• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

سیاسی جماعتوں کا اقتصادی منشور

ان انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو 3 مخصوص اور مرکزی مسائل پر توجہ دینی چاہیے جن کی پاکستانی معیشت شکار ہے۔
شائع June 6, 2018 اپ ڈیٹ June 7, 2018

تینوں بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ن) نے اپنے 2013ء کے انتخابی منشور میں معیشت پر خاصی بحث کی تھی۔

پیپلزپارٹی

پی پی پی نے وسائل کی تقسیم کی پالیسیوں پر توجہ دی تھی، جسے وہ 'منصفانہ اور تمام طبقات کی شمولیت سے ہونے والی ترقی' کہتی ہے۔

جہاں اس نے ترقی کی بات کی تو وہاں اس کی توجہ چھوٹے اور درمیانے کاروبار، نوکریوں، ہنر اور زراعت پر رہی۔

پیداوار میں اس کی توجہ خصوصی اقتصادی زونز پر رہی یعنی قومی معیشت کے وہ شعبے جن میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے الگ پالیسیوں کا نفاذ ہوگا۔

تجارت میں اس کا صرف یہ کہنا تھا کہ یہ 'کرنسی کی تبدیلی کے تخلیقی معاہدوں' کا فائدہ اٹھائے گی۔

مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) نے قومی اقتصادی اشاریوں پر زور دیا۔ اس نے اپنی حکومت کے اختتام تک بجٹ خسارے اور مہنگائی کی شرح میں کمی، تجارت کے لیے کھلی منڈیوں اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں ٹیکس کی شرح 15 فیصد تک لانے کا وعدہ کیا۔

صنعت کے لیے پارٹی نے برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے رعایتوں کا اعلان کیا اور وعدہ کیا کہ وہ صرف ٹیکسٹائل پر منحصر برآمدات کو بڑھاتے ہوئے آئی ٹی پراڈکٹس بھی برآمد کرے گی۔

تحریک انصاف

پی ٹی آئی کے منشور میں 2013ء میں ٹھہراؤ کی شکار شرح ترقی، ملکی قرضے میں اضافہ، گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور بلند مالیاتی خسارے پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

پی ٹی آئی نے 6 فیصد شرح ترقی کا ہدف اپناتے ہوئے افراطِ زر کی شرح کم کرنے (7 فیصد سے نیچے) اور سرمایہ کاری کو 2013ء میں (جی ڈی پی) کے 12 فیصد سے بڑھا کر 21.4 فیصد پر لانے کا وعدہ کیا۔

منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ٹیکس ریوینیو کو جی ڈی پی کے 15 فیصد تک لایا جائے گا، یعنی وہی شرح جس کا وعدہ مسلم لیگ (ن) نے کیا تھا۔ اس کے علاوہ منشور میں کہا گیا تھا کہ 'فلاحی اخراجات' 4 گنا بڑھا دیے جائیں گے اور مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 4.5 فیصد تک لایا جائے گا۔

مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے آپس کی معاندانہ سیاست کے باوجود 2013ء میں کافی حد تک ملتے جلتے معاشی تصورات پیش کیے مگر ان کے حصول کا راستہ مختلف پیش کیا۔

جہاں مسلم لیگ (ن) نے رعایتوں کی بات کی تو وہاں پی ٹی آئی نے خدمات کی فراہمی کا راستہ کرپشن کے خاتمے، کاروباری گٹھ جوڑ توڑنے، ذخیرہ اندوزوں، سٹے بازوں اور بجلی و ایندھن چوری کے خلاف کارروائی بتایا۔

مختصر الفاظ میں کہیں تو جہاں مسلم لیگ (ن) کا وژن ترقی اور برآمدات بڑھانے کے لیے رعایات اور فوائد فراہم کرنا تھا، وہیں پی ٹی آئی کا مقصد ان رویوں میں تبدیلی لانا تھا جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کے نزدیک ملکی معاشی ترقی رکی ہوئی ہے۔

اس سے آگے بڑھیں تو دونوں کے مقاصد ایک ہی ہیں۔

ان انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کو 3 مخصوص اور مرکزی مسائل پر توجہ دینی چاہیے جن کی پاکستانی معیشت شکار ہے۔

یہ مسائل گردشی قرضے، مالیاتی خسارہ اور بیرونی شعبے کا خسارہ (یعنی دوسرے ممالک کے مقابلے میں معیشت کی مسابقتی صلاحیت کا موازنہ) ہیں۔

یہ مسائل ملکی معیشت کو لاحق مسائل کی جڑ ہیں اور تب تک کوئی ترقی نہیں ہوسکتی جب تک کہ انہیں پائیدار انداز میں حل نہ کیا جائے۔

اب تک تمام سیاسی جماعتوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ 2013ء میں جسے 'توانائی کا بحران' کہا جا رہا تھا، وہ صرف طلب اور رسد میں فرق نہیں تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ توانائی کے شعبے کے بڑھتے ہوئے اخراجات، ابتدائی سرمایہ کاری کے اخراجات اور جاری اخراجات پورے کرنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے بھی تھا۔

اس کے علاوہ مسئلہ توانائی کی مرکزی بیوروکریسی کی حدود میں رہتے ہوئے توانائی کے شعبے کو ترقی دینے اور سنبھالنے میں ناکامی بھی تھا۔

اس لیے چاہے ہم دنیا بھر کے میگاواٹ اکھٹے کرلیں مگر ہم 'توانائی بحران' سے تب تک بچ نہیں سکتے جب تک کہ گہرائی تک اصلاحات کو آگے نہیں لایا جاتا۔

مالیاتی اور بیرونی شعبے کے خسارے آپس میں منسلک ہیں اور ان کی وجہ سے دہائیوں سے ہمارے حکمران ان بڑے شراکت داروں کی تلاش میں سرگرداں رہے ہیں جو ہمارے مسائل کو کم کرنے میں مدد دیں، پھر چاہے اس کے بدلے میں وہ خطے میں اپنا ایجنڈا ہی کیوں نہ بڑھائیں۔

اس کی وجہ سے ہم نے نقصان اٹھایا ہے۔

ارضی سیاسیات کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) بھی ہے۔

ہر کچھ سال میں زرِ مبادلہ کے تمام ذخائر استعمال کرلینا، جس کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، اسے اب ختم کرنا ہوگا اور اسے ختم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اگر ہم جڑ، یعنی معیشت کو درست کریں۔

مثال کے طور پر دیکھیں کہ اس سوال پر ہونے والی تمام تحقیقیں اس بات پر متفق ہیں کہ ایک زیادہ کھلی علاقائی تجارتی پالیسی ملکی معیشت کی زرِ مبادلہ حاصل کرنے کی صلاحیت بڑھا سکتی ہے مگر پھر بھی اس راستے پر آگے بڑھنے میں ہم مشکلات کا شکار ہیں۔

سیاسی جماعتیں جب اپنے منشور ترتیب دیں تو انہیں موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ دیکھنا چاہیے کہ کس طرح یہ 3 مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اور پھر ان مسائل کو اپنی انتخابی دستاویز کا مرکزی حصہ بنانا چاہیے۔

ہر جماعت کو وعدہ کرنا چاہیے کہ وہ زرِ مبادلہ ذخائر گرنے کے دہائیوں پرانے مسئلے کو حل کرنے اور توانائی کے شعبے کو اپنے اخراجات پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔

یہ وہ عزم ہے جس کے لیے ملک کے بلند ترین عہدے سے 5 سالہ کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔


یہ اداریہ ڈان اخبار میں 6 جون 2018 کو شائع ہوا۔


انگلش میں پڑھیں۔