کراچی جو اِک شہر تھا (دوسرا حصہ)
یہ اس سیریز کا دوسرا بلاگ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھیں۔
یہ سال 1972ء کے ابتدائی ایام تھے اور اُس دن سندھ کے شہر خیرپور میرس سے ہجرت کرکے کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر اترنے والا وہ خاندان حافظ عبدالرحمٰن کیہر کا تھا۔ میں، یعنی عبیداللہ کیہر، عبدالرحمٰن کیہر کی 5 اولادوں میں چوتھے نمبر پر تھا۔ کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کی اُس یادگار صبح میں وہ میرا ازلی تجسس ہی تھا کہ جس نے مجھے ریلوے اسٹیشن سے باہر جھانکنے پر مجبور کیا تھا، پھر میرے لیے کراچی کا پہلا منظر ہی حیرت انگیز تھا۔ پاکستان کی بلند ترین عمارت حبیب بینک پلازا کے اُس اچانک جلوے نے مجھے ڈرا دیا تھا۔ یہ میری کراچی پر اولین نظر تھی۔
عبدالرحمٰن کیہر حافظِ قرآن اور عالمِ دین تھے۔ علمِ صرف اور علمِ نحو کے استاد تھے۔ مدارس میں تدریس، نماز جمعہ کی خطابت اور ماہِ رمضان میں تراویح پڑھانا ان کی زندگی کے اہم اجزاء تھے، لیکن یہ سب ان کا ذریعہ معاش نہیں تھا۔ اپنے روزگار کے لیے وہ درزی کا کام کرتے تھے۔ ’حافظ عبدالرحمٰن ٹیلر ماسٹر‘ کا بورڈ اُن کی مختصر سی دکان پر آویزاں رہتا تھا۔
ابّا کے خیرپور کے دوست چچا عبدالغنی ہم سے ایک سال پہلے خیرپور چھوڑ کر کراچی منتقل ہوئے تھے اور انہی کی ترغیب پر ابّا ہم سب کو لے کر کراچی آ گئے تھے۔ کچھ دن تو ہم لالو کھیت (لیاقت آباد) میں سندھی ہوٹل کے پیچھے والے محلے میں چچا عبدالغنی کے گھر میں ہی اوپر والے حصے میں رہے، پھر لالو کھیت قبرستان اور لیاری ندی کے درمیانی حصے میں سندھی جوکھیوں کے گاؤں محمدی گوٹھ میں آگئے۔
دیس سے پردیس آجانے والے اس سہمے اور مغموم سے خاندان کو جو پذیرائی، اپنائیت اور محبت جوکھیوں کے اس گاؤں میں ملی، وہ زندگی بھر بھلائے نہ بھلے گی۔ ابّا نے یہاں سے قریب ہی منگھوپیر روڈ پر بڑا بورڈ اسٹاپ کے پاس اپنی ٹیلرنگ شاپ کھول لی اور ہم کراچی کے باسی ہوگئے۔ مجھے اور عبداللہ بھائی کو محمدی گوٹھ کے قریب ایک سرکاری پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اب ہم روز صبح اچھلتے کودتے کھلکھلاتے اسکول جانے لگے اور زندگی ایک مخصوص ڈگر پر چل پڑی۔
پڑھیے: کراچی کو کس نے کب کب نقصان پہنچایا؟
لالو کھیت کراچی کا دل تھا۔ پُررونق، متحرک اور زندہ دل لوگوں کا مرکز۔ تین ہٹی پر لیاری ندی کے پل سے لے کر لالو کھیت 10 نمبر تک سارا علاقہ ایک مارکیٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ دن بھر تو بازاروں کی گہما گہمی رہتی تھی اور شام کو سڑک کے کنارے ہوٹلوں کی کرسیاں میزیں رکھ دی جاتیں، قلفی فالودے والے سرخ کپڑے سے سجے، پانی سے تر مٹکوں کے ساتھ آ براجمان ہوتے۔
