فلک تک برس پڑا لیکن ...
دو گز کی چادر پر 70 سالوں کی زندگی بکھری پڑی تھی، رُکی پڑی تھی۔ اس وجود کے روئیں روئیں سے التجا ٹپک رہی تھی۔ اس کا جھرّی دار چہرہ شفاف آئینے کی طرح یہ بتا رہا تھا کہ زندگی کس قدر عذاب اور مشکلات میں گزری تھی۔ اب تو رو رو کر اُس کی آنکھیں بھی کوری ہوچکی تھیں اور آنسو پونچھ پونچھ پلکیں مُند گئیں تھی۔ آنکھوں میں سکت نہ تھی کہ وہ مزید رو سکیں مگر وہ مجبور تھیں اپنی فطرت سے، اپنی تکلیف سے، اپنی حالت سے۔
اس کی کوری آنکھوں سے بہنے والا آنسو اس کے چہرے کی جھرّیوں میں جذب ہورہا تھا۔ اس کی آواز میں لغزش تھی جو اس کی پکار قربناک بنارہی تھی۔ وہ چیخ چیخ کر التجا کررہی تھی، ’مجھے عبداللہ کے پاس لے جاؤ، دیکھ میں اس کے بغیر مرجاؤں گی، اس سے کہو مجھے معاف کردے، مجھے میرے بیٹے کے پاس لے جاؤ۔ میں آئندہ کچھ بھی نہیں مانگوں گی۔ دوا کا بھی نہیں کہوں گی، روٹی بھی نہیں کھاؤں گی، بس وہ مجھے اپنے پاس بلالے۔ دیکھو میں اب کھانسوں گی بھی نہیں۔ پھر اس کا سکون تباہ نہیں ہوگا‘۔
اتنے الفاظ کے بعد اسے کھانسی کا شدید دورہ پڑتا۔ اس کے الفاظ کا تسلسل ٹوٹ جاتا۔ وہ خاموش ہوتی، اپنی آنکھوں کو اپنے بوسیدہ دوپٹے سے صاف کرتی اور پھر التجا کرنے لگتی۔ وہ ہاتھ جو اپنے بیٹے کے لیے گھی کے پراٹھے گوندھ گوندھ کر پولے ہوچکے تھے۔ آج اسی بیٹے کے لیے جڑے ہوئے تھے، ان کی کپکپاہٹ ان کی کمزوری عیاں کررہی تھی۔ اس کی یہ پکار بازار کا ہر شخص سن رہا تھا۔ کچھ اسے ہمدردانہ نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ حقارت سے۔
مزید پڑھیے: اے میرے ابرِِ محبت
کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے دس، بیس کا نوٹ تھما دیتے جسے دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتی، چیخ اٹھتی ’مجھے پیسے نہیں چائیے، میں پیسے نہیں مانگ رہی، بس مجھے میرا بچہ ملا دو، تم اس سے بات تو کرو، شاید وہ مجھے معاف کردے شاید وہ واپس بلا لے۔‘
وہ ہر اس شخص سے التجا کررہی تھی جو اس کی کوری آنکھوں اور جھرّی دار چہرے کو دیکھ رہا ہوتا تھا۔ وہ ہر اس شخص سے امید باندھ لیتی جس کی نظروں میں وہ اپنے لیے ترس دیکھتی مگر ہر گھڑی بعد اس کی آس ٹوٹ جاتی۔ جب جب اسے کوئی پیسے دیتا وہ مچل اٹھتی، شاید اسے غصہ آتا تھا مگر اس کی بے بسی اور دکھ اس کے غصے کو دبا دیتے۔ وہ پیسے دینے والے شخص کے پاؤں پکڑ لیتی ’تم! تم عبداللہ کو جانتے ہو؟ مجھے اس کے پاس لے جاؤ، میں اس کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لوں گی، میں اس کی بیوی سے معافی مانگ لوں گی، میں نوکرانی بن کر ان کی خدمت کروں گی، وہ چوڑیاں جو مجھ سے عبداللہ نے اس کے لیے لیں تھیں، وہ بھی نہیں مانگوں گی، بس وہ مجھے معاف کردے، مجھے اپنے ساتھ لے جائے، میں نے یہاں نہیں رہنا‘، اور ہر بار جب اس سے کوئی اپنا پاؤں چھڑا کر جاتا، گویا اس سے جینے کی وجہ چھین رہا ہوتا تھا۔
