تحریکِ انصاف کے 2 مہنگے فیصلے
حال ہی میں پاکستان تحریکِ انصاف نے 2 فیصلے کیے، مگر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی وجہ سے پارٹی نے دونوں فیصلے بلاتاخیر واپس بھی لے لیے۔ ایک فیصلہ پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کی نامزدگی اور دوسرا فاروق بندیال کو پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے تھا۔ اب جبکہ 2 ماہ بعد عام انتخابات ہوں گے، لہٰذا ان 2 فیصلوں کو واپس لینے سے عام انتخابات پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
جیسے جیسے انتخابات قریب آتے جائیں گے ویسے ویسے نئے اتحاد منظرِعام آئیں گے، مگر حقیقت یہی ہے کہ وفاقی یا مرکز کی سطح پر صرف 3 بڑی جماعتیں، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی ہیں، جبکہ ایم ایم اے کی صورت میں ایک سیاسی اتحاد بھی نظر آرہا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے 4 جماعتیں ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوں گی۔
اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف کے درمیان ہی ہوگا، اگر مرکز میں حکومت بنانے کے لیے اتحادیوں کی ضرورت پڑگئی تو ایم ایم اے، نواز لیگ کا ساتھ دے گی جبکہ پیپلزپارٹی تحریکِ انصاف کی اتحادی بنے گی، اب اگر سینیٹ میں چیئرمین کے انتخاب کو مدنظر رکھیں تو یہ خیال بہت حد تک ٹھیک بھی لگ رہا ہے۔
پڑھیے: عمران خان کی پانچ غلطیاں
بہرحال تحریر کا اصل موضوع پاکستان تحریکِ انصاف کے مذکورہ فیصلے اور پھر ان کے عام انتخابات پر پڑنے والے اثرات سے متعلق ہے۔ یہاں موضوعِ بحث یہ نہیں کہ ناصر محمود کھوسہ کون تھے اور ان کی شہرت کیا تھی؟ یا فاروق بندیال کا ماضی کیا ہے؟ انہیں کس جرم میں سزا ہوئی؟ اور اس سے پہلے وہ کون سی سیاسی جماعتوں میں شامل رہے۔ میرے لیے تو سب سے حیرانی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی دوسری بڑی جماعت کس طرح اس قدر کمزور فیصلے کرسکتی ہے کہ اپنے فیصلوں پر ہونے والی تنقید پر وضاحت دینے کے بجائے فیصلے کو ہی واپس لے لیتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ تو ہر سیاسی جماعت کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ جب وہ کسی فرد کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے جارہی ہو تو اُسے اس فرد کے ماضی کے بارے میں سب کچھ معلوم ہونا چاہیے کہ اُس کا ماضی کیسا رہا ہے؟ وہ اپنے اچھے نام کی وجہ سے مشہور ہے یا بُرے نام کی وجہ سے۔ لیکن تحریک انصاف نے تو حد ہی کردی کہ ایک ایسے فرد کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا جو سزائے موت کا مجرم رہا ہو، اور جب یہ باتیں سوشل میڈیا کے بعد ٹی وی پر بھی آنا شروع ہوئیں تو عمران خان کے ترجمان اور مرکزی رہنما نعیم الحق نے ٹوئٹر پر بیان جاری کیا کہ فاروق بنڈیال کی تحریک انصاف میں شمولیت افسوسناک ہے اور انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے، بلکہ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں تو کسی پارٹی میں بھی جگہ نہیں ملنی چاہیے۔
کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آپ کا یہ دعوی ہے کہ آپ اس بار اپنا وزیراعظم لانے والے ہیں، اب ایک ایسی جماعت جو حکومت بنانے کا خیال ذہن میں لارہی ہو اگر وہ اپنی پارٹی سے متعلق اس قدر کمزور فیصلے کرے گی تو ملک سے متعلق کیے گئے فیصلوں پر ہم ان پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں؟
لیکن جہاں ان فیصلوں کے واپس لینے پر مخالفین نے تحریکِ انصاف پر مزید تنقید کے نشتر برسائے اور فیصلوں کی واپسی کو یوٹرن سے تعبیر کیا گیا وہیں تحریکِ انصاف کے کارکنان نے سوشل میڈیا پر اپنی پارٹی کے بھرپور دفاع میں یہ دلائل پیش کیے کہ فیصلوں کو واپس لینے کے اس اقدام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’پی ٹی آئی ایک حقیقی جمہوری جماعت ہے اور کارکنان کے دباؤ میں آکر پارٹی نے فیصلے واپس لیے، ہماری جماعت کا جمہوری رویہ اور کارکنان کی بات کو اہمیت دینے کی بات پر ہمارا یقین اور پختہ ہوگیا ہے، پارٹی کا یہ اقدام درحقیقت پی ٹی آئی کی ہار نہیں بلکہ کارکنان کی جیت ہے اور کارکنان ہی پارٹی کا اصل سرمایہ ہے۔‘
