ناروے کے قومی دن کی تقریبات اور اس میں چھپا خوبصورت رنگ
ناروے میں 17 مئی کو منعقد ہونے والی تقاریب اور جشن دیکھنا اپنے اندر ایک تجربہ ہے، یہ دن ناروے میں قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مجھے گزشتہ برس اس دن کی تقاریب قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، میرے بڑے بھائی ناروے کے ایک شہر سارپسبرگ میں ڈاکٹر ہیں، اس لیے میں نے اسی شہر میں ان تقاریب کو خود جاکر دیکھنا بہتر سمجھا، وگرنہ اوسلو یا بڑے شہروں میں ان تقاریب کا رنگ اور بھی خوبصورت ہوا کرتا ہے، اوسلو میں تو شاہی خاندان خود اس جشن کا حصہ بنتا ہے۔
میں اپنے بھتیجے عظیم اویس کے ساتھ اس تقریب میں شامل ہونے پہنچا۔ جس مقام پر یہ تقریب منعقد ہورہی تھی وہاں تک تو میں اپنے بھتیجے کے ساتھ ہی آیا لیکن وہاں آ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اگر میں اس کے ساتھ رہا تو ساری تقریب دیکھنے سے محروم رہوں گا، لہٰذا میں نے سڑک کا ایک کنارہ چنا اور وہاں کھڑا ہوگیا۔ شہر کے سبھی اسکول پریڈ کی صورت میں ایک مخصوص جگہ سے چلتے ہیں اور یہ جلوس ایک مخصوص راستے سے چلتا ہوا جلسہ گاہ پر آکر ختم ہوجاتا ہے، جہاں لوگوں کی تعریف و توصیف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس صبح ہلکی ہلکی رم جھم ہو رہی تھی، یعنی موسم اتنا اچھا نہیں تھا کہ آپ کسی جلوس کا حصہ بنیں لیکن یہاں پر لوگوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا، یوں کہنا چاہیے کہ شہر کا شہر گلیوں میں نکلا ہوا تھا۔ لوگوں نے اپنے روایتی لباس زیب تن کر رکھے تھے۔ ناروے کا روایتی لباس بہت دیدہ زیب ہے، کڑھائی والے بڑے بڑے گھاگھرے ہمارے پہاڑی علاقوں کے روایتی لباس سے ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں، ان گھاگھروں کے رنگ کا فرق علاقے کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔
پریڈ کا آغاز صبح 9 بجے ہوتا ہے، سب سے پہلے بینڈز کا ایک گروپ اس جلوس کا ہر اول دستہ بنتا ہے، اور پھر مختلف اسکولوں کے دستے اپنے اساتذہ کے ہمراہ اس جلوس کا حصہ بنتے ہیں، دوسری تیسری جماعت سے لے کر میٹرک تک کے طلباء اس پریڈ میں حصہ لیتے ہیں، اس کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں کے لوگ اور بینڈز بھی اس تقریب کو رونق بخشتے ہیں۔
مختلف دستوں کے مشاہدے سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس پریڈ میں پرفارم کرنے والا ہر دستہ 2 حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک گروپ پرفارم کرنے میں کافی مہارت رکھتا ہے جبکہ دوسرا گروپ زیرِ تربیت ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یوں انہوں نے اس تسلسل کو قائم رکھنے کی سعی کی ہے کہ ایک کلاس نکلے تو اگلے سال ان بچوں کی باری آجائے جو گزشتہ برس زیرِ تربیت تھے۔
ایک قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اسکولوں کے بچوں کے قد و قامت اور جثہ کافی خوبصورت ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کا عمومی قد زوال کا شکار ہے، اس کی بڑی وجہ شاید ناقص غذائیں ہیں۔ پچھلے دنوں ایک دوست سے ملا جن کے نومولود بچے کے دل میں سوراخ تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ مرض وطن عزیز میں عام ہوتا جا رہا ہے، نہ جانے ہم وطن کب سمجھیں گے کہ منافع اور دولت ہی سب کچھ نہیں ہوتا، قوم اور اس کی صحت بھی انتہائی اہم ہے۔ یہاں یورپ میں اسکولوں کے صحت مند بچے دیکھ کر دل کو خوشحالی اور سوشل اسٹیٹ کا تصور سمجھ میں آتا ہے۔
