• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
شائع June 20, 2018 اپ ڈیٹ June 21, 2018

ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی حیات

ابوبکر شیخ

کہتے ہیں کہ خوشیوں کا اظہار کرنا آسان ہوتا ہے کہ ڈھول تاشوں کی تال پر کون جمع نہیں ہوتا؟ مگر اس جہاں میں اکیلا کوئی نہیں ہے، اکیلی فقط خدا کی ذات ہے اور یہاں گنتی ’ایک‘ پر ختم ہوجاتی ہے۔ نام ہزاروں ہوسکتے ہیں مگر دوئی سے زیادہ یہاں کچھ ہے نہیں۔ مگر کہتے یہ بھی ہیں کہ خوشی کے پھول دل کے اوپر اُگتے ہیں مگر اُن کے رنگ کوئی اتنے زیادہ پائیدار نہیں ہوتے۔ دُکھ کی جڑیں آپ کے دل کے اندر تک پیوستہ ہوتی ہیں اور ان کا درد بھی گہرا ہوتا ہے۔ دُکھوں کا نہ تو رنگ ہے اور نہ ہی پھولوں کی صورت کھلتے ہیں، اس لیے نہ درد کو مرجھانے اور نہ ہی رنگ اُڑنے کی پریشانی ہوتی ہے۔ وہ بس سانس کی ڈوری تک آپ کے ساتھ جُڑا رہتا ہے۔

سکندرِ اعظم کتنا خوش نصیب تھا جس نے 22 صدیاں پہلے اُس دریائے سندھ کو دیکھا تھا جس کے بہاؤ میں سحر بستا تھا۔ ٹیکسلا سے سمندر تک اس کے کنارے حاکم اور حکومتیں تھیں۔ کہتے ہیں کہ سکندر نے کوئی اتنی بڑی عمر تو نہیں پائی مگر اُس کے 33 برس جو گزرے وہ ایک دیوانگی میں گزرے۔ اسی دیوانگی نے سکندر کو مجبور کیا تھا کہ وہ دریائے سندھ کو اُس جگہ دیکھے جہاں وہ سمندر سے جاکر ملتا ہے۔

انڈس ڈیلٹا کی ایک تصویر — تصویر ابوبکر شیخ
انڈس ڈیلٹا کی ایک تصویر — تصویر ابوبکر شیخ

اسی زمانے میں دریائے سندھ پٹالا (حیدرآباد کے قریب) کے مقام سے 2 بڑی شاخوں میں بٹ جاتا تھا اور سکندر نے ان دونوں پانیوں میں سفر کیا۔ ایک مغربی شاخ جو ٹھٹھہ سے ہوتے ہوئے جنوب کی طرف سمندر میں جا گرتی تھی۔ ایچ۔ ٹی۔ لیمبرک کے مطابق یہ مغربی بہاؤ ٹھٹھہ کے قریب سے بہہ کر شاہ بندر کے اطراف میں سمندر میں جا گرتا تھا۔ آپ ٹھٹھہ اور سجاول سے جنوب کی طرف چل کر ’چوہڑ جمالی‘ کے چھوٹے شہر سے ہوتے ہوئے جنوب کی طرف سفر کرتے ہیں تو کچھ کلومیٹر کے فاصلے کے بعد آپ کو ابن شاہ کی ٹکریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ وہی سمندر میں موجود کلوٹا جزیرہ تھا جہاں سکندرِ اعظم کی آمد ان مہینوں میں ہوئی تھی جب پہاڑوں سے برف پگھلتی ہے اور دریائے سندھ میں بے تحاشا پانی کا بہاؤ رہتا ہے۔

سکندر نے اپنے ساتھ لائے ہوئے بیڑوں کو ’کلوٹا‘ جزیرے پر لنگر گرانے کے لیے کہا اور خود آگے سمندر میں گیا جہاں اُسے دوسرا جزیرہ نظر آیا، پھر وہاں سے اُس نے دریائے سندھ کو سمندر میں ملتے دیکھا اور پھر اِسی کلوٹا جزیرے پر آیا جہاں مہا ساگر کے دیوتا ’پوسیڈان‘ کو راضی کرنے کے لیے بیلوں کی قربانی دی اور سونے کے پیالوں میں شراب بھر کر اُس شراب کو نذرانے کے طور پر سمندر میں اُنڈیلا اور ساتھ میں سونے کے پیالے بھی سمندر کو بھینٹ کیے۔