اگر مذکورہ دلائل کو مان لیا جائے کہ ان فیصلوں کو واپس لینے سے پاکستان تحریکِ انصاف کا ووٹ بینک متاثر نہیں ہوگا اور عمران خان کے سابقہ یعنی انتخابات 2013ء کے ووٹرز 2018ء میں بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے تو کیا یہ خیال کرنا ٹھیک ہوگا کہ خان صاحب وزارت اعظمی کے منصب پر براجمان ہوجائیں گے؟
بالکل نہیں، کیونکہ 2013ء کے انتخابات میں تحریکِ انصاف نے 70 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 40 لاکھ سے زائد ووٹرز کی حمایت حاصل کی تھی، حکومت اور وزارتِ عظمیٰ کے لیے تحریک انصاف کو اپنا ووٹ بینک نہ صرف برقرار رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ دیگر جماعتوں کے ووٹ بینک کا رخ بھی اپنی طرف کرنا ضروری ہے، ایسی صورت میں ہی حکومت بنانے سے متعلق پی ٹی آئی کا دیرینہ خواب سچ ہوسکتا ہے۔
پڑھیے: لودھراں میں شکست: وقت اب بھی عمران خان کے ہاتھ سے نکلا نہیں
اب سوال یہ ہے کہ پارٹی فیصلے کرنے اور پھر انہیں واپس لینے کا عمل کہیں نئے ووٹرز کو پارٹی کی طرف مائل کرنے میں رکاوٹ کا سبب تو نہیں بنا؟ مخالفین اب تحریک انصاف کو سوشل میڈیا کی جماعت قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اکثر و بیشتر کرکٹ کی زبان میں مخالفین سے باتیں کرتے ہیں کہ ایک گیند سے 2 وکٹیں اڑادیں گے، باؤنسر کے سامنے کوئی نہیں کھڑا ہوسکے گا۔ عمران خان اکثر یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ کھلاڑی کوئی بھی ہوں اس سے اتنا فرق نہیں پڑتا، کپتان ٹھیک ہونا چاہیے کیونکہ کپتان ہی ٹیم کو لڑاتا ہے، وغیرہ۔
تحریکِ انصاف کے کپتان سے اگر کرکٹ کی زبان میں یہ سوال کیا جائے کہ جو کپتان گراؤنڈ میں تماشائیوں کی خواہش اور شور پر ہی ٹیم کی بیٹنگ یا بولنگ آرڈر تبدیل کرتا رہے تو کیا وہ ایک اچھا کپتان کہلایا جاسکتا ہے؟
ہرگز نہیں، کیونکہ کپتان کو خود تمام تر صورتحال کا ادراک ہونا چاہیے اور موجودہ صورتحال اور مخالفین کی چالوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارنا چاہیے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا تحریک انصاف کے کپتان کو تمام تر صورتحال کا ادراک ہے اور سیاسی منظرنامے اور مخالفین کے چالوں پر ان کی نظر ہے بھی یا نہیں؟
پی ٹی آئی کے حالیہ ان 2 فیصلوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کو سیاسی منظرنامے کا کچھ خاص ادراک نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شاید وہ ایسے کچے فیصلے کرتی ہی نہیں جو ذرا سی تنقید پر رسوائی کا باعث بن جائیں اور واپس لینے پڑجائیں، بلکہ معاملہ تو یہ ہے کہ انتخابات کے قریب آتے ہی عوام کی سیاست میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ چیزوں کو قریب سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔
متحرک ماس میڈیا اور سوشل میڈیا کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو تول کر بولنا اور محتاط ہوکر فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کراچی کے حلقہ این اے 246 میں ایک سیاسی بیان کا نقصان اٹھا چکی ہے جب انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کو زندہ لاشوں سے تشبیہہ دیا تھا۔ عمران خان کے اس بیان کو ایم کیو ایم نے مہاجروں کی توہین سے تعبیر کیا اور ضمنی الیکشن کو ایم کیو ایم بمقابلہ پی ٹی آئی کے بجائے پی ٹی آئی بمقابلہ مہاجر بنا دیا، اور ایم کیو ایم کو بڑے مارجن سے فتح مل گئی۔
پڑھیے: سامان 100 ’دنوں‘ کا، پَل کی خبر نہیں!