انہی بچوں کے والدین سڑک کنارے فخر سے سینہ تانے کھڑے نظر آئے۔ جب ان کے بچے اس پریڈ میں ان کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہ فرط جذبات سے نعرہ لگاتے ہیں، یہاں سارپسبرگ کی اس سڑک پر ایک بہت جذباتی سا ماحول دیکھنے کو ملا، اگرچہ موسم سہانہ نہیں تھا مگر لوگوں کی بھیڑ بدستور بڑھتی جا رہی تھی۔
پریڈ میں شریک لوگوں کا جس قدر جوش و خروش دیدنی تھا اس سے کہیں زیادہ تماشائیوں کا ولولہ دیکھنے لائق تھا۔ میرے ساتھ ہی کھڑے والدین کی بچی چھڑی گھمانے والے گروپ کی لیڈر تھی۔ اس کا دستہ جب آگے گزر گیا تو کچھ دیر بعد وہ واپس آگئی، دراصل اس کے جوتے کا تلوا اکھڑ چکا تھا اور وہ مزید اس گروپ کے ساتھ نہیں چل سکتی تھی، اس کا ایک پاؤں ننگا تھا، اور اس کے ٹخنے کے اوپری جگہ پر گہرا سرخی مائل نشان پڑچکا تھا جیسے اس نے ٹوٹے ہوئے جوتے کے ساتھ پاؤں گھسیٹنے کی کافی کوشش کی ہو۔ وہ اس انہونی پر کافی مایوس نظر آرہی تھی اور اس کے والدین اسے تسلّی دے رہے تھے کہ اس نے جو کیا وہ بہت خوب تھا۔
میرے سامنے تقریباً ایک گھنٹہ اسی طرح مختلف اسکولوں اور اداروں کے دستے گزرتے رہے اور وہاں موجود لوگ یونہی محظوظ ہوتے رہے۔ اس کے بعد لوگ اس مرکز کی طرف بڑھنے لگے جہاں اس پریڈ کو اختتام پذیر ہونا تھا، وہاں ایک چھوٹا سا اسٹیڈیم تھا جہاں ایک روایتی اسٹیج پر ایک روسٹرم رکھا ہوا تھا۔
وہاں ملی ترانے لوگوں میں اور بھی جوش و خروش پیدا کر رہے تھے۔ اسٹیج کے سامنے اہلیان شہر موجود تھے۔ جب کوئی دستہ اس اختتامی جگہ پر پہنچتا تو اسٹیج سے اس کا تعارف کروایا جاتا کہ یہ دستہ فلاں اسکول یا ادارے کا ہے، یوں تالیوں کی گونج میں دستے کا اختتام ہوتا۔
اس کے بعد ہر اسکول کی طرف سے اپنے طلباء کے لیے چاکلیٹ اور مختلف تحائف تقسیم کرنے کا بندوبست کیا گیا تھا، صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کے لیے مفت جھولوں کا انتظام بھی تھا۔
وہاں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے روایتی ملبوسات کے فیشن شو کا انعقاد کیا گیا ہو۔ یہ ناروے کا ایک الگ رنگ تھا جو اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا۔
روایتی لباس کے لڑی میں جڑے یہ لوگ بڑے دیسی دیسی سے محسوس ہوئے۔ وہاں کچھ لوگوں سے بات کرنے کا موقع بھی ملا اور کئی ایک سے تصویر کی درخواست کی جو انہوں نے مان بھی لی۔ مجھے مختلف رنگ کے ملبوسات کا تجسّس ہوا تبھی کسی نے بتایا کہ مختلف رنگ کے لباس مختلف علاقوں کے کلچر کی غمازی کرتے ہیں۔
ہمارے شہر میں بھی ایم سی ہائی اسکول میں یومِ آزادی کی تقریب منعقد ہوا کرتی تھی۔ اسکولوں کے طلباء پریڈ میں حصہ لیتے، یومِ آزادی کے حوالے سے ایک ڈرامہ پیش کیا جاتا اور بہترین کارکردگی پر طلباء اور دیگر میں انعامات تقسیم کیے جاتے، مگر شہر میں ہونے والی تقریب میں شہر کا شہر شامل نہیں ہوتا۔ لیکن ناروے میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں یہی خاص بات تھی کہ یہاں اسکولوں کے ساتھ پورے کا پورا شہر ہی باہر نکل آیا تھا۔ جن کے بچے پریڈ میں حصہ لینے آئے تھے ان کے والدین تو سڑک پر ساتھ ہی کھڑے تھے، مگر عام لوگ بھی اپنے محلوں اور گلیوں سے نکل کر اس پریڈ کو دیکھنے آئے تھے۔ وہاں روایتی لباس کے علاوہ ان کے قومی پرچموں کی بھی بہار تھی۔
اگر کبھی آپ کا ناروے جانے کا اتفاق ہو اور دنوں کا انتخاب کرنا ہو تو 17 مئی کو ضرور شامل کیجیے گا، وگرنہ ناروے کی شناخت کا چہرہ ادھورا رہ جائے گا، کیونکہ لوگ اپنی ثقافت سے محبت کی بناء پر ہی پہچانے جاتے ہیں۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (9) بند ہیں