7 دن محبت اِن، جادوئی مناظر والی ایک منفرد فلم
کیا آپ ماہرہ خان سے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے پر مجبور کر دیں گی؟
مجھے تو ایسی توقع نہیں تھی۔
ان کے ادا کردہ ہر کردار کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ وہ آسانیوں سے باہر نکل کر خود کو بطور اداکار آگے لے کر جانا چاہتی ہیں۔
’ورنہ‘ میں اپنے کردار سے انہوں نے ثابت کیا کہ وہ صرف مرد کی تلاش میں سرگرداں ایک پریشان حال خاتون نہیں، بلکہ حالات سے لڑنا جانتی ہیں۔ رہئس میں ہم نے انہیں شاہ رخ کے مقابل سنجیدہ اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے دیکھا، اور سات دن محبت اِن (7DMI) میں ماہرہ خان مزاحیہ کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔
ہاں واقعی میں وہ مزاحیہ ہیں، اتنی زیادہ کہ ہنس ہنس کر آپ کے پیٹ میں بل پڑ جائیں گے اتنی مزاحیہ۔ مجھے نیلی کا ہنس مکھ اور دلفریب کردار نہایت بھایا جسے اپنے کزن سے محبت ہے، مگر ہم اس پر بعد میں آئیں گے۔
کہانی کا پس منظر
اس عید پر سب سے زیادہ انتظار اسی فلم کا کیا جا رہا تھا۔ اس میں ہماری ملاقات ٹیپو (شہریار منور) سے ہوتی ہے، ایک 29 سالہ بے وقوف، مضحکہ خیز سا لڑکا جو اپنی سخت گیر ماں (حنا دلپذیر) اور اپنی پرعزم کزن نیلی (ماہرہ خان) کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کی ایک جیولری اسٹور پر ایسی ملازمت ہے جس میں آگے بڑھنے کا کوئی امکان نہیں، اور وہ صدر کے گنجان آباد علاقے میں رہتا ہے اور یہی کہانی کا نمایاں پس منظر ہے۔
ہم بڑی اسکرین پر کراچی کے چمک دھمک والے مناظر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں (ہو من جہاں، تھوڑا جی لے، اور فہرست طویل ہوجائے گی) مگر 7DMI ہمیں شہر کے مرکز میں لوگوں کی روز مرہ زندگی قریب سے دکھاتی ہے۔ فلم کی منظر کشی دیکھ کر نامعلوم افراد کی یاد آتی ہے جو کہ حیران کن نہیں کیوں کہ دونوں کی سنیماٹوگرافی رانا کامران نے کی ہے۔
بنیادی طور پر 7DMI ایک رومانوی مزاحیہ فلم ہے جس میں سحر انگیز عناصر بھرپور انداز میں شامل کیے گئے ہیں، اور اسے ایک ایسی کہانی بھی کہہ سکتے ہیں جس میں اداکاروں کی عمریں بڑھتی ہوئی دکھائی جاتی ہیں، بس یہ کہ مرکزی کردار جوانی کو پہنچتا کوئی ٹین ایجر نہیں ہے، مگر وہ دکھتے ایسے ضرور ہیں۔
سچی محبت کی تلاش اور 'زیرو سے ہیرو' بننے کی خواہش میں اس کی ملاقات ایک چالاک جن دوارکا پرساد (جاوید شیخ) سے ہوتی ہے جو اسے ایسا چیلنج دیتا ہے جو ٹیپو کے لیے مکمل کرنا ناممکن ہوتا ہے (کیوں کہ اسے پھنسانا ہی دوارکا پرساد کا مقصد ہوتا ہے): ٹیپو کو ایک ہفتے کے اندر چہرے پر تِل والی لڑکی ڈھونڈ کر اسے اپنی محبت میں گرفتار کرنا ہوگا ورنہ اسے باقی پوری زندگی دوارکا کے غلام کے طور پر گزارنی ہوگی۔
