• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

شہر اور شور

شائع July 11, 2013

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.


is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/100576222" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


شہر کا شور کہ جس میں آوازیں بھی کھو جاتی ہیں، دب جاتی ہیں یا پھر تیزی سےبھاگتے دوڑتے لوگوں کے پاؤں تلے کچلی جاتی ہیں۔

نا صرف آوازیں، صدائیں، فریادیں بلکہ احساسات اور جذبات بھی شہروں میں روند دیے جاتے ہیں۔ اس لیے شہروں میں آکر لوگ آوازوں کے جمِ غفیرمیں کہیں کھو جاتے ہیں۔ اپنی شدھ بدھ تو رہتی نہیں، اپنے اِردگِرد کو بھی بھُلا بیٹھتے ہیں۔

گاڑیوں کے ہارن، بسوں میں چلتی بے ہنگم ریکارڈنگ، بغیر سائلنسر کے چلتی موٹر سائیکلیں اور رکشوں کا شور جو ایک کان سے داخل ہوکر دوسرے کان سے جا نکلتا ہے۔

ہر پل دوڑتی بھاگتی ایمبولینسوں اور پولیس وینوں کے چیختے چلاتے سائرن کی آواز۔ کہیں نعرے تو کہیں احتجاج یا پھر کہیں سے تر تڑ چلتی گولیوں کی آوازیں جو کبھی غصے کے مارے تو کبھی خوشی میں بھی چلانے کا رواج بن گیا ہے۔ کہیں دن رات چلتے جنریٹر تو کہیں پانی کھینچنے کے لیے گھر گھر لگی موٹروں کا شور۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

ہر طرف سے چیختے چلاتے موبائل، کمپیوٹر بیپ یا پھر لاتعداد مسجدوں سے آتی اذانیں یا پھر مولوی صاحب کا وقت بے وقت لاؤڈاسپیکر کا استعمال۔ ٹی وی، ریڈیو جس سے کبھی دین کو خطرہ تھا اور اپنے مولوی حضرات مظاہروں میں ٹی وی سیٹ جلاکر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرتے تھے، اب اسی ٹی وی پر انہوں نے مستقل ڈیرے ڈال دیے ہیں اور شور کا ایک طوفان بپا کیا ہوا ہے۔

موسیقی جو کبھی مدھر ہوتی تھی، کانوں میں رس گھولتی تھی، اب ایک بے ہنگم شور میں تبدیل ہو چکی ہے۔ نا گانے والے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ نا ہی یہ معلوم پڑتا ہے کے کون سا ساز بج رہا ہے۔ ڈرامہ دیکھنے کی کوشش کریں تو سوائے چیخنے چلانے اور رونے دھونے کے کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔

رہے نیوز چینلز تو وہ تو ہیں ہی بریکنگ کے لیے سو آپ کے دماغ کی توڑ پھوڑ میں وہ بھی پورا حصّہ ڈالتے ہیں، آخر ریٹنگز کا سوال ہے.

بچے ٹاک شوز تو وہ بھی ہیں گھر بیٹھے دنگل دیکھنے کے لیے۔ پہلے جو لوگ گلی محلے میں لگائی بجھائی کرکے مزے لیتے تھے۔ اب انہیں ٹی وی چینلز نے لاکھوں کی تنخواہ پر رکھ لیا ہے۔

جو جتنی زیادہ گالیاں دلواسکنے کا ماہر ہے۔ جو اپنے مہمانوں کو نوچنے کھسوٹنے اور سب کے سامنے درگت بنانے اور بے عزت کرنے میں طاق ہے اس کا معاوضہ اس سے بھی زیادہ ہے۔

السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.
السٹریشن -- خدا بخش ابڑو --.

آجکل اس قبیل کے لوگ لاکھوں میں کھیل رہے ہیں اور قوم کو سستی تفریح کے ساتھ ساتھ اس کے اندر چھپی ہوئی نفرت اور کسی کو بے عزت ہوتا دیکھنے یا پھر کسی کو اذیت میں دیکھنے کی اندرونی خواہش کی تسکین کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ جو بے حسی اور ایک دوسرے سے لاتعلقی اور اذیت پسندی کا رجحان دن بدن بڑھتا جارہا ہے اور انسان حیوانوں کی طرح ایک دوسرے کو کچا چبا جانے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ سب ایک دن میں نہیں درجہ بدرجہ بڑھا ہے۔

کہنے کو تو ہم نفس کو قابو میں رکھنے اور اپنے غصے اور بھوک پر قابو کے لیے سال میں صرف ایک ماہ کا انتظار کرتے ہیں۔ لیکن پورا مہینہ تو دور کی بات، پہلے ہی دن ہم بے قابو ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو کچا چبا جانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ویسے توخاموشی خود عبادت ہے۔ لیکن ہماری عبادت بھی چیختے چلاتے مولوی کے شور میں کہیں دب جاتی ہے۔

یہ شور ہی ہے جو شہر کے لوگوں میں کرختگی بھردیتا ہے اور انکے اندر کے نازک نفیس جذبوں کو ماردیتا ہے اور ان میں بے حسی اتنی بھر دیتا ہے کہ اپنے اردگرد تو چھوڑیں انہیں اپنے اندر کا شور بھی سنائی نہیں دیتا اور انکی اپنی چیخیں بھی اسی بے حسی کی نذر ہوجاتی ہیں۔ سب کو صرف اپنی پڑی رہتی ہے۔ رمضان ابھی شروع بھی نہیں ہوا اور دو عورتیں امداد لینے کے چکر میں اپنی ہی جیسی نادار عورتوں کے پیروں تلے کچلی جا چکی ہیں۔