’مجھے عبداللہ کے پاس لے جاؤ، دیکھ میں اس کے بغیر مرجاؤں گی، اس سے کہو مجھے معاف کردے، مجھے میرے بیٹے کے پاس لے جاؤ۔ میں آئندہ کچھ بھی نہیں مانگوں گی۔ دوا کا بھی نہیں کہوں گی، روٹی بھی نہیں کھاؤں گی، بس وہ مجھے اپنے پاس بلالے۔ دیکھو میں اب کھانسوں گی بھی نہیں۔ پھر اس کا سکون تباہ نہیں ہوگا‘۔
ہر بار امید ٹوٹنے پر اس کی کئی سانسیں قربان ہوجاتی تھیں۔ وہ دیوانہ وار چیختی، پیٹتی، بین کرتی۔ اس کی التجائیں عرش کو ہلا دینے والی تھیں۔ وہ معصوم، رنج و غم کی ماری رحم کی طالب تھی۔ مگر اس بازار میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس کا درد سمجھ سکے۔ سب کے ضمیر مرچکے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ انسان نہیں جانور ہیں۔ احساسات سے عاری جانور، جذبات سے عاری جانور۔ کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس کے درد کی دوا کرتا۔ وہ بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔ تپتی دھوپ میں سب لوگ اپنی بکھیڑوں میں مصروف تھے۔ مگر اب اس کے دور تلک پھیلے شفاف فلک کو اس کی پکار نے شرمندہ کردیا تھا اور سورج صبح سے اس شہر والوں پر قہر برسا رہا تھا، انہیں ان کے اعمال کی دہائی دے رہا تھا، اب منہ چھپانے کی سعی کرنے لگا تھا۔
رفتہ رفتہ قدرت نے اپنی کالی چادر پھیلانا شروع کی، کالے بادلوں نے سورج کو چھپا لیا اور اب یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کہ پورا فلک اس 70 سال کی ماری عورت کے پہلو میں آن کھڑا ہوا ہے۔ بادل اب گرج گرج کر اس شہر کے لوگوں کی بے حسی پر ماتم کررہے تھے۔ انہیں باور کرا رہے تھے کہ احساس سے عاری انسان نہیں جانور ہوا کرتے ہیں۔
اتنی دیر رونے، تڑپنے، چیخنے کے بعد صرف قدرت تھی جسے اس پر رحم آیا تھا، جو اس کے غم میں شریک ہوئی۔ جب جب کسی مظلوم دکھیارے کو سہارے کی ضرورت ہو تو یہ قدرت ہی تو ہے جو اس کی ہمنوا بنتی ہے۔ وہ بوڑھی عورت اب بھی جھولی پھیلا کر التجا کررہی تھی۔ اس کی فلک شگاف چیخوں سے اس کی بے بسی عیاں تھی۔ ’کوئی تو میری بات سنے، کوئی تو رحم کرو مجھ پر، یہ پسلیوں کا رنج اب برداشت ہونے کو نہیں آتا، میرے آنسوؤں کا بھرم رکھو، مجھ پر ترس کھاؤ، تمہیں خدا کا واسطہ، تمہیں بچوں کا واسطہ، مجھے میرے بیٹے کے پاس لے جاؤ، دیکھو میری حالت پر رحم کرو، تمہیں مجھ پر ترس بھی نہیں آتا؟‘