’پوسیڈان‘ سے گزارش کی کہ وہ ’نیرکوس‘ کی نگہبانی میں اُس سفر کو کامیاب کرے جو دریائے سندھ سے شروع ہوکر سمندر کے راستے دجلہ و فرات تک پہنچنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ ’لیمبرک‘ کے مطابق یہ سفر مشرق سے مغرب کی طرف تھا۔ سکندر سفر کرتا ہوا اُس جگہ پہنچا جس کو ’بباکتا‘ (Bibakta) جزیرہ یا ان دنوں میں ’گجو تھرڑ‘ کہتے ہیں۔ یہ پہاڑیاں ایسی ہی ہیں جیسی نیرکوس کے زمانے میں رہی ہوں گی۔ ان پہاڑیوں میں تبدیلی اس لیے نہیں آئی ہوگی کہ یہ آتشی (Volcanic) نہیں ہیں۔ البتہ سمندر کا کنارہ یا پُرانے بہاؤ ضرور تبدیل ہوئے ہوں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں موسم کی خرابی کی وجہ سے ’نیرکوس‘ ایک ماہ سے بھی زیادہ عرصہ یہاں ٹھہرا رہا۔

نیرکوس جب یہاں رُکا تھا تب اس جزیرے کے شمال مشرق سے دریائے سندھ کا بہاؤ شور مچاتا گزرتا تھا اور تاحدِ نظر تک ہریالی نظر آتی تھی۔ یہ بڑا پُرفضا مقام تھا۔ پُرفضا ہونے کا اعزاز اب بھی اس پہاڑی کو حاصل ہے البتہ دریا کا بہاؤ، ہریالی اور جزیرے کا اعزاز اب اس پہاڑی کے پاس نہیں رہا۔ یہاں اب بس رہ گئی ہیں یونانی سپاہیوں کی کچھ پتھروں پر تراشیدہ نشانیاں جو اُن دنوں کی یاد ضرور دلاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ یونانی فوج کے مختلف یونٹوں کے نشانات ہیں جو یونانی سپاہیوں نے یہاں آرام کے دنوں میں پتھروں پر تراشے تھے۔

سکندرِ اعظم کو اگر پتہ ہوتا کہ 2 ہزار برسوں میں اس شاندار اور ہرے بھرے علاقے کا یہ حال ہوجائے گا کہ پانی ان راستوں سے کسی محبوب کی طرح ناراض ہوکر کہیں دور چلا جائے گا، ہریالی اور خوبصورتی ایسے گم ہوجائے گی جیسے درد سہتے سہتے آنسوں خشک ہوجاتے ہیں اور لہروں کے شور کی جگہ زقوم کی جھاڑیاں اُگ آئیں گی جن کے نصیب میں قدرت نے ویرانی اور خاموشی تحریر کردی ہے، تو اُس کو ضرور دکھ پہنچتا۔

انڈس ڈیلٹا کا ایک حصہ جو تیزی سے سمندر کا شکار ہوتا جا رہا ہے.— تصویر ابوبکر شیخ
انڈس ڈیلٹا کا ایک حصہ جو تیزی سے سمندر کا شکار ہوتا جا رہا ہے.— تصویر ابوبکر شیخ

انڈس ڈیلٹا پر واقع ایک علاقے کی تصویر — تصویر ابوبکر شیخ
انڈس ڈیلٹا پر واقع ایک علاقے کی تصویر — تصویر ابوبکر شیخ

آج کی تحریر شاید آپ کو غمگین کردے گی کیونکہ ہم کوٹری ڈاؤن اسٹریم کے اُس سفر پر چلنے جارہے ہیں، جہاں فطرت نے ہمیں بہت کچھ بخشا تھا مگر ہم نے اس کی ناقدری کی اور بہت کچھ برباد کرچکے ہیں۔

ہر خطے کے اپنے معروضی حالات ہوتے ہیں، یہ لینڈ اسکیپ فطرت بُنتی ہے۔ پھر لوگ اُن فطری اثاثوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے معاشی راستے تلاش کرتے ہیں کہ آٹے کے سوا زندگی کا تصور نہیں، پھر روزگار کے وسائل، وہاں کے منظر ناموں اور موسموں کی کوکھ سے وہاں کا کلچر جنم لیتا ہے، زبان کو بیان کی طاقت ملتی ہے اور لہجے اور رویے جنم لیتے ہیں۔ لوگ اُن حالات میں جنم لیتے ہیں، وہیں پر جوان ہوتے ہیں، وہیں پر اُن کے اپنوں کے جنازے اُٹھتے ہیں، اُنہی آنگنوں پر خوشیوں کے ڈھول بجتے ہیں، مطلب ہزاروں برسوں کی فطرت، معروضی حالات، انسان کے میل میلاپ اور ایک دوسرے کی قبولیت سے ایک کلچر پنپ کر جوان ہوتا ہے۔ ہم کسی مچھیرے کو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ سمندر یا جھیل کے کنارے گنّا کیوں کاشت نہیں کرتے؟ یا یہ کہ آپ کے پاس مچھلی کے شکار کے بعد جو وقت ملتا ہے اُس میں ان کناروں پر گندم کاشت کردیا کریں، یہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں۔

