سعودی عرب،کویت، امارات کا اردن کے لیے امداد کا اعلان
ریاض: سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت نے اردن کے لیے ڈھائی ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کردیا.
مذکورہ امداد کا اعلان اردن کو درپیش معاشی بحران کو حل کرنے کے لیے کیا گیا جس کے باعث ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے.
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اردن میں ملکی قرضے کم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مزید ٹیکس عائد کردیا گیا تھا، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگیا، مذکورہ اضافے کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کے باعث وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اردن: شاہ عبداللہ نے نیا وزیر اعظم نامزد کردیا
سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی شہر مکہ المکرمہ میں سعودی فرماں رواں شاہ سلمان کی میزبانی میں چارملکی مذاکرات ہوئے، جس میں عمان نے اردن کے مرکزی بینک میں خطیر رقم جمع کرائے جانے کی صورت میں بیل آؤٹ کا اعلان کیا، جبکہ ورلڈ بینک نے بھی 5 سال کی مدت تک بجٹ سپورٹ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
سعوی پریس ایجنسی کےمطابق برادرانہ تعلقات کے پیش نظر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت ڈھائی ارب ڈالر کا معاشی امدادی پیکج اردن کو فراہم کریں گے۔
مذاکرات میں اردن کے بادشاہ عبداللہ دوئم بھی موجود تھے، جنہوں نے تینوں ممالک کے اس خوش آئند فیصلے پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ امدادی پیکج بحران سے نکلنے میں ہماری مدد کرے گا۔
مزید پڑھیں: اردن کے وزیراعظم مہنگائی کے خلاف عوامی احتجاج پر مستعفی
واضح رہے کہ مذکورہ اعلان یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف فیڈریکا مورگینی کے اعلان کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے یورپی یونین کی جانب سے ارد ن کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے اردن کو 70 کروڑ 23 لاکھ ڈالر قرضہ فراہم کرنے کا کہا تھا۔
شدید مالی بحران کا شکار ملک اردن جوامریکا کا اتحادی بھی ہے زیادہ تر امداد پر انحصار کررہا ہے، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے 70 کروڑ 23 لاکھ ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کے بعد بھی اسے مشکلات کا سامنا ۔
ملک میں جاری مظاہروں کے پیش نظر حکام نے گزشتہ ہفتے عوام میں غیر مقبول قانون سازی واپس لینے کا اعلان کیا تھا، لیکن اسے عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے ساتھ عوام سے قرضوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے انتہائی اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: اردن: حکومت مخالف مظاہرے،وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ
اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خلیجی مملک کی جانب سے امداد کا اعلان اس خطرے کے پیش نظر کیا گیا ہے کہ کہیں عوام کے سڑکوں پر آنے کے سبب 2011 والی صورتحال نہ پیدا ہوجائے جس میں تیونس سے شروع ہونے والی بغاوت کی لہر مشرق وسطٰیٰ میں عرب اسپرنگ کے نام سے پھیل گئی تھی، اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
اس حوالے سے واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سینئر فیلو ’لاری بوگھارٹ‘ کا کہنا تھا کہ جس تیزی سے عرب ممالک کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ عرب ممالک اردن میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو پورے خطے پر اثر انداز ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عرب ممالک ہر وہ ممکن اقدام کریں گے جس سے عرب اسپرنگ کو دوبارہ سراٹھانے سے روکا جاسکے۔
دوسری جانب اردن نے خطے میں درپیش خطرات کو اپنے سنگین معاشی حالات کی بنیادی وجہ قرار دیا، جس کے تحت جنگ سے متاثرہ شام سے ہزاروں پناہ گزین اردن میں پناہ لیے ہوئے ہیں، اور شکوہ کیا کہ اسے ان پناہ گزینوں کے لیے معقول امداد نہیں دی جارہی۔
اس سلسلے میں ورلڈ بینک کہا کہنا تھا کہ رواں برس اردن میں معاشی نمو کی رفتار انتہائی کم رہی جبکہ آبادی کا 18.5 فیصد حصہ بے روزگار ہے۔
یہ خبر 12 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