ان 2 فیصلوں کی صورت میں پچ پر کھڑے مخالفین کو لوز بالز مل گئے ہیں، اب یہ بیٹسمین پر ہے کہ وہ کیا ان لوز بالز کو ایم کیو ایم کی کی طرح کھیلتے ہوئے باؤنڈری سے باہر پھینکتے ہیں یا پھر صرف ایک یا 2 رنز پر ہی اکتفاء کریں گے۔
لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کے پرانے ووٹرز پر اس تمام تر معاملے کا کوئی اثر نہ پڑے کیونکہ تحریک انصاف کے پیچھے موجود حمایتوں کے لیے پارٹی پالیسی اہم نہیں بلکہ ان کے لیے تو عمران خان کی شخصیت ہی اہم ہے، اب عمران خان دائیں کا اشارہ دے کر بائیں مڑ جائیں یا بائیں کا اشارہ دے کر دائیں مڑ جائیں، انہیں تو صرف عمران خان ہی پسند ہے۔
سیاسی جماعتوں کا طرزِ سیاست، کارکردگی اور بعض اوقات بیانات، فیصلہ اور اتحاد پارٹی کے لیے ٹیگ (علامت) بن جاتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے لیے ان ٹیگز کو اتارنا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا ایک دوسرے پر لگائے گئے الزمات بھی القاب اور ٹیگ کا سبب بن جاتے ہیں، جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر کرپشن کا ٹیگ لگا، جمعیت علماء اسلام (ف) سے مفاد پرستی کا ٹیگ جڑا وہیں تحریکِ انصاف پر ماضی کے فیصلوں اور اقدامات اور اب ان 2 فیصلوں کے بعد ’سیاسی نابالغ‘ کا ٹیگ لگنے جارہا ہے۔ ہم اس سیاسی بحث میں تو نہیں الجھتے مگر اس قسم کا ٹیگ انتخابات کے دنوں میں پی ٹی آئی کے لیے اچھے شگون کا باعث تو قطعی نہیں ہوسکتا۔
پڑھیے: ایک 'خیالی' کہانی، عمران خان کی زبانی
لہٰذا تحریکِ انصاف کے پاس اس طرح کی مزید غلطیاں دہرانے کی گنجائش نہیں ہے اور تحریک انصاف کی قیادت کے لیے ضروری ہے مزید غلطیاں کرنے کے بجائے کارکردگی کے ساتھ میدان میں اترے۔ یہ حقیقت ہے کہ خیبرپختونخوا میں آج بھی تحریکِ انصاف اپنی کارکردگی کی بنیاد پر سب سے مقبول جماعت ہے اور تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ قوم سے نئے وعدے کرنے کے بجائے، عوام کے سامنے خیبرپختونخوا حکومت کی کارکردگی کا ماضی کی صوبائی حکومتوں اور سندھ و پنجاب کی صوبائی حکومتوں سے موازنہ پیش کرے اور ووٹ مانگے، اگر نوازشریف اور زرداری پر تنقید کو انتخابی مہم کا حصہ بنایا گیا تو ممکن ہے کہ یہ تحریکِ انصاف کے حق میں بہتر نہ ہو، کیونکہ وہ اس کے جواب میں تحریکِ انصاف پر تنقید شروع کریں گے اور انتخابی مہم کارکردگی کے بجائے الزمات کی نذر ہوجائے گی۔
تحریکِ انصاف کو اپنی انتخابی مہم کے طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے، اگر پارٹی عام انتخابات 2013ء، بلدیاتی انتخابات اور ضمنی انتخابات جیسی انتخابی مہم کے ساتھ میدان میں اترے گی تو یہ یقیناً پی ٹی آئی کی جانب سے ایک اور غیر دانشمندانہ اور غیر سنجیدہ فیصلہ ہوگا۔
تبصرے (7) بند ہیں