ان حالات سے ملتی جُلتی درد کتھا کوٹری سے نیچے ہزاروں گاؤں اور لاکھوں انسانوں کی بھی ہے اور اُن ویران پگڈنڈیوں کی بھی ہے جن پر سے لوگ اپنے گاؤں خالی کرکے نقل مکانی کا درد لیے گزرے۔ اس کتھا کی ابتداء 1830ء سے ہوئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہاں آبپاشی نظام بنایا تاکہ زراعت کی پیداوار میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور اُن کے کارخانوں کو بلا رکاوٹ خام مال کی فراہمی حاصل ہو۔

جھیلوں میں سمندر کے پانی کی آمد — تصویر ابوبکر شیخ
جھیلوں میں سمندر کے پانی کی آمد — تصویر ابوبکر شیخ

انڈس ڈیلٹا پر موجود علاقے جہاں پہلے کبھی بے پناہ پانی تھا اور زمین سر سبز و شاداب تھی— تصویر ابوبکر شیخ
انڈس ڈیلٹا پر موجود علاقے جہاں پہلے کبھی بے پناہ پانی تھا اور زمین سر سبز و شاداب تھی— تصویر ابوبکر شیخ

کیا پتہ اُن دنوں یہ ایک بہتر کام ہو اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا بھی چاہیے، کیونکہ ایک نظام کے سوا کوئی بھی عمل زیادہ پائیداری کے ساتھ چل نہیں سکتا۔ پھر 1932ء میں انگریزوں نے ’سکھر بیراج‘ تعمیر کروایا۔ یہ سمجھیں کہ دریا کی خوبصورت دیوانگی کو روکنے کی یہ پہلی کوشش تھی، پھر 1955ء میں ’کوٹری بیراج‘، 1967ء میں ’منگلا‘ اور پھر 1976ء میں ’تربیلا ڈیم‘ بنا۔ ان سارے منصوبوں کا اثر انڈس ڈیلٹا پر پڑنا تھا اور پڑا بھی۔

ڈاؤن اسٹریم دریا کا وہ بیلٹ ہوتا ہے جہاں دریا اپنا سفر ختم کرتا ہے اور دریاؤں کے لیے ڈیلٹا ایک اعزاز ہوتا ہے کیونکہ یہاں فطرت کی رنگارنگی کا اپنا ایک الگ حُسن ہے۔ جنوبی سندھ کی زمین کو دریائے سندھ کی مٹی اور ریت نے بنایا ہے، وہاں کا منظرنامہ پورے ملک سے مختلف ہے کہ یہاں جھیلوں کی بہتات ہے (تھی) اور کیوں نہ ہو آخر دریائے سندھ کا ہزاروں کلومیٹر کا سفر یہاں اس ساحلی پٹی پر آکر جو ختم ہوتا۔ سمندر تک پہنچنے کے لیے جتنے راستے اور بہاؤ دریائے سندھ نے تبدیل کیے ہیں وہ شاید ہی کسی دوسرے دریا نے کیے ہوں گے۔

انڈس ڈیلٹا کا نقشہ (1838) — ابوبکر شیخ
انڈس ڈیلٹا کا نقشہ (1838) — ابوبکر شیخ

ایڈورڈ ویلر بنایا ہوا انڈس ڈیلٹا کا نقشہ جو 1867 میں ایک جریدے میں شائع ہوا۔
ایڈورڈ ویلر بنایا ہوا انڈس ڈیلٹا کا نقشہ جو 1867 میں ایک جریدے میں شائع ہوا۔


’انسائیکلوپیڈیا سندھیانا‘ میں اس بارے میں تحریر ہے کہ، ’دریائے سندھ کے سفر کی آخری منزل سے آگے سمندر تک کافی تعداد میں کھاڑیاں یا کریکس (Creeks) جاتی ہیں۔ جنوب مشرق میں ’سیر‘ نامی کھاڑی ہے جو پانی میں پاک و ہند سرحد کا کام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، کھارک، کوچی واڑی، کاجھر، مل، کانھر، ادھیاڑی، سنہڑی، گھوڑو، کھوبر، قلندری، مٹنی، ترچھان، حجامڑو، چھان، دبو، پئٹانی، کھائی، وڈی کُھڈی، ننڈھی کُھڈی، پھٹی، کورنگی اور گذری کریکس ہیں۔‘