آلو چھولے، دہی بڑے، چاٹ، گول گپے، پکوڑے، سموسے اور کچوریوں والے اپنے اپنے ٹھیلے لیے اپنی مخصوص جگہوں پر پہنچ جاتے اور رونق کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ یہ ہنگامہ رات گئے تک جاری رہتا۔ ہر ٹھیلے کی اپنی ’گیس بتی‘ ہوتی تھی جو مٹی کے تیل سے جلتی تھی اور اس کے سلنڈر میں بار بار پمپ کرکے پریشر بنایا جاتا تاکہ روشنی تیز جلتی رہے۔ گیس بتیوں کی اس چکا چوند میں لالو کھیت کا ڈاک خانہ چوک جگمگانے لگتا۔
میں اور میرا چھوٹا بھائی حبیب اللہ، بڑے بھائی عبداللہ کے ساتھ اکثر شام کو محمدی گوٹھ سے نکلتے اور ڈاک خانہ چوک کی رونق سے لطف اندوز ہوتے۔ قلفی فالودے دہی بڑے چھولے کے لیے تو پیسے ہمارے پاس ہوتے نہیں تھے، لہٰذا ہم ان ٹھیلوں سے آنکھ بچاتے ہوئے آگے آگے چلتے اس جگہ تک پہنچ جاتے جہاں ’احمد کراچی حلوہ مرچنٹ‘ کی بڑی سی دکان جگمگ جگمگ کر رہی ہوتی تھی۔
ہماری منزل احمد مٹھائی والے کے عین سامنے روڈ کے پار ایک ہوٹل ہوتا تھا کہ جس نے ایک بڑا سا ٹی وی باہر ایک اونچی ٹیبل پر لا کر رکھا ہوتا تھا۔ ٹی وی نشریات تو شام 5 بجے شروع ہوتی تھی، البتہ یہ ٹی وی مغرب کے بعد آن کیا جاتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے ہی لوگوں کی بڑی تعداد آکر اس ہوٹل کی لکڑی کی بینچوں پر براجمان ہوچکی ہوتی تھی اور پھر جب یہ ٹی وی آن ہوتا تو خلقت میں دگنا اضافہ ہوجاتا۔ اب ٹی وی پر ایک کے بعد ایک پروگرام چل رہا ہے اور بینچوں پر بیٹھے لوگ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے یا قلفی فالودہ کھاتے ہوئے، سلسلہ ’بصیرت‘ سے لے کر 9 بجے کے خبرنامے تک، بلا تخصیص ہر پروگرام دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔
ہم بھی ہوٹل کی بینچوں کے اطراف میں کھڑے ہجوم کا حصہ بن جاتے تھے۔ اس زمانے میں جن لوگوں کے گھر میں ٹی وی موجود تھا ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، لہٰذا ٹی وی دیکھنے کے شوقین گھروں سے نکل کر اس طرح کے ہوٹلوں پر آجاتے تھے۔ مجھے اس ہوٹل کے ٹی وی پر چلنے والا اپنی زندگی کا اولین پروگرام یاد ہے، وہ گلوکار ایم کلیم کا معروف گیت تھا:
او گوری گھونگھٹ میں شرمائے، او گوری گھونگھٹ میں شرمائے
آنچل ڈھل ڈھل جائے، حیا سے سمٹی سمٹی جائے
او گوری گھونگھٹ میں شرمائے، او گوری گھونگھٹ میں شرما آ آ آئے
(گیت یہاں سنیں)
ہم کبھی کبھی لالو کھیت سے ٹانگے میں بیٹھ کر قائدِاعظم کے مزار پر بھی جاتے تھے۔ مزار کا وسیع و عریض مرمریں فرش، اس کے سیڑھی در سیڑھی حوضوں پر چلنے والے فوارے، ٹھندی ہواؤں میں جھومتے ناریل کے درختوں کی قطاریں، مزار کے گنبد پر پڑنے والی فلڈ لائٹوں کی بوچھاڑ میں چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا گنبد اور مقبرے کا چاروں گوشوں پر کھڑے بت کی طرح ساکت سپاہی، یہ سب ہمارے لیے بڑا حیرت انگیز، دلکش اور دلفریب تھا۔
