اسلام اور دوسرے مذاہب میں 'عیدی' کا تصور
عید تو پوری دنیا میں مسلمانوں کے لیے ایک ایسا تہوار ہے جس پر لوگ خوش ہوتے ہیں، خاندانوں میں میل ملاپ ہوتا ہے، ناراضگیوں کا خاتمہ ہوتا ہے، بلکہ سندھ اور بلوچستان میں یہ بھی روایت ہے کہ گلے ملتے ہوئے جانے انجانے میں کی جانے والی غلطیوں کی معافی مانگنے کے بعد ایک مرتبہ پھر گلے ملتے ہیں اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔
لیکن عید کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس موقع پر اپنے اور خاندان کے دیگر بڑے لوگ بچوں کو حسبِ توفیق نقد رقم کی صورت میں عیدی دیتے ہیں۔ ہم نے کوشش کی کہ اِس حوالے سے کچھ معلومات حاصل کریں کہ عید کے تہوار کے موقع پر بچوں کو نقد رقم کیوں دی جاتی ہے اور اس کی تاریخ کیا ہے۔ جب ہم نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں سے اِس بارے میں بات کی تو یہ صورتحال سامنے آئی کہ نقد رقم اور وہ بھی خصوصاً بچوں کو دینے کا معاملہ محض ہندوستان میں رائج ہے۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق عیدی پر بچوں کو نقد رقم دینے کی روایت کا آغاز ہندوستان میں ہوا تھا۔ اس سے پہلے اِس طرح کی کوئی مثال سامنے نظر نہیں آتی۔ مسیحی مذہب میں کرسمس کے موقع پر سانتا کلاز بچوں میں تحائف تقسیم کرتے ہیں، لیکن یہ روایت بھی مسیحیت کے آغاز میں نہیں تھی، بلکہ یہ رواج تو بعد میں سامنے آیا ہے۔
پڑھیے: قومی قیادت کے عید کے موقع پر پیغامات
اس کا آغاز خصوصاً اسکینڈے نیوین ممالک میں ہوا اور آہستہ آہستہ یہ رسم مسیحی مذہب کے دوسرے ممالک میں بسنے والے مسیحی پیروکاروں میں فروغ پاگئی۔ اب یہ باقاعدہ ایک مذہبی رسم کے طور پر مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے فلمیں بھی بنائی گئی ہیں اور نت نئے قصے بھی تخلیق کیے گئے ہیں، لیکن بات وہی ہے کہ مسیحیت میں بھی یہ بات بچوں کو تحفے تحائف دینے کی حد تک محدود ہے۔ اصل میں عیدی دینے کی روایت مکمل طور پر ایک ہندوستانی روایت ہے، جس کے ذریعے بچوں کو اس بات کا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق دی جانے والی رقم کو خرچ کرسکیں۔
جہاں تک مسیحیت میں عیدی دینے کے رواج کا تعلق ہے اس حوالے سے ہمارے مسیحی دوستوں عمانوئیل اور سیموئل کا کہنا ہے کہ مسیحیت میں عیدی کی کوئی روایت نہیں ہے، اس کے برعکس بچے سے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ اُس کی خواہش کیا ہے، یعنی کہ اگر بچہ چھوٹی عمر کا ہے تو وہ چھوٹی سائیکل کی فرمائش کرسکتا ہے۔ اُس سے تھوڑا بڑا ہے تو وہ ٹیبلٹ کی فرمائش کرسکتا ہے اور اگر اُس سے زیادہ بڑا ہے تو ہوسکتا ہے کہ لیپ ٹاپ کی فرمائش کر بیٹھے۔ مسیحی ماں باپ یہ فرمائش اپنی حیثیت کے مطابق پوری کرسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ یہ پیسے نقدی کی صورت میں انہیں دے دیے جائیں اور پھر وہ اُسے جہاں چاہیں وہاں خرچ کریں۔
آئیے اب چلتے ہیں ہندوؤں کی جانب۔ پروفیسر ناگ پال صاحب جو ہندو مذہب اور اُس کی تاریخ پر دسترس رکھتے ہیں اُن سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہندومت میں عیدی جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہندوؤں کے 2 بڑے تہوار ہوتے ہیں ایک ہولی دوسری دیوالی۔ ان دونوں مواقع پر مختلف خاندان آپس میں میل ملاپ کرتے ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں اور اسی بہانے محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
پروفیسر ناگ پال کے مطابق وہ کسی بھی خوشی کے موقع پر دوستوں کو نقد رقم دینے کے بجائے پھولوں کا گلدستہ پیش کیا کرتے تھے۔ اُن کی نوجوانی کے دنوں میں جب وہ کسی شادی پر جاتے تھے اور لوگ دولہا کو نوٹوں کا ہار پہناتے تھے تو اُنہیں سخت غصہ آجاتا تھا، وہ سمجھتے تھے گلدستہ اِس موقع پر ایک بہترین پیشکش ہے۔
خصوصی فیچر: بھائی یہ عید کارڈ کیا ہوتا ہے؟
