سلطان کی واپسی، عثمانی تھپڑ اب کس کا مقدر؟
ترکی کے سلطان مراد چہارم نے 1634ء میں اپنے وزیرِاعظم پر حملہ کرنے والے 2 محافظوں کو تھپڑ رسید کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس تھپڑ کو تاریخ میں ’عثمانی تھپڑ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عثمانی تھپڑ ایسی دفاعی تکنیک ہے جس کے استعمال سے مدِمقابل کے سر کی ہڈی چٹک جاتی ہے اور وہ موقعے پر ہی مرجاتا ہے۔ یہ تھپڑ اگر کسی گھوڑے کو بھی رسید کردیا جائے تو وہ بھی زندہ نہیں رہ پائے گا۔
عثمانی تھپڑ تاریخ کے پردے سے ابھر کر ایک بار پھر ترک الیکشن میں نمودار ہوا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے الیکشن سے پہلے امریکا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ شام میں ترک افواج کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو عثمانی تھپڑ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
طیب اردوان نے پہلی بار خلافتِ عثمانیہ کا حوالہ نہیں دیا بلکہ اس سے پہلے بھی وہ خلافتِ عثمانیہ اور ترک قوم کی تاریخ پر فخر کا اظہار کرتے رہے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ رجب طیب اردوان کی سیاست ہی خلافت عثمانیہ کے احیاء اور ترک قوم پرستی پر کھڑی ہے تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
1994ء میں استنبول میں فٹ بال کے کھلاڑی نے اپنی شہرت کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور میئر استنبول کا الیکشن لڑا۔ ایک اسلامی جماعت کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والا یہ فٹ بالر رجب طیب اردوان تھا جو میئر کے الیکشن میں کامیاب رہا۔ یہ نوجوان اونچی اڑان سے پہلے ہی سیاست سے باہر ہوگیا کیونکہ 1998ء میں میئر کا عہدہ چھن گیا اور سیاست پر پابندی لگ گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ 4 ماہ کی قید بھی ہوئی کیونکہ اس نے ایک سیاسی اجتماع میں ایسی نظم پڑھی تھی جو نظامِ حکومت میں اسلام کے کردار پر تھی اور سیکولر ترکی میں ایسا کوئی بھی اقدام ناقابلِ برداشت تھا۔
اس پابندی کے بعد رجب طیب اردوان نے سیاسی نظریات کا کھلا پرچار ترک کیا اور خود کو قدامت پسند جمہوری سیاستدان کے قالب میں ڈھالا جو آزاد معاشی پالیسیوں کا حامی تھا۔ 2001ء میں اردوان نے ایک مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے ساتھ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔
2002ء میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی الیکشن جیت گئی۔ حکومت بنتے ہی پارٹی نے رجب طیب اردوان پر لگی سیاسی پابندی ہٹادی اور یوں 2003ء میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں وہ رکن پارلیمنٹ بن گئے۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی ترکی کی سیاست میں اردوان ایک بار پھر اونچی اڑان بھرنے کو تیار تھے۔ مارچ 2003ء میں وہ ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوگئے اور 2014ء میں ملک کے صدر بننے تک اردوان وزارتِ عظمیٰ پر فائز رہے اور اقتدار اب تک ان کے ہاتھ میں ہے۔ حالیہ انتخابات میں کامیابی نے انہیں مزید 5 سال بلاشرکت غیر طاقتور ترین حکمران بنا دیا ہے۔
جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ابتداء میں اپنے سیاسی اور اقتصادی ایجنڈے پر کاربند رہی۔ جس کے بعد 2004ء میں 5 نکاتی اصلاحاتی پیکج منظور کیا گیا جس کے تحت ترکی کو یورپی یونین کے نظام کے قریب تر لایا گیا۔ ان اصلاحات میں سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کا قانونی تحفظ، آزادی اظہار کی ضمانت اور سیاست میں فوج کی مداخلت میں کمی جیسے اقدامات شامل تھے۔