یہاں پر آمد ہوتی ہے؛ نیلی کی، جو کہ ٹیپو سے بے حد محبت کرتی ہے مگر اس کی منگنی کسی اور سے ہو چکی ہے؛ غزالہ (آمنہ الیاس) کی جو کہ حقوقِ نسواں کی ایک کارکن ہیں اور ٹیپو کو جس سے محبت ہے، مگر اپنی پہلی ہی ملاقات پر گرفتار ہوجاتا ہے؛ اور پھر پرنسیس سونو (میرا سیٹھی)، ایک برطانوی پاکستانی جو ٹیپو کے دل کے تار بجا جاتی ہیں مگر چیزیں ایسی نہیں ہوتی جیسی نظر آتی ہیں، اور بہت جلد معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔
یہاں سے اس کا سفر تیزی سے آگے بڑھتا ہے، یا یوں کہیں کہ اپنے خوابوں کی ملکہ کی وہ دیوانہ وار تلاش شروع کر دیتا ہے اور فلم کا بنیادی سوال یہاں یہ بن جاتا ہے: کیا ٹیپو کو کبھی اپنی محبت ملے گی یا وہ اپنا سب سے بڑا دشمن خود ہی ہے؟
فلم کی خوبیاں
(ذیل میں فلم کی کہانی کے چند حصے دیے گئے ہیں)
سب سے پہلے تو ہمیں ہدایت کاروں مینو اور فرجاد (زندہ بھاگ کے پیچھے موجود ٹیم) کو داد دینی ہوگی جو بہترین داستان گو ہیں؛ انہوں نے یقینی طور پر ان اداکاروں سے بہترین اداکاری کروائی ہے۔ شہریار کی گھبراہٹ اور مضحکہ خیز رویہ اتنا حقیقی محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھول جائیں گے کہ آپ فلم دیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ ہماری زندگی میں ہر کوئی کسی نہ کسی ٹیپو کو جانتا ہے، ایک تھوڑا عجیب اور شرمیلا سا لڑکا مگر ایک سنہرے دل کا مالک۔ اور کون کہتا ہے کہ اچھے لڑکے ہمیشہ ہار جاتے ہیں؟
اور جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، یہ ہدایت کار ماہرہ سے مزاحیہ اداکاری کروانے میں کامیاب رہے۔ ہمیں اس حوالے سے تحفظات تھے مگر اب نہیں ہیں، یہ خاتون واقعی ہر فن مولا ہیں۔
جاوید شیخ کا کردار بھی بہت مزیدار ہے جو ایک ایسے شیطان صفت جن کا ہے، جو لاکھوں مختلف روپ بدل سکتا ہے۔ حنا دلپذیر کو اسکرین پر دیکھ کر شائقین بہت محظوظ ہوئے کیوں کہ ہر دفعہ اسکرین پر ان کی آمد کے ساتھ سنیما میں کھلکھلانے کی آوازیں آتیں۔
مگر عامر قریشی چھپے رستم نکلے۔ نیلی کے بدمعاش منگیتر 'کن کٹا' سے ہمارا پہلا تعارف متاثر کن نہیں تھا۔ یہ سنجے دت کا ایک کمزور سے تاثر تھا مگر فلم کے کلائمیکس تک ان کا کردار بھی کچھ زبردست مزاح کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اور یہ پرنسیس سونو کے کردار سے تو پھر بھی زیادہ متعلقہ کردار تھا۔
ٹیپو کے جگری دوست ٹنگو ماسٹر کے روپ میں دانش مقصود نے بھی زبردست مزاحیہ اداکاری کی اور مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ یہاں ایک چھوٹے قد کے شخص کو مرکزی دھارے کے سنیما میں ایک مناسب کردار دے کر انہیں پوری صلاحیتیں دکھانے کا موقع دیا گیا، بجائے اس کے کہ چھوٹے قد کے لوگوں سے مخصوص کوئی روایتی کردار دے دیا جاتا۔
فلم کو جس چیز نے جوڑے رکھا وہ آرٹ ڈائریکشن اور سنیماٹوگرافی تھی۔ سچی بات ہے کہ 7DMI اگر اتنی دیدہ زیب نہ ہوتی تو قابلِ برداشت نہ ہوتی۔ پراڈکشن ویلیو حیران کن ہے: میں نے پاکستانی سنیما میں اس سے بہتر اسپیشل افیکٹس نہیں دیکھے، جب کہ اس میں نہایت سوچ بچار سے کرداروں کی شوخ اسٹائلنگ کی گئی ہے کہ آپ اسکرین سے نظریں ہٹانا پسند ہی نہیں کریں گے۔