مزید پڑھیے: کراچی کا مضافاتی قلعہ رتوکوٹ، جو ڈوبنے کے قریب ہے
مگر لالو کھیت کے یہ دن مختصر ثابت ہوئے۔ ابّا کی دکان بڑا بورڈ پر تھی اور وہ روزانہ پیدل آتے جاتے تھے۔ ہم بھی کبھی کبھی ابّا کے لیے کھانا لے کر اس دکان پر جاتے تھے۔ درمیان میں گجر نالہ، گولیمار اور کھجی گراؤنڈ آتا تھا اور پھر پاک کالونی سے ہوتے ہوئے ہم چمن سینما کے سامنے مین روڈ کے پار اس سڑک پر چل پڑتے جو گبول گوٹھ کی طرف جاتی تھی۔ یہ اچھا خاصا فاصلہ بنتا تھا اور ہم ابّا کی دکان تک پہنچتے پہنچتے ہانپ جاتے تھے۔ ایک دن ابّا نے آکر بتایا کہ انہوں نے وہیں بڑا بورڈ پر ایک ایسا گھر کرائے پر لے لیا ہے کہ جس میں ایک دکان بھی ہے۔ چنانچہ اب ہم نے محمدی گوٹھ کو بھی خیر باد کہا اور بڑا بورڈ کے اس عمدہ مکان میں منتقل ہوگئے۔ اسکول البتہ چھوٹ گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد کراچی پھیلنا شروع ہوا تو میلوں تک چلا گیا تھا۔ نئی آبادیوں میں پیر الہٰی بخش کالونی، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، نارتھ کراچی، اورنگی، ڈیفنس سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس (یعنی پاکستان ایمپلائز کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی)، ڈرگ کالونی (شاہ فیصل کالونی)، سعود آباد، لانڈھی، کورنگی اور گلشنِ اقبال وغیرہ شامل تھے۔ 70ء کی دہائی تک ان نئی آبادیوں میں ابھی گلستانِ جوہر، گلشنِ معمار، میٹروول، گلشن حدید اور دیگر کئی آبادیاں شامل نہیں ہوئی تھیں۔ ابھی شہر زیادہ تر ایک دو منزلہ مکانات پر مشتمل تھا اور چند مکانوں کی گنجائش میں ہزاروں فلیٹوں کے گھنے جنگل آباد ہونا ابھی باقی تھے۔
سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہوتا تھا۔ پیدل چلنا یا طویل فاصلوں کے لیے بھی سائیکل استعمال کرنا عام سی بات تھی۔ ابّا نے کچھ ہی عرصے میں ایک سائیکل لے لی جس پر وہ پورے شہر کے طول و عرض میں مزے سے گھومتے رہتے تھے۔ کراچی میں ٹرام 1885ء سے اب تک چل رہی تھی۔ 1914ء تک اسے گھوڑے کھینچتے رہے تھے۔ بعد میں کچھ عرصہ کوئلوں کی آگ سے چلنے والے اسٹیم انجن بھی استعمال کیے گئے، مگر شور اور آلودگی کے باعث ان کا استعمال بند کرکے دوبارہ گھوڑے جوتے جانے لگے، حتیٰ کہ ڈیزل انجن آگئے۔
ٹرام کراچی میں 70ء کے عشرے تک چلتی رہی۔ ہم نے بھی ابّا کے ساتھ کئی بار ٹرام کی سواری کی بلکہ ایک دفعہ لائٹ ہاؤس سینما کے سامنے میں ایک ٹرام کی زد میں آکر مرتے مرتے بچا۔ یہ ٹرامیں کیماڑی، بولٹن مارکیٹ، صدر، کینٹ اسٹیشن، چاکیواڑہ اور چڑیا گھر کے لیے چلتی تھیں۔ آج بھی اگر کراچی کی ان سڑکوں کو کچھ گہرا کھودا جائے جہاں سے ٹرامیں گزرتی تھیں، تو شاید ان ٹراموں کی دبی ہوئی کچھ پٹریاں برآمد ہوجائیں۔
