• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
شائع July 17, 2018
پاکستان مسلم لیگ (ق)

عملیت پسند سیاستدان

تجزیہ کار عدنان رسول کا تبصرہ

پاکستانی سیاست پڑھتے ہوئے اور اس کا حصہ رہتے ہوئے میں نے ایک بات جو مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے کئی سیاستدانوں سے سنی وہ یہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین ایک مجسم شخصیت ہیں اور ایک سیاستدان کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

وہ دھیما مزاج، بہترین قوتِ فیصلہ رکھنے والے ایک عملیت پسند شخص ہیں جو خفیہ طاقتوں کو کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔

مگر پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل ق) کو ایک سیاسی جماعت کہنا ناانصافی ہوگا کیوں کہ یہ اب گھر والوں اور دوستوں کا پلیٹ فارم ہے۔ مگر اس حالت میں بھی یہ جماعت ایک سے دو قومی اور چند صوبائی سیٹیں نکال سکتی ہے۔

گجرات اور پنجاب کے چند دیگر علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بچانے کے علاوہ ان کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ وہ سیٹیں کسی بھی اس جماعت کے لیے اہم ہوں گی جس نے اگلی حکومت بنانی ہے۔

ایسی صورتحال میں جب ہم ایک معلق پارلیمان کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جبکہ آخری منٹ پر کسی غیر معروف امیدوار کے آنے کا امکان ہے، تو چوہدری شجاعت جیسے لوگ ہی وہ پسِ پردہ ڈیل میکر ہیں جو غیر متناسب طاقت فراہم کرسکتے ہیں۔

اہم معاملات پر موقف

  • خودمختار کشمیر کے خیال کی حمایت کی جس کے تحت جموں، بھارت کو اور آزاد کشمیر، پاکستان کے حصے میں آجائے، جس سے وادی میں ایک آزاد ریاست قائم ہو۔
  • چوہدری شجاعت نے 2002 میں کہا کہ ’یہ تجویز کرنل معمر قذافی نے دی تھی، یہ تنازع کا بہترین حل ہے جس پر چین بھی تیار ہے۔‘
  • ماضی میں مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو اپنی قیادت میں متحد ہونے کی دعوت دی۔
  • 2002 میں مشرف کا ساتھ دینے والی (ق) لیگ نے 2008 میں پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحاد کیا اور حکومت کے خاتمے تک ساتھ رہے جبکہ 2018 سینیٹ انتخابات کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔
  • 2018 کی ابتداء میں جب بلوچستان میں عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو نئی بننے والی حکومت کے وزیرِ اعلی (ق) سے ہی منتخب ہوئے۔
  • کالا باغ کے حامی ہیں اور اپنے موقف کو بار بار دہراتے ہیں کہ یہ ڈیم پاکستان کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔
  • سیاسی رہنماؤں کے درمیان اختلاف رائے کے احترام کی ضرورت کی حمایت کی۔
  • ایک موقع پر انہوں نے لکھا کہ ’اداروں کو مضبوط بنانے اور بین الصوبائی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اختلاف رائے کا احترام ضروری ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنی سوچ تبدیل کرنی چاہیے اور انہیں معاف کرنا اور بھول کر آگے بڑھنا چاہیے۔
  • دعویٰ کیا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اور ان کے دوست طارق عزیز نے 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بنایا۔