خارجہ پالیسی میں چیلنجز بھی ہیں اور مواقع بھی
ایک جامع، مضبوط خطوط پر استوار اور عوامی حمایت یافتہ خارجہ پالیسی اہم ہے، خاص طور پر گلوبلائزیشن کے ایسے دور میں جہاں نئے اور خوفناک چیلنجز سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ خارجہ پالیسی کوئی الگ تھلگ چیز نہیں اس لیے اسے ویسے دیکھا بھی نہیں جانا چاہیے۔ یہ تو صرف ملک کی داخلی پالیسی کی عکاس ہے۔
دونوں آپس میں ناقابلِ علیحدگی انداز میں جڑی ہوئی ہیں کیوں کہ خارجہ پالیسی تب تک مؤثر اور معتبر نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کی پشت پناہی کے لیے ہم آہنگی اور بہتر حکمرانی کو فروغ دینے والی داخلہ پالیسی موجود نہ ہو۔
مندرجہ بالا جملے مسلم لیگ (ن) کے 2013 کے انتخابی منشور سے لیے گئے ہیں۔ یہ اقتباس قابلِ فہم ہے مگر 'قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی' مسلم لیگ (ن) کے 14 حصوں پر مشتمل منشور کا بارہواں حصہ تھا۔
اور جہاں مسلم لیگ (ن) کے وعدہ کردہ اقدامات زیادہ تر غیر متنازع تھے، وہیں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں اپنی حیثیت جتانے کی کوشش مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی اور شاید اس نے نواز شریف کی بے دخلی میں کردار ادا کیا ہو۔
بادی النظر میں دیکھیں تو فوجی اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی زیرِ قیادت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے درمیان تصادم پارٹی کے انتخابی منشور میں ہی نظر آتا ہے۔ 2013 کے منشور میں لکھا ہے، "آج کا پاکستان اندرونی طور پر جنگ اور بیرونی طور پر تنہائی کا شکار ہے۔ نتیجتاً ملک ایک گہرے مسئلے کا شکار ہے؛ اس کی سماجی، اقتصادی اور سیاسی دراڑیں ہمارے بہترین دوستوں تک کے ذہنوں میں خدشات اور غلط فہمیاں پیدا کر رہی ہیں۔"
2018 میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے شعبوں میں چیلنجز گوناگوں اور پیچیدہ ہیں۔ مگر کئی اہم مواقع بھی موجود ہیں۔ جو بھی پارٹی یا اتحاد انتخابات کے بعد وفاقی حکومت سنبھالے گا، خارجہ پالیسی میں اس کا رویہ اس کی کامیابی کا بنیادی کلیہ ثابت ہوگا۔
اندرونی جہت، یعنی سول ملٹری تعلقات کو سنبھالنا بھی اتنا ہی اہم ہوگا جتنا کہ بیرونی جہت سنبھالنا۔ حتمی طور پر زیادہ تر معاملات اس پر منحصر ہوں گے کہ پاکستان کے چین، امریکا، افغانستان اور ہندوستان سے تعلقات کون سا رخ اختیار کریں گے۔
چین پاکستان کے وسط مدتی معاشی مستقبل کے لیے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بلوغت حاصل کر رہی عالمی قوت کے طور پر علاقائی سیکیورٹی میں اس کی اہمیت بڑھے گی۔
سی پیک ویسے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ستون تو ہے مگر سی پیک سے منسلک کئی ابتدائی منصوبے اگلی پارلیمنٹ کی مدت کے دوران مکمل ہوں گے، مگر انہیں ممکنہ طور پر غیر ملکی مالی امداد چاہیے ہوگی، چنانچہ پاکستان اور چین کے تعلقات کی اقتصادی جہت پر مزید غور کرنا ہوگا۔
بالخصوص مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر بڑھتی ہوئی تنقید کہ وہ غیر ضروری طور چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو خفیہ رکھے ہوئے تھی، اور یہ کہ معاہدوں کی کمرشل شرائط پاکستان کے حق میں نہیں ہیں، اس تنقید پر جائزہ لے کر ان شبہات کو دور کیا جانا چاہیے۔
یقیناً چوں کہ دونوں ممالک مضبوط دو طرفہ تعلقات کے لیے پرعزم ہیں، اس لیے از سرِ نو معاشی توازن تعمیری انداز میں قائم کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو علاقائی سیکیورٹی صورتحال بہتر بنانے کے چین کے مشورے پر سختی سے غور کرنا چاہیے۔ چین کے ہندوستان کے ساتھ مضبوط و لچکدار تجارتی تعلقات اور ڈوکلام واقعے کی وجہ سے تعلقات متاثر نہ ہونے دینا وہ مثالیں ہیں جو ہمارے کام آ سکتی ہیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ جنوبی اور مغربی ایشیا اور علاقائی ممالک کی بڑھتی ہوئی معاشی اور عسکری استعداد کو تعلقات کے موقع کے طور پر دیکھے جیسا کہ چین نے کیا ہے۔
چین کے ساتھ گہرے ہوتے ہوئے پاکستانی تعلقات ایک جانب ہیں تو دوسری جانب امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات مسلسل خرابی کی جانب گامزن ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اتنے ہی انتشار انگیز ثابت ہوئے ہیں جتنا کہ صدارتی امیدوار ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا۔ اور پاکستان کے معاملے میں تعلقات میں بگاڑ آیا ہے۔
امریکا کی 2017 میں اعلان کردہ جنوبی ایشیا حکمتِ عملی اور ٹرمپ کی سالِ نو کے موقع پر ٹوئیٹ کو اگرچہ یہاں کے حالات اور چند امریکی الزامات کے لہجوں اور مواد نے مل کر تعلقات کی خرابی کا سامان پیدا کیا ہے۔
اگر تعلقات میں بہتری لانی ہے تو مرکزی اہمیت افغانستان کو حاصل ہوگی۔ وہاں پر پاکستان کے پاس اب بھی تاریخی موقع ہے کہ وہ اگلے سال 40 سال کی ہوجانے والی مسلسل جنگ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
اگلی حکومت کو عسکری قیادت کے ساتھ مل کر کابل میں افغان طالبان کے ساتھ ایک سیاسی سمجھوتے کے حصول کے لیے کام کرنا چاہیے۔ افغانستان میں طویل مدتی استحکام تمام کرداروں کا بزبانِ خود بیان کردہ نتیجہ ہے، اور یہ سرحدِ امکان سے دور نہیں ہے۔
اور آخر میں ہندوستان کی بات کریں تو ہماری فوجی قیادت کی حالیہ پیش قدمیوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور انتخابات کے بعد جو سویلین حکومت چارج سنبھالے، اسے فوراً ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی کوششیں کرنی چاہیئں۔
یہ واضح نہیں کہ ہندوستانی وزیرِ اعظم آسانی سے ایک نئی پاکستانی حکومت کی جانب سے مصافحے کا ہاتھ قبول کریں گے، مگر تعلقات اور مذاکرات کی منطق کو حتمی طور پر سبقت لینی چاہیے۔
امید ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے نئے منشور میں ان نکات پر توجہ دیں گی۔ امید ہے کہ اگلی حکومت خارجہ پالیسی کے شعبے میں سابق حکومت سے زیادہ کامیابیاں سمیٹے گی۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 5 جون 2018 کو شائع ہوا۔