سرکلر ٹرین بھی، جسے ’لوکل‘ کہا جاتا تھا، شہر میں سفر کا ایک اہم ذریعہ ہوتی تھی۔ ایک لوکل ٹرین سٹی اسٹیشن سے شروع ہوکر وزیر مینشن، لیاری، سائٹ، لیاقت آباد اور گلشن اقبال سے ہوتی ہوئی ڈرگ روڈ اسٹیشن تک آتی تھی جو کہ مین ریلوے لائن پر تھا۔ یوں یہ شہر کی کئی اہم آبادیوں کے گرد حلقہ سا بنا لیتی ہے۔
دوسری لوکل ٹرین لانڈھی اسٹیشن سے چلتی تھی اور ملیر، ڈرگ روڈ، کارساز، چنیسر گوٹھ اور کینٹ اسٹیشن سے ہوتی ہوئی سٹی اسٹیشن تک جاتی تھی۔ ان میں روزانہ ہزاروں لوگ سفر کرتے تھے اور اکثر نے یکمشت رعایتی قیمت دے کر مہینے بھر کا پاس خریدا ہوا ہوتا تھا۔ یہ پاس ہولڈر بغیر ٹکٹ کے کبھی بھی کہیں سے بھی سوار ہوسکتے تھے۔ کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے ٹی سی) کی بسوں میں طالب علموں کے لیے ٹکٹ صرف 30 پیسے کا ہوتا تھا۔ جہاں سے چاہیں سوار ہوں، جہاں چاہیں اتریں۔
جانیے: کراچی کی قدیم عید گاہیں
منگھوپیر بڑا بورڈ کے محلے میں ہمارے دن کھیل کود میں گزرنے لگے۔ یہ محلہ بڑا پُرسکون اور پُرامن تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ ہمارے پڑوس کے ایک گھر میں ٹی وی بھی تھا جہاں محلے بھر کی عورتیں اور بچے ٹی وی دیکھنے جاتے تھے۔ ایک بڑے سے صحن میں اونچی سی ٹیبل پر رکھے اس ٹی وی کے سامنے سب چپ سادھے بیٹھے انہماک سے ٹی وی کی اسکرین کو تکتے رہتے تھے۔
اردو ڈرامے، انگریزی فلمیں، کارٹون، خبریں، حالات حاضرہ کے پروگرام، سب ایک کے بعد ایک چلتے چلے جاتے اور ناظرین یکساں دلچسپی سے ان سارے پروگراموں کو دیکھتے چلے جاتے۔ میں اور حبیب اللہ بھی اکثر ان ناظرین میں شامل ہوتے تھے اور وہاں سے اسی وقت اٹھتے تھے کہ جب عبداللہ بھائی کی صورت میں ابّا کا خوفناک بلاوا آجاتا تھا۔ کبھی زیادہ دیر ہوجاتی تو ابّا سے مار بھی پڑتی تھی۔ ابّا کو ہمارا ٹی وی دیکھنا بالکل پسند نہیں تھا۔
وہ سکون اور خوشی کے دن تھے لیکن یہ سکون بہت عارضی ثابت ہوا۔ بڑا بورڈ پر رہتے ہوئے چند ہی ماہ گزرے ہونگے کہ اچانک فسادات پھوٹ پڑے۔ صوبہءِ سندھ کی سرکاری زبان اردو کے بجائے سندھی کرنے کا شوشہ چھوڑا گیا اور کراچی میں ہنگامے برپا ہوگئے۔ خصوصاً لیاقت آباد اور اس کے اطراف کی آبادیوں میں حالات زیادہ خراب تھے بلکہ کرفیو کی اصطلاح سے بھی ہم زندگی میں پہلی دفعہ یہیں متعارف ہوئے۔ منگھوپیر روڈ پر بھی کرفیو لگنے لگا۔ وقفے میں دکانیں تیزی سے کھلتیں، لوگ آناً فاناً ضروریاتِ زندگی کی خرید و فروخت کرتے اور 2 گھنٹے میں ہی یہ وقفہ ختم ہوتا۔