لیکن، آہستہ آہستہ اُن کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ گلدستہ دوسرے دِن مُرجھا جاتا ہے لیکن نوٹ کبھی نہیں مُرجھاتے، اور وہ کسی نہ کسی کام آجاتے ہیں۔ اس لیے اب انہوں نے ایسے کسی بھی موقع پر اپنے دوست کو نقد تحفہ پیش کرنے سے متعلق طے کرلیا ہے، لیکن ہولی یا دیوالی پر اِس قسم کی کوئی بھی روایت نہیں ہے۔
معروف ماہر تعلیم، پروفیسر کرن سنگھ کے مطابق گوکہ ہولی یا دیوالی کے کسی تہوار پر اس طرح کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن رکشا بندھن کے موقع پر جب کوئی لڑکی کسی لڑکے کو اپنا بھائی بناتی ہے تو اس موقع پر لڑکے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ راکھی بندھوانے کے بعد کچھ نقد رقم راکھی باندھنے والی بہن کو دے۔ بالکل اسی طری ہولی یا دیوالی پر اُن کے خاندان میں بچوں کو نقد رقم دی جاتی ہے، لیکن یہ باقاعدہ روایت نہیں بلکہ صرف جیب خرچ کے طور پر ہوتی ہے۔
پارسی مذہب کے پیروکار ہومی پارسی کے مطابق پارسیوں کے تہواروں کے موقعے پر بچوں کو نقد رقم جیب خرچ کے طور پر دی جاتی ہے۔ بہائی مذہب کے پیروکار خان احسن امام کے مطابق گوکہ بہائی مذہب کا تعلق ایران سے ہے اور وہ نوروز کے موقعے پر اپنی عید مناتے ہیں لیکن بچوں کو اس موقعے پر نقد رقم بھی دیتے ہیں۔ یہ نقد رقم عیدی کے نام پر دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برِصغیر میں جتنے مذاہب ہیں اُن میں بین المذاہب ہم آہنگی موجود ہے۔ کہیں بھی کسی بھی اچھی بات کو جوں کا توں قبول کرلیا جاتا ہے۔
پاکستان سکھ کونسل کے چیئرمین رمیش سنگھ کے مطابق سکھ برادری کے تہواروں کے موقعے پر بچوں کو نقد رقم دینے کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ وہ بچوں کو اپنے ہمراہ گرودوارے لے کر جاتے ہیں اور وہاں گرنتھ صاحب کا دیدار کرتے ہیں۔ پھر یہ بچے گرنتھ صاحب کا دیدار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔
پڑھیے: ایک پردیسی کی عید کی روداد
ہمارے صحافی دوست انور خان سے جب ہم نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ کیا اسلام میں عیدی کا کوئی تصور ہے تو انہوں نے اس حوالے سے اسلامی نقطہ نظر کو کچھ اِس انداز میں بیان کیا:
'تمدنی زندگی میں لین دین کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اپنی کوئی چیز ہدیہ اور تحفے کے طور پر کسی کو پیش کردی جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اس کی بڑی ترغیب دی ہے۔ اس کی یہ حکمت بھی بتلائی ہے کہ اس سے دلوں میں محبت و الفت اور تعلقات میں خوشگواری پیدا ہوتی ہے، جو اس دنیا میں بڑی نعمت اور بہت سی آفتوں سے حفاظت اور عافیت و سکون حاصل ہونے کا سبب و وسیلہ ہے۔
ہدیہ وہ عطیہ ہے جو دوسروں کا دل خوش کرنے اور اس کے ساتھ اپنا تعلقِ خاطر ظاہر کرنے کے لیے دیا جائے اور اس کے ذریعے رضائے الہٰی مطلوب ہو۔ یہ عطیہ اور تحفہ اگر اپنے کسی چھوٹے کو دیا جائے تو اس کے ساتھ اپنی شفقت کا اظہار ہے۔ اگر کسی دوست کو دیا جائے تو یہ زیادہ محبت کا وسیلہ ہے۔ اگر کسی ایسے شخص کو دیا جائے جس کی معاشی حالت کمزور ہے تو یہ اس کی خدمت اور اس کی تطبیبِ خاطر کا ذریعہ ہے اور اگر اپنے کسی بزرگ اور محترم کو پیش کیا جائے تو ان کی تکریم اور 'نذرانہ' ہے۔ اگر کسی کو ضرورت مند سمجھ کر اللہ کے واسطے اور ثواب کی نیت سے دیا جائے تو یہ رویہ ہدیہ نہ ہوگا بلکہ صدقہ ہوگا۔ ہدیہ تب ہی ہوگا جب اس کے ذریعے اپنی محبت اور اپنے تعلقِ خاطر کا اظہار مقصود ہو اور اس کے ذریعے مالی امداد نہیں بلکہ صرف رضائے الٰہی مطلوب ہو۔
تو جناب یہ تھا عیدی کا تصور اسلام اور دیگر مذاہب میں۔ مگر اس حوالے سے تلخ بات یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے پرانے طور طریقے جدید ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن کیا عیدی کے طور پر دیا جانے والا کوئی بھی تحفہ نئے نوٹوں کی بھینی بھینی خوشبو کا متبادل ہوسکتا ہے؟
آپ کی کیا رائے ہے؟
تبصرے (2) بند ہیں