پچھلے 10 سال کے دوران اردوان اور ان کی جماعت نے ابتدائی ایجنڈے سے ہٹ کر ایسے اقدامات کیے جن کی بدولت اردوان کو ان کے مخالفین نے ڈکٹیٹر قرار دینا شروع کردیا۔ ترکی کے آئین میں بڑی تبدیلیاں متعارف کرائی گئیں اور اختیارات صدر کی ذات میں مرکوز کردیے گئے۔ خارجہ پالیسی میں بھی نمایاں بدلاؤ آیا، حکمران جماعت نے قوم پرست پالیسیاں اپنائیں، مشرق وسطیٰ میں امریکا اور نیٹو کے مقاصد پر بھی ترکی نے اختلاف کیا۔
شام کی صورت حال نے امریکا اور نیٹو کے ساتھ ترکی کے اختلافات کو ہوا دی۔ ترکی نے شام میں امریکا کے حمایت یافتہ کرد جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا اور چند امریکی مخالف مذہبی گروپوں کو امداد دی، جس سے یورپ اور امریکا کے ساتھ ترکی کے تعلقات میں نمایاں تلخی پیدا ہوئی۔
صدر اردوان کی ان پالیسیوں کو امریکا اور یورپ سلطنتِ عثمانیہ کے احیاء کی کوششوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے امور میں ترکی کی مداخلت کو نہ صرف امریکا اور یورپ ناپسند کر رہے ہیں بلکہ عرب ریاستیں بھی ترک عزائم کو سلطنتِ عثمانیہ کا احیاء ہی تصور کرتی ہیں۔
امریکی کانگریس کو ترک صدر کا واشنگٹن کے ساتھ رویہ چبھنے لگا ہے اور ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔ کیپیٹل ہل میں سینئر ترک حکام پر ویزا پابندیوں کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ ترکی میں بنا اسلحہ درآمد کرنے پر پابندی بھی زیرِ غور ہے جبکہ ہاتھ سے بنے ترک ہتھیاروں کی امریکا میں کافی مانگ ہے۔ ترکی سالانہ 10 کروڑ ڈالر کے ہتھیار امریکا کو برآمد کرتا ہے۔
امریکی محکمہءِ خارجہ اب تک ان پابندیوں میں رکاوٹ ہے، جس کا خیال ہے کہ شام کے حوالے سے امریکی پالیسی میں ترکی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکی محکمہءِ خارجہ کو ڈر ہے کہ پابندیاں عائد کرنے سے ترکی روس کے مزید قریب چلا جائے گا اور ہوسکتا ہے کہ ترکی نیٹو کو بھی خیرباد کہہ دے۔
اسی خدشے کی بنا پر عثمانی تھپڑ والی دھمکی کے 2 دن بعد امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن انقرہ پہنچے تھے اور ترک صدر اور وزیرِ خارجہ سے ساڑھے 3 گھنٹے کی ملاقات کی۔ اس ملاقات سے تعلقات میں بہتری کی زیادہ امید نہیں بندھی کیونکہ دونوں ملکوں نے اختلافی امور پر 3 کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ کمیٹیوں کی تشکیل اختلافات کی گہرائی کو اجاگر کرتی ہے۔
ترکی کا مطالبہ ہے کہ امریکا انقرہ اور کرد ملیشیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے، امریکا کرد جنگجوؤں کے ساتھ نہ صرف تعاون بند کرے بلکہ انہیں دیا گیا اسلحہ بھی واپس لے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ داعش کو شکست کے بعد ترکی کے مطالبات پر غور کیا جاسکتا ہے۔ امریکا شام کے بارے میں واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ترکی کے مطالبات اور دھمکیاں برداشت کر رہا ہے۔
ترکی شام کے معاملے پر روس کے ساتھ مل کر مرضی کا تصفیہ چاہتا ہے۔ شام کے ساتھ کچھ علاقے پر ترکی پہلے ہی دعویدار بھی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جنگِ عظیم اول کے اختتام پر یہ علاقے اس سے زبردستی ہتھیائے گئے تھے۔ روس شام کے معاملے پر ترکی کے ساتھ مکمل اتفاق نہیں رکھتا، روس بشارالاسد کی قیادت میں متحدہ شام کا حامی ہے اور تصفیے میں کردوں کا کردار بھی چاہتا ہے۔
شام کے مسئلے پر ترکی کا صرف امریکا اور یورپ سے اختلاف نہیں بلکہ شام کے تنازع میں شریک عرب امارات اور سعودی عرب بھی ترکی کی مشرقِ وسطیٰ میں دلچسپی سے پریشان ہیں۔ شام کے معاملے پر ہی سعودی عرب اور عرب امارات نے قطر کا مقاطعہ کیا تو ترکی قطر کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اس سے عربوں اور ترکی کے درمیان کشیدگی کی صورت حال پیدا ہوئی جو اب بھی برقرار ہے۔ عرب امارات اور ترکی کے درمیان قومی تفاخر کا بھی جھگڑا پیدا ہوا اور دونوں طرف سے تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا۔