یہ کھاڑیاں وہ راستے ہیں جو دریا سمندر تک پہنچنے کے لیے جنوبی سندھ میں آکر بناتا ہے۔ دریا کی 2 اقسام ہیں، ایک وہ جن میں ریت اور مٹی کم آتی ہے اور دوسرے وہ جو اپنے ساتھ بڑی مقدار میں ریت اور مٹی لاتے ہیں، ایسے دریاؤں میں ’دریائے نیل‘ اور ’دریائے سندھ‘ قابل ذکر ہیں۔ ان دونوں میں سے دریائے سندھ اپنے ساتھ سب سے زیادہ زرخیز ریت اور مٹی لانے والا دریا ہے۔

مچھیروں کا ایک ویران گاؤں — تصویر ابوبکر شیخ
مچھیروں کا ایک ویران گاؤں — تصویر ابوبکر شیخ

ڈیلٹا کی ویران بستیاں — تصویر ابوبکر شیخ
ڈیلٹا کی ویران بستیاں — تصویر ابوبکر شیخ

دریا کا پانی سمندر کو آگے آتا دیکھ کر چھوٹے پنکھے (بادکش) کی شکل میں پھیل جاتا ہے اور اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت پھیلاتا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے سے زمین بنتی جاتی ہے اور جیسے جیسے زمین بنتی جاتی ہے سمندر پیچھے کی طرف ہٹتا جاتا ہے مگر اس کی سطح وہی رہتی ہے۔ جب تیز ہواؤں کے دنوں میں سمندر کی مدافعت بڑھتی ہے تو دریا شاخوں میں بٹ جاتا ہے لیکن اپنے ساتھ لائی ہوئی ریت سمندر کے اندر پھینکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سمندر کے اندر ریت کے ٹیلے بنتے جاتے ہیں اور زمین بنتی جاتی ہے۔

اس حوالے سے ہم یہ بخوبی کہہ سکتے ہیں کہ ماضی میں جنوبی سندھ کا مشرقی حصہ (بدین) ایکٹو ڈیلٹا تھا اور اب مغربی (ٹھٹھہ) حصہ ایکٹیو ڈیلٹا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، جب دریائے سندھ میں طغیانی آتی تھی تو اس طغیانی کے ایک سو دنوں میں یہ ریت کے 11 کروڑ 90 لاکھ معکب گز سمندر کی طرف لے چلتا تھا۔ اگر اس ریت کا مقابلہ ہم نیل ندی سے کریں جو خود ایک زیادہ ریت لانے والا دریا ہے تو یہ پورے ایک برس میں 4 کروڑ معکب گز ہے اور ہم جانتے ہیں کہ دریائے سندھ میں ریت کی مقدار دریائے نیل سے 3 گنا زیادہ ہے۔

جنرل ہیگ اپنی کتاب ’انڈس ڈیلٹا کنٹری‘ میں دریا سے بنی ہوئی نئی زمین کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ، ’برٹش راج کے بعد سمندر کی طرف زمین کے بڑھ جانے کے متعلق جاننے کے لیے ہماری بڑی دلچسپی رہی۔ ہم نے اس پر بڑے سروے بھی کیے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دریائے سندھ جن مختلف ندیوں کی صورت میں سفر کرتا سمندر سے جا ملتا ہے، وہاں نئی زمین بڑی تیزی سے بن رہی ہوتی ہے اور سمندر کو مسلسل پیچھے دھکیل رہی ہوتی ہے۔ ہم نے پہلے 1877ء میں اس پر کام کیا تھا، جس کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ گزشتہ 10 برسوں میں ان نہروں کے سمندر میں پانی ڈالنے سے ساڑھے 3 مربع میل نئی زمین بنی ہے اور زمین بڑھنے کی رفتار ہر بہاؤ میں ایک جیسی نہیں ہوتی، کہیں زمین زیادہ بنتی ہے تو کہیں کم۔‘

اب ڈیلٹا کے علاقوں میں پانی کہاں — تصویر ابوبکر شیخ
اب ڈیلٹا کے علاقوں میں پانی کہاں — تصویر ابوبکر شیخ

جھیل کے کنارے بسے لوگ — ابوبکر شیخ
جھیل کے کنارے بسے لوگ — ابوبکر شیخ

مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انڈس ڈیلٹا کا علاقہ دریائے سندھ کی دین ہے اور اس کا بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ اس علاقے کی زرخیزی ایک جیسی نہیں ہے۔ اگر آپ ایک ایکڑ کا بھی کیمیائی تجزیہ کریں تو اس ایک ایکڑ میں بھی زرخیزی مختلف ہوگی اور یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ کی ڈیلٹائی پٹی اپنی زرخیزی کے حوالے سے خوشحال بھی تھی اور مشہور بھی۔ دھان اگانے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ دھان کے بیج زمینوں میں ڈال دیے جاتے اور دھان کی فصل کے جیسے جنگل اُگ آتے۔ اُس وقت جو دھان کی جنس تھی وہ پانی بڑھنے کے ساتھ بڑی ہوتی جاتی۔

