پھولوں کی وادی ’پھلاوئی‘
2002ء میں مظفرآباد سے تقریباً 7 گھنٹوں کی تھکا دینے والی مسافت کے بعد جب ہم پہلی مرتبہ آٹھمقام پہنچے تو لائن آف کنٹرول پر دوسری طرف سے ہونے والی گولہ باری نے آٹھمقام شہر کو شدید متاثر کیا تھا جس کی وجہ سے ہم آگے نہیں جاسکے تھے، لیکن واپسی پر یہ ارادہ کرکے نکلے تھے کہ جلد دوبارہ واپس آئیں گے اور پھر تب سے یعنی گزشتہ 16 برسوں سے وادئ نیلم سے نین لڑائے رکھے ہیں۔
2015ء میں تاؤبٹ سے کیل کا پیدل سفر کیا۔ اس دوران مقامی لوگوں کی مدد کا یہ فائدہ ہوا کہ کئی چھوٹے بڑے گاؤں اور ندی نالوں اور سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہنے والی جھیلوں کا مفصل تعارف ہوا۔
وادئ نیلم میں آنے والے سیاح عام طور پر وادی کے دامن میں بہتے دریائے نیلم اور وادی میں دستیاب واحد سڑک کے ذریعے تاؤبٹ تک آکر اپنی سیاحت کا اختتام کردیتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہاں سے آگے قدرت کے وہ راز چھپے ہیں جنہیں ایک بار دیکھنے والا کبھی نہ بھول پائے۔
کیل اور تاؤبٹ کے درمیان تحصیل شاردا میں ‘پھلاوئی‘ نامی ایک خوبصورت گاؤں ہے، جو مظفرآباد سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ہے۔
’پھلاوئی‘ نام 2 لفظوں، یعنی پھول اور وئی کا مرکب ہے، جس کے معنی پھول اور پانی کے ہیں۔
وادی کے شمال میں شیشہ پہاڑ (شیشہ کور) اور جنوب میں سبزی مائل دریائے نیلم بہتا نظر آتا ہے۔ اس طرح پھلاوئی کے مغرب میں 3 کلومیٹر کے فاصلے پر جانوئی اور مشرق میں مرناٹ کا نہایت خوبصورت گاؤں واقع ہے۔
مشرق میں بہنے والے 2 بڑے نالے، گجرنالہ اور سروالا نالہ دریائے نیلم میں گر کر اس کی زینت بڑھاتے ہیں۔ گجرنالہ استور کے گاؤں گشاٹ جبکہ سروالا نالہ استور کے گاؤں امیر ملک تک جاتا ہے۔
پھلاوئی سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کے ارد گرد 12 ڈھوکیں (چھوٹے گاؤں) آباد ہیں، جبکہ یہاں کی 95 فیصد آبادی شینا زبان بولتی ہے۔ گاؤں کو آباد کرنے والے مچک (شین) قبیلے کے لوگ 18ویں صدی میں یہاں آکر آباد ہوئے تھے۔
یہ وادی جنگلات، معدنیات، نباتات اور آبی ذخائر اور جنگلی حیات سے مالا مال ہے۔ مقامی دوست خرم جمال شاہد کی کال پر مچک قبیلے کی دریافت شدہ 3 جھیلوں کا دیدار کرنے اگست میں پھلاوئی پہنچے۔
جب وہاں جانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس سے قبل ان جھیلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے مقامی لوگوں کے علاوہ کوئی وہاں نہیں گیا ہے۔ یہ جان کر وہاں جانے کی خوشی اور جوش دونوں ہی بڑھ گئے اور موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہلکی ہلکی بارش کی معیت میں پائن سیری سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور بالا سیری پہنچ گئے۔ مقامی دوستوں کے مطابق اس مرتبہ بارشیں اگست کے آخر تک جاری رہیں، یہی وجہ تھی کہ ابتداء سے ہی ہمیں ہائیکنگ میں مسائل کا سامنا رہا۔
کبھی ہلکی بارش تو کبھی ہلکی دھوپ، دونوں کی اس آنکھ مچولی نے سفر کا مزہ دوبالا کردیا تھا۔ سروالا نالہ کے ساتھ جاری رہنے والے اس سفر میں پہلے ’ٹھنڈا پانی‘ اور پھر ’بزراٹ‘ کے خوبصورت علاقے دیکھے، جس کے بعد کالابن کے گھنے جنگل ہمارے سامنے تھے۔ ایک مقامی دوست کے مطابق اس جنگل کا بیشتر حصہ کاٹا جاچکا ہے، حالانکہ ایک وقت تھا کہ جب یہ جنگل ریچھ اور چیتے جیسے کئی جانوروں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا اور مقامی آبادی بھی دن کے اجالے میں وہاں اکیلے جانے سے گریز کیا کرتی تھی۔ جنگل کی کٹائی سے جہاں علاقے کی خوبصورتی ماند پڑگئی ہے وہیں جنگلی حیات بھی کافی متاثر ہوئی ہے۔
ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد بڑا گوژبیک، بچے بیک اور پھر زرگر بیک پہنچے۔ ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں بنا یہ گھر کبھی ایک زرگر کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔ تھکاوٹ اور شدید بھوک کے باعث کچھ دیر کے لیے سستانے کے لیے رکے، پھر بھوک کو مٹانے کے لیے نوڈلز بنائے اور ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
زرگر کی ڈھوک کے گرد نالہ انتہائی چوڑا ہوکر چھوٹی سی جھیل بن جاتا ہے۔ یہاں موجود خوبصورت اور وسیع چراہ گاہ کا نظارہ دل کو موہ لیتا ہے۔ یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر عمودی چڑھائی شروع ہوجاتی ہے۔
جانگ والی اور پڑیاں بیک ایسے مقامات ہیں جہاں سے سخت چڑھائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سامان کے ساتھ یہ چڑھائی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ ابھی چڑھائی چڑھتے ہوئے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ شدید بارش برسنے لگی لہٰذا ایک مقامی چرواہے کی مدد سے ہم ایک غار میں کچھ دیر کے لیے رک گئے۔ لیکن سردی کی شدت کی وجہ سے تھکاوٹ کا زیادہ احساس ہونے لگا۔
جب بارش ہلکی ہوئی تو سفر کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا جو مسلسل سر والی بیک پہنچنے تک جاری رہا۔ سر والی بیک میں ہم نے مقامی طرزِ تعمیر کے مطابق بڑے پہاڑی پتھروں کی سلوں سے تیار کردہ ایک چھوٹی سی مسجد میں قیام کیا۔ مسجد کے سامنے ہی جھیل موجود ہے، اسی وجہ سے ہی اس مقام کو سر والی بیک پکارا جاتا ہے۔
یہاں کے نظارے ناقابلِ بیان ہیں۔ شاید ہی اتنا خوبصورت مقام اس سے پہلے کبھی میں نے دیکھا ہو۔ میرے نزدیک اس مقام کو جنت نظیر کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔
موسم کی شدت اور نہ تھمنے والی بارش کی وجہ سے ہم نے سروالی بیک پر ہی اپنی ٹریکنگ کا اختتام کردیا اور اگلے روز واپس پھلاوئی کی طرف نکل پڑے۔
پھلاوئی سے مچک جھیل تک تقریباً 15 کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق جھیل کی اونچائی 16 ہزار فٹ سے زائد ہے۔ مقامی آبادی کے مطابق جولائی کے وسط یا اگست کے آخر میں اس وادی کا نظارہ بالکل ہی مختلف ہوتا ہے، یہاں آنے کے خواہشمند سیاحوں کو تجویز دینا چاہوں گا اس مقام کی ٹریکنگ کے لیے موزون موسم کا ہی انتخاب کریں۔
یہاں کے خوبصورت اور دلکش نظاروں کی طرح یہاں کی مقامی آبادی کی مہمان نوازی بھی دل کو کافی بھاتی ہے۔ اپنے قدیم رسم و رواج، مہمان نوازی، بہادری اور سخت جان کی بدولت شینا قبیلے کے مہمان بن کر پھلاوئی کی وادی میں آنا ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ مہمان نوازی کا وصف مقامی آباد کا طرہ امتیاز ہے۔
لیکن یہاں سب کچھ اچھا نہیں، بلکہ ہمارے دوست کے مطابق مقامی آبادی کو کئی مسائل کا سامنا ہے، پھلاوئی میں فرسٹ ایڈ (فوری طبی امداد) فراہم کرنے کے لیے صرف ایک ہی پوسٹ ہے جو اردگرد کی 10 ہزار کی آبادی والے علاقے کے لیے ناکافی ہے۔
جس کی وجہ سے کسی حادثے یا ایمرجنسی کی صورت میں زخمیوں یا مریضوں کو مظفرآباد لے جانا پڑتا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ طویل سفر کرنے کی وجہ سے کئی مریض اور زخمی راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ لیکن بی ایچ یو سینٹرز یا بنیادی مرکز صحت کے قیام سے اس خوبصورت وادی کے مہمان نواز لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جاسکتی ہیں۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (33) بند ہیں