شام ایران کے لیے بھی اسٹرٹیجک اعتبار سے بہت اہم ملک ہے۔ تمام عرب دنیا میں صرف اسد حکومت ایران کی حقیقی معنوں میں اتحادی ہے۔ تہران حکومت اور لبنان کی ایران نواز حزب اللہ تحریک کے مابین شام ایک اہم لنک ہے۔ تہران، دمشق اور حزب اللہ خود کو مغرب اور اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت سمجھتے ہیں۔
ترکی کے بارے میں عرب دنیا میں کس قسم کے خدشات پائے جاتے ہیں اس کا اظہار اس سال مارچ میں عرب اخبار الخلیج کے ایک ادارتی مضمون میں عرب کالم نگار علی جرادات نے کیا۔ انہوں نے لکھا کہ عرب اسپرنگ کے بعد ترکی قیادت کو غلط فہمی ہوئی اور انہیں لگا کہ مصر اور تیونس میں ’اخوان المسلمون‘ کی کامیابی حتمی اور فائنل ہے اور شام میں اخوان کامیابی کے دروازے پر کھڑی ہے۔ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی قیادت اخوانیوں کے توسط سے عرب علاقوں پر دوبارہ اختیار حاصل کرنے کا خواب دیکھنے لگی تھی کیونکہ ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی بھی نظریات اور توقعات کے اعتبار سے اخوانی پارٹی ہے‘۔
علی جرادات نے مزید لکھا کہ ’مصری قوم نے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اخوانیوں کی حکومت گرادی اور تیونس میں اکیلے حکومت بنانا اخوانیوں کی استطاعت کے باہر کی چیز تھی اور شام میں ان کی توقعات طوفان کی نذر ہوگئیں۔
ترکی کی اس وقت مصر و شام اور لیبیا کی منتخب حکومت کے ساتھ ٹھنی ہوئی ہے اور کسی حد تک عراق کے ساتھ بھی تلخی ہے، جس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ ترکی کی شرح نمو 2 اعشاریہ 5 سے گھٹ کر 1 اعشاریہ 6 تک پہنچ گئی ہے اور لیرہ کی مارکیٹ قدر 15 فیصد تک گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ترکی میں داخلی اختلافات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ کسی وقت بھی عسکری انقلاب کا عفریت واپس آسکتا ہے‘۔
حالیہ ترک انتخابات اور اردوان کی کامیابی کو سمجھنے کے لیے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آج کا ترکی مصطفیٰ کمال کے ترکی سے بے حد مختلف ہے۔ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے بھی ترک قوم پرستی کو ابھارا، جدت اور ترک قوم پرستی سے لگا نہ کھانے والے عناصر کو ترک معاشرے سے اکھاڑ پھینکا گیا، عرب رسم الخط اور لباس کو مٹا دیا گیا۔ حجاب اور اسکارف پر پابندیاں لگیں۔ اسلامی روایات کو بھی جدت کے خلاف سمجھا گیا۔ مذہبی آزادی برقرار رہی لیکن ریاست کو سیکولر قرار دیا گیا۔ ترک سیاست میں مذہب کا استعمال ممنوع قرار پایا۔ عدالتوں اور کمال ازم کی پیروکار حکومتوں اور فوج نے سیکولرازم کا تحفظ کیا۔
کمال اتا ترک کا ترکی ماڈرن ازم میں کئی یورپی ملکوں سے بھی آگے تھا، جیسے ترکی میں خواتین کو ووٹ کا حق فرانس سے ایک عشرہ پہلے ہی دے دیا گیا تھا۔ فرانسیسی خواتین کو یہ حق 1944ء میں ملا۔ ترکی نے 1963ء میں یورپی یونین کی رکنیت کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا، یورپی اکنامک کمیونٹی کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوئے، 1971ء، 1980ء اور 1997ء میں اقتدار پر فوج کے قبضوں نے اس عمل کو متاثر کیا۔ 1974ء میں قبرص پر ترکی کی فوج کشی بھی رکاوٹ بنی۔ یورپ بھی وعدہ خلافی کا مرتکب ہوتا رہا۔