جیمز میکمرڈو لکھتے ہیں، ’پانی کے ساتھ دھان بھی بڑھتی جاتی، کسی کسی علاقے میں تو یہ 3 سے 4 فٹ تک بڑی ہوجاتی اور دھان اتنی اراضی میں ہوتی کہ فصل کی کٹائی کے لیے کَچھ اور ملتان سے بھی لوگ یہاں آیا کرتے تھے۔‘

19ویں صدی کی ابتداء میں ڈیلٹا کے قدرتی حسن کا منظر جیمس برنس نے کچھ اس طرح سے تراشا ہے کہ، ’یہاں کے مرکزی بہاؤ اور دوسری ندیوں میں سفر کرتے آپ کو پرندوں کی میٹھی آوازیں سننے کو ملیں گی۔ کناروں پر آپ کو گنے کے کھیت ملیں گے جن کو پانی دینے کے لیے رہٹوں کا استعمال عام ہے۔ ان رہٹوں کو اونٹ اور بیل بھی کھینچتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ٹھنڈے دنوں میں پرندوں کی اتنی بہتات ہے کہ اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ مچھلی کے شکار کی تو کیا بات ہے، ایسا لگتا ہے کہ مچھلی پیدا ہی یہاں ہوئی ہے۔ یہاں کیکر اور لئی کے بڑے درختوں کے جنگل ہیں جو یقیناً ایک ڈیلٹا کی خوبصورتی کے زیور ہیں۔‘

شاندار ماضی کا حامل ڈیلٹا آج بنجر زمین — تصویر ابوبکر شیخ
شاندار ماضی کا حامل ڈیلٹا آج بنجر زمین — تصویر ابوبکر شیخ

ایک ماہی گیر اپنی کشتی بنانے میں مصروف ہے — ابوبکر شیخ
ایک ماہی گیر اپنی کشتی بنانے میں مصروف ہے — ابوبکر شیخ

انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی 16 ہزار مربع میل یعنی 41 ہزار 440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، اس پٹی کی زمین سمندر کے ساتھ 350 کلومیٹرز تک ساتھ چلتی ہے جبکہ بلوچستان کے پاس 700 کلومیٹر کا کوسٹ (ساحلی کنارہ) ہے۔

اس حوالے سے میں نے جب ماہرِ ماحولیات اور سینٹر فار انوائرنمنٹ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ناصر پنہور سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ، ’زوال پذیر انڈس ڈیلٹا پاکستان کے ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے اور اسے 'محفوظ' قرار دیا جاچکا ہے۔

انڈس ڈیلٹا کی حدود میں متعدد آب گاہیں اور جنگلی حیات کی وہ پناہ گاہیں واقع ہیں جنہیں مقامی اور عالمی تحفطِ جنگلی حیات و ماحول کے تحفظ کے قوانین کے تحت بہت پہلے 'محفوظ علاقوں' کا درجہ دیا جاچکا تھا، بعد ازاں پورے انڈس ڈیلٹا کے علاقے کو 'رامسر سائٹ' قرار دیا جاچکا ہے۔

کیٹی بندر، شاہ بندر اور کٹ منارکی چچھ کو سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے قوانین کے تحت 'وائلڈ لائف سنکچوری' قرار دیا جاچکا ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے آبی منصوبوں کے باعث دریائے سندھ میں پانی کی شدید قلت، سمندر میں اس کے جانے کی شرح میں خطرناک حد تک کمی اور تِمر کے ساحلی جنگلات کی کٹائی کے باعث ڈیلٹا کا ماحولیاتی نظام پہلے ہی زوال کا شکار ہے۔ 60ء کی دہائی میں ہندوستان پاکستان کے مابین سندھ طاس معاہدے کے بعد سے دریا کے میٹھے پانی کی بحیرہ عرب میں شامل ہونے کی شرح تیزی سے کم ہونا شروع ہوئی تھی۔ اب سمندر میں میٹھے پانی کی آمیزش بالکل بند ہوچکی ہے، جس کے باعث اُن آبی گزرگاہوں میں سمندر داخل ہوگیا ہے، جن کے ذریعے کبھی دریائے سندھ کا میٹھا پانی سمندر میں داخل ہوتا تھا۔