اوہ، وار میں رات سے علی سیٹھی اور آئمہ بیگ کا 'یوں ہی راستے میں' بار بار سن رہی ہیں تو آپ اندازہ لگا لیں کہ فلم کے گانے بھی کتنے اچھے رہے ہوں گے مگر ریمل علی کے غیر ضروری آئٹم سانگ کو چھوڑ کر۔ انہیں ڈانس تو کرنا آتا ہے مگر ریمل کے آنے سے کہانی میں کچھ بھی اضافہ نہیں ہوا (جب آپ دیکھیں گے تو آپ جان لیں گے)۔
خامیاں
ویسے تو فصیح باری خان ایک ذہین لکھاری ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر فلم کی کہانی مجموعی طور پر مایوس کن تھی۔
کہانی میں وہ سارے چھوٹے موٹے ٹوئسٹ آنے سے پہلے ہی آپ کو محسوس ہوجائے گا کہ آگے کیا ہونے والا ہے، اور کسی کسی جگہ واضح تھا کہ کچھ مناظر دوسری فلموں مثلاً Bedazzled (الزبتھ ہرلی = جاوید شیخ) سے متاثر (اٹھائے گئے) ہیں، یا پھر جب شہریار مولوی کے روپ میں آتے ہیں (ارے یار ہم سب نے انداز اپنا اپنا دیکھی ہوئی ہے۔)
دیکھنا چاہیں تو یہاں دیکھ لیں۔
بولی وڈ کی بیکار فلموں کی یاد دلانے والے مناظر تو ہول سیل کے حساب سے بھرے پڑے تھے: میں اس لیے جانتی ہوں کیوں کہ میں بھی وہ فلمیں دیکھتی ہوں۔ مثلاً ایک منظر جو مجھے یاد ہے وہ تھا جب ٹیپو صبح صبح اپنی عینک لگاتا ہے تو پاتا ہے کہ اس کی بینائی معجزانہ طور پر ٹھیک ہوچکی ہے (فلم کوئی مل گیا کا منظر، جس کے بنانے والوں نے وہ منظر اسپائیڈر مین سے لیا تھا۔)
یہ بدقسمتی ہے کیوں کہ فلم ہر اعتبار سے منفرد ہے، بھلے ہی اس کی وجہ یہ ہو کہ پاکستانی سنیما میں اپنی طرز کی پہلی فلم ہے۔
فلم کا پلاٹ کئی جگہوں پر کھوکھلا ہے جبکہ کہیں کہیں غیر ضروری چیزیں بھی موجود ہیں اور ہمارے روایتی تصورات بھی بار بار نظر آتے ہیں۔ میرا سیٹھی کا کردار ضروری نہیں تھا اور آسانی سے رہنے دیا جا سکتا تھا۔ ہاں وہ اسکرین پر اچھی لگتی ہیں مگر ان کا لہجہ بہت ہی عجیب سا تھا اور ان کی نانی 'پینو' (بیو ظفر) کہانی کے اس حصے کا واحد معقول کردار ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ ان کی ملاقات کی وجہ سے ٹیپو کو محبت میں ہمت کرنے کے بارے میں ایک دو چیزیں سیکھنے کو ملیں مگر وہ یہ سبق زیادہ متاثر کن انداز میں بھی دے سکتے تھے جس کے لیے میرا سیٹھی کو ایک دلچسپ کردار دینا ہوتا۔
دلچسپ کرداروں کی بات کریں تو کرداروں کی ڈویلپمنٹ برے انداز میں کی گئی تھی۔ شہریار میں آنے والی تبدیلی بالکل غیر حقیقی تھی۔ جب نیلی اسے شاپنگ پر لے جاتی ہے اور اس کی وضع قطع تبدیل کرتی ہے تو وہ اچانک ہی پرکشش لڑکا بن جاتا ہے۔ میں اس سے قائل نہیں ہوئی: نیلی کو خود بھی اپنے آپ پر کام کرنے کی ضرورت تھی۔ وہ عمر کی دوسری دہائی کے آخر میں ہوتے ہوئے بھی اپنے بالوں میں بو کلپس لگائے گھوم رہی تھی۔
شاید یہی وہ نکتہ تھا جو فلم ساز دکھانا چاہتے تھے کہ اصل میں تبدیلی کہیں باہر سے نہیں آئی تھی، بلکہ ہیرو اس کے اندر ہمیشہ سے موجود تھا۔ مگر شاید میں فلم سازوں کو یہاں شک کا فائدہ دے رہی ہوں۔