2004ء میں ایک بار پھر ترکی کو یورپی یونین میں رکنیت کی دعوت دی گئی۔ رجب طیب اردوان کی حکومت نے رکنیت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اصلاحات کا بھی آغاز کیا۔ لیکن پھر یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں انتہاپسندی نے سر اٹھایا، یورپ کی کئی سیاسی جماعتیں ترکی کی رکنیت کے خلاف ہوگئیں۔
یورپ کے رویے کو دیکھتے ہوئے 2007ء میں رجب طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈہویلپمنٹ پارٹی بھی یورپی یونین کی مکمل رکنیت کے ہدف کے حصول سے پیچھے ہٹ گئی اور اردوان ترکی کے نئے کردار کی تشکیل میں جت گئے۔ انہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کی روایات اور اسلامی ثقافتی ورثے کو فروغ دیا اور ترکی کو مشرقِ وسطیٰ اور اسلامی دنیا کی طاقت بنانے اور منوانے کے لیے کام کیا۔ اردوان کی نئی پالیسیوں کو ترکی کے دیہی اور قدامت پسند علاقوں میں قبولیت ملی اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی جڑیں مضبوط ہوتی چلی گئیں۔
خود کو ترکی کے سیکولرازم کے تحفظ کا ذمہ دار سمجھنے والی فوج میں بھی طیب اردوان نے ’تطہیری عمل‘ یا پاکیزہ کرنے کا عمل شروع کیا۔ جن افسران کے بارے میں شبہ تھا کہ وہ اسلامی پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے انہیں عہدوں اور ملازمت سے ہٹا دیا گیا۔ فوجی افسروں پر بغاوت کے مقدمے بنے اور کہا جاتا ہے کہ جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت انہی اقدامات کا ردِعمل تھی۔
صدر اردوان نے ناکام فوجی بغاوت اور باغیوں کی مدد کے الزام میں بڑے پیمانے پر فوجی اور سرکاری افسروں کو گرفتار کرا دیا۔ 2 ہزار صحافی بھی گرفتار ہوئے، 50 میڈیا ہاؤسز کو تالے لگے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد مقبولیت کی انتہا کو چھوتے اردوان نے آئینی ترامیم کے لیے ریفرنڈم کرایا، شہری علاقوں میں تو بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی لیکن دیہی علاقوں کی وجہ سے اردوان ریفرنڈم میں کامیابی سے ہمکنار ہوگئے۔
اب ایک بار پھر صدر بننے کے بعد اردوان ریفرنڈم سے حاصل اختیارات کو بروئے کار لاسکیں گے اور ان کے اختیارات کو پارلیمنٹ بھی چیلنج نہیں کرسکے گی یہی وجہ ہے کہ دنیا اردوان کو خوف اور تجسس سے دیکھ رہی ہے کہ ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ اگر اردوان عثمانی سلطنت پر تفاخر اور قوم پرستی سے معمور پالیسیاں جاری رکھتے ہیں تو اصل خوف جنگِ عظیم کے بعد ہونے والے معاہدوں کے ٹوٹنے کا ہے۔
19ویں صدی کے وسط سے 20ویں صدی کے آخر تک پہلے سلطنتِ عثمانیہ اور پھر ترکی سوویت یونین اور روس کی جارحیت سے بچنے کے لیے مغرب پر انحصار کرتے تھے، اب یورپ ازخود ترکی کو ٹھکرا چکا جبکہ روس سے خطرہ باقی نہیں رہا۔ ان حالات میں ترکی کی خارجہ پالیسی زیادہ آزاد ہے۔ ترکی کی شام میں اپنائی گئی پالیسی اسی آزاد خارجہ پالیسی کی مظہر ہے۔
اس آزاد خارجہ پالیسی کے تحت ترکی خود کو مغرب کے بنائے گئے بین الاقوامی نظام کے قوانین کا پابند نہیں سمجھتا۔ سیکیورٹی کے لیے بھی مغرب پر انحصار ختم ہوچکا۔ ان حالات میں ترکی کو مغرب کی شرط پر اپنائے گئے سیکولرازم کی ضرورت نہیں رہی اور وہ اسلامی معاشرے، ثقافت اور اندازِ زندگی کو زیادہ تیزی سے اپنا رہا ہے۔ کمال ازم کو مسترد کرنے اور اسلام پسندی میں ترکی کس حد تک آگے جائے گا ؟ اس کا جواب بھی جلد مل جائے گا۔
اب تک کے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی خود کو مسلم دنیا کی بڑی طاقت کے طور پر منوانا چاہتا ہے۔ ترکی تقریباً ایک صدی بعد قائدانہ کردار میں واپسی کے لیے تیار ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ رجب طیب اردوان 21ویں صدی کے سلطان ہوں گے اور ترکی دوبارہ سلطنت عثمانیہ بن جائے گا۔
تبصرے (8) بند ہیں