• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لوڈشیڈنگ کا خاتمہ:’بجلی کے نظام میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت‘

شائع May 30, 2018

اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے جہاں ایک طرف پریس کانفرنس کے دوران ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پانے کا دعویٰ کیا گیا تو وہی ایک خاص پارلیمانی پینل نے پاور ڈویژن کو بتایا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کے لیے ترسیل اور تقسیم کے نظام میں 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پاور ڈویژن کے ایڈیشنل سیکریٹری مصدق خان کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر کے ترسیل اور تقسیم کے نظام کو بڑے پیمانے پر اپ گریڈیشن اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوڈشیڈنگ پر مکمل طور پر قابو پایا جاسکے۔

پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) سینیٹر شبلی فراز کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں مصدق خان نے بتایا کہ اس نظام کو حاصل کرنے کے لیے 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان سے لوڈشیڈنگ رواں سال مکمل ختم ہوجائے گی، شہباز شریف

انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں کل 8 ہزار 631 فیڈرز ہیں، جنہیں نقصانات اور وصولی کے حساب سے 1 سے 7 کی درجہ بندی میں تقسیم کیا گیا ہے جبکہ 5 ہزار 367 فیڈرز ایسے ہیں جو 10 فیصد سے کم نقصانات میں ہیں اور انہیں درجہ اول میں شامل کیا گیا۔

بجلی کی پیداوار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پیر کے پیک آور تک 20 ہزار 100 میگا واٹ کا سنگ میل تک پہنچ گئے تھے لیکن یہ ٹرانسمیشن میں پیچھے ہے، کیونکہ ملک میں زیادہ تر ٹرانمیشن لائنز بیکار ہوچکی ہیں اور یہ نصف صدی سے زائد پرانی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درجہ اول کے صارفین لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں لیکن نقصانات میں اضافے سے انہیں بھی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اجلاس کے دوران جوائنٹ سیکریٹری پاور زرغام اسحٰق خان نے کمیٹی کو بتایا کہ اپریل 2013 میں پاور ڈویژن کو کل وصولی 410 ارب روپے ہوئی تھی جو 2017 میں بڑھ کر 729 ارب روپے تک پہنچ گئی جبکہ اس وقت اس مد میں 851 ارب روپے وصول ہورہے ہیں۔

دوسری جانب ادائیگیوں کو دیکھا جائے تو 2013 میں یہ 207 ارب روپے تھی، جو بڑھ کر 377 ارب روپے ہوئی اور اب یہ 573 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نجی شعبے سے وصولی میں بھی اضافہ ہوا اور یہ 2013 میں 260 ارب روپے، 2017 میں 503 ارب روپے اور اپریل 2018 تک 565 ارب روپے تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بچنے کیلئے 93 ارب روپے کا منصوبہ منظور

اجلاس کے دوران کمیٹی نے بااثر لوگوں کی جانب سے بجلی کی چوری اور بلز کی عدم ادائیگی کو مالی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے حکومت سے سوال کیا کہ حکومت اس کی روک تھام کے لیے ایک جیسی حکمت عملی بنائے۔

سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ غریب عوام باقاعدگی سے بجلی کا بل ادا کرتے ہیں اور اگر وہ کبھی بل بھرنا بھول جائیں تو ان کی بجلی منقطع کردی جاتی ہے جبکہ بااثر لوگ مسلسل ڈیفالفر ہیں لیکن اثر و رسوخ کے باعث کوئی ان کا کے کنیکشن منقطع نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کے بل کی ادائیگی نہ کرنے والے اور اثر و رسوخ سے سزاؤں سے بچنے والے مالی دہشت گرد ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے مالی دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایک حکمت عملی بنائے اور اس میں انسداد دہشت گردی ایکٹ شامل کرے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024