کیٹی بندر، شاہ بندر اور کٹ منارکی چچھ کو سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے قوانین کے تحت 'وائلڈ لائف سنکچوری' قرار دیا جاچکا ہے۔
کیٹی بندر، شاہ بندر اور کٹ منارکی چچھ کو سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے قوانین کے تحت 'وائلڈ لائف سنکچوری' قرار دیا جاچکا ہے۔

انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی 16 ہزار مربع میل یعنی 41 ہزار 440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
انڈس ڈیلٹا کی موجودہ زمینی پٹی 16 ہزار مربع میل یعنی 41 ہزار 440 مربع کلومیٹرز کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

اس وقت زیریں سندھ کے ڈیلٹائی اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کی لاکھوں ایکڑ اراضی سمندر بُرد ہوچکی ہے۔ ہزاروں لوگ بے گھر اور معاشی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہیں جبکہ ماحولیاتی انحطاط کی شرح بھی تیز ہوچکی ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈس ڈیلٹا کے تحفظ اور سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر 1991ء کے معاہدے میں طے شدہ 10 ملین (ایک کروڑ) ایکڑ فٹ پانی فوراً کوٹری بیراج کے زیریں دریائی حصے میں چھوڑا جائے تاکہ ڈیلٹا، تِمر اور اس کے ماحولیاتی نظام کا تحفظ ممکن ہوسکے۔‘

ڈیلٹا کی اُجڑتی ہوئی دنیا کے متعلق ’پاکستان فشر فوک فورم‘ کے چیئرمین محمد علی شاہ سے دریافت کیا اور ان سے مجھے جو مفصل جوابات ملے اُن کو مختصراً یہاں بیان کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گزشتہ کئی برسوں سے حکومت، آبپاشی ماہرین، ماہرین ماحولیات اور سول سوسائٹی کے درمیان یہ بات زیرِ بحث ہے کہ انڈس ڈیلٹا کے لیے کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے کتنے پانی کی ضرورت ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والی عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر' (آئی یو سی این) کی تحقیق کے مطابق تِمر کے جنگلات اور سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے 27 ملین (2 کروڑ 70 لاکھ) ایکڑ فٹ پانی کی ضرورت ہے جبکہ ماہی گیری سے وابستہ ماہرین کے مطابق 35 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کی ضرورت ہے۔ 1991ء کے معاہدے کے مطابق ڈاؤن اسٹریم میں 10 ملین (1 کروڑ) ایکڑ فٹ پانی چھوڑا جانا تھا، مگر اُس پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔

پاکستان کے آبپاشی نظام پر 35 ملین (3 کروڑ 50 لاکھ) ایکڑ پر کاشتکاری کی جاتی ہے، پاکستان میں دریائی بہاؤ پر پانی جمع کرنے کے 3 ڈیم بنائے گئے ہیں، جن میں 20 ایم اے ایف تک پانی اسٹور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 12 لنک کینال تعمیر کیے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دریائے سندھ کا سالیانہ بہاؤ اوسط 150 ایم اے ایف ہے۔ اب اس پوری صورتحال کو دیکھیں تو سارا نزلہ آپ کو کوٹری ڈاؤن اسٹریم پر گرتا نظر آئے گا، جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین برباد ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔

گاؤں کا ایک بچہ — تصویر ابوبکر شیخ
گاؤں کا ایک بچہ — تصویر ابوبکر شیخ

ڈیلٹا کی 35 لاکھ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
ڈیلٹا کی 35 لاکھ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

دریا کا میٹھا پانی سمندر کے پانی کو نہ صرف روکتا ہے بلکہ اس کو پیچھے بھی دھکیلتا ہے اور تمر کے جنگلات کو اُگاتا ہے جو ایک دیوار کی طرح ساحل کے میدانی علاقوں کو تحفظ کا کام کرتے ہیں۔ ہم 'سب ٹراپیکل' (Sub Tropical) ملک میں رہتے ہیں، سب ٹراپیکل ممالک نسبتاً گرم ہوتے ہیں، اب ہمارے ملک کے درجہءِ حرارت کو کنٹرول فقط دریائے سندھ کا تازہ پانی ہی رکھ سکتا ہے۔ جب تازہ پانی ڈیلٹا میں داخل ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ریت بھی آتی ہے اور اس ریت میں ’نیوٹرنس‘ ہوتے ہیں۔ یہ نیوٹرنس ایک تو مچھلی کو پروٹین اور خوراک مہیا کرتے ہیں، اور دوسرا یہ فطری طریقہ کار سے ایک بریڈنگ شیٹ بھی مہیا کرتے ہیں، لہٰذا سندھ کے سمندر کی مچھلیاں اس پر زندہ رہتی ہیں۔ اگر دریائے سندھ کا پانی وہاں نہیں جائے گا تو وہاں کے درجہءِ حرارت میں اضافہ ہوگا اور مچھلیاں زندہ نہیں رہ پائیں گی۔ وہ یا تو مر جائیں گی یا پھر وہاں سے دوسری جگہ چلی جائیں گی، اس لیے میٹھا تازہ پانی سمندری درجہءِ حرارت کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور ساتھ میں ایک ’کانٹینینٹل شیلف‘ بھی بناتا ہے۔