لوگ لمحوں میں منظر سے غائب ہوجاتے اور ایک ہولناک سناٹا چھا جاتا، جسے گاہے بہ گاہے گلی میں سے گزرنے والے کسی فوجی ٹرک کی آواز توڑ دیتی۔ ہم اس سڑک پر رہتے تھے جو گبول گوٹھ کی طرف جاتی تھی، اس لیے یہاں پر فساد کا خدشہ زیادہ تھا۔ ہمارے ابّا دیندار اور ہمدرد طبیعت کے تھے، لوگوں کے کام آتے تھے۔ محلے کے لوگوں سے ایک اچھا اور محبت آمیز تعلق قائم کرچکے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ سندھی ہیں، خطرہ مول نہ لیں۔ یہاں سے کسی ایسے علاقے میں منتقل ہوجائیں کہ جہاں سندھی مہاجر فساد کا خطرہ نہ ہو۔
ایک دن صبح کرفیو کے وقفے میں ایک بڑا سا ٹرک ہمارے دروازے پر آکر کھڑا ہوگیا۔ ہمارے گھر کا سارا سامان ٹرک کے ساتھ آئے ہوئے مزدوروں نے کچھ ہی دیر میں ٹرک پر چڑھا دیا۔ اس ٹرک کے اگلے حصے میں مسافروں کو بٹھانے کے لیے الگ سے ایک کمپارٹمنٹ بھی تھا۔ ہم سب لوگ اس میں سوار ہوگئے اور کرفیو کا وقفہ ختم ہونے سے پہلے پہلے فساد زدہ علاقوں سے دور نکل آئے، چل سو چل، ٹرک گارڈن، لسبیلہ، تین ہٹی، پیر کالونی، جیل روڈ اور نیو ٹاؤن سے ہوتا ہوا ڈالمیا تک پہنچ گیا اور پھر مزید آگے بڑھتے ہوئے ڈرگ روڈ، ناتھا خان، اسٹار گیٹ اور وائرلیس گیٹ سے گزر کر ملیر تک آیا، ملیر ندی کا پل عبور کیا، قائد آباد پر پھاٹک کراس کیا اور لانڈھی ماچس فیکٹری کے محلے میں پہنچ گیا۔
یہاں ریلوے لائن کے برابر میں ایک گندی مندی، خودرو سی آبادی تھی جس میں ابّا نے 2 کمروں کا ایک بے پلستر سا مکان 15 روپے مہینہ کرائے پر لیا تھا۔ ہم جو لالو کھیت اور بڑا بورڈ کی نسبتاً جدید اور پڑھی لکھی آبادیوں میں کچھ دن گزار چکے تھے، لہٰذا اس کچی آبادی کو دیکھ کر شدید مایوس ہوئے مگر کیا کرتے کہ اس علاقے کی خصوصیت یہاں کا ’امن و امان‘ تھا۔ اس واقعے کو اب تک 4 عشرے گزر چکے ہیں لیکن کراچی والے جانتے ہیں کہ قائد آباد کا علاقہ آج بھی شہر کا سب سے پُرامن خطہ سمجھا جاتا ہے، جہاں کبھی بھی کوئی نمایاں لسانی و سیاسی فسادات نہیں ہوئے۔
شہر میں سندھی مہاجر فساد کچھ عرصہ جاری رہے لیکن ہم قائدآباد کے پُرامن حصار میں ہر طرح کی بدامنی سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارنے لگے۔ بڑے بھائی کو تو ابّا نے ڈرگ کالونی کے ایک مدرسے میں حفظِ قرآن کے لیے داخل کرادیا، البتہ میرا اور حبیب اللہ کا ابھی تک کسی اسکول میں داخلہ نہیں کرایا گیا تھا۔ ابّا تو ہمیں بھی مدرسے ہی میں ڈالنے کے درپے تھے لیکن اس معاملے پر امّی سے ایک زوردار جھگڑے کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ہمیں بالآخر کسی اسکول ہی میں پڑھنا تھا، لیکن فی الوقت تو عیاشی تھی، آوارہ گردی تھی۔
پڑھیے: کراچی کا اوتار: اے کے ہنگل
