری نے سپریم کورٹ میں ملک کے سابق صدور آصف علی زرداری اور جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف این آراو کے ذریعے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے حوالے سے پٹیشن دائر کی تھی۔
مزید پڑھیں: قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے پر زرداری، مشرف عدالت طلب
اس ضمن میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لائرز فاؤنڈیشن فار جسٹس کے صدر فیروز شاہ گیلانی کی جانب سے دائر پٹیشن میں فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے۔
فیروز شاہ گیلانی نے پٹیشن میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ غیر قانونی طریقے سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا جس کے حوالے سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں پہلے سے ہی فیصلے موجود ہیں۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرکے آئین معطل کیا اور این آر او کا اعلان کیا، جس کے تحت آصف علی زرداری اور دیگر سیاست دانوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
یہ بھی پڑھیں: ’فوج کا کسی این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے‘
یاد رہے کہ سابق اٹارنی جنرل قیوم نے جینیوا کے اٹارنی جنرل کو آصف علی زرداری کے خلاف کرمنل اور سول مقدمات کو کالعدم قرار دینے کے لیے خط لکھا تھا لیکن سپریم کورٹ نے 2009 میں اس حوالے سے فیصلہ سنایا کہ سابق اٹارنی جنرل قیوم نے مراسلہ ذاتی حیثیت میں لکھ کر ارسال کیا تھا جو رولز آف بزنس 1973 کے منافی ہے۔
واضح رہے کہ 7 جولائی 2012 کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد آصف علی زرداری سمیت این آر او سے مستفید ہونے والے 8 ہزار 500 افراد کے خلاف بد عنوانی کے مقدمات دوبارہ کھول دیے گئے تھے۔