جب لوگ شہر کے شور سے دور سمندر کی طرف بھاگتے ہیں تو سمندر بھی بے چارہ سٹ پٹایا اور آئے لوگوں کے شور سے گھبرایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بجائے سمندر کی لہروں کے مدھر اور کومل گیت سننے کے، بھائی لوگ بڑے بڑے ڈیک لے آتے ہیں اور موسیقی کے نام پر شور سنتے ہیں اور اپنے اندر کے چھپے حیوان کو اور تقویت پہنچاتے ہیں۔

بہت سے ایسے بھی ہیں کہ جن کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں آگئی ہیں اور وہ سمندر کنارے انہیں اسپیڈ پر چلا کر پھر اچانک سے بریک مارتے ہیں اور پہیوں اور زمین کے گھسنے کی جو آواز پیدا ہوتی ہے اس سے مزہ اٹھاتے ہیں اور ایک دوسرے کی واہ واہ کرتے ہیں کہ کیا کمال کردیا! یہ عمل بھی مسلسل جاری رہتا ہے ایسے ہی جیسے یہ ٹی وی چینل آپ کے سر پر مسلسل بریکنگ نیوز کے نام پر ہتھوڑے چلا رہے ہوتے ہیں۔

عجیب نشہ ہے کہ جس میں اس قوم کو مبتلا کردیا گیا ہے۔ خوشی کی خبر سنائی دے، رمضان کا چاند دکھائی دے یا عید کا، کسی کی شادی ہو رہی ہے تو کسی کو بیٹا پیدا ہوا ہے یا پھر کرکٹ ٹیم نے غلطی سے ملک کو جتوادیا ہے۔ یا پھر کسی رہنما کے مرنے کی خبر جو انہی کے ہاتھوں مرا ہو جو اسکے سوگ کا اعلان کرتے ہیں۔

کوئی موقع ہو، دکھ کا یا خوشی کا، ہم نے اپنے جذبات کا اظہار گولیاں چلا کر ہی کرنا ہوتا ہے۔ لمحوں میں لاکھوں روپے گولیوں کی صورت نچھاور کردیتے ہیں۔

کوئی زمانہ تھا ایسے موقعوں پر پھول نچھاور ہوتے تھے، گلاب کے پانی کا چھڑکاؤ ہوتا تھا۔ اب نفاست، اور جمالیاتی ذوق نام کی چیز ہم نے کہیں اٹھا کر باہر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی ہے۔

کچرہ جو اب ہمارا اوڑھنا بچھونا بنتا جا رہا ہے۔ پارک ہو، مسجد ہو کہ گھر، کھانے کی جگہ ہو یا پینے کے پانی کی یا پھر اپنا سمندر، ہم کسی جگہ کو نہیں بخشتے۔

راہ چلتے، گاڑی چلاتے، موٹر سائیکل پر ہوں یا بس میں سب کُلیاں کرتے پھرتے ہیں۔ جو بھی کچھ ہے رنگ دیتے ہیں اور پھر اپنی تہذیب پر فخر بھی اتنا ہے کہ نام لو تو سارا شجرہ نکال دیتے ہیں۔

کچرہ میں نے پھینکنا ہے اور اٹھانا کسی اور کا کام ہے۔ یہ تو جی سرکار کا کام ہے۔ سرکار میں نہیں ہوں۔ سرکار میں جو ہیں وہ تو آسمان سے آئے ہیں۔ میرا کام تو ہے گندگی پھیلانا، صفائی تو ان کا کام ہے جن کو اس کام کے پیسے ملتے ہیں۔

میرا کام کیا ہے یہ مجھے جاننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں تو ایسا بے حس ہو گیا ہوں کہ ابلتے گٹر کے پاس بیٹھ کر بھی چائے پی لیتا ہوں، چاٹ کھا لیتا ہوں۔ بس میں جگہ نا ملی تو کیا ہوا چھت پر بھی سفر کرلیتا ہوں، گھر تو پہنچنا ہے۔

صبح اندھیرے ہی کام کے لیے نکلنا ہوتا ہے۔ بچے ہفتہ ہفتہ شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔ لیکن کیا کریں کام تو کرنا پڑتا ہے۔ نہیں تو یہ روکھی سوکھی جو بچوں کو کھلا پاتے ہیں وہ بھی نصیب نہیں ہوگی۔

زندگی ہے جو اس شور میں کٹ ہی رہی ہے گو کہ بجلی اور پانی بھی نہیں۔ گٹر ابلے پڑتے ہیں۔ کچرے کے ڈھیر ہیں اور شور ہے کہ دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

وہ جن کی یاداشت میں درخت، سبزہ، پانی اور سمندر کی لہروں اور پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں بسی ہیں۔ جنہیں معلوم ہے کہ خاموشی خود ایک عبادت ہے۔ وہ شاید ایک ایک کرکے یہ شہر چھوڑے جا رہے ہیں اور شہر ہے کہ کچرے کے ڈھیر، سیمنٹ کے بلاکوں اور دھوئیں سے بھرے آسمان، گاڑیوں اور گولیوں کے شور میں دھیرے دھیرے گم ہوتا جارہا ہے۔


وژیول آرٹس میں مہارت رکھنے والے خدا بخش ابڑو بنیادی طور پر ایک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے دلچسپی کے موضوعات انسانی حقوق سے لیکر آمرانہ حکومتوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ڈان میں بطور الیسٹریٹر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

خدا بخش ابڑو
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

The din of our apathy - Pakistan News Jul 11, 2013 03:00pm
[…] Read this blog in Urdu here. […]

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024