یہاں ہماری دلچسپی اور تفریح کا مرکز و محور ’ریلوے لائن‘ تھی۔ لانڈھی اسٹیشن قریب تھا، ملک بھر کی ریل گاڑیاں صبح شام یہاں سے شور مچاتی گزرتی تھیں اور ہم محلے کے سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچ بچے ریل گاڑی کے مسافروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر ٹاٹا کرتے رہتے تھے۔ ایک مشغلہ اور بھی تھا، امّی کی منت سماجت کرکے ہم ان سے المونیم کا ایک پیسے کا سکہ لیتے اور اسے ریلوے لائن پر رکھ کر گاڑی آنے کا انتظار کرتے۔ ٹرین گڑگڑاتی، بلبلاتی، شور مچاتی ہمارے سروں پر پہنچ جاتی اور پھر اس کے گزرتے ہی ہم پٹری کی طرف لپکتے۔ ریلوے لائن پر رکھا گیا معصوم سکہ آہنی پہیوں میں بھنچ کر اپنے دائرے سے دگنا پھیل چکا ہوتا تھا۔ ہم وہ گرما گرم سکہ اٹھا کر شور مچاتے کھلکھلاتے واپس آتے اور اسے اپنے خاص بچکانہ نوادرات کے ڈبے میں محفوظ کرلیتے تھے۔
ہم جو عرصہ ماچس فیکٹری والے اس گھر میں رہے، اس دوران ہمارے نوادراتی ذخیرے میں اس طرح کے پھیلے ہوئے کئی سکوں کا اضافہ ہوا۔ ہمارے سکے تو سارے ایک پیسے والے ہی ہوتے تھے، البتہ محلے کے نسبتاً خوشحال گھروں کے بچے 5 پیسے اور 10 پیسے کا سکہ بھی پٹری پر رکھ کر پھیلالیتے تھے۔ البتہ چَونیّ اور اَٹھنیّ کو پھیلانے کی مہنگی عیاشی کرتے کسی کو نہ دیکھا۔
ابّا نے محلے کی مرکزی گلی والے بازار میں ایک بار پھر اپنی ٹیلرنگ شاپ کھول لی تھی، لیکن وہ دکان کچھ ہی عرصہ چلا کر ابّا پھر یہاں سے غائب ہوگئے۔ اب انہوں نے قائدآباد پر ریڈیو پاکستان کالونی کے سامنے ٹھٹھہ روڈ (نیشنل ہائی وے) پر دکان کھول لی تھی۔ ہم چند ماہ اور ماچس فیکٹری والے مکان میں رہے لیکن پھر ابّا کی دکان کے پیچھے والے محلے میں ایک نسبتاً بڑے گھر میں اٹھ آئے۔ اس گھر کا کرایہ ماچس فیکٹری والے گھر سے 3 روپے زیادہ تھا۔ ہمیں معلوم نہ تھا کہ اب ہمیں اگلے 6 سال اسی گھر میں گزارنے ہیں۔
ریڈیو کالونی کے پرائمری اسکول میں مجھے پہلی جماعت میں داخل کروا دیا گیا۔ خیرپور اور لالو کھیت کے بعد یہ میرا تیسرا اسکول تھا لیکن ہر اسکول میں جماعت پہلی ہی ملی تھی۔ البتہ ریڈیو کالونی والے اس اسکول میں مجھے ’کچی پہلی" کے بجائے ’پکی پہلی‘ میں جگہ دی گئی، کیونکہ 2 اسکولوں کے تجربے نے مجھے نسبتاً ذہین طالب علم بنا دیا تھا۔ اسکول میں مجھے پھر کئی اردو اسپیکنگ مہاجر بچے ملے اور میری ان سے فوراً ہی دوستی ہوگئی۔ قائد آباد پر سویڈش ٹیکنیکل کالج سے متصل مہاجروں، خصوصاً انصاری برادری کی ایک اچھی خاصی آبادی تھی جہاں کے 80 فیصد بچے ہمارے اسکول میں پڑھتے تھے۔ میرے کراچی کے اولین دوست اسی ریڈیو کالونی اسکول کے مہاجر، پٹھان اور بلوچ بچے تھے اور ان میں سے کئی آج تک رابطے میں ہیں۔