اور ظاہر ہے کہ میں کس طرح فیمینیسٹ زاویے کو بھول سکتی ہوں؟ غزالہ فیمینیسٹ دکھائی گئی ہے مگر حقیقت میں مِسینڈرسٹ یعنی مرد ذات سے نفرت کرنی والی ہے جو کہ اندھیرے کمروں میں خواتین کے ساتھ مل کر خفیہ میٹنگز میں مردوں کے خلاف سازشیں تیار کرتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ فلم سازوں کا یہ دکھانے کا مقصد صرف طنزیہ ہوگا کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ شاید یہ دکھانے کا سب سے اچھا طریقہ مزاح نہیں تھا کیوں کہ فیمینیزم پہلے ہی بہت بدنام ہے، خاص طور پر ہمارے ملک میں۔
وہ ایسی خود مختار لڑکی دکھائی گئی ہے جو کسی لڑکے کی جانب سے ایک 'ڈیسینٹ' میسیج آتے ہی اس کے ہاتھوں میں گر جاتی ہے۔ جب وہ نیلی اور کن کٹا کی شادی میں مداخلت کرتی ہے تو دیکھ کر بڑا مزہ آیا کیوں کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی زبردستی کی شادی نہیں ہوسکتی تھی، مگر مردوں کو فیمینیزم پر لکھنے سے پہلے تھوڑی ریسرچ کر لینی چاہیے۔
اور اب سب سے اہم بات۔ ٹیپو اور نیلی کزنز ہیں۔ فلم کا پہلا منظر ہی ٹیپو کے ایک عجیب/بھیانک خواب سے ہوتا ہے جس میں نیلی باغ میں کافی جذباتی شاعری پڑھ رہی ہوتی ہے۔ مگر جب وہ جاگتا ہے تو وہ نسبتاً زیادہ سمجھدار معلوم ہوتا ہے۔ دوسری جانب نیلی بالکل اس کے لیے پاگل دکھائی گئی ہے۔
یہ پریشان کن ہے کہ کس طرح پاکستانی میڈیا نے کزنز کے لیے رومانوی جذبات کو نارمل بنا کر پیش کر رکھا ہے۔ اور نہیں میں یہ دلیل نہیں سنوں گی کہ "مگر کزن میرج تو پاکستان میں بہت عام ہے۔" ہاں یہ عام ہے اور اسے عام نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آگاہی رکھنے والے اور ذہین فلم ساز اور اداکار اس بات پر توجہ نہیں دیں گے تو کون دے گا؟
ہم بار بار ٹی وی پر یہی کہانی دیکھتے ہیں کہ دو مرکزی رومانوی کردار آپس میں رشتے دار نکلتے ہیں (ماہرہ خان تو عادی مجرم ہیں، صدقے تمہارے یاد ہے؟) مگر اب تو یہ بات فلموں میں بھی نظر آنے لگی ہے۔
مجھے بہت برا لگا کیوں کہ ہمیں وہ چیز ملی جس سے ہم 'ہو من جہاں' میں محروم رہ گئے تھے مگر کیوں، انہیں کزن ہی کیوں ہونا تھا؟ دونوں کی آپس میں کیمسٹری اتنی اچھی اور مخلصانہ تھی مگر بس یہ چیز میرے ذہن میں اٹک کر رہ گئی ہے۔
حتمی فیصلہ؟
عام طور پر فلم ساز ٹیم ریلیز سے پہلے جو بھی کچھ کہتی ہے، میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔ 7DMI کے معاملے میں بہت سارے وعدے کیے گئے تھے جن میں سے کچھ یہ تھے کہ یہ 'ایک نیا تصور' اور 'شروع سے آخر تک تفریح ہی تفریح' ہے۔
ہاں انہوں نے اپنے وعدوں کی پاسداری کی ہے۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گی۔ آپ یہ فلم ضرور دیکھنے جائیں۔ اپنی عیدی اس پر خرچ کر کے آپ کو پچھتاوا نہیں ہوگا۔
ست دن محبت اِن 15 جون 2018 کو دنیا بھر میں ریلیز ہوئی۔
تبصرے (1) بند ہیں