سندھ کے ساحلی کنارے کا ’کانٹینینٹل شیلف‘ 110 کلومیٹر ہے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بلوچستان کا ساحلی کنارہ، سندھ کے ساحلی کنارے کے مقابلے میں بڑی اراضی میں پھیلا ہوا ہے، مگر وہاں مچھلی سندھ کے ساحلی کنارے سے کم کیوں ہے؟ وہ اس لیے کہ وہاں کا کانٹینینٹل شیلف فقط 30 سے 35 کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جتنا یہ شیلف وسیع ہوگا اُتنی ہی زیادہ مچھلی ہوگی جبکہ اس سلٹ کی وجہ سے تمر کے جنگلوں کی خوب افزائش بھی ہوتی ہے اور مینگرووز کے جنگلات مسلسل پھلتے پھولتے رہتے ہیں مگر اب یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔

دریائے سندھ کے diversion کی وجہ سے سمندر میں پانی نہ چھوڑنے کے سبب، اس وقت فقط 70 ہزار ہیکٹرز پر تمر نظر آتے ہیں جو ایک زمانے میں لاکھوں ہیکٹرز پر پھیلے ہوئے تھے۔ یہی تمر کے جنگلات مچھلی اور جھینگوں کی (commercial species) کی نرسریاں ہوتی ہیں۔ اگر ڈاؤن اسٹریم میں پانی نہیں چھوڑا جائے تو مچھلی کی صنعت برباد ہوجائے گی۔ انڈس ڈیلٹا فقط سمندر کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں آب گاہیں، قدرتی جنگل اور زراعت بھی آجاتی ہے۔

محکمہ ریوینیو کی رپورٹ کے مطابق 1980ء تک 12 لاکھ زرعی زمین سمندر کی نذر ہوگئی تھی اور اب 2018ء تک ڈیلٹا کی 35 لاکھ زرعی زمین یا تو سمندر نگل گیا ہے یا سمندر کے شوریدہ پانی کی وجہ سے زمینوں نے اپنی زرخیزی گنوادی ہے۔ یہاں تک کہ گھاس کا ایک تنکہ تک نہیں ہوتا، ساتھ میں لاکھوں لوگوں کو انتہائی مجبوری کی حالت میں نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ جھیلوں کا کلچر الگ برباد ہوا ہے، جنگلی حیات کی سیکڑوں نسلیں نابود ہوگئی ہیں۔ یہ سب ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔

ترقی اچھی ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ہم دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتے، مگر ترقی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے وقت مثبت اور منفی پہلوؤں کا بھی خیال رکنا نہایت ضروری ہے کیونکہ فطرت کا اپنا ایک اصول ہے اُس کو اُس کے حساب سے چلنے دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، کہیں یہ نہ ہو کہ ملٹی نیشنل ترقی کے چکر میں ہم اپنی اس جنت جیسی زمین کو دوزخ میں تبدیل کردیں جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں ہوتی۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