اب ابّا مطمئن تھے۔ یہاں سندھی مہاجر فساد کا کوئی دھڑکا نہ تھا۔ ابّا کی ٹیلرنگ کی دکان بھی خوب چل نکلی۔ وہ سارا دن کپڑوں کی کٹنگ کرتے اور گھر پہنچاتے، جبکہ امّی اپنی موٹر والی سلائی مشین پر قمیضیں سیتی تھی، بہنیں پاؤں سے چلنے والی مشین پر شلواروں کی سلائی کرتیں۔ عبداللہ بھائی بھی مدرسہ چھوڑ کر گھر آچکے تھے چنانچہ انہیں کاج بٹن کے کام پر لگا دیا گیا تھا۔ میں چونکہ ایک پہلی جماعت کا پڑھا لکھا شخص بن گیا تھا، اس لیے مجھے امّی نے سلائی کے کسی کام میں نہ ڈالا اور حبیب اللہ تو ابھی چھوٹا تھا، لاڈلا تھا۔
جانیے: کراچی آرہے ہیں تو 10 چیزوں کے لیے تیار رہیں
ہم جس مکان میں 18 روپے مہینہ کرایہ دے کر رہتے تھے اس کا مالک ٹھیکیدار اللہ بخش ابّا کا دوست بن گیا۔ اس نے ابّا سے کہا کہ حافظ صاحب ڈھائی ہزار روپے میں مجھ سے یہ مکان لے لو اور کرایہ دینے سے جان چھڑاؤ۔ ابّا نے یہ بات امّی کے گوش گزار کی تو انہوں نے سال بھر کی جمع پونجی لاکر ابّا کے سامنے ڈھیر کردی۔ یہ 2200 روپے تھے۔ 300 روپے کم تھے۔ ٹھیکیدار اللہ بخش نے کہا کہ باقی پیسے 50 روپے مہینے کے حساب سے دے دیں۔ معاہدہ ہوگیا اور ہم گھر کے مالک بن گئے۔
اس زمانے میں اسٹیل مل اور پورٹ قاسم نئے نئے قائم ہوئے تھے۔ قائد آباد میں رہنے والے کئی لوگ ان اداروں میں کام کرتے تھے۔ ابّا نے کوشش کرکے عبداللہ بھائی کو بھی کسی طرح پورٹ قاسم میں فٹ کروا دیا۔ میں اسکول کی دوسری جماعت میں آگیا۔ پہلے سال تو بس پاس ہی ہوا، مگر دوسری جماعت میں تھرڈ، تیسری میں سیکنڈ، چوتھی میں فرسٹ اور پانچویں جماعت میں پورے اسکول میں پہلی پوزیشن لے آیا۔ اسکول کے سارے بچوں پر میں نے اپنی دھاک بٹھا دی تھی، اساتذہ کا منہ چَڑھا ہوگیا اور تیسرے سال ہی کلاس کا مانیٹر بن گیا۔
قائد آباد کے کُل 3 سرکاری پرائمری اسکولوں میں ریڈیو کالونی والے اسکول کو سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا، لیکن اس کے باوجود ہمارے اسکول کے بچوں کو ایک احساسِ کمتری کا بھی سامنا رہتا تھا۔ ریڈیو کالونی اسکول کے اطراف ریڈیو آفیسرز کے مکانات تھے اور ان میں سے کئی گھروں کے بچے ہمارے اسکول میں نہیں پڑھتے تھے۔ وہ ملیر کے معروف پرنس علی بوائز اسکول جاتے تھے۔ ان کے یونیفارم بھی ہم سے خوبصورت تھے اور ان کی کتابیں ہماری طرح گھر میں سیئے گئے پرانے کپڑے کے تھیلوں کے بجائے ریگزین کی خوبصورت بریف کیس نما پیٹیوں میں ہوتی تھیں۔
وہ ایک خاص نخرے سے اٹھلاتے ہوئے ہمارے سامنے سے گزرتے تھے اور ہمیں حقارت سے دیکھتے تھے۔ پانچویں جماعت میں مَیں نے خواب دیکھا کہ ہمارے اسکول کے گراؤنڈ میں کئی بچے پرنس علی اسکول کا یونیفارم پہنے اور کتابوں کی پیٹیاں ہاتھوں میں لٹکائے کھڑے ہیں، لیکن وہ سب حسرت کے ساتھ اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں، کیونکہ ان کے اوپر ایک بچہ ہوا میں اڑ رہا ہے، اور وہ بچہ مَیں تھا، مجھے وہ خواب دیکھ کر جو مسرت ہوئی تھی اس کا احساس دل میں آج بھی تازہ ہے۔
تبصرے (13) بند ہیں