اس کی اس آخری پکار نے بادلوں کے دل چیر ڈالے، اب پورا آسمان اس کے ساتھ رو رہا تھا۔ مگر لوگوں نے جو بارش دیکھی، ہلچل مچ گئی، سب اپنا سامان بچانے میں جت گئے۔ انہیں ہوش اب بھی نہ آیا، ادھر وہ بوڑھی عورت تھی جس کا دکھ، درد، تکلیف اب اس حد سے بڑھ چکے تھے کہ الفاظ اور التجائیں انہیں بیان کرنے سے قاصر تھیں۔ وہ سر جھکائے سسک رہی تھی، اس کے آنسو ان بارش کی بوندوں میں دکھائی نہ دے رہے تھے۔
چند لمحوں بعد اچانک اسے اپنے کاندھے پر ایک ہمدردی بھرا ہاتھ محسوس ہوا، اس بڑھیا نے چاندنی سے بھرا سر اٹھایا، ایک نوجوان اسے پیار سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہمدردی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس بڑھیا کی امید بندھ آئی، اس نے اپنے ہاتھ جوڑ لیے مگر ہمدرد نوجوان نے فوراً وہ جڑے ہاتھ تھام لیے اور چوم کر انہیں الگ کردیا۔ ’بیٹا تم میرے عبداللہ کی طرح لگتے ہو۔ تم اسے جانتے ہو؟ مجھے اس کے پاس لے جاؤ، تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔ یہاں تو کوئی میری بات ہی نہیں سنتا، کسی کو مجھ پر رحم نہیں آتا۔‘ نوجوان ہمدرد نے اسے تسلی دی اور اپنا موبائل نکال کر کوئی نمبر ملانے لگا۔
مزید پڑھیے: محبوب کو صرف چاہا جاتا ہے، سمجھا نہیں جاتا
بڑھیا کی کوری آنکھوں سے چمک نمودار ہوئی، بولی ’تم عبداللہ کو فون کررہے ہونا؟ مجھے بس اس سے ایک بار ملادو، خدا تمہیں بہت دے گا۔‘ اس نوجوان ہمدرد نے ہٹ کر کسی سے فون پر بات کی اور پھر اس بڑھیا کے پہلو میں آکر بیٹھ گیا۔ اب امید اپنی جوبن پر تھی اور ہر گزرتے لمحے آس بڑھتی جارہی تھی، مگر یکدم سائرن کی آواز نے بوڑھی عورت کو چونکا دیا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا وجود اندر سے کٹ رہا ہو۔ اس نے اپنی کوری آنکھوں کی معدوم ہوتی چمک سے اس خوبرو نوجوان کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھ بھر آئی۔
اب کی بار امید کا ٹوٹنا وہ برداشت نہ کر پائی۔ اس کو اپنے دماغ میں اندھیرا چھایا ہوا محسوس ہورہا تھا، اس کی آنکھیں بھی اندھیر ہورہی تھیں۔ اس خوبرو ہمدرد کا چہرہ کسی دھوئیں کی مانند اس کی نظر سے اوجھل ہو رہا تھا۔ حواس معطل ہو رہے تھے، وہ بے ہوش ہو رہی تھی۔ اس اثناء میں گاڑی اس کے سامنے پہنچ چکی تھی۔ عملے کے لوگوں نے اس بڑھیا کو اٹھایا اور چند لمحوں بعد گاڑی ’اولڈ ہوم‘ کی جانب رواں دواں تھی۔ وہ خوبرو ہمدرد اطمینان سے اس گاڑی کو جاتا دیکھ رہا تھا کہ اس سے زیادہ اور کچھ نہ تھا جو وہ اس معصوم، دکھوں کی ماری کے لیے کرسکتا تھا۔ البتہ فلک اب تک کالی چادر اوڑھے اس بڑھیا کے غم میں برابر رو رہا تھا۔