KHAN Jun 20, 2018 06:54pm
اگر اس ڈیلٹا میں خاص قسم کے درخت اگائے جاسکتے ہیں تو میرے خیال میں پاکستان نیوی کو شہریوں کو ساتھ ملا کر یہاں جنگل اگانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ درخت اگانا 100 سال کی منصوبہ بندی ہوتا ہے، درخت صرف لگانا نہیں بلکہ اگانا، اسی طرح کراچی و حیدرآباد سے یونیورسٹی و کالجز کے طلبہ و طالبات یہاں پکنک کے لیے آئیں اور اسی طرح ان کے لیے ایک مخصوص علاقہ مختص کرکے وہاں ان کے یونیورسٹی یا کالج کے نام سے جنگل اگانے کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ ماہرین مجھ سے اچھی تجاویز بھی دے سکتے ہیں۔
mazhar memon Jun 20, 2018 08:50pm
It is a tragedy and at the same time a crime.In Pakistan even a educated people consider any water going down stream kotri and then some water during super floods goes to sea we call it as wastage. Some people have even put a dollar figure for this water, for them trillions of dollars which are being lost in terms of loosing land, resources for peoples livelihood and loss of culture has no value.But this s calamity which we as a nation don't care about.It is a shame
Rana ghulam mustafa Jun 20, 2018 08:58pm
A nice and comprehensive report, enough to open our eyes.
یمین الاسلام زبیری Jun 20, 2018 11:23pm
ابو بکر شیخ صاحب اس مضمون کا بہت شکریہ۔ یہ مضمون یقینا اس مہم کا حصہ ہونا چاہیے جو دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے فطری ماحول کو بچانے کے لیے جاری ہے۔ میں کوئی ماہر آبیات تو نہیں لیکن جو کچھ اب تک پڑھا اور سمجھا ہے اس کی روشنی میں بندوں کا شدید مخالف ہوں۔ کالا باغ بند کی وکالت کرنے والے مسلسل رونا روتے ہیں کہ وہ بجلی کے لیے بہت ضروری ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بجلی کا مسئلہ بد انتظامی کی وجہ سے ہے، کمی کی وجہ سے نہیں۔ بندوں نے ایک طرف کلر کا مسئلہ پیدا کیا ہے تو دوسری طرف ڈیلٹا کے علاقے کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دے اور ہم میں سمجھ پیدا کرے۔
Abduljabbar Jun 21, 2018 01:06am
Thank you very much for providing us knowledge about Indus delta, and the upcoming water situation in Sindh. But dear Mr. Sheikh, would you spare some of your time to invite our honourable Sindh sarkar especially PPP govt towards the poor and miserable conditions of Haleji lake, Manchar lake, Kalri lake, Makli tomb, Chowkandi graveyard, ,these are the heritage of our Sindh. Please please please put your whole and sole efforts to restore these areas.
Junaid Jun 21, 2018 09:25am
Another part of anti-dam campaign... Although dams constructed on rivers can cause such problems but world over it is accepted that benefits of large dams are much more than this. Dams are must for socioeconomic development of any country. If we do not construct large dams now, after 50 years the same drought may reach to the now fertile soils of the rest of the country.
TAnveer ahmed Jun 21, 2018 10:36am
Excellent blog, Buhat Acha kam kya hy..
Iqbal Malik Jun 21, 2018 10:49am
Information Blog. ترقی اچھی ہے اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر ہم دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتے، مگر ترقی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے وقت مثبت اور منفی پہلوؤں کا بھی خیال رکنا نہایت ضروری ہے کیونکہ فطرت کا اپنا ایک اصول ہے اُس کو اُس کے حساب سے چلنے دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا، کہیں یہ نہ ہو کہ ملٹی نیشنل ترقی کے چکر میں ہم اپنی اس جنت جیسی زمین کو دوزخ میں تبدیل کردیں جہاں سے پھر واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
قبول رضا شاہ Jun 21, 2018 03:05pm
انڈس ڈیلٹا کا نوحہ ۔ ڈیلٹا کے خوبصورت ماضی کواجاگر کرکے موجودہ صورتحال کا حقیقی نقشہ کھینچا ہے اور ان اہم توجہ طلب امور کی جانب ہماری توجہ مبذول کی ہے جو ماحولیاتی انسانی ارضیاتی مصائب و مسائل پیدا کر رہے ہیں ایک اہم موضوع پہ انتہائی پر اثر احساسات کو چھوتی ہوئی شاندار تحریر ایک نمائندہ تحریر جو یقینن ہمارے تاثرات کی ترجمان ہے
Sameer Jun 21, 2018 06:43pm
Very informative article, a serious effort is needed to keep the eco system in place.
RIFETH SHEIKH Jun 22, 2018 11:23am
Very informative
خضر حیات Jun 27, 2018 12:08pm
واااااہ کیا عمدہ نثر ہے "خوشی کے پھول دل کے اوپر اُگتے ہیں مگر اُن کے رنگ کوئی اتنے زیادہ پائیدار نہیں ہوتے۔ دُکھ کی جڑیں آپ کے دل کے اندر تک پیوستہ ہوتی ہیں اور ان کا درد بھی گہرا ہوتا ہے۔ دُکھوں کا نہ تو رنگ ہے اور نہ ہی پھولوں کی صورت کھلتے ہیں، اس لیے نہ درد کو مرجھانے اور نہ ہی رنگ اُڑنے کی پریشانی ہوتی ہے۔ وہ بس سانس کی ڈوری تک آپ کے ساتھ جُڑا رہتا ہے۔" میں سوچ رہا ہوں آپ دریائے سندھ سے چھیڑ چھاڑ کرنے والے موضوع پر ایک ناول لکھیں۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے 'بہائو' کی طرز پر۔